نفسیاتی مریض خود کو مریض نہیں سمجھتے‘ اس لیے علاج بھی نہیں کراتے

چھوٹے چھوٹے مسئلے ہماری بے پروائی، غفلت اور کم علمی کی وجہ سے پے چےدہ ہو جاتے ہیں۔
اس مےں شک نہیں کہ ہمارے معاشرے مےں نت نئی اقسام کی بےمارےاں گھر گھر جنم لے رہی ہےں اور تقرےباً ہر گھرانہ صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ اس کی بنےادی وجوہات مےں ےقےنا معاشی مسائل‘ ماحولےاتی آلودگی(ناقص آب ہوا اور غذا وغےرہ) شامل ہےں۔ اس کے بعد ایک اہم وجہ عام لوگوں کا طب و صحت کے بارے مےں ناقص علم ہے جس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے مسائل بے احتےاطی اور عدم واقفےت کے سبب بالآخر مہلک امراض کی صورت اختےار کر لےتے ہیں۔
ہمارے گھرانوں مےں لوگ ٹی وی اخبارات اور رسائل کے ذرےعے تفرےحی پروگرام اور اپنی پسند کی دلچسپ خبرےں اور مضامےن سے تولطف اندوز ہوتے ہےں مگر ایسے پروگراموں ےا مضامےن پر کوئی توجہ نہےں دےتے جن سے ان کی صحت و طب کے بارے مےں معلومات بڑھے۔ گاﺅں دےہات وغےرہ کا تو ذکر ہی کےا، بڑے بڑے شہروں کا بھی ےہ حال ہے کہ لوگ نزلہ‘ زکام ‘ بخار نظام ہضم کی خرابےاں اور بھی ایسی ہی بہت سی روز مرہ کی شکاےات کے بارے مےں تفصےل سے کچھ نہیں جانتے۔ ایک انتہائی نقصان دہ رجحان ےہ بھی ہے کہ چھوٹی موٹی تکالےف کو نظر انداز کرتے رہنا اور فوری طور پر ان کے علاج پر توجہ نہ دےناہے، عموماً جب معاملہ حد سے گزر جاتا ہے اور انہیں علاج معالجے کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے تو ان کے ذہن مےں پہلا خےال کسی اسپتال کے ایمرجنسی کے شعبے مےں جانے کا ہی آتا ہے اور وہاں فوری نوعےت کی طبی امداد فراہم کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد معقولےت کے ساتھ مستقل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

معاشی مجبوریاں

اب دو طرح کے روےے سامنے آتے ہیں‘کچھ لوگ تو اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے ےا معاشی مصروفےات کی وجہ سے مستقل طور پر علاج معالجے کے متحمل ہی نہیں ہوپاتے اور بھاری اخراجات سے بچنے کے لےے ٹونے‘ ٹوٹکے اور نےم حکےوں پر انحصار کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ مرض کے خلاف موثر جنگ لڑ رہے ہےں ےا پھر بعض گھرانے دعا تعوےز کا سہارا لے کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ وہ مرض کے خلاف اللہ سے مدد لے رہے ہیں لےکن وہ لوگ جو اےمر جنسی کے مرحلے سے گزرنے کے بعد کسی بہترےن ایلو پیتھک معالج سے رجوع کرتے ہیں تو انہےں سب سے پہلے ٹےسٹوں کے اےک مہنگے ترےن سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے اور اس طرح علاج شروع ہونے سے پہلے ہی ان کی جےب خالی ہو چکی ہوتی ہے پھر اےلو پےتھک علاج فی زمانہ جس قدر مہنگا ہو چکا ہے ، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لہذا مرےض کے لواحقےن زےادہ عرصے تک اس خرچ کو برداشت نہیں کر پاتے اور اکثر بہت زےادہ پے چےدہ معاملات مےں تو بالآخر بڑے بڑے صاحب حےثےت بھی حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔

دیگر طریق علاج

جہاں تک طب و حکمت کے قدیم طریق علاج کا تعلق ہے تو اب یہ پیشہ بھی بہت زیادہ کمرشلائز ہوگیا ہے‘ حکمت کے نام پر عطائی حکیموں کی بھرمار ہے‘ ہر شخص دو چار نسخوں کی کتابیں پڑھ کر حکمت کے پیشے میں چھلانگ لگا دیتا ہے ‘ باقی جو طب یونانی کے مشہور ادارے ہیں‘ پاکستان میں ان کے معیار پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں ‘ہومیوپیتھک طریق علاج کے ساتھ جو ہاتھ کیا جا رہا ہے ‘ اس کے بار ے میں ہم کچھ عرصہ پہلے لکھ چکے ہیں‘ درست کلاسیکل ہومیوپیتھی ختم ہوتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ کمپاﺅنڈ پر زور دیا جا رہا ہے جو ایسٹریورائیڈز کی ہی ایک شکل ہے اور اس میں بھی کارٹی زون کا شبہ پایا جاتا ہے۔
قصہ مختصر ےہ کہ ساری پرےشانی در حقیقت مرےض کی بے پروائی ‘ کم علمی اور ناواقفےت کے سبب پےدا ہوتی ہے کیوں کہ وہ اپنی بیماری کو بھی نہیں سمجھتا اور درست طریق علاج یا ڈاکٹر کے انتخاب میں بھی دھوکا کھاتا ہے۔

سحر جادوآسیب

ہمارا واسطہ آئے روز ایسے لوگوں سے پڑتا رہتا ہے جو علاج معالجے سے متعلق صحیح حقائق بھی نہیں جانتے اور اپنے مسائل کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے، خاص طور پر خواتین اس حوالے سے زیادہ نمایاں ہیں، شاید اس کی وجہ وہ گھٹا ہوا اور شدید پابندیوں میں جکڑا ہوا ماحول ہے جس میں لڑکیوں کی پرورش ہورہی ہے، انہیں دینی اور دنیاوی تعلیم بڑی محدود فضا میں دی جاتی ہے ، ضروری نصاب کے علاوہ دوسری کوئی کتاب پڑھنے کی شاید اجازت ہی نہیں دی جاتی، اس کے نتیجے میں شادی کے بعد اور بچوں کی پرورش کے دوران میں وہ اس قابل ہی نہیں ہوتیں کہ اپنے مسائل کو کھلے دل و دماغ کے ساتھ سمجھ سکیں، نتیجے کے طور پر چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی نوعیت کے مسائل پر بھی اُن کا ذہن صرف ایک ہی طرف جاتا ہے،سحر، جادو یا آسیب۔
جب بھی گھریلو فضا میں کوئی ناخوش گوار صورت حال پیدا ہوتی ہے یا نامعقول علاج معالجے کی وجہ سے کوئی بیماری مسئلہ بنتی ہے تو وہ صرف ایک ہی بات سوچتی ہیں ”کسی نے کچھ کرادیا ہے“
اور پھر مسجد کے مولانا صاحب سے لے کر اپنے یا کسی دوسری جاننے والی کے پیر صاحب یا نام نہاد عاملوں تک ان کی بھاگ دوڑ شروع ہوجاتی ہے، ہم ایسے فون، ای میلز اور ایس ایم ایس اکثر سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں جس میں اپنا مسئلہ بیان کرنے کے بعد کسی وظیفے کی درخواست کی جاتی ہے،اکثر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس مسئلے یا بیماری کو ختم کرنے کے لیے پہلے بھی بے شمار وظائف پڑھے جاچکے ہیں، اب کوئی زبردست قسم کا بہت اچھا سا اور آسان وظیفہ تجویز کیا جائے‘پہلی بات تو یہ کہ خود سے یہ طے کرلینا کہ کسی نے کچھ کرادیا ہے یا کسی وجہ سے آسیبی اثرات ہو گئے ہیں ‘ ایک نامعقول رویہ ہے‘ اس کا جواب عام طور پر یہی دیا جاتا ہے کہ ہم جہاں بھی گئے یا جس سے بھی معلوم کیا ‘ وہ یہی بتاتا ہے کہ آپ پر بد اثرات ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

عام رویہ

حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لیے یا کسی بیماری کے دُرست علاج کے لیے مکمل معلومات اور تشخیص ضروری ہوتی ہے،اس کے بغیر نہ کوئی علاج ممکن ہے اور نہ کسی مسئلے کا حل لیکن کیا کیا جائے کہ اکثر لوگ ایسی باتوں کے عادی ہوچکے ہیں، ہمیں اُس وقت شدید کوفت ہوتی ہے جب اس قسم کے ایس ایم ایس ملتے ہیں اور ہم جواباً انہیں کال کرنے کے لیے کہتے ہیں تو جواب یہ ملتا ہے کہ فون پر بات کرنا ممکن نہیں ہے، آپ جواب ایس ایم ایس کردیں۔
ایسے پیچیدہ اور مشکل مسائل کا حل یا علاج ایس ایم ایس کے ذریعے پیش کرنا اول تو ہمارے لیے اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم ایس ایم ایس ٹائپنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے، مختصر دو چار لفظوں کا جواب ٹائپ کرلیتے ہیں ، دوسری بات یہ کہ اتنی فرصت کہاں سے لائیں کہ دن بھر بیٹھے لمبے چوڑے تفصیلی ایس ایم ایس یا ای میلز کرتے رہیں۔
اگر جواب نہ دیا جائے تو لوگ ناراض ہوتے ہیں اور عجیب عجیب احمقانہ اعتراضات کرتے ہیں کہ معمولی سے ایک سوال کا جواب دینے میں آپ کو اتنے نخرے ہیں ، اپنے علم پر بڑا غرور ہے وغیرہ وغیرہ۔
ایک خاتون نے فون پر رابطہ کیا اور ایک وظیفہ پوچھا ، معاملہ چوں کہ بہت سیدھا سادا تھا،شوہر کی بد مزاجی اور غصہ کرنے کی عادت کے بارے میں ، ہم نے ایک مختصر سا وظیفہ بتایا تو موصوفہ نے جواباً پوچھا کہ وہ پہلے سے جو وظائف پڑھ رہی ہیں ، کیا وہ بھی جاری رکھ سکتی ہیں؟ ہم نے حیرت سے پوچھا کہ جب آپ پہلے ہی کوئی ایک یا ایک سے زیادہ وظائف پڑھ رہی ہیں تو پھر مزید کوئی نیا وظیفہ شروع کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
جواب ملا کہ پہلے وظائف سے اب تک کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا،اس لیے آپ کو فون کیا تھا؟ ہم نے کہا کہ جو وظائف آپ پڑھ رہی ہیں ، ظاہر ہے کہ ابھی مکمل نہیں ہوئے تو آپ قبل از وقت نتائج کی توقع کیوں رکھتی ہیں پھر انہیں سمجھایا کہ یہ طریق کار غلط ہے، ایک وقت میں ایک ہی وظیفہ پڑھنا چاہیے کیوں کہ وہ بھی اللہ کا کلام ہے اور اللہ ایک ہی ہے،ایسا ہر گز نہیں ہے کہ وہ اپنے ایک کلام کے ذریعے سنتا ہے اور دوسرے کلام کے ذریعے نہیں سنتا‘ ممکن ہے آپ کا مسئلہ اس قابل ہی نہ ہو کہ اللہ اس پر توجہ دے لہٰذا بہتر ہوگا کہ اپنے مسئلے پر نظر ثانی کریں اور غور کریں کہ کہیں آپ اپنی کسی خواہش کے زیر اثر غلطی پر تو نہیں ہیں؟
عزیزان من! ہمارے مشاہدات اور تجربات بہت دلچسپ بھی ہیں اور افسوسناک بھی،تلخ بھی اور عبرت اثر بھی ،کبھی کبھی یہ ساری باتیں اپنے قارئین سے اس لیے شیئر کرلیتے ہیں کہ ممکن ہے انہیں پڑھ کر کچھ لوگ کوئی سبق حاصل کرسکیں شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات۔

نفسیاتی امراض کی نمود

انسانی نفسیات ایک انتہائی دلچسپ‘سبق آموز اور مفید ترین موضو ع ہے‘ وہ لوگ جو اس پر توجہ نہیں دیتے‘سمجھ لیجیے کہ دنیا سے ہی نہیں، اپنے آپ سے بھی بے خبر ہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں نفسیاتی امراض کی شرح بہت تیزی سے بڑ ھ رہی ہے اور اکثر خاندانوں کے بیشتر مسائل کی بنیاد ہی نفسیاتی امراض ہیں ۔
ایک دلچسپ اور افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ نفسیاتی مریضوں کی اکثریت خود کو نفسیاتی مریض نہیں سمجھتی‘ نفسیاتی امراض کی بے شمار صورتیں معاشرے میں ظاہر ہوتی ہیں‘ان میں سے چند اقسام جب شدت کے ساتھ نمایاں ہوتی ہیں تب دیکھنے والے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مریض کی خطرناک حالت کے پیش نظر اس کے علاج معالجے پر دھیان دیتے ہیں لیکن اگر مریض خطرناک حد تک کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہوتو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
ہمارے نزدیک نفسیا تی بیماریوں کی ایک قسم وہ ہے جو بظاہر نفسیاتی امراض میں شمار ہی نہیں ہوتی یایوں کہہ لیں کہ عام لوگ ایسے نفسیاتی مریضوں پر توجہ نہیں دیتے ‘یہ وہ مریض ہیں جو اپنی کسی نفسیاتی بیماری کے سبب دوسروں کو بھی نفسیاتی مریض بنارہے ہیں مثلاً ایک باپ ‘ شوہر ‘ساس ‘سسر ‘بیٹا‘ بیٹی یا خاندان کا کوئی بھی فرد اپنی ایب نارمل حرکات اور باتوں سے پورے خاندان کو پریشان کرکے رکھ دیتاہے اور اس کے نتیجے میں اس کے قریب رہنے والے غیر معمولی طور پر حساس افراد رفتہ رفتہ خود بھی نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔
اس تما م گفتگو کی روشنی میں آئیے ایک طویل خط کے کچھ اقتباسات کا مطالعہ کریں ۔ممکن ہے ایسے کر دار آپ کی نظر میں بھی ہوں یا ایسی کسی صورت حال سے آپ بھی دوچارہوں ۔
ایم ایف‘ نامعلوم جگہ سے لکھتی ہیں”میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے اندر خود اعتمادی کی نہایت کمی ہے ‘میں جوبات بھی کرنا چاہتی ہوں تو وہ بات میرے دماغ سے نکل جاتی ہے اور الٹے سیدھے جملے منہ سے نکلنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے میں نے سب سے بات کرنا چھوڑ دی ہے کیوں کہ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں‘اگر میں کسی سے بات کرنا بھی چاہوں تو لوگ میری بات غور سے نہیں سنتے‘ مجھے بالکل نظر انداز کردیتے ہیں ‘میں گھر میں یا گھر سے باہر خاموش رہتی ہوں جس کی وجہ سے میرا کوئی دوست نہیں ہے۔میں چاہتی ہوں کہ لوگوں سے ملوں جلوں مگر میں اس ڈر سے کسی سے بات نہیں کرتی کہ کہیں میں کوئی الٹی سیدھی بات نہ کردوں ۔یہ حالت میری بچپن سے ہی ہے کیونکہ بچپن میں میرے گھر والے اور رشتے دار میری ہر بات کا مذاق اڑاتے تھے حالانکہ میری عمر کی لڑکیاں بہت سمجھ داری کی باتیں کرتی ہیں لیکن مجھے یہ لگتا ہے کہ میں سمجھداری کی باتیں نہیں کرسکتی حالانکہ میں ایم اے کی طالبہ ہوں ۔اس مسئلے کی وجہ سے میں بہت غمگین رہتی ہوں ۔میرا پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا حالانکہ میں چاہتی ہوں کہ خوب دل لگا کر پڑھائی کروں مگر یہ خوف رہتاہے کہ میں جو یاد کروں گی وہ کہیں بھول نہ جاﺅں۔
”دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے غصہ بہت آتا ہے ۔غصہ اتنا شدید ہوتاہے کہ اس میں میری حالت بہت عجیب ہوجاتی ہے ۔دماغ میں درد شروع ہوجاتا ہے‘ اپنے آپ کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے‘ دل چاہتا ہے کہ خودکشی کرلوں‘ غصہ مجھے اس وقت شدید آتا ہے کہ جب میرے والد مجھے بلاوجہ ڈانٹتے ہیں‘ میرے والد مجھے ہر وقت ڈانٹتے رہتے ہیں اور بہت گندی زبان استعمال کرتے ہیں جو میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔میں چاہتی ہوں کہ میرے اندر قوت برداشت پیدا ہوجائے ۔مجھ سے ان کی باتیں برداشت نہیں ہوتیں‘میرے والد ین ہر وقت آپس میںلڑ تے رہتے ہیں ان کی لڑائی شروع سے ہی ہے‘ان کے آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے میری ذہنی حالت بہت ابتر ہوگئی ہے‘اس تما م صورت حال نے مجھے بیماریوں کا شکار بنادیا ہے‘معدے میں تیزابیت رہتی ہے‘ناشتے کے بعد متلی محسوس ہوتی ہے‘ماہانہ نظام درست نہیں ہے‘ ویٹ بھی بڑھ گیا ہے۔ دوسرامسئلہ میری شادی کا بھی ہے ۔اول تو کوئی رشتہ آتا نہیں ۔اگر آتا ہے تو مجھے ناپسند کرکے چلا جاتا ہے حالانکہ شکل صورت مناسب ہے ۔میں چاہتی ہوں کہ میرے اندر سکون پیدا ہوجائے او رمایوسی کی کیفیت سے نجات مل جائے“
جواب:عزیزم !ہم نے کوشش کی ہے کہ آپ کے خط کی اشاعت سے آپ کا نام پتا ظاہر نہ ہو ‘پھر بھی اگر ہماری جسارت ناگوار گزرے تو یہ سوچ کر ہمیں معاف کردینا کہ شاید اس طرح نہ معلوم تمہاری جیسی کتنی لڑکیوں کا بھلا ہوگا‘ ممکن ہے کچھ والدین اس خط کو پڑھ کر اپنی اصلاح پر توجہ دیں اور ان مسائل کو سمجھ سکیں جوا ن کے گھر وں میں خفیہ طور پر پرورش پارہے ہیں‘انہیں اندازہ نہیں ہے کہ وہ اپنی جہالت سے اپنے نفسیاتی امراض اپنے بچوں میں منتقل کررہے ہیں‘خصوصاً یہ صورت حال لڑکیوں کے لیے نہایت اذیت ناک ہوتی ہے‘ لڑکے پھر بھی احتجاج کاکوئی طریقہ نکال لیتے ہیں حالانکہ وہ طریقہ بھی منفی ہی ہوتا ہے اور اس کے اثرات ان کی صحت اور مستقبل پر اچھے نہیں ہوتے لیکن لڑکیاں ایسے ماحول میں نہ صرف یہ کہ جسمانی اورنفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو کر ایک صحت مند اور خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتی ہیں بلکہ ان کے لیے معقول رشتے ملنا بھی مشکل ہوتاہے جس گھر میں ماں باپ باہمی خانہ جنگی میں مصروف ہوں اس میں لڑکیوں کی شادی کے لیے ابتدا ہی سے کسی معقول منصوبہ بندی کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بہر حال ان ساری وجوہات سے قطع نظر تمہیں اپنے علاج و معالجے پر توجہ دینی چاہیے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اپنے ذہن سے گھریلوصورت حال کو جھٹکنے کی کوشش کرو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ خود کو زیاد ہ سے زیادہ مصروف رکھو ۔ کوشش کیا کرو کہ والد صاحب کا سامنا کم سے کم ہو ۔
خالی وقت میں جب تنہائی میسر ہو تو فری رائٹنگ کی مشق کیا کرو‘ فری رائٹنگ آزاد نگاری کو کہتے ہیں یعنی آپ کے ذہن میں جو لاوا ابل رہا ہے اسے کاغذپر اُنڈیلنا شروع کردو جو باتیں دل و دماغ میں طوفان برپا کیے ہوئے ہیں یا سوچیں اورخیالات تمہیں جلنے کڑھنے اور خون کھولانے پر مجبور کررہے ہیںان کا اظہار بذریعہ تحریر بالکل کھلے انداز میں کرو، یاد رکھو آزارنگاری میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ فلاں بات لکھنا نا مناسب ہوگا بلکہ اس بات کا اظہار کرنا بہت ضروری ہے جسے بیان کرتے ہوئے آپ خوفزدہ ہیں ۔
جب لکھتے لکھتے تھک جاﺅ اور ذہن خالی ہوجائے تو تما م کاغذات کوجلادو ۔تم دیکھو گی کہ اس عمل کے بعد تم ذہنی طور پر خود کو پر سکون محسوس کررہی ہو ۔یہ مشق تواتر اور پابندی کے ساتھ جاری رکھو اور ا س کے ساتھ ساتھ سانس کی کوئی مشق بھی شروع کردو ۔
ایک ہومیو پیتھک دوا ”اسٹیفی سیگیریا ۔200“بازار سے خرید کر اپنے پاس رکھ لو جب شدید غصہ آئے تو ایک خوراک یعنی دوتین قطرے زبان پر ڈال لیا کرو ۔عام حالات میں بھی اس دوائی کی ایک خوراک ایک ہفتے میں ایک مرتبہ لے لیا کرو۔ باقی دیگر جسمانی بیماریوں کا تعلق چونکہ غصے اور ڈپریشن کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا جب ذہنی کیفیت بہتر ہونا شروع ہوگی تو دیگر جسمانی بیماریاں خود بخود ختم ہونے لگیں گی۔ تیزابیت کے خاتمے کے لیے طب یونانی کا مشہور نسخہ ”جوارش انارین “اور ”جوارش کمونی “ کسی بھی مشہور ومستنددواخانے کی لے کر استعما ل کریں تاکہ ہاضمہ درست رہے ورنہ یہی تیزابیت آگے بڑھ کر السر یا جگرکی کسی پیچیدہ بیماری کا روپ دھارسکتی ہے ۔
اپنے زائچے کی روشنی میں تم نے اپنی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں پوچھا ہے تو واضع رہے کہ تمہارا شمسی برج ”سرطان “ہونے کی وجہ سے تم غیر معمولی طور پرنہ صرف حسا س ہو بلکہ گھر اور اپنے خاندان سے خصوصی وابستگی رکھتی ہو اور یہی وہ چیز ہے جو تمہیں زیادہ بے چین رکھتی ہے کیونکہ تمہیں اپنے خاندان میں جو ابتری ‘بد نظمی ‘ماں باپ کے درمیان عدم موافقت بچپن سے نظر آرہی ہے وہ تمہارا سب سے بڑا روحانی کرب ہے بہر حال تمہارا قمری برج ثور اور طالع پیدائش بھی برج ثور ہے۔ یہ تمہارے لیے غیر معمولی ذہانت ‘ہمت وحوصلے کی دلیل ہے ۔فی الحال چونکہ تم ایک خراب دور سے گزر رہی ہو لہٰذا موجودہ مسائل زیادہ شدت سے محسوس ہورہے ہیں ۔شادی میں رکاوٹ بھی اسی وجہ سے ہے لیکن اس سال کے آخری 6ماہ انشاءاﷲ تمہاری منگنی یا شادی کاراستہ ہموار کردیںگے‘ تمہارا شوہر شریف اور معقول انسان ہوگا ۔مذہبی سوچ رکھتا ہوگا ۔امکان ہے کہ وہ قانون ‘ایجوکیشن یاکسی بزنس کے شعبے سے تعلق رکھتا ہوگا ۔اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ پریشان نہ ہو ۔مستقبل اچھا ہے اپنے حال کودرست کرنے کی کوشش کرو ‘کیونکہ مستقبل کا راستہ ایک صحت مند اور مضبوط حال سے ہی ہو کر گزرتاہے۔