شیزوفرینیا، ذہنی شکستگی یا شخصیت کی تقسیم

ہماری گفتگو میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ بات چین کی ہورہی ہو تو جاپان کی طرف بھٹک جاتے ہیں اور قصہ جاپان کا چھڑ جائے تو درمیان میں تائیوان آجاتا ہے، دراصل موضوع کی ضروریات کے تقاضے جب مختلف حوالوں پر مجبور کرتے ہیں تو ان حوالوں کی وضاحت ہمیں اصل موضوع سے دور لے جاتی ہے اور ایک بات سے دوسری بات نکلتی چلی جاتی ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں، یہی وہ جسمانی اور نفسیاتی عوارض ہیں جو جناتی اور آسیبی بیماریوں سے جڑے ہوئے ہیں، عام لوگ اپنی ناقص معلومات کی وجہ سے ایسی تمام بیماریوں کو جنات، ہمزاد، پری، دیو، خبیث اور سحروجادو سے تعبیر کرتے ہوئے مریض کا غلط علاج کرانے پر تل جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر اس کی زندگی برباد ہوکر رہ جاتی ہے۔
ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان امراض کے بارے میں لوگ شدید ناواقفیت اور کم علمی کا شکار ہیں، ہسٹریا کے بارے میں آپ پڑھ ہی چکے ہیں اور شیزوفرینیا کا حوالہ ہم پہلے بھی کئی بار دے چکے ہیں ، آئیے اب دیکھیں کہ یہ شیزوفرینیا کیا بلا ہے اور اس کے بارے میں ماہرین نفسیات اور طبی ماہرین کیا ارشاد فرماتے ہیں مگر اس سے پہلے بے شمار کیسوں میں سے ایک کیس کی روداد سن لیجیے۔
یہ 1995 ءکا قصہ ہے، ہمارے ایک دوست ہمیں اپنے ایک جاننے والے کے گھر لے گئے کہ وہ اپنی لڑکی کی طرف سے بہت پریشان تھے، انھوں نے بتایا کہ لڑکی کو عجیب طرح کے دورے پڑتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی دشمن بنی ہوئی ہے، خاص طور پر اپنی ماں کی دشمن ہے، اسے پہچاننے سے بھی انکار کرتی ہے، بے ہودگی اور بدتمیزی سے پیش آتی ہے،ماں کو یا بہن بھائیوں کو مارنے پیٹنے سے بھی گریز نہیں کرتی، گھر کے برتن اٹھا کر پھینکنے لگتی ہے، قیمتی سامان توڑ ڈالتی ہے، کبھی کبھی اپنے آپ کو ننگا کرلیتی ہے یعنی کپڑے وغیرہ اتار کر پھینک دیتی ہے لیکن ڈرتی بھی بہت ہے، ماں سے کہتی ہے ہر وقت میرے ساتھ رہو، دن رات بجلی روشن رکھو، اندھیرا اسے خوف زدہ کردیتا ہے۔
ہم نے علیحدگی میں لڑکی سے ملاقات کی اور بہت نرمی سے اس سے گفتگو کا آغاز کیا، خیال رہے کہ ایسے مریض کا علاج اسی صورت میں ممکن ہے جب مریض اور معالج کے درمیان اعتماد اور خوش گوار فضا قائم ہوجائے ورنہ مریض معالج کو بھی اپنا دشمن سمجھ کر عدم تعاون اور سرکشی کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے مریض کے ہم خیال و ہمدرد بننے کی کوشش کریں تاکہ وہ آپ سے تعاون کرے، تب ہی رفتہ رفتہ آپ اسے اپنے راستے پر لاسکیں گے۔
مریضہ نے ہمیں اپنا ہمدرد و غم خوار محسوس کیا تو کہنے لگی کہ یہ سب لوگ میرے دشمن ہیں، مجھے زہر دینا چاہتے ہیں، میں بیمار نہیں ہوں، میں تو ان سے بہت دور جاچکی ہوں، میرے ساتھ غیبی طاقتیں ہیں، میں ان کی آوازیں سنتی ہوں، کبھی کبھی مجھے جن اور بھوت بھی نظر آتے ہیں جن سے مجھے خوف آتا ہے کیوں کہ وہ بہت ڈراونے ہوتے ہیں، بڑے خراب اور بھیانک چہرے والے، وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ اپنے گھر والوں کو مارو تو ہم چلے جائیں گے، ورنہ تمھیں نہیں چھوڑیں گے، مجھے ہر اطراف سانپ بھی دکھائی دیتے ہیں، کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ ننگی ہوجاوں، میں ڈرتی بھی بہت ہوں اس لیے اکیلی نہیں رہ سکتی، میرے گھر والوں کو مجھ سے محبت نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
یہ مریضہ کے بیان کا خلاصہ تھا اور مریضہ سو فیصد شیزوفرینیا، تقسیم شدہ شخصیت یا ذہنی شکستگی کا شکار تھی مگر قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کی بیماری کی علامات اور اس کی عادات و حرکات جناتی مریضوں سے کس قدر مشابہ ہیں، ہاں، ایک اور بات بھی سن لیجیے، اس کی والدہ کے بقول وہ اکثر پیش گوئیاں بھی کرتی جو پوری بھی ہوجاتی تھیں، ایک بار چھوٹے بھائی پر برہم ہوئی اور غصے میں کہا کہ تیرا ایکسیڈنٹ ہوگا، دوسرے ہی روز اس کی موٹر سائیکل سڑک پر سلپ ہوگئی اور اسے شدید چوٹیں آئیں، کبھی کسی مہمان کے گھر آنے کی اطلاع دیتی اور وہ واقعی آجاتا، غرض اس قسم کی باتیں بھی بہت سی تھیں۔
خدا کے فضل سے اب یہ لڑکی دو بچوں کی ماں ہے اور کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہی ہے، 97 ءمیں اس کی شادی ہوئی جس میں ہم بھی شریک تھے۔
شیزوفرینیا کی چار قسمیں مشہور و معروف ہیں، نمبر ایک سادہ یا ”ابتدائی شیزوفرینیا“ اس حالت میں مریض عام طور پر کند ذہن، دنیا سے کنارہ کش، تنہائی پسند اور کاہل ہوتا ہے، دوسری قسم کو”کیٹانونیا“ کہتے ہیں، اس کا مریض کبھی تو مدہوشی کی حالت میں ہوتا ہے اور کبھی ہیجانی کیفیت میں، مدہوشی اور ہیجان کئی قسم کا ہوسکتا ہے، یعنی نیم بے ہوشی یا اپنی حالت سے بے خبری اور اپنی کسی نئی شخصیت کا اظہار۔
تیسری قسم”پیرانوئیا“ کہلاتی ہیں، اس قسم کا مریض اس وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ لوگ اس کے دشمن ہیں، اسے دکھ، تکلیف پہچانے کے درپے ہیں۔
چوتھی قسم”ہیبے فرینیا“ ہے، اس کا مریض احمقانہ اور فضول حرکات اور بے سروپا باتیں کرتا ہے، اسے اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ دوسرے اس کی حرکات اور باتوں میں دلچسپی لے بھی رہے ہیں یا نہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ انسان کی انا شدید خوف، غم و غصہ، ناکامی و محرومی اور توہین کو برداشت نہیں کرپاتی تو وہ ان پر قابو پانے کی کوشش میں اپنی تمام تر توجہ ان پر مرکوز کردیتی ہے، یہاں تک کہ خود ان جذبات کے ساتھ یک جان ہوکر رہ جاتی ہے، انسان کا ذہن ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا ہے اور بیرونی حالات سے منہ موڑ کر اپنے اندر کی طرف رخ کرلیتا ہے، دوسرے معنوں میں وہ اپنے ہی مخصوص خول میں بند ہوجاتا ہے، اس کی نفسی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ عالم خواب کے کوائف کو جو زمان و مکان، شکل و صورت اور سیاق و سباق کی قید سے آزاد ہوتے ہیں، بیرونی حقیقی دنیا میں دیکھنے لگتا ہے، مثلاً جن، بھوت یا بزرگان دین، عزیزوں، رشتے داروں کی روحیں (ہمزاد) وغیرہ بھی اسے نظر آرہے ہوتے ہیں اور وہ ان سے باتیں بھی کر رہا ہوتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ مریض کے نفسیاتی تصورات جسمانی خواص اختیار کرلیتے ہیں، اس کی دنیا ماورائی پر چھائیوں، غیبی آوازوں، دوستوں اور دشمنوں، اذیت رسانوں اور سازشوں سے بھری ہوتی ہے، بعض مریض تو خدا سے ہم کلامی اور شیطان وغیرہ سے ملاقات کا دعویٰ بھی کر بیٹھتے ہیں یا بعض اپنے ملاقاتیوں میں اللہ کے برگزیدہ بندوں، صاحبان مزار، جنات وغیرہ کو بھی شامل کرلیتے ہیں، اس طرح درحقیقت وہ اپنی محرومیوں، ناکامیوں کے ازالے کی کوشش کرکے اپنی مجروح انا کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں۔
بعض جدید ماہرین نفسیات کے نزدیک دیگر نفسیاتی بیماریوں اور شیزوفرینیا میں فرق کی وضاحت کچھ اس طرح ہے، وہ کہتے ہیں”جب آدمی نفس کے فساد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ تین میں سے کسی ایک حالت میں ہوتا ہے، اول، دوسرے انسانوں سے کنارہ کشتی اختیار کرنا، دوم، دوسرے انسانوں کے خلاف ہوجانا اور سوم، خود اپنے خلاف ہوجانا“ ان تین علامتوں میں سے کوئی ایک علامت شیزوفرینیا اور دیگر نفسیاتی امراض میں فرق کرتی ہے۔
پہلی علامت ذہنی شکستگی کی ہے، جب کہ دوسری علامت کے زمرے میں ہم اذیت رساں، تشدد پسند، جنونی قاتل، معاشرے،مذہب اور قانون کے باغی، ڈاکو افراد کو بھی شامل کرسکتے ہیں، تیسری حالت افسردگی اور مالیخولیا کی ہے۔
اس جگہ مشہور اعصابی بیماری نیوراسس اور سائیکوسس کے درمیان فرق کو بھی سمجھ لیں، نیوراسس یعنی اعصابی خلل یا اعصابیت ایسی اعصابی کیفیت کو کہتے ہیں جو مریض کے ماحول میں تناو، دباو اور تشویش کے باعث پیدا ہوتی ہے، اس کی چار اقسام طے شدہ ہیں،پہلی تشویشی حالت، دوسری ہسٹریا، تیسری دو عملی افسردگی اور چوتھی خبط و جنون۔
ہسٹریا کے تعارف میں اس حوالے سے ماہرین نفسیات کا نکتہ ءنظر ہم پیش کرچکے ہیں، یہاں اتنی وضاحت اور کردیں کہ اعصابیت کا مرض انسان کے بیرونی ماحول کی خرابیوں سے جنم لیتا ہے اور نفسی فساد مریض کے اپنے ذہن کی پیداوار ہوتا ہے۔
ہسٹریا کے بارے میں ہم خاصی تفصیل دے چکے ہیں، تشویش (Anxiety) کا مریض کسی نہ کسی فکر اور غم یا خوف میں مبتلا رہتا ہے اور اندر ہی اندر گھلتا رہتا ہے، مثلاً اس کی طبیعت صرف اس وجہ سے بھی خراب ہوسکتی ہے کہ امتحانات قریب آرہے ہیں یا کسی سفر پر روانہ ہوتا ہے، کسی گناہ یا احساس جرم یا مستقبل کا خیال بھی اسے مسلسل تشویش کے مرض میں مبتلا کرسکتا ہے، دو عملی یا تفاعلی افسردگی کسی بیرونی دباو کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، مثلاً کوئی کام جو آپ کرنا نہیں چاہتے وہ جبراً آپ کو کرنا پڑے، کوئی ذمے داری آپ پر اچانک آ پڑے جس سے فرار ممکن نہ ہو، خبط اور جنون کسی بیرونی عمل کے رد عمل کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کے اسباب انسانی نفس کے فساد میں بھی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ جسمانی بیماریاں زیادہ تر مادی اسباب کے باعث جنم لیتی ہیں اور ان کا اثر انسانی جسم تک ہی محدود رہتا ہے مثلاً ناقص غذا کے استعمال سے بدہضمی کا ہونا، ٹھنڈی اشیا کے استعمال پر ٹھنڈ لگ جانے سے نزلہ زکام و بخار وغیرہ مگر نفسیاتی اور ذہنی عارضے مادی اور جسمانی نہیں ہوتے، اسی لیے تشخیص کے مروجہ طریقے یعنی لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ ان کا سراغ لگانے میں ناکام رہتے ہیں، معاملہ کسی پراسرار صورت حال کی طرف چلا جاتا ہے مثلاً کسی بری خبر کے نتیجے میں اگر غشی یا سکتے کی کیفیت طاری ہوجائے یا امتحان کے خوف سے طالب علم کو بخار چڑھ جائے، سردرد شروع ہوجائے، دست لگ جائیں یا یہی صورت کسی سخت اور ظالم افسر کے ماتحت کے ساتھ ہو تو ہم اسے مادی اور جسمانی بیماری قرار نہیں دیں گے، ہاں یہ ضرور کہیں گے کہ ذہنی و نفسیاتی بیماری کا اثر جسم قبول کر رہا ہے جس کی علامت دست و بخار وغیرہ ہے۔
نفسیاتی بیماریوں کی ایک مادی وجہ جسمانی بیماریوں کا طول پکڑنا بھی مشاہدے میں آیا ہے کیوں کہ طویل عرصے تک جسمانی بیماری اپنی پوری شدت کے ساتھ لپٹی رہے تو انسان کا ذہن اور نفس بھی اس صورت حال سے متاثر ہوتا ہے اور انسان کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔