قدیم علم نجوم کا مشرکانہ پہلو جو آج بھی مروج ہے

پوری دنیا میں بے شمار لوگ علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ علم نجوم درحقیقت کیا ہے؟

ایسے افراد کی بھی دنیا میں کمی نہیں کہ علم نجوم پر یقین نہیں رکھتے لیکن وہ بھی نہیں جانتے کہ اس علم کی حقیقت کیا ہے؟

یہ کتنی دلچسپی حقیقت ہے کہ علم نجوم سے دلچسپی رکھنے والے اور علم نجوم کی مخالفت کرنے والے یہی نہیں جانتے کہ اس علم کی حیثیت اور حقیقت کیا ہے؟ اکثر لوگ تو اخبارات و رسائل اور شمسی برج (Sun sign) کے بارے میں پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ بس یہی علم نجوم ہے، اسی لیے عام طور سے اس نوعیت کے سوالات کرتے ہیں کہ جناب ہمارا اسٹار جدی (Capricorn) ہے،بتائیے آج کل ہمارے حالات کیسے چل رہے ہیں؟ہمارا آنے والا سال کیسا ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے ملک میں ہی نہیں دنیا بھر میں ایسٹرولوجی سے استفادہ کرنے والوں کا یہی حال ہے، انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ جدی برج (Sign) ہے،اسٹار نہیں ہے،اسٹار سے مراد ستارہ ہے اور ستارے ہماری کہکشاں میں تقریباً ثابت (Fixed) ہیں،وہ گردش نہیں کرتے، ہماری اکثریت تو ان کا نام بھی نہیں جانتی، البتہ سیارے (Planet)ہمہ وقت گردش میں رہتے ہیں۔

شاید بیسویں صدی کے آغاز میں اخبارات و رسائل میں سن سائن ایسٹرولوجی کو رواج دیا گیا،ایونجیلین ایڈمس (Evangeline Adams) وہ پہلی ایسٹرولوجر تھی جس نے دائرئہ بروج کے بارہ برجوں پر ایک کتاب مرتب کی، ایونجیلین ہی وہ خاتون ایسٹرولوجر ہے جس نے امریکا میں ایسٹرولوجی کی پریکٹس کو قانونی تحفظ دلایا، اس سے پہلے اس علم کی پریکٹس عام نہیں تھی، ایونجیلین نے عدالت میں کیس لڑا اور عدالت کی جانب سے اسے ایسٹرولوجیکل پریکٹس کی اجازت دی گئی، اس کے بعد ہی اخبارات و رسائل میں بھی باقاعدہ طور پر اس قسم کے کالم شائع ہونے لگے ”یہ ہفتہ یا مہینہ کیسا گزرے گا“چوں کہ عام لوگوں کو اپنی تاریخ پیدائش معلوم ہوتی ہے جس کے تحت وہ اپنا شمسی برج (Sun sign) معلوم کرسکتے ہیں اور پھر اخبار یا میگزین میں اپنے بارے میں پڑھ سکتے ہیں، آہستہ آہستہ پوری دنیا میں یہ روایت پھیلتی چلی گئی اور عام لوگ اسی کو علم نجوم (Astrology) سمجھنے لگے، حالاں کہ یہ ہر گز مکمل ایسٹرولوجی نہیں ہے۔

آغاز

دنیا میں علم فلکیات کا آغاز شاید اسی زمانے میں ہوگیا تھا جب انسانی شعور نے اپنے ارد گرد موجود اشیا پر غوروفکر کرنا شروع کردیا تھا، جنگل ، پہاڑ، دریا، ہوا، بارش، آندھی، آسمان پر چمکتے ستارے، الغرض ہر وہ شے جو انسان کی نظر کے سامنے تھی اس کے تجسس کو بڑھا رہی تھی، صدیوں کا سفر جاری رہا اور انسان مسلسل تحقیق و جستجو کے بعد آج اس مقام پر ہے جب رفتہ رفتہ یہ کائنات اس کے ہاتھوں تسخیر ہوتی چلی جارہی ہے،کبھی وہ چاند کو حیرت اور تعجب سے دیکھا کرتا تھا،پھر وہ وقت بھی آیا جب چاند نے انسان کے قدم چومے ، اس کے بھیجے ہوئے خلائی جہاز مریخ ، مشتری، زحل کا قریب سے جائزہ لینے لگے۔

دیگر علوم کی طرح علم فلکیات (Astronomy) بھی باقاعدہ ایک علم کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری کہکشاں کی پوزیشن کیا ہے،اس میں کتنے سیارے ہیں اور کتنے ستارے ہیں، اس کے چاروں طرف بارہ برجوں کی ایک قطار ہے جسے (Zodic belt) کہا جاتا ہے اور یہ تمام سیارے اور ستارے اسی دائرئہ بروج میں قائم ہےں ، اس سے باہر نہیں ہےں،جدید سائنس ایسٹرونومی کو تسلیم کرتی ہے اور اس حوالے سے وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی دریافت جاری رہتی ہےں۔

مذاہب عالم اور علم فلکیات

دنیا کے تمام مذاہب فلکیاتی مظاہر کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں، اللہ کی آخری کتاب میں بھی جگہ جگہ دائرئہ بروج اور سیاروی گردش کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پر غور کرو، ان میں ہماری نشانیاں ہیں۔

والسمآءذات البروج

قسم آسمان کی جس میں بروج ہیں (سورة البروج)

اسی طرح سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی ارشاد باری تعالیٰ موجود ہے اور چاند کی خصوصی گردش کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اور اس پر غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے۔

والقمر قدرنہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم (سورئہ یٰسین، آیت نمبر 39 )

ترجمہ: اور چاند (کے لیے) ہم نے مقرر کی ہیں منزلیں یہاں تک کہ ہوجاتا ہے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔

وَسَخَّرَ لَکُم اللَّیلَ وَالنَّھارَ وَالشَّمسُ وَال±قَمرَوَالنَّجُومُ مُسخِّرات بِآم±رِہِ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لِآیٰتِ لِقُوم یَعقِلُون(سورہ النحل-آیت 12)

ترجمہ: ہم نے رات اور دن‘ سورج اور قمر اور تمام کواکب کو خاص احکام کا پابند کردیا ‘ درحقیقت عقل مند قوموں کے لیے ان میںنشانیاں ہیں۔

جب اس تواتر کے ساتھ علم فلکیات کے مظاہر انسان کے سامنے آنا شروع ہوئے اور اس نے ان پر غوروفکر شروع کی تو یہ سوچ بھی ذہن میں پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا کہ آخر کائنات کی تخلیقی تکمیل میں ان برجوں، سیاروں اور ستاروں کی حیثیت کیا ہے؟اللہ نے اپنی آخری کتاب میں ہمیں یہ بھی بتادیا کہ یہ سب اپنے رب کے حکم کے پابند ہیں اور اسی کے حکم سے اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، ان کی ڈیوٹی کیا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کے نتیجے میں علم نجوم (Astrology) وجود میں آیا، ظاہر ہے کہکشاں میں دائرئہ بروج کی مخصوص ہیئت اور ساخت اور گردش کرتے ہوئے سیارگان، کیا محض نمائشی ڈیکوریشن پیس ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں، اس میں بھی یقیناً اس رب کائنات کی ہزار ہا حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں اور انسان کو اختیار ہے کہ وہ ان حکمتوں اور مصلحتوں کے رازوں سے آگاہی حاصل کرے،سو اس نے تقریباً کئی ہزار سال کی تحقیق و جستجو کے بعد ان رازوں سے ممکنہ حد تک پردہ اٹھانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں آج علم نجوم ایک جدید دور میں داخل ہوچکا ہے،دنیا بھر میں اس علم پر اعلیٰ درجے کے سافٹ ویئر پروگرام بنائے جاچکے ہیں جن کی مدد سے لمحہ بھر میں ہم پورے دائرئہ بروج اور تمام سیاروی گردش کا جائزہ لے سکتے ہیں اور فخریہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ علم نجوم ایک سائنس ہے جس کی بنیاد علم ریاضی پر رکھی گئی ہے،یہ ہر گز کوئی غیب دانی ، کہانت، فال ٹائپ چیز نہیں ہے جو کہ زمانہ ءقدیم سے ماضی کے مندروں اور معبدوں میں رائج رہے ہیں بلکہ ہر مندر یا مابعد کا مہا پجاری یا کاہن انھی کاموں کے لیے مخصوص تھا، حد یہ کہ اللہ کے پاک گھر خانہ کعبہ میں بھی کاہن انہی کاموں کے لیے مخصوص تھے، اسی لیے کہانت کو یا اس سے ملتے جلتے علوم کو ممنوع قرار دیا گیا اور افسوس کہ نبی اکرمﷺ کی حدیث مبارکہ کہ ترجمے میں بھی ایک فاش غلطی کا ارتکاب اکثر کیا جاتا ہے، حدیث پاک ہے ”جو کاہن کے پاس گیا، وہ ہم میں سے نہیں“ اسی معنی کی ملتی جلتی دوسری احادیث بھی ہیں مگر ہمارے اکثر علم نجوم کے مخالف حضرات اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے کاہن کا ترجمہ نجومی کرتے ہیں،وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ایک اور حدیث کے مطابق ”جس نے مجھ سے کوئی غلط بات یا قیاس منسوب کیا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

سیاروی اور بروجی اثرات

ایسٹرونومی سیاروی اور بروجی تحقیق کی حد تک محدود ہے لیکن ایسٹرولوجی سیاروی اور بروجی اثرات کی بھی قائل ہے کیوں کہ اہل دانش اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے کہ ہر عمل کا ردعمل موجود ہے،اسلام اس کلیے کو بہت پہلے واضح کرچکا تھا، بعد میں آئزک نیوٹن نے اس اصول کی مکمل وضاحت کی تو جب سائنسی طور پر بھی یہ بات ثابت ہے کہ عمل کے ساتھ ردعمل موجود ہے تو اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کیا جائے کہ سیاروی گردش کے اثرات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کائنات میں موجود ہر شے اپنے مخصوص خواص اور اہمیت کی حامل ہے تو پھر بروج ، ثوابت و سیارگان کے مخصوص خواص سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔

زمانہ ءقدیم سے اپنے وقت کے اہل علم و دانش ان موضوعات پر غوروفکر کرتے رہے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ ریکارڈ مرتب ہوتا رہا ہے،اپنی گردش کے دوران میں سیارگان ایک دوسرے سے مختلف فاصلوں پر جو جومیٹریکل زاویے ترتیب دیتے ہیں وہ بھی اپنے اندر مخصوص نشانیاں رکھتے ہیں، صدیوں سے ان پر غور کیا جارہا ہے اور اس طرح علم نجوم ایک سائنسی علم کے طور پر ترقی کر رہا ہے۔

سائنس اور عقیدہ

اس میں شک نہیں کہ انسان اپنے مشاہدے اور مطالعے کے ذریعے دیگر کائناتی مظاہر کے ساتھ ساتھ فلکیاتی مظاہر پر بھی غوروفکر کرتا رہا ہے،مختلف ادوار میں اس نے اپنے مشاہدے اور تجربے سے بہت سے نتائج بھی یقیناً اخذ کیے ہوں گے لیکن دستاویزی طور پر سب سے قدیم ریکارڈ جو سنسکرت میں ہے ، مہارشی پراشرا کی کتاب ”برہت پراشرا ہورا شاستر“ سے حاصل ہوتا ہے، پراشرا 3200 قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے،گویا علم نجوم کے اصول و قواعد آج سے تقریباً پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ پہلے مرتب کیے گئے ہیں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف دیگر ماہرین فلکیات اس میں ترمیم و اضافے کرتے رہے۔

دوسری طرف مصر ، بابل اور یونان میں اس حوالے سے جو بھی تحقیق ہوئی اس کا باقاعدہ دستاویزی ثبوت بطلیموس (Patolamy)سے ملتا ہے، شاید بطلیموس کی پیدائش حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد ہوئی، یہ وہ زمانے تھا جب ستارہ پرستی عروج پر تھی، سیارگان کو خدائی صفات کا حامل تسلیم کیا جاتا تھا مثلاً سیارہ زہرہ کو حسن و عشق اور سیکس کی دیوی قرار دیا گیا تھا ، سیارہ شمس حاکمیت و اقتدار کا دیوتا ، سیارہ مریخ جنگ و جدل اور قتل و غارت کا دیوتا، سیارہ زحل تباہی اور نحوست کا دیوتا، سیارہ مشتری دولت اور سعادت کا دیوتا، اس حوالے سے یونان میں مشہور زمانہ معبد مشتری (Temple of jupiter) کو پرانے سات عجائبات میں بھی شمار کیا جاتا رہا، سکندر اعظم اسی معبد میں پیدا ہوا تھا اور اس کی ماں سکندر کو مشتری (زیوس) کا بیٹا سمجھتی تھی، سیاروں کے نام پر قائم معبدوں میں باقاعدہ قربانیاں دی جاتی تھی اور منتیں مانی جاتی تھیں لہٰذا اگر ہندوستان میں سیاروں کو دیوی دیوتاو¿ں کا درجہ دیا گیا تو مغرب میں بھی یہی کچھ ہوا، بطلیموس اپنے عہد کے عقائد سے کیسے انحراف کرسکتا تھا چناں چہ مخصوص سیارگان کو نحس اور سعد گروپس میں بانٹ دیا گیا اور یہ نظریات علم نجوم کی بنیاد بن گئے۔

طلوع اسلام کے بعد ستارہ پرستی کو ممنوع قرار دیا گیا حالاں کہ عرب میں اور خاص طور پر حجاز میں ستارہ پرستی یا ستارہ شناسی نہیں تھی البتہ یمن کا علاقہ معبد شمس کے حوالے سے مشہور ہے لیکن ایران اور عراق یا شام و فلسطین ستارہ پرستی کا گڑھ تھے ، بے شک حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی ستارہ پرستی کی مخالفت کی لہٰذا جب ان علاقوں پر عیسائی حکمرانوں کا قبضہ ہوا تو ستارہ پرستی سرکاری طور پر جاری نہ رہ سکی، البتہ ستارہ شناسی یا علم نجوم اپنی اصل حالت میں لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا۔

اس مرحلے پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بطلیموس کا تعلیم کردہ نظام شمسی زمین کو ساکت اور تمام سیارگان کو بشمول شمس گردش میں تسلیم کرتا ہے، چناں چہ اسی نظام شمسی کو مدنظر رکھتے ہوئے جب قرآن کریم کی تفاسیر لکھی گئیں تو خاصے ابہام پیدا ہوئے جو جدید سائنس کی روشنی میں سائنسی ذہن رکھنے والوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں، مسلمانوں کو جب علم فلکیات کی ضرورت کا احساس ہوا ، خصوصاً جہاز رانی کے حوالے سے سمندروں میں سفر کی ضرورت پیش آئی تو سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے حکم دیا ”لوگو! علم فلکیات سیکھو مگر رک جاو¿، مبادہ ستارہ پرستی میں مبتلا ہوجاو¿“گویا آپ علوم فلکیات کے مخالف نہیں تھے لیکن قدیم ستارہ پرستی میں مبتلا ہونے کا خطرہ محسوس کرتے تھے۔

تحقیق جدید

بطلیموس کے قائم کردہ نظام شمسی پر پہلی تنقید مسلم ماہرین فلکیات نے کی، عباسی خلیفہ ابوالمنصور بھی علم نجوم میں دسترس رکھتا تھا، اس کے ارد گرد اس دور کے قابل منجمین موجود تھے، چناں چہ جب بغداد کے شہر کی تعمیر شروع کی گئی تو بخت نامی ایک قابل منجم نے اس کی بنیاد رکھنے کے لیے سعد وقت کا انتخاب کیا، یہی وہ شخصیت ہے جس نے سب سے پہلے بطلیموس کے نظام شمسی پر شک و شبے کا اظہا کیا، اس کے بعد البیرونی نے بھی اعتراضات پیش کیے، البتہ پہلا سائنس داں جس نے زمین کے گردش کرنے کا نظریہ پیش کیا، وہ گیلیلو تھا، اس زمانے میں یورپ کلیسائے روم کے زیر اثر تھا لہٰذا اس گستاخی پر اسے موت کی سزا سنا دی گئی، اپنی زندگی بچانے کے لیے گیلیلو نے معافی نامہ لکھا اور اس طرح خاموشی اختیار کرلی۔

سولہویں صدی عیسوی میں کلیسا کا اثرورسوخ ختم ہوا، یورپ میں احیائے علوم کی لہر چل پڑی، ماہر فلکیات کوپر نیکس نے نئے نظام شمسی کی تھیوری پیش کی اور بعد ازاں اس کے شاگرد کیپلر نے اس کے کام کو مکمل کیا، آج جدید سائنس جس نظام شمسی کی ترتیب پر مطمئن ہے اور دنیا بھر کی رسد گاہیں جن اصولوں پر سیارگان کی رفتار کا حساب پیش کرتی ہیں اس کی ابتدا کیپلر ہی سے ہوئی۔

اصلاح احوال

مغرب ہو کہ مشرق علم نجوم ساری دنیا میں معروف و مقبول ہے،اس علم کے بنیادی اصول و قواعد مغرب میں بطلیموس کے مرتب کردہ ہیں، ان میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں عمل میں آئی، سوائے اس کے کہ پہلے زمین کو ساکت تسلیم کیا جاتا تھا اب اس کی گردش کا اعتراف کیا جاتا ہے لیکن سیاروں کے بارے میں بنیادی نظریات آج بھی وہی ہیں جو قبل از اسلام ستارہ پرستوں کے تھے یعنی سیارہ مریخ کو جلاد فلک اور سیارہ زحل کو نحوست و تباہی کا نمائندہ، مشتری و زہرہ کو سعادت کا نشان قرار دیا جاتا ہے، یہی نظریات بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر انڈین سسٹم جوتش ودّیا میں رائج ہےں بلکہ ہندو منجمین نے تو اس حوالے سے انتہا کردی کہ فلکیاتی سائنس میں اپنے مذہبی عقائد و نظریات بھی شامل کردیے۔

بیسویں صدی کے آغاز پر سائنس کی تیز رفتار ترقی مغرب میںدیکھنے میں آئی اور مغربی ماہرین نجوم نے اس حوالے سے نظریاتی طور پر اصلاح کی کوشش کی، انھوں نے سیارہ مریخ کو انرجی کا نمائندہ کہا اور سیارہ زحل کو ایک سخت گیر استادکا درجہ دیا لیکن اس کے باوجود بھی یہ تمام نظریات مسلمانوں کے دینی عقائد کو مجروح کرتے نظر آتے ہیں، تمام سیارگان کے حوالے سے ان کی فطری خصوصیات کی بنیاد پر انھیں بگاڑنے اور بنانے کا اختیار دینا اسلامی عقائد کے خلاف ہے،دین ہمیں جو تعلیم دیتا ہے اس کے مطابق قادر مطلق تو صرف اللہ رب العزت کی زات والا صفات ہے، اس کے حکم اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا،اس کا قائم کردہ نظام کائنات نہایت مکمل ، جامع اور حسابی اصولوں پر استوار ہے، وہ فرماتا ہے ”چاند اور سورج اپنے اپنے دائروں میں تیر رہے ہیں، نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ چاند کو پکڑے اور نہ چاند ہی اس کا اختیار رکھتا ہے“ یہ سب اختیار اگر ہے تو رب کائنات کے پاس ہے لہٰذا علم نجوم میں یہ سوچ رکھنا کہ کوئی ستارہ یا سیارہ یا کوئی برج انسان کے لیے فطری طور پر اچھا یا برا ہوسکتا ہے، ہمارے خیال میں غلط ہے، اللہ نے کائنات میں جن چیزوں کو سعد و نحس قرار دیا ہے، ان کا تذکرہ واضح الفاظ میں اپنی آخری کتاب میں کردیا ہے، ان چیزوں کے علاوہ ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم کسی اور شے کو فطری اور بنیادی طور پر سعد و نحس قرار دیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر علم نجوم کے اصول و قواعد کے مطابق کسی شخص یا ملک کے زائچہ ءپیدائش کی روشنی میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کے لیے فلاں سیارہ منحوس اثر رکھتا ہے اور فلاں سعد تو اس کا کیا مطلب ہے؟

اس سوال کا جواب بالکل سیدھا اور آسان ہے، دنیاوی امور میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو کسی شخص کے لیے اچھی یا بری ہوسکتی ہیں، مخالف یا موافق ہوسکتی ہیں اور ان کا فیصلہ اس شخص کے مخصوص حالات کے تحت ہی کیا جاتا ہے، جس طرح کسی شخص کی میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے کون سی دوا مناسب ہے اور کون سی خوراک اسے دینا چاہیے اور کون سی نہیں دینا چاہیے،بالکل اسی طرح زائچہ ءپیدائش کو بھی دیکھنا چاہیے،مقرر کردہ اصولوں کے تحت کون سا سیارہ اس کے لیے موافق ہے اور کون سا ناموافق، گویا یہ ایک عارضی اور ہر شخص کے لیے مخصوص حکم ہے،اسے کلیہ بناکر دنیا کے تمام لوگوں پر نافذ کرنا غلط ہوگا، ہمارے اکثر منجمین لوگوں کو زحل کی سختی یا نحوست سے ڈراتے یا سیارہ مشتری کی سعادت کی خوش خبری دیتے نظر آتے ہیں، یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس شخص کے زائچہ ءپیدائش میں یہ دونوں سیارے درحقیقت نحوست یا سعادت کا اثر رکھتے ہوں بصورت دیگر سیارہ زحل بھی کسی زائچے میں سعادت اثر ہوسکتا ہے اور سیارہ مشتری کسی زائچے میں نحس اثر کا حامل ہوسکتا ہے۔

اگر ہم بطور کلیہ یہ تسلیم کرلیں کہ سیارہ زحل نحوست و تباہی کا نشان ہے یا سیارہ مشتری سعادت و ترقی کے لیے ضروری ہے تو ہم شرک جیسے گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں، اسی بنیادی خرابی پر شاید ہم غور نہیں کرتے، دیگر غیر مسلم ممالک کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن پاکستان میں جب علم نجوم کا رواج ہوا تو ہمارے ابتدائی بزرگ منجمین نے بھی اس اہم نکتے پر شاید زیادہ غور نہیں کیا یا اسے نظرانداز کیا چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی علم نجوم جسے ہمارے ملک میں یونانی سسٹم کہا جاتا ہے ، ہمیشہ مقبول رہا، حالاں کہ یونانی سسٹم کے بنیادی اور فطری تصورات وہی ستارہ پرستی کے رہے ہیں جن کا اوپر تذکرہ ہوچکا ہے،اس حوالے سے دلیل یہ دی جاتی رہی کہ قدیم مسلمان منجمین بھی یونانی سسٹم ہی کو استعمال کرتے رہے ہیں،یہاں تک کہ علم جفر کے اعمال و وظائف میں بھی یونانی سسٹم ہی کو اہمیت دی گئی ہے،انڈین ویدک سسٹم سے ہمیشہ دوری اختیار کی گئی جس کی وجہ یہ تھی کہ اسے ہندو بت پرستوں کا علم کہا گیا ہے حالاں کہ علم کوئی بھی ہو، ہندو، مسلم، عیسائی یا یہودی نہیں ہوتا، علم صرف علم ہوتا ہے،کیا جدید سائنس کے نظریات سے صرف اس لیے منہ موڑا جاسکتا ہے کہ وہ یہودی یا عیسائی سائنس دانوں کی ایجادات اور تحقیق کا ثمرہ ہیں؟

ہم پہلے بھی وضاحت کرچکے ہیں کہ انڈین ویدک سسٹم جس کے اولین بانی مبانی ہندو اسکالر رہے ہیں جن میں سرفہرست پراشرا کا نام آتا ہے،ہندو مائیتھا لوجی کے زیر اثر رہا، ایک طویل عرصے تک اس علمی سائنس کو دیوی دیوتاو¿ں کے عقائد و نظریات کے طابع رکھا گیا ہے لیکن بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں انڈیا ہی میں ایسے ماہرین فلکیات پیدا ہوئے جنھوں نے ویدک سسٹم کو خالص سائنسی بنیادوں پر ترقی دی اور مذہبی یا مائیتھالوجیکل نظریات و عقائد سے پاک کیا، ایسے لوگوں میں شمالی ہندوستان کے پروفیسر وی کے چوہدری کا نام سرفہرست ہے،ان کی تحقیق کو سراہا گیا اور انھیں نوبل انعام کے لیے بھی منتخب کیا گیا،یہ الگ بات ہے کہ انھیں یہ انعام نہیں مل سکا لیکن نوبل کے لیے نامزد ہونا بھی اسی صورت میں ممکن تھا جب علم نجوم کی سائنسی حیثیت کو تسلیم کرلیا جاتا اور یہ کارنامہ بہر حال پروفیسر چوہدری نے انجام دیا،پاکستان میں چوہدری صاحب کی علم نجوم سے متعلق تحقیق اور ان کے مرتب کردہ اصول و قواعد کو عام کرنے کی ہم نے کوشش کی اور اس حوالے سے دوکتابیں بھی اردو زبان میں پیش کیں۔

موجودہ دور میں ویدک سسٹم اب پوری دنیا میں مقبول ہورہا ہے اور مغرب کے بڑے بڑے منجمین اس کی پیروی کر رہے ہیں لیکن ہمارے پاکستان میں آج بھی اسی قدیم یونانی سسٹم کی پیروی کی جارہی ہے جو ستارہ شناسی سے زیادہ ستارہ پرستی کی طرف لے جاتا ہے،اس غلط روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے محترم سید انتظار حسین شاہ زنجانی نہایت روشن دماغ اور بالغ نظر انسان ہیں، ہم نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ وہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہیں اور پاکستان میں علم نجوم کی ترقی کے لیے ممکن حد تک کوشاں رہتے ہیں، زیر نظر مضمون انہی کی فرمائش پر تحریر کیا گیا ہے۔