امریکی جنگ جویانہ فطرت دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے قریب لے آئی

مذہبی جنون بھارت میں اپنی آخری حدوں کو چھورہا ہے اور ایک ایسی سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہے جو ابتدا ہی سے مذہبی انتہا پسندی کے لیے مشہور ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی 2014 ءمیں برسراقتدار آئی تھی لیکن اسمبلی میں اسے ایسی واضح اکثریت نہیں مل سکی تھی کہ وہ اپنے انتہا پسندانہ نظریات پر پوری طرح عمل درآمد کرسکے، 2019 ءکے انتخابات میں اسے یہ موقع حاصل ہوگیا ہے چناں چہ وزیراعظم نریندر مودی کو مقبوضہ کشمیر پر ایک سخت وار کرنے کا موقع مل گیا اور انھوں نے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی بین الاقوامی شناخت ختم کردی ہے، اس آرٹیکل کے تحت جو سابق بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے باہمی مذاکرات کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا، کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی، وہ بھارت کا حصہ نہیں تھا بلکہ ایک آزاد ریاست تھی، اس کا اپنا پرچم تھا، اپنی خود مختار قومی اسمبلی تھی، خیال رہے کہ 1947 ءمیں بھی کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور پر برصغیر کے نقشے میں نمایاں تھا، یہاں مسلم آبادی اکثریت میں تھی لیکن حکومت ایک ہندو راجا کی تھی، مسلم اکثریت چاہتی تھی کہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کرے لیکن ہندو راجا اس کے لیے تیار نہیں تھا، اس نے اپنے طور پر بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا مگر یہ شرط قائم رکھی کہ کشمیر کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے گا، چناں چہ 26 اکتوبر 1947 ءکو بھارتی فوجیں اس کی دعوت پر کشمیر میں داخل ہوگئیں اور اس طرح بھارت جابرانہ طور پر کشمیر پر قابض ہوگیا۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اس موقع پر فوجی مداخلت کی کوشش کی لیکن اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا، وہ براہ راست برطانیہ کے زیر اثر تھا اور اس وقت تک دونوں نوزائیدہ ممالک بھارت اور پاکستان پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے، برطانوی اثرورسوخ حاوی تھا، بھارت میں برطانوی گورنر جنرل لارڈ ماو¿نٹ بیٹن بھارتی مفادات کی نگرانی کر رہا تھا۔
یہ تنازع بالآخر اقوام متحدہ تک پہنچ گیا جو بھارتی مفاد کے خلاف تھا، چناں چہ بھارت نواز مسلم لیڈر شیخ عبداللہ کو بھارتی وزیراعظم نہرو نے اس بات پر راضی کرلیا کہ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت دے دی جائے، اس طرح مسلم لیڈر شیخ عبداللہ کی حکومت قائم ہوگئی اور نہرو کو یہ بہانہ مل گیا کہ مسلم اکثریتی علاقے میں ایک مسلم حکومت قائم ہے جو اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہے۔
پاکستان نے بھی اپنے زیر اثر کشمیری علاقے میں ایک علیحدہ ریاست قائم کردی جو آزاد کشمیر کہلاتی ہے، اسے بھی خصوصی حیثیت حاصل ہے، اس کا پرچم ، اسمبلی اور حکومت کا سربراہ الگ ہے لیکن یہ تنازع گزشتہ 70 سال سے بھارت و پاکستان کے درمیان جاری ہے اور اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان جنگیں بھی ہوچکی ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
نریندر مودی نے اس آرٹیکل کو ختم کرکے کشمیر کو بھارت کے ساتھ ضم کرنے کی جو کارروائی کی ہے یہ اگرچہ خود بھارت کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگی لیکن پاکستان کے لیے بھی ایک تکلیف دہ عمل ہے،کشمیری مسلمان مسلسل ظلم و زیادتی کا شکار ہورہے ہیں، ان کی نسل کشی کی جارہی ہے، پورے کشمیر کو فوجی چھاو¿نی بنادیا گیا ہے اور کرفیو نافذ کردیا گیا ہے، انٹرنیٹ یا ٹیلی فون کی سہولت منقطع کردی گئی ہے۔
عزیزان من! ہم نے شروع سال ہی میں موجودہ سال 2019 ءکے حوالے سے لکھا تھا کہ یہ سال ایک نہایت غیر معمولی سال ہے، ”آفاتِ ارضی و سماوی اور اختلافات و جنگ و جدل کا سال “چناں چہ آج دنیا بھر میں صورت حال کچھ ایسی ہی ہے، ہم نے لکھا تھا ”جون 2019 ءسے 17 اگست 2019 ءتک نہایت ہی حساس اور خطرناک وقت ہوگا، اس وقت میں تیسری عالمی جنگ کے آغاز کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے، اس وقت کے عالمی لیڈر صورت حال کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں، اس پر مستقبل کے نئے منظر نامے کا انحصار ہوگا، کیا کوئی ہٹلر ٹائپ شخصیت جنگ کے شعلوں کو ہوا دے گی یا کوئی چرچل ، ڈیگال یا روز ویلٹ ٹائپ کردار صورت حال کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگا، نریندر مودی ، مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ، بشارالاسد، کم جون آف کوریا، جنرل عبدالفتح السیسی نمایاں طور پر جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والے لیڈر ہوسکتے ہیں جب کہ طیب اردوان ، ولادی میر پیوٹن، چینی صدر اور عمران خان کا کردار مصالحانہ ہوسکتا ہے“
ایک طرف ایران اور امریکا تنازع جاری ہے جو اب خاصی پیچیدہ نوعیت اختیار کرتا جارہا ہے، دوسری طرف بھارت نے یہ نیا شگوفہ کھلادیا ہے، تیسری جانب پہلے سے جاری چین اور امریکا محاذ آرائی اس سال لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہے، چین کا سی پیک منصوبہ بھی امریکا کی نظر میں کھٹک رہا ہے، دنیا بھر میں ایک نئی صف بندی ہورہی ہے جس کا مرکزی کردار بہر حال امریکا ہے، امریکی زائچے میں ایسے عوامل موجود ہیں جو اس کی جنگ جویانہ فطرت کی نشان دہی کرتے ہیں، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی عالم گیر جنگ سے آج تک امریکی فوجیں ہمیشہ کسی نہ کسی تنازع میں ملوث نظر آتی ہیں، گزشتہ 19 سال سے امریکا افغانستان میں محاذ آرائی کرتا رہا ہے اور اب اس کی سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ افغان قوم کو غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی نئے محاذ بھی کھول رہا ہے،خصوصاً ایران، چین اور شمالی کوریا اس کا ہدف ہےں، شام میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں بھی امریکی مداخلت موجود ہے، یہاں اس کی محاذ آرائی روس سے ہے۔
ایک اور محاذ ایشیا میں جنوبی یمن اور سعودی عرب کے درمیان گرم ہے، گویا 2019 ءکا سال پوری دنیا میں کسی نہ کسی محاذ آرائی کے حوالے سے اہمیت اختیار کرچکا ہے جس کا نتیجہ بالآخر کسی عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اگرچہ خاصی پرانی ہے لیکن کشمیر کی نئی صورت حال دونوں ملکوں کو بہر حال کسی خطرناک جنگ تک لے جاسکتی ہے جس کا امکان روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے، خصوصی طور پر بھارت کے زائچے کی روشنی میں۔
2015 ءمیں ہم نے اس صورت حال کی نشان دہی کی تھی اور بتایا تھا کہ بھارتی زائچے میں قمر کا دور اکبر شروع ہوچکا ہے جو زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم اور اسی گھر میں موجود ہے، زائچے کا تیسرا گھر کوشش ، پہل کاری، جدوجہد اور رجحانات کو ظاہر کرتا ہے، بدقسمتی سے قمر پر ساتویں گھر کے قابض کیتو کی قریبی نظر ہے کیتو کا تعلق انتہا پسندانہ فیصلوں، اقدام اور رجحانات سے ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ 2015 ءکے بعد سے انڈیا میں مذہبی انتہا پسندی کا رجحان نہایت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور آج کل اپنے عروج پر ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ کامیابی بھی کسی متشدد رجحان کا سبب ہے، بھارت جو کبھی ایک سیکولر اسٹیٹ کے طور پر مشہور تھا، اب ہندو نظریاتی ریاست بن چکا ہے۔
بھارتی زائچے میں کثرت سیارگان تیسرے گھر میں ہے ، قمر کے علاوہ عطارد ، شمس، زہرہ اور زحل بھی اسی گھرمیں ہےں، شمس کی قربت کے سبب سیارہ زحل اور زہرہ غروب ہیں، سیارہ مریخ زائچے کے دوسرے گھر میں دوسرے ، پانچویں، آٹھویں اور نویں گھر سے ناظر ہے، گویا شدت پسندانہ نظریات اور رجحانات پیدائشی طور پر بھارت کو ملے ہیں، شاید اسی وجہ سے بھارت کے قیام کے فوری بعد ایک شدت پسند نے تحریک آزادی کے اہم رہنما گاندھی کو قتل کردیا تھا، قاتل کا تعلق ایک انتہا پسند جماعت سے تھا جو ”اکھنڈ بھارت“ کا نعرہ لگاتی ہے اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے سیاسی کرئر کی ابتدا اسی جماعت آر ایس ایس سے کی تھی، تحریک آزادی کے اہم رہنما گاندھی کا قاتل اس جماعت اور موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہیرو ہے۔
راہو کیتو بھارت کے زائچے میں شرف یافتہ ہےں، قمر کے دور اکبر میں گیارہ اگست 2018 ءسے سیارہ مشتری کا دور اصغر جاری ہے جو اس سال گیارہ دسمبر کو ختم ہوگا، سیارہ مشتری بھارتی زائچے کا سب سے منحوس سیارہ ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں بھارتی رویہ اور اقدام منفی ہیں، مصالحت ، امن اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کے بجائے مودی حکومت مسلسل محاذ آرائی اور نفرت کو فروغ دے رہی ہے، پاکستان کے خلاف مودی حکومت گزشتہ کئی سالوں سے سازشوں میں مصروف ہے، اس کا ثبوت بلوچستان سے گرفتار کیا جانے والا جاسوس کلبھوشن ہے، یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بلوچستان کے باغیوں کی سرپرستی بھارتی خفیہ ایجنسی را کر رہی ہے ، دوسری طرف افغانستان میں بھی بھارت اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہا ہے، پاکستان کی مصالحانہ اور امن پسندانہ کوششوں کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے، کشمیری عوام کی آزادی کی کوششوں کو کچلنے کے لیے پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کی کوششیں کر رہا ہے، یہ سب اسی لیے ہے کہ کشمیر پر اپنا ناجائز تسلط مستقل بنیادوں پر قائم کیا جائے۔
جولائی کے آخر سے سیارہ مشتری اپنی ٹرانزٹ پوزیشن میں ساتویں گھر میں تقریباً 21 درجے پر اسٹیشنری پوزیشن پر ہے اور اسی دوران میں دیگر سیارگان شمس، زہرہ، مریخ اور عطارد بھی تیسرے گھر سے گزر رہے ہیں، گویا پیدائشی سیاروں سے ناظر ہیں اور مشتری سے بھی نظر بنارہے ہیں لیکن خاص طور پر مشتری کی نظر زحل اور زہرہ سے 23 جولائی تا یکم ستمبر قائم ہے، یہی وہ صورت حال ہے جس نے نریندر مودی کو اس وقت ایک نامناسب فیصلہ کرنے پر آمادہ کردیا ہے جس کا آئندہ انتہائی خطرناک نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ زائچے کے چوتھے گھر میں داخل ہوگا جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پاکستان سے محاذ آرائی میں اضافہ ہوگا بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی بھارت کا امیج خراب ہوگا اور داخلی طور پر بھی بھارت میں بے چینی اور مخالفت کی لہر شدت اختیار کرے گی، بے شک اپنی پارٹی کی اکثریتی پوزیشن کے باعث اور ملک میں بڑھتے ہوئے شدت پسندانہ مذہبی رجحانات کے سبب نریندر مودی یہی سوچتے اور سمجھتے رہے کہ ایک درست سمت میں جارہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوگا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو، خصوصاً اس وقت جب 11 دسمبر 2019 ءسے قمر کے دور اکبر میں سیارہ زحل کا دور اصغر شروع ہوگا اور جولائی 2021 ءتک جاری رہے گا، جب کہ آئندہ جنوری کے بعد سے سیارہ زحل بھی برج جدی میں داخل ہوگا، زحل کی برج جدی میں موجودگی آنے والے سالوں میں نچلے طبقے کے عوام میں زندگی کا بہتر شعور پیدا کرے گی اور انتہا پسندانہ سوچ میں کمی لائے گی۔
نریندر مودی کے انتہا پسندانہ اقدام ان کی زندگی کے لیے بھی خطرات کا باعث ہوسکتے ہیں، آئندہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ بھی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی کی طرح کسی حملے کا شکار ہوں۔
جہاں تک بھارت میں مذہبی جنون اور شدت پسندانہ رجحانات کا معاملہ ہے تو یہ لہر ستمبر 2025 ءتک جاری رہے گی اور اس دوران میں ملک مکمل طور پر ایک ہندو ریاست نظر آئے گا، اس لہر کی انتہا دسمبر 2022 ءسے مارچ 2026 ءتک نظر آتی ہے اور یہی وہ وقت ہوگا جب بھارت میں انتشار اور علیحدگی پسندانہ رجحانات بھی عروج پر ہوں گے، گویا بھارت کے کئی حصوں میں تقسیم ہونے کا وقت شروع ہوجائے گا۔
بھارت کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے مختلف ریاستوں میں تقسیم رہا ہے، کبھی کبھی کسی طاقت ور بادشاہ کا دور ضرور ایسا آیا ہے جب پورے ملک میں طویل عرصہ اس کی حکومت رہی ہو لیکن بحیثیت مجموعی ہمیشہ ہندوستان مختلف ریاستوں میں تقسیم رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

زائچہ ءپاکستان

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھی خاصے طویل عرصے سے چوں کہ زائچے کے سب سے منحوس سیارے مشتری کے دور اکبر سے گزر رہا ہے اور اس دور کا آغاز دسمبر 2008 ءسے ہوا تھا اور اختتام 29 نومبر 2024 ءکو ہوگا، اگر باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کی آفات اور مشکلات کا آغاز اسی دور میں نظر آتا ہے، وہ مہنگائی کا طوفان ہو ، بجلی کا بحران ہو، معیشت کی تباہی ہو یا کرپشن کی انتہا ہو ، دیگر ممالک سے محاذ آرائی اور تعلقات کی خرابی ہو الغرض ہر قسم کی خرابیاں اس دور میں موجود ہیں جن کا بدترین نتیجہ بہر حال عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے،اگرچہ کہنے کو ہم ایک جمہوری دور میں داخل ہوچکے تھے، جنرل پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تھا اور پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی، اسی دور میں اُسامہ بن لادن کا واقعہ بھی پیش آیا ، اسی دور میں میموگیٹ اسکینڈل بھی سامنے آیا، ڈالر کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی ، بعد ازاں جناب نواز شریف 2013 ءمیں وزیراعظم بنے اور ن لیگ برسراقتدار آئی ، حالات و واقعات مزید بگڑتے چلے گئے جن کے نتیجے میں ملک مزید مصائب و مشکلات کا شکار ہوا، گویا ایک طویل تسلسل سے ہم روز بہ روز نت نئی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں۔
تحریک انصاف نے گزشتہ سال اگست میں اقتدار سنبھالا تو سابقہ خرابیوں کا تسلسل اسے ورثے میں ملا،وزیراعظم عمران خان مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں لیکن مسائل کا پہاڑ سامنے کھڑا ہے، اس پر طرفہ تماشا اپوزیشن کا جارحانہ طرز عمل ہے کیوں کہ عمران خان اپوزیشن سے کوئی کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ ماضی میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانیوں کا حساب چاہتے ہیں، یہ صورت حال عمران خان کو بیک وقت اندرونی اور بیرونی محاذوں پر زیادہ بڑے چیلنج دے رہی ہے جس میں ان کی زندگی کے لیے بھی خطرات موجود ہیں۔
زائچہ ءپاکستان 20 دسمبر 1971ءکے مطابق پاکستان مشتری کے دور اکبر میں اب سیارہ شمس کے دور اصغر سے گزر رہا ہے جو زائچے کے آٹھویں گھر میں کمزور پوزیشن رکھتا ہے،یہ چوتھے گھر کا حاکم ہے ، اس کا تعلق عوام اور اپوزیشن سے ہے، آٹھویں گھر میں موجودگی بہر حال عوامی اور اپوزیشن کی مشکلات کا باعث ہے لیکن اس حوالے سے حکومت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا، شمس کا دور اصغر آئندہ سال جنوری تک جاری رہے گا، اس کے بعد قمر کا دور اصغر شروع ہوگا ، قمر زائچے میں تیسرے گھر کا حاکم ہوکر نویں گھر میں اچھی جگہ واقعہ ہے، البتہ چھٹے گھر کے حاکم زہرہ سے ایک قریبی قران رکھتا ہے،قمر کا دور یقیناً ملک اور قوم کے لیے بہتر نتائج لائے گا۔
زائچے میں سیارگان کی ٹرانزٹ پوزیشن بھی سپورٹنگ نہیں ہے، جولائی سے کثرت سیارگان تیسرے گھر میں رہی، گویا نویں گھر میں موجود قمر زہرہ اور کیتو سے اہم نظرات قائم ہوئیں، جولائی کے آخر سے مشتری کی مستقیم پوزیشن ساتویں گھر میں پیدائشی عطارد اور مشتری پر اثرانداز ہورہی ہے جس کے خراب اثرات میڈیا پر زیادہ سخت ہیں، دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل اس سال شروع ہی سے کیتو کے ساتھ حالت قران میں ہے، یہ صورت حال ملکی تجارت، ساکھ، وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے لیے بہتر نہیں ہیں لہٰذا مارچ سے تاحال ہم حکومت کو مسلسل مشکلات کا شکار دیکھ رہے ہیں، اس صورت حال میں بہتری اکتوبر کے بعد شروع ہوگی اور مکمل طور پر آئندہ سال جنوری کے بعد۔
جولائی ہی سے اکثر سیارگان زہرہ، عطارد اور مریخ غروب حالت میں ہیں گویا اگست و ستمبر میں بھی کسی نمایاں بہتری کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جہاں تک انڈیا سے تعلقات کی خرابی اور جنگ جیسے نتائج کا سوال ہے تو فی الحال اس کا امکان نظر نہیں آتا لیکن اس امکان کو مکمل طور پر نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ غیر اعلانیہ طور پر بھارت نے جنگ کی سی صورت حال پیدا کردی ہے، پاکستان اسے نظرانداز نہیں کرسکتا لیکن اپنی طرف سے وہ کوئی پہل بہر حال نہیں کرے گا، اس کا امکان بھی بھارت ہی کی طرف سے ہے جس نے پاکستان کو نئے مسائل سے دوچار کیا ہے،بھارت و پاکستان کے درمیان کسی نئی جنگ کا امکان اس صورت میں ممکن نظر آتا ہے جب یہ دونوں ملک دنیا کی سپر پاورز کی محاذ آرائی میں اپنا کوئی کردار ادا کریں گے۔
تازہ صورت حال میں بعض جذباتی لوگ بھارت سے کوئی نئی جنگ چھیڑنے کے لیے بھی تیار نظر آتے ہیں لیکن ایسا کرنا غلط ہوگا، بھارت نے جو کچھ کیا ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہوگا ، وہ ایک مسلم اکثریتی علاقے کو فلسطین بناکر اس کی نسل کشی نہیں کرسکتا، آگے چل کر بھارت کی دیگر ریاستیں بھی بھارتی مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوکر احتجاج کرسکتی ہیں، چناں چہ پاکستان کو بیرونی سطح پر اور اندرونی سطح پر مستقبل کے لیے نہایت دانش مندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ہماری دعا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت اس کوشش میں کامیابی حاصل کرے۔