معاشرتی انحطاط کے روز و شب ہونے والے تماشوں میں سے ایک

فراڈ کا نیا طریقہ

رسائل ‘ٹی وی چینلز روز وشب ایسی ایسی خبریں اورایسے ایسے مناظر دکھاتے رہتے ہیں کہ ہرگزرتا دن ہمارے معاشرے میں جنم لینے والی نت نئی کہانیوں پرغور کرتے گزرتا ہے اورکبھی کبھی ایسی کوئی کہانی خود چل کر ہمارے پاس بھی آجاتی ہے۔ اورہمیں شاعر حریت محترم حبیب جالب کایہ شعر یا دآجاتاہے۔

اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

گزشتہ دنوںایک نئے انکشاف نے ہمیں چونکا دیا ایک صاحب ہمارے پاس آئے اوربڑی افسردگی اور پریشانی سے بتایاکہ وہ ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں، ہم نے انہیں بغوردیکھا، ان کے چہرے یاجسمانی حالت سے کسی بیماری کا اندازہ نہیں ہوتاتھا۔ ماشاءاﷲ خاصے صحت مند اورچاق وچوبند نظرآرہے تھے۔ ہم نے پوچھا ”آپ کو کیسے معلوم ہواکہ آپ اس ذلیل بیماری میں مبتلا ہیں؟“
انہوں نے ایک رپورٹ ہمارے سامنے رکھ دی جس کے مطابق ہیپاٹائٹس کے جراثیم کی نشاندہی ہورہی تھی۔ اب ہم نے سنجیدگی سے ان کا حال احوال یعنی علامتیں پوچھنی شروع کیں توبظاہر کوئی ایسی بات نظرنہیں آئی کہ جس سے جگرکی کسی خرابی کا امکان نظر آئے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ جب آپ کوکوئی تکلیف ‘کوئی شکایت نہیں ہے توپھریہ ٹیسٹ کرانے کی کیا ضرورت پیش آگئی ۔
کہنے لگے ”دراصل میں ملک سے باہرجارہاہوںاورجوکمپنی مجھے باہر بھیج رہی ہے اسی کے کہنے پر مجھے اپنا میڈیکل کرانا پڑا مگر اس رپورٹ کی وجہ سے سارا معاملہ بگڑگیاہے۔ اب اگر میں ایلوپیتھک علاج کرواتاہوں توخدا معلوم کیا صورت حال ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہواہے کہ اس سلسلے میں بڑے مہنگے انجکشن لگائے جاتے ہیں اوریہ خرچا برداشت کرنا میرے بس کی بات نہیں۔آپ اگرکوئی ہومیوپیتھک علاج کرسکتے ہیں اورجلدازجلد مجھے اس بیماری سے نجات دلاسکتے ہیں تو یہ آپ کا بڑا احسان ہوگا“۔
ہم نے ازسرنوان کا معائنہ کیا کچھ ہاضمے کی خرابیاں اورکبھی کبھی ایسیڈیٹی کی شکایت کا سراغ ملا لہٰذا اسی بنیاد پر دوائیں دے دیں۔ پندرہ بیس دن میں وہ ٹھیک ٹھاک نظر آنے لگے۔ ہم نے انہیں تاکید کی اب تازہ ٹیسٹ کسی قابل اعتماد اورمعیاری لیباریٹری سے کروائیں۔ انہوں نے ٹیسٹ کروالیا وہ کلیئر تھا۔ لہٰذا بات ختم ہوگئی۔
اس واقعہ کے ہفتہ پندرہ دن بعدایک صاحبزادے ہمارے پاس آئے۔ان کا پورا گھرانا ہمارے محبت کرنے والوں میں شامل ہے۔ اورخصوصاً ان کی والدہ اکثرمعاملات میں ہم سے مشورے لیتی رہتی ہیں۔انہوںنے اپنے بھائی کا زائچہ پیش کیا اور پوچھا کہ اگروہ بیرون ملک کام کے سلسلے میں جائیں توکامیاب رہیں گے یا ناکام ؟اورآیا جابھی سکیں گے یانہیں؟
زائچے کامطالعہ کرنے کے بعد ہم نے کہا‘جاتو سکتے ہیں مگر ان کے لیے فی الحال وقت مناسب نہیں ہے ۔کسی دھوکے یا فریب سے واسطہ پڑسکتاہے لہٰذاان سے کہیں کہ اپنے باہر جانے کے سلسلے میں مضبوط اورٹھوس بنیادوں پرکوششیں کریں اورجلد بازی میں کوئی قدم نہ اٹھائیں وغیرہ وغیرہ۔
انہوں نے بتایاکہ والدہ نے آپ کے پاس اسی لیے بھیجاہے کہ آپ ان کا زائچہ دیکھ کر صحیح مشورہ دیں کیوں کہ ایک کمپنی بھائی کوباہر بھیج رہی ہے۔ والدہ نے پوچھا ہے کہ وہ وہاں کامیاب رہیں گے یا نہیں؟ ہم نے جواب دیاکہ آئندہ مہینے سے زائچے کی صورتحال بہتر ہوجائے گی اوراس وقت وہ جائیں گے توانشاءاﷲ کامیاب رہیں گے۔ اس پرانہوں نے فرمایاکہ وہ تواسی مہینے کے آخر میں جارہے ہیں۔ ہم نے خواہ مخواہ کا ایک سوال جڑدیا۔کون سے ملک کا ارادہ ہے؟ اورکتنا خرچا آرہاہے؟انہوںنے جواب دیا کہ ملائیشیا کے لیے بھرتی ہورہی ہے اورخرچا کچھ نہیں ہے ۔ٹکٹ بھی کمپنی اپنے پاس سے دے گی۔
اس بات پرہم تھوڑا ساچونکے کیوں کہ آج کے زمانے میں ایساممکن نظرنہیں آتا۔ مزید تفصیلات پوچھی تومعلوم ہواکہ کمپنی کی صرف ایک شرط ہے کہ میڈیکل ٹیسٹ کے اخراجات آپ کواٹھانا ہوں گے باقی سارا خرچا ہمارا اورپہلے وہ فرانس بھیجیں گے‘وہاں ٹریننگ کورس ہوگا‘اس کے بعد ملائیشیا بھیجیں گے۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کے بھائی کوکس شعبے میں سلیکٹ کیاگیاہے اوران کی علمی وفنی کوالیفکیشن کیاہے؟جواب ملا کہ کچھ نہیں۔ساری ٹریننگ فرانس میں ہی ہوگی۔ اب ہمیں اس دال میں کالانظرآنے لگا تھا۔ لہٰذا ہم نے پوچھا کہ میڈیکل ٹیسٹ پرکتنا خرچا آرہاہے۔
جواب ملا ”تقریباً 20 ہزار“
آخری سوال ہمارا یہ تھاکہ یہ سارے میڈیکل ٹیسٹ کسی خاص لیباریٹری سے کرانے ہیں؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں‘انہوں نے ہمیں ایک لیباریٹری کا پتا دیاہے کہ یہ سارے ٹیسٹ وہیں سے کرائیں۔
ہم نے ان سے کہاکہ آپ کے بھائی یقیناً میڈیکل ٹیسٹ میں فیل ہوجائیں گے۔
وہ حیرت سے ہماری شکل دیکھنے لگے۔ ہم نے مزید پوچھا کہ کیاباہر بھیجنے والی اس کمپنی کا اشتہارآپ نے اخبار میں پڑھاتھا؟توانہوںنے جواب دیاکہ نہیں، بھائی کے ایک دوست نے بتایا تھا اوروہاں توبے شمار لوگ جارہے ہیں۔
بہرحال ہم نے انہیں سمجھایا کہ پہلے معاملے کی اچھی طرح تحقیق کریں ورنہ کہیں ایسانہ ہوکہ 20ہزارروپے سے ہاتھ دھونا پڑیں۔ چند روز بعد ان کا فون آیا اورانہوں نے یہ رپورٹ دی کہ آپ کا اندازہ درست تھا۔ ہم نے لیباریٹری سے ٹیسٹ کروانے والے چند افراد سے ملاقات کی توپتا چلا کہ وہ سب میڈیکل ٹیسٹ میں فیل ہوچکے ہیں اوربیرون ملک جانا بھول کراب اپنے ہیپاٹائٹس سے پریشان ہیں، اصل میں ساری صورت حال جاننے کے بعد ہمارا ذہن اس پہلے کیس کی طرف چلا گیا تھا جس کا ہم نے شروع میں ذکر کیاہے کیوں کہ رپورٹ دیکھنے کے باوجود ہمیں ہیپاٹائٹس کے آثار تودور کی بات ہے معمولی یرقان کی علامتیں بھی نظرنہیں آرہی تھیں، باقی معدے کی خرابیاں ‘تیزابیت وغیرہ توآج کل ہر چوتھے شخص کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ہمارے ذہن میں فوراً ہی یہ خیال پیدا ہوا کہ یقیناً ذاتِ شریف لوگوں نے لیباریٹری اوربیرون ملک بھیجنے کے دفتر کے درمیان کوئی خفیہ رابطہ رکھاہواہے۔ بیرون ملک جانا ہمارے اکثر بے روزگار نوجوانوںکا خواب ہے۔ ایک اشتہار اخبار میں چھپ جائے تودفتر کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ لہٰذا کسی شاطر ذہن نے یہ ترکیب سوچ لی ہوگی اورمیڈیکل ٹیسٹ کے بہانے لیباریٹری والوں کا دھندا چلادیا۔ یقیناً اس کام میں وہ وہ خود بھی حصے دار ہوں گے۔
خدا معلوم ایسے کتنے فنکارانہ کام اس شہر میں ہورہے ہیں اورنامعلوم کتنے سادہ لوح افراد ان دھندوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کے خطوط کی طرف چلیں جگت چچا غالب کا یہ شعر سناتے چلیں ۔

بازیچئہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتاہے شب و روز تماشا میرے آگے