تاریخ و وقتِ پیدائش اللہ کی مقرر کردہ ہے جب کہ نام انسان تجویز کرتا ہے

ہمیں اکثر اس مسئلے کا سامنا رہتا ہے جب لوگ دو افراد کے بارے میں موافقت اور ناموافقت کے حوالے سے سوال کرتے ہیں اور اکثریت اس حوالے سے دونوں فریقین کے ناموں کو ہی کافی سمجھتی ہے یا زیادہ سے زیادہ والدہ کا نام بھی اس میں شامل کر لیا جاتا ہے جب کہ تاریخ پیدائش کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور صرف اسی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ دونوں کے نام سے ستارہ ملا دیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں نے دونوں کے نام کے حوالے سے یہ رائے دی اور فلاں فلاں نے فرمایا ہے کہ دونوں میں سے ایک کا نام بدل دیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہی صورت حال بچوں کے ناموں کے سلسلے میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ کوئی بچہ زیادہ شریر ہے یا تعلیم میں کمزور ہے یا کسی سخت بیماری میں مبتلا ہے تو فوراً والدین یا خاندان کے کسی سیانے کا ذہن اس کے نام کی طرف جاتا ہے اور پھر کسی بزرگ یا مولانا یا ماہر جفر و نجوم سے مشورہ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں اکثر فوراً ہی یہ فتویٰ مل جاتا ہے کہ نام درست نہیں ہے یا ”بھاری“ ہے وغیرہ وغیرہ لہٰذا نام تبدیل کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں تاریخ پیدائش کو قطعی طور پر نظر انداز کر کے محض سنی سنائی باتوں پر قیاس آرائی کی جاتی ہے اور اس قیاس آرائی میں ایسی ایسی جاہلانہ کہاوتیں، ٹوٹکے یا شگون کی باتیں مروج ہیں کہ اگر اس خرافات کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے تو علیحدہ سے ایک کتاب مرتب ہو جائے گی۔
ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ علم نجوم سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے یا محض واجبی سی واقفیت رکھتے ہیں ”جیسا کہ اس علم سے واقفیت کے اکثر دعویداروں کا حال ہے“ تو وہ تاریخ پیدائش کو نظر انداز کر کے اپنا کام محض نام کی بنیاد پر چلاتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے علم جفر کی آڑ لیتے ہیں کیوں کہ علم جفر بہرحال حروف اور اعداد سے بحث کرتا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ کلی طور پر علم جفر صرف حروف اور اعداد پر ہی انحصار نہیں کرتا بلکہ علم نجوم ہر سطح پر علم جفر سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں علوم کے درمیان بنیادی فرق اور ان کی حدود کو واضح کر دیا جائے اگرچہ ہم اپنے اکثر مضامین میں اس موضوع پر پہلے بھی بہت لکھ چکے ہیں مگر ایک بار پھر مختصر طور پر وضاحت کی جا رہی ہے۔
نجوم و جفر میں باہمی ربط
علم نجوم (Astrology) مکمل طور پر کائنات میں موجود فلکیاتی صورت حال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات سے بحث کرتا ہے اور اس سلسلے میں دائرہ بروج (Zodic Sign) اور ثوابت و سیارگان (Stars and Planets) بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ مختلف اوقات میں ان کی مختلف پوزیشن اور بروج کے اثرات کے ساتھ مل کر سیارگان کے ا ثرات کسی شخص جگہ یا واقعے پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں، اسی مطالعے کا نام ایسٹرولوجی ہے۔
علم جفر میں حروف بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور ان حروف سے منسوب اعداد یا یہ کہ ان حروف کی جو عددی قیمتیں مقرر کی گئی ہیں وہ نہایت اہم ہیں اس کے ساتھ ساتھ تمام حروف اور تمام اعداد سیارگان کے یا بروج کے جو اثرات قبول کر رہے ہیں اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ یہیں سے علم جفر خود بخود علم نجوم کے ماتحت ہوجاتا ہے اور یہی حال علم الاعداد (Numreology) کا بھی ہے کیوں کہ اعداد بھی سیارگان و بروج کے زیر اثر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ علم جفر ہو یا علم الاعداد، علم نجوم مذکورہ بالا دونوں علوم پر محیط ہے اور اسے نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔

نام اور تاریخ پیدائش

اب آئیے تاریخ پیدائش اور نام کے مسئلے کی طرف۔ ہم پہلے بھی یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ کسی بھی انسان یا جاندار کی تاریخ پیدائش قانون قدرت کے مطابق اﷲ رب العزت کی مقرر کر دہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی اور اختیار سے اپنی پیدائش کی تاریخ، مہینہ، سال، وقت اور جگہ کا انتخاب کر سکے یا کوئی دوسرا کسی انسان کو اپنے کسی مقررہ اور پسندیدہ وقت پر پیدا کر سکے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک کسی انسان کی شخصیت، فطرت، کردار اور حالات و واقعات کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت، تاریخ پیدائش، مہینہ اور سال کی اہمیت درجہ اول پر ہے اور معتبر اور مستند ٹھہرتی ہے۔
نام انسان کی پیدائش کے بعد رکھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ انسان ہی تجویز کرتے ہیں۔ صرف ایک ہی نام دنیا میں ایسا ہے جو خود رب کائنات نے تجویز فرمایا اور وہ ہے ”محمد“ ﷺ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر بھی ہمیں اﷲ کے قائم کردہ نظام کائنات کی روایات میں اختلاف نظر نہیں آتا کیوں کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق حضور اکرم ﷺ کی جس عیسوی تاریخ پیدائش پر محققین کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے وہ 20 اپریل ہے اور جب ہم اسم پاک محمد کی عددی قیمت ابجدایقغ کے ذریعے معلوم کرتے ہیں وہ بھی 20 نکلتی ہے، مذکورہ بالا ابجد میں اعداد کی گنتی صرف ایک سے نو تک ہے۔ دنیا بھر میں نام کے اعداد نکالنے کے لیے یہی ابجد استعمال کی جاتی ہے لہٰذا اس ابجد کے تحت جب ہم محمد کے اعداد معلوم کریں گے تو صورت یہ ہو گی۔
م ح م د
4 + 8 + 4 + 4 = 20
بات ہو رہی تھی کہ صرف ایک نام کے علاوہ باقی انسانوں کے نام خود انسان ہی تجویز کرتے ہیں جس میں غلطی کا امکان موجود ہے اور ضروری نہیں ہے کہ جو نام رکھا جائے وہ نومولود کی تاریخ پیدائش سے بھی مطابقت رکھتا ہو یا اس کے پیدائشی برج اور ستارے سے بھی ہم آہنگ ہو۔ نتیجے کے طور پر انسان دو مختلف قسم کے طاقتور اثرات کے زیر اثر آجاتا ہے جو مخالف بھی ہو سکتے ہیں اور موافق بھی اور اس مخالفت یا موافقت کا فیصلہ ایک علمی اور منطقی طریقہ کار کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔ صرف کسی کی بیماری، پریشانی، بدمزاجی، شرارت، کم فہمی یا بدعقلی کی بنیاد پر نہیں لیکن ہمارے یہاں صورت کچھ ایسی ہی ہے کہ تاریخ پیدائش کو علم نجوم سے عدم واقفیت کی بنیاد پر قطعاً نظر انداز کر کے محض نام پر علم جفر اور علم الاعداد کے داﺅ آزمائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے نام نہاد ماہرین علم نجوم و جفر کا حال یہ ہے کہ وہ علم جفر میں جو علم نجوم کے اصول موجود ہیں انہی کی بنیاد پر نجومی احکام مرتب کر رہے ہوتے ہیں مثلاً حروف تہجی کے جو حروف علم جفر میں سیارہ زحل سے منسوب ہیں انہی کی بنیاد پر کسی شخص کا ستارہ اور برج مقرر کر دیتے ہیں۔۱، ب ، ج ، د۔ علم جفر میں سیارہ زحل سے منسوب ہیں لہٰذا جس شخص کا نام ان حروف سے شروع ہورہا ہوگا اس کا ستارہ زحل قرار دے دیا گیا۔ہ۔و۔ز۔ح سیارہ مشتری سے منسوب ہیں لہذا جن لوگوں کے نام کا پہلا حرف ان چار حروف میں سے ہوگا اس کا ستارہ مشتری قرار دے دیا جائے گا۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ اعمال جفر کے سلسلے میں اسی اصول کی پیروی کی جائے گی لیکن جب بات کسی شخص کے شخصیت اور کردار اور حالات و واقعات سے واقفیت کی ہو گی تو پھر علم جفر کے یہ اصول کام نہیں دیں گے۔

حروف تہجی اور بروج

برصغیر پاک و ہند یا عرب ممالک میں مختلف بروج سے حروف تہجی کے جو حروف منسوب کیے گئے ہیں علم نجوم میں وہ علم جفر سے قطعی مختلف ہیں اور مزید یہ کہ علم نجوم کے یونانی اور ہندی اسکول آف تھاٹس لسانی بنیاد پر بھی حروف کی تقسیم میں اختلاف رکھتے ہیں مثلاً یونانی علم نجوم کے مطابق برج حمل کے منسوبی حروف ا ، ل، ع اور ی ہےں جب کہ برج ثور کے ب ، و ، برج جوزا کا ق اورک، برج سرطان کے ہ ، ح ،ھ اور برج اسد سے م منسوب ہے۔ الغرض اسی طرح 12 بروج سے علیحدہ علیحدہ تمام حروف منسوب ہیں اور یہ نسبت علم جفر کی نسبت سے قطعی مختلف ہیں، صرف م دونوں جگہ برج اسد کے ماتحت ہے جب کہ ہندی علم نجوم میںہندی حروف تہجی کے مطابق نسبت مقرر کی گئی ہے مگر جب ہم مغرب کے ماہرین نجوم کی طرف دیکھتے ہیں جو بلاشبہ فی زمانہ علم نجوم پر جدید سائنٹیفک انداز میں کام کر رہے ہیں تو حروف کا یہ چکر نظر ہی نہیں آتا، وہاں صرف تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی بنیاد پر زائچہ یا برتھ چارٹ تیار کیا جاتا ہے اور جب نام کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو اسے بھی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہی دیکھا جاتا ہے اور نام کے عدد کے سلسلے میں علم الاعداد سے مدد لی جاتی ہے، حروف کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ نام ایک اختیار کردہ شے ہے جو بچپن میں ماں باپ تجویز کرتے ہیں یا خاندان کے بزرگ اور معتبر لوگ یا عمر کے کسی حصے میں لوگ خود بھی اپنا نام بدل کر کوئی اور نام رکھ لیتے ہیں چنانچہ ایک اختیاری اور تبدیل ہونے والی شے کے اثرات کو وسیع تر اور پائیدار کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔

نام کی اہمیت

ہماری اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نام کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے یا وہ ہماری شخصیت اور کردار پر کوئی اثر ہی نہیں ڈالتا، یقیناً نام کے حروف اور اعداد اپنا ایک طاقتور اثر رکھتے ہیں جن سے انکار ممکن نہیں، لیکن یہ اثر ذیلی ہے اور اس اثر کے تابع یا مخالف ہے جو تاریخ پیدائش کے اعداد اور پیدائش کے وقت کی فلکیاتی صورت حال کے تحت ہمیں پیدائشی طور پر ملا ہے لہٰذا ہم جب بھی نام کے حوالے سے بات کریں گے تو ہمیں پہلے اس بنیادی اثر سے واقفیت حاصل کرنا ہو گی جو پیدائشی طور پر ہماری ذات کا حصہ ہے اور غیر متبدل او ر دائمی ہے کیوں کہ ہم دوبارہ اس مقررہ وقت، تاریخ، مہینے اور سال پر پیدا نہیں ہو سکتے لہٰذا اس اثر میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
جیسا کہ ابتدا میں ہم نے عرض کیا نام اور تاریخ پیدائش کے حوالے سے اختلافی صورت حال اکثر ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔ چند روز پہلے ایک صاحب تشریف لائے وہ اپنے بیٹے کی شادی کسی لڑکی سے کرنا چاہتے تھے۔ لڑکی کے والد شاید خود بھی ان علوم سے شغف رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں سے رابطہ بھی رکھتے ہیں لہٰذا انہوں نے کسی ماہر جفر سے دونوں کا زائچہ بنوا کر یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ ان دونوں کی شادی لڑکی پر یا لڑکی والوں پر بھاری پڑے گی لہٰذا یہ شادی نہ کی جائے۔ اتفاق سے لڑکا اور لڑکی دونوں ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کا جذبہ بھی رکھتے تھے خاص طور سے لڑکا کہیں اور شادی کرنے پر تیار ہی نہیں تھا۔ نتیجے کے طور پر لڑکے کے ماں باپ کو بھی بیٹے کی خوشی عزیز تھی۔ انہوں نے ہم سے کہا ذرا آپ بھی دیکھیے یہ رشتہ کیسا رہے گا؟ ہمارے خیال میں وہ ایک نہایت موزوں اور مناسب رشتہ تھا اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شادی کو روکا جاتا۔
لڑکے کے والد نے بتایا کہ ہم نے خود بھی استخارہ کیا اور بعض معتبر افراد سے بھی استخارہ کروایا ہے اور ہمیں مثبت جواب ملا لیکن لڑکی کے والد کہتے ہیں کہ ہمیں استخارے میں بھی منفی جواب مل رہا ہے اور زائچے میں بھی صورت حال درست نہیں ہے جب ہم نے ان کے بنوائے ہوئے زائچے کی حقیقت معلوم کی تو پتا چلا کہ وہ زائچہ علم جفر کے حساب سے بنایا گیا تھا، یقیناً بہت سے لوگ علم جفر سے زائچہ بھی بناتے ہیں اور مختلف سوالوں کے جواب بھی حاصل کرتے ہیں کیوں کہ علم جفر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصے کو ”اخبار“ کہا جاتا ہے اور دوسرے حصے کو ”آثار“ کہا جاتا ہے۔
علم جفر کا حصہ اخبار خبر حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں اس شعبے کے بہت سے نامور جفار گزرے ہیں اور شاید آج بھی ہوں لیکن کم از کم ہمارے علم میں نہیں کیوں کہ اس علم میں ایسے ایسے اختلافی مسائل موجود ہیں جن پر ماہرین جفر کبھی متفق نہیں ہوتے اور چونکہ اردو زبان میں عربی حروف تہجی سے کمی اور بیشی کی بنیاد پر جو اختلافات موجود ہیں یا جو کمی موجود ہے اسے آج تک کوئی اردو داں ماہر جفر پورا نہیں کر سکا اسی لیے اس ذریعے سے حاصل کردہ وجوابات کبھی معتبر بھی نہیں ٹھہرتے اور اس کی بنیاد پر بنایا گیا زائچہ بھی غیر معتبر ہی رہتا ہے۔
علم جفر کا حصہ آثار اعمال روحانی یعنی علاج معالجے سے بحث کرتا ہے۔ بے شک اس شعبے میں زمانہ قدیم سے زمانہ حال تک ماہرین جفر کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے جس میں بہت بڑے بڑے نام سامنے آتے ہیں۔ علم نقوش و طلسمات اسی حصہ جفر کے ماتحت ہے۔ امید ہے اس ساری تفصیل کی روشنی میں ہمارے قارئین نہ صرف نام اور تاریخ پیدائش کے فرق کی اہمیت سمجھ گئے ہوں گے بلکہ علم نجوم اور جفر کے وہ مسائل بھی واضح ہو گئے ہوں گے جن کی بنیاد پر فی زمانہ اکثر نام نہاد ماہرین نجوم و جفر لوگوں کوگمراہ کرتے ہیں اور محض اپنی جھوٹی علمی شان کا پرچم بلند کرنے کے لیے یا تھوڑے سے پیسوں کے لیے غلط نظریات اور روایات کو فروغ دیتے ہیں۔