ڈاکٹر جیمز ٹائیلر کینٹ ایم۔ڈی

ڈاکٹر کینٹ 31 مارچ 1842 کو نیویارک میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے میڈیسن یونیورسٹی آف وسکونسن (ہملٹن امریکا ) سے گریجویشن کیا اور یہیں سے Ph.d کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر کینٹ ہومیو پیتھیکی طرف کیسے راغب ہوئے، یہ بھی دلچسپ واقعہ ہے۔
قدرت جب کسی سے کوئی اہم کام لینا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسباب بھی پیدا کردیتی ہے۔ ڈاکٹر کینٹ اپنی اہلیہ کو دل و جان سے چاہتے تھے، اچانک اس کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے حلقے کے کئی ڈاکٹروں سے مشاورت کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ خون کی انتہائی کمی ہوگئی۔ بہت لاغر ہوگئی اور مستقل نیند نہ آنے کی وجہ سے وہ صاحب فراش ہوگئی۔
جب ایلوپیتھک ڈاکٹروں کے علاج معالجے سے کوئی افاقہ نہ ہوا، تو آخر تھک ہار کر اہلیہ نے کہا کہ کسی ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو بلاکر مجھے دکھا دو۔ انھوں نے اپنے تئیں سوچا کہ میں اتنے ماہر اور مستند ڈاکٹروں کو دکھا چکا ہوں، یہ بالکل احمقانہ بات ہے کہ میں کسی ہومیوپیتھ سے رجوع کروں لیکن جب اہلیہ نے بڑی لجاجت سے کہا کہ ایک آخری کوشش کرکے دیکھ لو، ممکن ہے صحت یابی ہوجائے۔ چنانچہ ڈاکٹر کینٹ نے اپنی اہلیہ کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہومیوپیتھ Dr. Phelom سے رابطہ کیا اور ان کو اہلیہ کی تمام کیفیات سے آگاہ کیا۔ وہ اپنے کوٹ میں ملبوس اپنی چار پہیوں والی کھلی گاڑی میں سوار ہوکر دوپہر کے وقت مریضہ کو دیکھنے تشریف لائے۔ انھوں نے مریضہ سے ایک گھنٹے تک مختلف سوالات کیے، مثلاً ماضی میں کیا کیا بیماریاں لاحق ہوئی تھیں، کوئی حادثہ ہوا، دماغی کیفیت کے بارے میں بھی سوالات کرتے رہے۔ خوف کس قسم کا ہے، کھانے میں کن چیزوں سے رغبت زیادہ ہے، سردی اور گرمی سے کیا ردعمل ہوتا ہے، آب و ہوا اور موسم کے جسم پر کیا اثرات پڑتے ہیں؟ غرض مریضہ کی ایک ایک علامت کو نوٹ کرتے رہے۔ آخر میں ہاضمے کے متعلق سوال کیا۔ مریضہ نے کہا مجھے ہاضمے کی کوئی خرابی نہیں ہے۔
ڈاکٹر کینٹ کو عجیب لگا کہ یہ کس قسم کے بے تکے سوالات کر رہا ہے جن سے بیماری کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس اثنا میں وہ مریضہ کے بستر کے ایک طرف جھکے اور پھر اپنی مسکراہٹ پر قابو نہ پاسکے، کیونکہ وہ مریضہ کے معائنے اور تشخیص کے بعد دوا کا انتخاب کرچکے تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر کینٹ سے ایک گلاس پانی منگوایا اور چند قطرے دوا کے گولیوں پر ٹپکا کر وہ گولیاں گلاس میں ڈال دیں ، مریضہ کو اس میں سے ایک چمچ پانی پلادیا اور ڈاکٹر کینٹ کو تاکید کی کہ ہر دو گھنٹے بعد اس میں سے پانی پلاتے رہنا۔ دوا کا ایک چمچہ حلق سے اترتے ہی مریضہ کو نیند آگئی جب کہ کئی ہفتوں سے مریضہ کی آنکھ بھی نہیں جھپکی تھی۔
ڈاکٹر کینٹ نے سوچا یا تو یہ کوئی عطائی ہے یا کوئی شعبدہ دکھا رہا ہے اور اس نے تلخ لہجے میں ڈاکٹر فیلن کو باہر جانے کا راستہ دکھایا۔
ڈاکٹر کینٹ اپنے مطالعے کے کمرے میں چلے گئے، جو مریضہ کے کمرے سے بالکل منسلک تھا اور اپنے لیکچر تیار کرنے میں مصروف ہوگئے۔ دو گھنٹے بعد مریضہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک چمچ دوا پلادی پھر اپنے مطالعے میں مصروف ہوگئے اور تیسری خوراک پلانا بھول گئے۔ چار گھنٹے بعد جب کمرے میں آئے تو دیکھا وہ گہری نیند سو رہی ہے، ادھر ڈاکٹر فیلن بھی وقتاً فوقتاً مریضہ کی خیریت معلوم کرتے رہے۔ غرض چند ہفتوں میں اہلیہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگئیں۔ ڈاکٹر فیلن نے بڑی توجہ اور اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر مریضہ کو بغیر کوئی اذیت دیے صحت یاب کیا تھا، جس سے ڈاکٹر کینٹ بہت متاثر تھے اور پہلی ملاقات میں جو ان کے ذہن میں اس منکسرالمزاج ڈاکٹر کے بارے میں شکوک و شبہات تھے وہ محو ہوگئے تھے ، انہوں نے ڈاکٹر فیلن سے معافی مانگی اور ان سے درخواست کی کہ انھیں ہومیوپیتھی سکھائیں، چناں چہ انہوں نے ڈاکٹر فیلن کے زیر سرپرستی ڈاکٹر ہنی مینکے آرگینن کا مطالعہ کیا اور ہومیو پیتھی کے دیوانے ہوگئے، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سخت سردیوں کی راتوں میں اپنے آپ کو اوور کوٹ میں ملفوف کرکے امریکا میں جتنا ہومیوپیتھی پر لٹریچر شایع ہوا تھا سب پڑھ ڈالا اور انھوں نے نیشنل میڈیکل ایسوسی ایشن سے استعفیٰ دے دیا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں سے ڈاکٹر کینٹ نے ہومیوپیتھی کی طرف رخ کیا۔ ڈاکٹر کینٹ نے فلاسفی،مٹیریا میڈیکا اور ریپرٹری پر بڑی محنت کی۔ یوں ان کی شہرت کا یہ حال تھا کہ ہر کالج سے ان کو لیکچر دینے کی پیشکش کی جاتی۔
1900 میں دنہم ہومیوپیتھک کالج شکاگو میں Dean کی حیثیت سے ملازم ہوگئے اور اسی سال وہ اس کالج میں پروفیسر ہوگئے،پہلے سال سے فائنل تک کے طلبا کو فلاسفی،ریپرٹری اورمٹیریا میڈیکا پر لیکچر دیتے رہے۔
ڈاکٹر کینٹ نے طلبا کو ہومیوپیتھی سکھانے میں بہت زیادہ محنت کی، دوسری طرف مریضوں کو بھی دیکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ہومیوپیتھی پر کتب تحریر کرنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ مسلسل اتنا مصروف رہنے سے ان کی صحت جواب دے گئی تھی اور پھیپھڑوں میں تکلیف بھی کچھ دنوں سے چل رہی تھی۔ ان کے اسٹوڈنٹس نے مشورہ دیا کہ کچھ عرصے کے لیے وہ آرام کرلیں۔ چنانچہ وہ پریکٹس اور پڑھائی کو چھوڑ کر آرام کرنے کی غرض سے اپنے گھر روانہ ہوگئے۔ پھیپھڑوں کی تکلیف کے علاوہ Bright Disease نے ان کی حالت زیادہ پیچیدہ کردی اور گھر پہنچنے کے دو ہفتے بعد 6 جون 1916 کو وہ انتقال کرگئے۔
ڈاکٹر کینٹ کی تحریر کردہ کتب میں ’’کینٹ ریپرٹری‘‘ ، ’’لیسر رائٹنگ‘‘ اور ’’کینٹ لیکچر‘‘ قابل ذکر ہیں۔

کینٹ کے معالجاتی تجربات، کینٹ کی زبانی

(1)۔ ایک لڑکا اونچائی سے گر کر بے ہوش ہوگیا تھا۔ اس کے کان سے خراش دار مواد کا اخراج ہو رہا تھا۔ کچھ ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ کان سے کلیجے کے ٹکڑے خارج ہو رہے ہیں لیکن میں نے بغور دیکھ کر یہ تشخیص کی کہ کان سے خراش دار رطوبت نکل رہی ہے اور اس علامت پر میں نے کریازوٹ 200 کی ایک خوراک دی اور لڑکے کو ہوش آگیا۔
(2)۔ مجھ سے اکثر ڈاکٹر سوال کرتے ہیں کہ کیسز میں اصول علاج کیا ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ معالج مریض کی علامات کے قریب ترین دوا کا انتخاب کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوا کھلانے کے بعد مریض کسی بھی تکالیف کا اظہار کرے۔ دوسرے معالج کیسز میں تیز دوا ، ناسور یا زخم اور قلت خون کو دیکھتے ہوئے دوا کا انتخاب کردیتا ہے یہ تو خرابی کے نتائج کی علامات ہیں۔ اس وقت سے پہلے والی علامات کا معلوم کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ شفائی نتائج حاصل کیے جاسکیں۔