ہر شخص شوق میںبڑے بڑے وظیفے اور چلّے کرنے کی دھن میں لگ جاتا ہے

ماتلی ضلع بدین سے ز، الف نے لکھا ہے۔ مختصراً ہم ان کے سوالات درج کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ”میرے ذہن میں چند سوالات ہیں، ان کے جوابات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ میرا اسم اعظم کیا ہے؟ میرا برج اور ستارہ کون سا ہے؟ میں نے اپنے حساب سے یاسلام یا ودود نکالا ہے اور روزانہ 51 مرتبہ پڑھتا ہوں۔ آیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اﷲ تعالیٰ کے ناموں میں سے اگر کسی اسم کا ورد کیا جائے تو اس کے آخری حرف کو کیسے پڑھیں گے جیسے یا عزیز پڑھیں گے یا اسے پیش کے ساتھ یا عزیزُ پڑھیں گے؟ اور اس کے علاوہ العزیز پڑھیں یا پھر یا عزیز۔ اگر ہم کسی بھی قرآنی سورة کی زکوةجو کہ سوا لاکھ ہے، چالیس دن میں نکالیں گے تو بعد چالیس یوم اس سورة کو ورد میں رکھنا ہوگا یا نہیں اور اگر کسی نے سوا لاکھ زکوة نکالی ہو تو اس سے اگر اجازت مل جائے تو آیا کہ وہی تاثیر ہوگی جو کہ عامل کے پاس ہے کہ نہیں۔
میں سورہ اخلاص یا بسم اﷲ زکوة ادا کرکے اسے فی سبیل اﷲ…. لوگوں کے لیے کام میں لانا چاہتا ہوں اور اگر کسی پر دم کیا جائے تو اس سے زکوة کے دو روپے خیرات کروانا لازمی ہیں کہ نہیں؟ آپ نے ایک کالم میں حضرت محدس دہلوی کا طریقہ مرض معلوم کرنے کا لکھا تھا۔ اگر یہ کسی مریض پر پڑھا جائے تو ہمیں نقصان کا کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور آسان طریقہ ہو تو وہ بھی لکھ دیں۔
ہمارے ہاں کچھ عامل حضرات مریض کی پہنی ہوئی قمیض منگوا کر اس کے بازو پر کچھ پڑھ کر پھونکتے ہیں پھر بازو کی ؟ لے کر بتاتے ہیں کہ مریض کو کیا مسئلہ ہے۔ آسیب ہے یا جادو ہے یا جسمانی مسئلہ ہے؟ اگر اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو تو مہربانی فرما کر یہ بھی بتادیں تاکہ میں سادہ لوح لوگوں کو فنکار جعلی عاملوں کے چکر سے بچا کر دعا حاصل کرسکوں۔
سانس کی مشق میں اپنے دماغ کو کنٹرول کرنے کی کوئی مشق آسان سی ہو تو وہ بھی بتادیں تاکہ نماز میں یکسوئی حاصل ہوسکے۔ اگر کوئی کتاب جس سے معلومات میں اضافہ ہوسکے اس کے بارے میں بھی لکھ دیں اور علم جفر کے بارے میں ہمارا اسلام کیا کہتا ہے، اس بارے میں بھی کچھ لکھ دیں، مہربانی ہوگی۔“
عزیزم ! آپ نے تو ڈھیروں سوالات لکھ ڈالے۔ آپ نے اپنا اسم اعظم درست نکالا ہے اور اسے پڑھتے رہیے، ویسے آپ کے لیے اسم اعظم ”یا قائم“ بھی ہے۔ اس کے اعداد بھی 151 ہی ہیں۔ باقی اسم الٰہی کے آخری حروف پر پیش لگا کر پڑھنا چاہیے، اسے ساکن نہیں رکھتے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آخری حرف پر دو پیش لگائیں جیسے یا عزیزُ۔ آخر میں دو پیش لگانے سے صوتی اعتبار ”عزیزُن“ کی آواز ہوگی۔ اسمائے الٰہی کے ابتدا میں ”یا“ لگا کر پڑھنا ہی درست ہے۔ البتہ درمیان میں دو یا دو سے زائد اسم الٰہی میں ربط کے لیے ال کا اضافہ کرلینا چاہیے مگر ایسی صورت میں ال کے اعداد 31 بھی شامل کرنا چاہیے۔
قرآنی سورتوں یا آیات و اسمائے الٰہی وغیرہ کی زکوة ادا کرنے کے چکر میں نہ پڑیں۔ یہ کام الگ ہی نوعیت کا ہے۔ اس کے لیے کسی استاد کی نگرانی اور بعض دوسری شرائط ضروری ہوتی ہیں اور اس سے بھی پہلے تحصیل علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان جب کسی میدان میں قدم رکھنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ اس کے حوالے سے مکمل علم حاصل کرے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہر شخص شوق مین فوراً بڑے بڑے وظیفے اور چلے کرنے کی دھن میں لگ جاتا ہے تاکہ جلد از جلد کچھ روحانی قوت حاصل کرکے دنیا کو مرعوب کرسکے۔ یہ غلط طریقہ اور سوچ ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک بچہ ابتدائی جماعتوں کو چھوڑ کر ڈائریکٹ میٹرک یا بی، اے کا امتحان پاس کرنے کی کوشش شروع کردے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایسی کوششوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا اور انسان نہ دنیا کا رہتا ہے، نہ دین کا۔ بلکہ بہت جلد گمراہی کا شکار ہو کر دربدری اور تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہم نے مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا بھی ہوتے دیکھا ہے۔ لہٰذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ اس راستے پر چلنے سے پہلے اپنا علمی قد بلند کریں اور اس احمقانہ خیال کو بھی ذہن سے نکال دیں کہ آپ فی سبیل اﷲ لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے ”فی سبیل اﷲ فنکاروں“ کی پہلے ہی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ محض اپنی ”بزرگی اور روحانی بڑائی“ کے دعوﺅں کی خاطر خلق خدا کو گمراہ کرنے پر مامور ہیں، ان کے ان دعوﺅں کے پیچھے علم کے بجائے جہالت اور بزرگی و روحانیت کے بجائے ڈھکوسلہ پوشیدہ ہوتا ہے۔
یاد رکھیں، پہلے اپنی اصلاح پر توجہ دیں، اپنی زندگی کو بنانے اور اپنے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں اور یہ جب ہی ممکن ہے جب آپ علم اور عمل دونوں طرف بھرپور توجہ دیں۔ لوگوں کی خدمت کے اور بھی طریقے ہیں۔ سورہ اخلاص یا بسم اﷲ شریف کا عامل بن کر جھاڑ پھونک کرنا ہی ضروری نہیں ہے۔ یہ کام بھی اگر کرنا مقصود ہو تو اپنی تکمیل اور اﷲ کی خوشنودی کے حصول کی نیت سے عبادت بطور کریں اور اس عبادت و ریاضت کے طفیل اگر انعام میں کچھ روحانی قوتیں حاصل بھی ہوجائیں تو ان کا کھلے عام اظہار نہ کریں، کسی انتہائی ضرورت کے تحت مجبور ہو کر ہی ان سے کام لیں۔ یہی سنت انبیاءاور اولیاءہے۔
حضرت محدث دہلوی کا جو طریقہ حاضری جنات کے لیے ہم نے لکھا تھا یا ایسے مزید طریقے جو ہم نے لکھے تھے اور ان کے علاوہ بھی رائج ہیں وہ عاملین کے لیے مناسب ہیں۔ عام آدمی کو یہ طریقے اختیار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ حاضری کے بعد جس سے ملنے کی صلاحیت عام آدمی نہیں رکھتا۔ لہٰذا ان سے کام لینے کے لیے پہلے عامل ہونا اور اس علم و فن سے پوری واقفیت ضروری ہے۔
ہم ذاتی طور پر آسیب و جنات کے علاج میں حاضری کے طریقے کو مناسب نہیں سمجھتے، ہمارے نزدیک یہ طریقہ معالج کے علم کی کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے کہ وہ حاضری کرا کے جن و آسیب سے مذاکرات کرے اور پھر اسے سمجھا بجھا کر اس سے مریض کا پیچھا چھوڑنے کی درخواست کرے۔ ہمارے نزدیک بہتر طریقہ یہی ہے کہ بس مریض کا علاج کیا جائے اور اگر واقعی جنات یا آسیب کا مسئلہ ہے تو اسے بھگا دیا جائے، اس سے مصالحتی مذاکرات کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ یہ ضرورت خال خال کسی ایسے کیس میں پیش آسکتی ہے جہاں خود مریض کی غلطی موجود ہو۔ جنات کے موضوع پر اپنے مضامین میں ہم اس کی وضاحت کرچکے ہیں اور یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ آسیب اور جنات کے مریضوں میں سے چند ہی فیصد ہی حقیقی کیس ہوتے ہیں۔ ورنہ عموماً کچھ دوسری ہی وجوہات ہوتی ہیں۔
درحقیقت ہمارے ہاں جنات بے چارے بدنام زیادہ ہیں، ان کی انسانوں کے درمیان کارروائیاں اتنی ہیں نہیں جتنی مشہور کی جاتی ہیں۔ نوے فیصد تو یہ ہسٹریا، شیز و فرینیا اور مرگی وغیرہ کے مریض ہوتے ہیں، اب رہ گیا سوال شناخت کے طریقوں کا تو وہ اکثر نہایت کمزور اور دھوکا دہی پر مبنی ہیں۔ ہمارے نزدیک ہر طریقہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ اکثر پیر فقیر، ماہرین جفر یا عامل کامل لوگ تو صرف نام مع والدہ کے اعداد کو چار پر تقسیم کرکے جو باقی بچے اسی پر جن بھوت، آسیب، پری، دیو، سحر جادو وغیرہ کا فتویٰ لگادیتے ہیں۔ اس طریقے کی بنیاد پر تو ملک کی آدھی آبادی جنات و آسیب اور سحر و جادو کا شکار نظر آئے گی۔
آخر میں آپ نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آپ کو کتاب کس موضوع پر چاہیے۔ رہا سوال علم جفر پہ اسلام کے نظریات کا تو ہمارے نزدیک دنیا کا ہر وہ علم جو انسان کی بھلائی اور خدمت انسانیت کے لیے استعمال ہو، اسے سیکھنے، اس سے کام لینے سے اسلام نہیں روکتا۔ جبکہ اس کے برعکس معاملہ ہو اور کوئی بھی علم یا فن انسان کی گمراہی اور انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال ہو تو اسلام اس کی ممانعت کرے گا۔ سانس کی مشق ہم پہلے دے چکے ہیں۔