بھارت و پاکستان کے درمیان جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے

کشمیر میں بھارتی کارروائی درحقیقت پاکستان کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے، ہم دونوں ملکوں کے زائچوں کی روشنی میں تازہ صورت حال کی وضاحت اپنے گزشتہ کالم میں کرچکے ہیں، پاکستان بلاشبہ خاصی حساس پوزیشن میں آچکا ہے، پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہے، کسی بھی تصادم کے لیے تیار ہے، اقوام متحدہ سے بھی رابطہ کرلیا گیا ہے اور دیگر سفارتی ذرائع بھی استعمال ہورہے ہیں لیکن کیا صرف اتنا کافی ہے؟انڈیا کے وزیراعظم کا مذہبی و نسلی جنون ایسے اقدام سے کم ہوجائے گا؟اس کا جواب نہیں میں ہے، پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کو اس سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا اور اس کا امکان موجود ہے، ایک معتبر ذرائع کے مطابق پاکستانی سفیر بھی اب جنگ کو ناگزیر سمجھ رہے ہیں۔
بھارت اور پاکستان دونوں کے زائچوں میں تیزی سے تبدیل ہوتی سیاروی پوزیشن دونوں ممالک کو جنگ کی طرف لے جارہی ہے، نریندر مودی ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہے، شاید پاکستان کو بھی تیار ہونا پڑے گا کیوں کہ عوامی دباو¿ بڑھ رہا ہے، وہ لوگ بھی جو ہمیشہ جنگ مخالف رہے ہیں، اب جنگ کی باتیں کر رہے ہیں، دونوں ملکوں کے زائچوں میں زہرہ و مریخ جنگ کی آگ کو ہوا دینے والے سیارے ہیں اور زائچے کے چوتھے گھر میں داخل ہوچکے ہیں، اس کا تعلق عوام اور ملک کی داخلی صورت حال سے ہے، اس حوالے سے اگست ، ستمبر اور اکتوبر کے مہینے نہایت حساس اور خطرناک ہیں، بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ جنگ کا آغاز پاکستان کی طرف سے نہیں ہوگا، حالاں کہ بھارت تو آغاز کرچکا ہے، پاکستان سفارتی کوششوں سے اس جنگ کو ٹالنا چاہتا ہے، ہماری دعا ہے کہ جنگ کے شعلے ہمارے ملک سے دور رہیں کیوں کہ ہم بہر حال معاشی طور پر پہلے ہی شدید دباو¿ میں ہیں

اے خاصہءخاصان رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تِری آکے عجب وقت پڑا ہے

ہے کہاں تمنا کادوسرا قدم یا رب

اکثر افراد خاص طورسے خواتین جب اپنے نہایت الجھے ہوئے پیچیدہ ترین مسائل ہمیں لکھتے ہیں اور ساتھ میں یہ فرمائش کرتے ہیں کہ خط کا جواب کالم کے ذریعے دیاجائے اورہمارا نام اورخط کالم میں شائع نہ کیاجائے۔ مزید یہ بھی فرمائش ہوتی ہے کہ جواب نہایت تفصیل سے دیاجائے۔
ہم بھی اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اصل نام وپتا ظاہر نہ کیا جائے اور اکثربہت ضروری نہ ہوتو خط اور سوالات شائع کیے بغیر ہی جواب دے دیتے ہیں۔ الجھن اس وقت پیش آتی ہے جب نہایت پیچیدہ مسائل کے حوالے سے تفصیلی جواب طویل ہوتا نظر آئے چونکہ بعض گتھیوں کوسلجھانے کے لیے بہت سے پہلوﺅں پر بات کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگراصل مسائل سے متعلق خط شائع نہ کیاجائے تو ہمارے دیگر پڑھنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہوجاتی ہے۔ اس طرح وہ صرف ہمارا جواب پڑھ کر مطمئن نہیں ہوتے کیونکہ مسئلے کی اصل تصویر ان کی نظروں میں واضح نہیں ہوتی اور وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ ہم نے اپنا پورا کالم کسی ایک شخص کومخاطب کرکے لکھ دیاہے‘ حالاں کہ ایسانہیں ہوتا۔ ہم عموماً ایسے ہی خطوط کا تفصیلی جواب لکھتے ہیں جن میں مسائل ایسے ہوں جودوسروں کوبھی پیش آسکتے ہیں یا آتے ہیں ایک ایسا ہی خط اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم نام ومقام ظاہر کیے بغیر خط کے صرف ایسے اقتباسات نقل کررہے ہیں جن سے مسئلے کی نوعیت واضح ہوسکے اورایسااس لیے کررہے ہیں کہ یہ مسائل ہماری کسی ایک بیٹی کے نہیں ہیں بلکہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہزاروں بہنیں ‘بیٹیاں ایسی ہی کسی نہ کسی صورت حال سے دوچار ہیں اوران میں سے اکثر خودکشی یا کسی دوسرے غلط راستے کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوتی ہیں ان کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔یہ معاملات حکومت کے دائرہ اختیار میں بہرحال نہیں آتے مگران معاملات کے معاشرتی اورمذہبی پہلو ایسے بھی ہیں جن پردانشوران وقت اورعلمائے کرام کووقت کے تقاضوں کے مطابق زبان کھولنی چاہیے۔
برسوں پہلے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی جوکہنے کوایک اشتراکی شاعر تھا اپنی ایک نظم میں خواتین پرہونے والے مظالم کے لیے جوفریاد کرگیاہے اس کی گونج ابھی باقی ہے اورا س کی ضرورت بھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
ساحر لدھیانوی نے اپنی شہرئہ آفاق نظم ”چکلے“ کا اختتام مندرجہ ذیل مصرعوں پر کیاتھا۔

مددچاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
پشودھاکی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبرکی امت زلیخا کی بیٹی
ذرا ملک کے رہبروں کوبلاﺅ
یہ کوچے پہ نیلام گھر سب دکھاﺅ
ثناءخوان تقدیس مشرق کولاﺅ
ثناءخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

آئیے!اس خط سے چند چیدہ چیدہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے مگراس سے پہلے ہم آپ کویہ بتاتے چلیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لاتعداد خاندان موجود ہیں جہاں ماں باپ نے بھیڑ بکریوں کی طرح بچوں کے ریوڑ تو پال لیے ہیں اورپال بھی کیا لیے ہیں بس اﷲ کے کرم سے وہ خود ہی جیسے تیسے پل کرجوان ہورہے ہیں۔ ان کی شادیوںکے سلسلے میں انہیں اگرکوئی فکر ہے توصرف اس قدرکے جب اﷲ کی مرضی ہوگی توشادی ہوجائے گی یہ بات کہہ کراکثرلوگ خودکومطمئن کرلیتے ہیں اورپھر اپنے حال میں مست ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اﷲ کی مرضی توہروقت شامل حال ہے۔خود آپ کی مرضی اورموڈ اورآپ کی کوشش اورجدوجہد کی نوعیت کیاہے؟ یہ بھی ایک ایسے ہی خاندان کا قصہ ہے جس میں تقریباً درجن بھربہن بھائی منزل بلوغت کی دہلیز پر کھڑے اپنے آئندہ مستقبل کے بارے میںسوچ رہے ہیں۔

انجام گلستاں کیا ہوگا؟

نامعلوم بیٹی لکھتی ہے ”سر‘ہمارے گھر کا یہ حال ہے کہ ہرشاخ پرالو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا۔ میں آپ کوچیلنج کرتی ہوں کہ اگرآپ میں ہمت ہے تو ہمارے گھر کے ماحول میں زیادہ نہیں توکم سے کم 3`2دن گھرکا فرد بن کررہیں۔مجھے یقین ہے آپ دوسرے دن ہی کانوں کوہاتھ لگاکربھاگیں گے۔ آپ مرد ہیں بھاگ بھی سکتے ہیں، مسئلہ تو ہم لڑکیوں کا ہے کہ ہم بھاگ کرکہاںجائیں؟گھرمیں ہروقت ٹینشن ‘ہرلمحہ ایک دوسرے سے توتو میں میں‘نہ بڑے کوچھوٹے کا لحاظ ‘نہ چھوٹے کوکوئی تمیز ‘ماں باپ کی لڑائیاں ‘بہن بھائیوں کے درمیان سخت نفرت اوردلوں میں کدورت ‘ہماری عمریں نکلی جارہی ہیں کوئی پرسان حال نہیں ۔ہم بیٹیاں ہوکراپنی گزرتی عمروں کی طرف ابوامی کی توجہ دلاتے ہیں مگرایک ہی جواب ہے کہ ”بیٹا، اﷲ مالک ہے“۔
پہلے بہت اچھے اچھے رشتے آتے تھے مگرجب گھرکے افرادہی مخلص نہ ہوں توکوئی کیا کرے۔ ان کے آگے بڑی بڑی شرطیں رکھ دی جاتیں تاکہ وہ دوبارہ پلٹ کرہی نہ آئیں۔ بعد میں یہ کہہ دیاجائے کہ یہ لوگ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔اب تویہ حال ہے کہ لوگ جان گئے ہیں کہ اس گھر سے رشتہ ملنا ناممکن ہے۔
آپ ایک بات کا جواب مجھے ضرور دیں کہ جب اولاد کوماں باپ خاص کرباپ ان کے جائز حقوق نہ دے نہ ا چھی تعلیم ‘نہ اچھا ماحول اورنہ اچھی تربیت نہ کوئی عزیز دوست۔ نہ ہی سہیلیاں بنانے کی اجازت نہ خاندان میں کہیں جانے کی اجازت ‘نہ کسی شادی میں شرکت کی اجازت‘ حتیٰ کہ مرضی کا کھانا پہننا بھی ناممکن۔ توایسی صورت میں ایسے والدین کا کیا کیاجائے ؟جب کہ بڑے بڑے عالم دین اوراسلامی کتابیں یہی بتارہی ہیں کہ والدین کی خدمت کرو۔ان کے سامنے اف تک نہ کروچاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔ میراآپ سے یہ ہی سوال ہے ؟کیا اس کا جواب آپ کے پاس ہے؟
میں توروروکر‘گڑگڑاکراﷲ سے دعائیں کرتی ہوں باقاعدہ تہجد پڑھ کے ہرطریقے سے اﷲ کوراضی کرنے کی کوشش کرتی ہوں اوراس کی ذات سے بالکل مایوس بھی نہیں ہوں مگریہ بتائیں کہ وظیفے کا کیا مطلب ہوتاہے ؟اگرہرکام اپنے وقت پرہی ہونا ہے اور ہرچیز اپنے وقت پرہی ملنی ہے توہم کیوں اس کے حصول کے لیے وظائف کرتے ہیں؟ بہت پہلے ایک بارآپ نے میرے خط کے جواب میں بڑی امیددلائی تھی اورمیںنے ایک وظیفہ بھی کیاتھا مگرابھی تک صورت حال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس سلسلے میں آپ کا کیا جواب ہوگا؟“
جواب؛۔عزیزم‘آپ نے اپنے بہت سے سوالوں کا جواب توخود ہی دے دیاہے۔ مثلاً جس خاندان میں بے حسی ‘نفسانفسی ‘حسد ‘جلن ‘ذاتی مفاد پرستی ‘فرائض سے غفلت ‘محبت اورخلوص کا فقدان‘ رشتوں کی بے توقیری اس حد تک ہووہاں سے اﷲ کی رحمت توپہلے ہی رخصت ہوجائے گی۔ ایسا گھرتوشیطان کی ذریات کے لیے جشن گاہ ہوگا۔ وہاں ایک اکیلا چنا کیا بھاڑپھوڑے گا۔یعنی آپ کی نمازیں‘تہجد اوروظائف اس شیطانی کارخانے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ جہاں وہ لوگ جوصاحب اختیار واقتدار ہیں خودغلط روش اپنائے بیٹھے ہیں خصوصاً تمہارے باپ۔
تمہارے اس قصے میں اہم ترین سوال یہی ہے کہ ایسی صورت میں مذہبی نقطہ نظر کیاہوگا؟تم نے کتابوں اورعلما کی باتوں کا حوالہ دیاہے جس میں والدین کی خدمت اوران کاحکم ماننے کوہرصورت میں اولیت دی گئی ہے لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے جوتم نے دیکھا یا آج کل دکھایاجاتاہے۔ دوسرے رخ پر یا توکسی کی نظرنہیں جاتی یا شاید مذہب کے اس پہلو کوجان بوجھ کر صرف اس لیے نظرانداز کیاجاتاہے کہ اس سے معاشرے میں افراتفری اوربغاوت پھیلنے کا خطرہ ہے۔
مگرہمارا موقف یا ہماراخیال معاشرے کے موجودہ ٹھیکیداروں کی رائے کے برعکس ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ناجائز اورظالمانہ طورپرپروان چڑھنے والی روایات کونظرانداز کرنا دین فطرت کے خلاف عمل ہے جس کے نتائج کبھی بھی اچھے نہیں نکل سکتے۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ شادی اﷲ کے نزدیک ایک پسندیدہ فعل ہے۔ کیونکہ یہ انسانی نفسیات اورمعاشرتی بھلائی کیلئے ایک صحت مند قدم ہے۔ سن بلوغت کوپہنچنے کے بعد جومسائل جنم لے سکتے ہیں شادی ان کا کافی وشافی علاج ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کے ارتقائی مراحل کا پہلا زینہ بھی ہے لہٰذا اﷲ اوراس کے رسول نے اس سلسلے میں واضح احکامات دیئے ہیں اوریہ بھی کہاگیاہے کہ اگرتمہارے والدین تمہاری شادی نہ کریں اوراس سلسلے میں رکاوٹ کا سبب بنیں تو تم اپنی شادی خودکرلو۔
آپ نے جوحوالہ دیا ہے کہ ماں باپ غیر مسلم بھی ہوں توان کا حکم ماننے اوران کی خدمت کرنے ‘ان کے سامنے باادب رہنے کاحکم ہے۔ توبے شک یہ درست ہے مگریہ مکمل بات نہیں ہے، مکمل بات یہ ہے کہ اگرآپ کے ماں باپ غیر مسلم یعنی کافر ہیں تویقیناً ان کی خدمت اوران کااحترام توآپ پرفرض ہے مگران کاکوئی ایسا حکم ماننا آپ پرفرض یا واجب نہیں ہے جوآپ کودین سے دورلے جاتاہو اوردین کا مطلب ہے احکامات الٰہی ‘لہٰذا شادی ایک حکم الٰہی ہے۔ سنت نبوی ہے اگرآپ محسوس کررہے ہوں کہ آپ کے والدین یا کوئی بھی اس معاملے میں رکاوٹ ڈال رہاہے اورآپ کواس فریضے کی ادائیگی سے روک رہاہے تو آپ اس کی بات ماننے کے پابندنہیں ہیں بلکہ اپنے طورپر مناسب فیصلہ کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ عاقل وبالغ ہوں۔
مسئلے کے اس حصے کواس لیے فروغ نہیں دیاجاتاہے کہ اس طرح نوجوان لڑکے لڑکیاں پسند کی شادی اورماں باپ سے بغاوت کی راہ پرچل پڑیں گے۔حالانکہ پسند کی شادی اورمحبت کی نادانی کے کھیل بلاشبہ اس صورت میں قطعاً ناجائز ہیں جس میں لڑکیاں اپنے شریف اورذمہ دار محبت کرنے والے ماں باپ کی عزت اچھالتی نظر آتی ہیں یالڑکے اپنے ماں باپ ‘بہن بھائی اوردیگراہل خانہ سے منہ موڑ کرمحبت کی شادی رچالیتے ہیں اورپھرپلٹ کربوڑھے ماں باپ کی خبربھی نہیں لیتے لیکن جہاں صورت حال ایسی ہوجس کا آپ نے اظہار کیا ہے کہ لڑکیاں لڑکے جوانی کی دہلیز پار کرکے بڑھاپے کے ویران وسنسان صحرا میں داخل ہورہے ہوں اوروالدین اپنی ہی مستی میں مست ہوں،اپنے خودساختہ اصول وقواعد اورطورطریقوں پربضد ہوں تویہ توکھلی ہوئی دین فطرت کی خلاف ورزی ہے۔
ہمارے پاس اکثرآپ جیسی بے شمار لڑکیاں آتی رہتی ہیں جن کی عمریں 40`35تک پہنچ جاتی ہیں۔ اورشادی نہ ہونے کی وجہ کچھ ان کی غلط سوچ اورحماقیتں ہوتی ہیںاورکچھ ان کے گھروالوں کی۔ رہا سوال وظائف کی اثرپذیری کا توعزیزم‘ہم کئی باران ہی کالموں میں اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ روحانی مدد بھی ان ہی لوگوں کوملتی ہے جو مادی طورپر اپنا راستہ درست رکھتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص قابل ترین ڈاکٹر سے عمدہ ترین دوائیں لاکر کھارہاہواور ساتھ میں ایسی اشیا بھی استعمال کررہاہوجن سے پرہیز لازم تھا اورپھروہ کہے کہ مجھے دوا سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسی مثالیں اکثرہمارے سامنے آتی رہتی ہیں جس میں روحانی مدد کے طالب افراد مادی طورپر وہ کچھ نہیں کررہے ہوتے جوانہیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے کرناچاہیے یا مادی طورپر موجودہ رکاوٹوں کودور کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھارہے ہوتے۔اگرکسی ظالمانہ ماحول یا نظام میں پھنسے ہوئے ہیں تواسی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ بے شک دل سے اورزبان سے اس کے مخالف ہوتے ہیں لیکن عملی طورپراس سے نکلنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔بے شک ہماری خواتین اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی مجبوراوربے بس ہوتی ہیں لیکن ہم نے تویہ بھی دیکھا ہے کہ مرد حضرات بھی ایسی صورت حال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی ایک صاحب ہمارے پاس آئے جن کی عمرتقریباً42`40سال تھی اوروہ اس لیے پریشان تھے کہ اب تک ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اوراس کی وجہ ان کے گھروالے تھے جوگزشتہ دس بارہ سال سے ان کے لیے لڑکی ڈھونڈنے میں مصروف تھے مگرکہیں بات بن ہی نہیں رہی تھی الغرض ایسی بے شمار مثالیں معاشرے میں موجود ہیں لیکن اکثریت لڑکیوں کی اس عذاب میں مبتلاہے کیونکہ وہ اگراپنے طورپرکوئی کوشش کرناچاہیں توہمارا معاشرہ ایک طوفان کھڑا کردیتاہے اوران پر ایسے ایسے گندے الزامات لگائے جاتے ہیں جنہیں بیان کرنا ضروری نہیں۔ ایسی صورت حال میں وہ بے چاریاں کیاکریں؟ ہمارے خیال میں تواس وقت تک ایسے مظلوموں کے لیے کوئی راستہ نہیں نکل سکتا جب تک معاشرتی روایات کووقت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
آپ نے اپنے خط میں جس صورت حال کی نشاندہی کی ہے اس میں وظائف اگراپنا کوئی اثردکھائیں بھی تو اس کانتیجہ کیا نکلے گا۔ یہی ناکہ آئے ہوئے رشتوں کوبھی مختلف بہانوں سے واپس کردیاجائے گا۔ جیساکہ خودآپ کے بقول پہلے بھی یہی ہوا۔ لہٰذا وظائف کوالزام دیناکسی صورت جائزنہیں۔ آپ کے مسئلے میں توویسے بھی ایک پیچ یہ بھی پڑا ہواہے کہ پہلے بڑی بہنوں کی شادی ہوتوپھرکہیں آپ کانمبرآئے گا۔
جیسی صورت حال کی آپ نے نشاندہی کی ہے اس میںہم اس بات کوبہترسمجھتے ہیں کہ لڑکیاں گھرمیں بیٹھنے کے بجائے اپنا کوئی کرئر بنانے پرتوجہ دیں۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ وہ مالی طورپر بہترپوزیشن میں آجاتی ہیں بلکہ ان کے ذاتی اعتماد میں بھی اضافہ ہوجاتاہے اوران میں اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی ہمت وجرا¿ت پیدا ہوتی ہے۔ خصوصاً ملازمت پیشہ لڑکیاں اس طرح اپنے اہل خانہ کے علاوہ بھی اپناایک حلقہ شناسائی پیدا کرلیتی ہیں اورجب معاشرتی میل جول بڑھتاہے تومناسب رشتوں کاحصول بھی آسان ہوجاتاہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آرہاہے کہ ایسی صورت حال میں پھنسی ہوئی لڑکیاں اپنے کرئر کے لیے بھی اس لیے کچھ نہیں کرپاتیں کہ گھرکے جاہل اور جابرسربراہ مذہب اورغیرت کے نام پر انہیں گھر سے نکلنے ہی نہیں دیتے، ان غیرت مندوں کی غیرت صرف اسی حوالے سے زیادہ جوش میں آتی ہے کہ ہمارے خاندان میں عورت کا ملازمت کرنابے عزتی کی بات ہے اوراس حوالے سے انہیں مذہب کی بھی بہت سی روایات یاد آنے لگتی ہیں لیکن جوظلم وہ ان جیتی جاگتی زندہ جانوں پرکررہے ہوتے ہیں اس کا گناہ انہیں کبھی محسوس نہیں ہوتا۔ نہ اس حوالے سے کوئی قرآنی حکم یا مذہبی روایات انہیں یاد آتی ہےں۔ ہاں ‘ہنگامہ اس وقت برپا ہوتاہے جب کوئی باغی یا سرکش لڑکی بالآخر کوئی سہارا ڈھونڈکرخاموشی سے اس کے ساتھ گھرسے نکل جائے۔
تمہیں ہم کیا مشورہ دیں اورتمہارے لیے کون ساعمل یا وظیفہ تجویز کریں صرف ایک ہی بات ایسی ہے جوتمہارے تمام مسئلوں کا حل ہے۔ اگرتم نے اس پرعمل کیا تویقیناً ایک نہ ایک دن اپنے سارے مسائل سے نجات پاجاﺅگی اوروہ یہ ہے کہ ان باتوں پرکبھی سمجھوتا نہ کروجوفطری اصولوں کے خلاف نظرآتی ہےں، خواہ اس مزاحمت کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ باقی تم نے ہم سے اپنے زائچے اوردیگر معاملات میں مدد کی جودرخواست کی ہے ،اس سے ہمیں انکارنہیں ہے،ہم جوکچھ کرسکتے ہیں ضرور کریں گے۔