پیدائشی زائچے کے اثراتِ بد اور گردش سیارگان کے اُتار چڑھاو سے نجات

یہ سوال نہایت اہم ہے کہ آیا پیدائشی زائچے میں موجود خرابیوں کو دور کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یا سختیاں لانے والے منحوس سیاروی اثرات سے نجات ممکن ہے یا نہیں؟یہ خرابیاں اور اثرات پیدائشی زائچے کے علاوہ کسی بھی اہم نئے کام کی ابتدا کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں،مثلاً شادی، نئے کاروبار کا آغاز، نئے مکان میں داخلہ و قیام، کسی اہم سفر پر روانگی، کسی نئے ایگریمنٹ پر دستخط وغیرہ۔
جہاں تک پیدائشی زائچے کی خرابیوں کا تعلق ہے ‘ انہیں ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں‘ اول زائچے میں سعد سیارگان کی کمزوری‘ دوم فعلی منحوس سیاروں کا پیدا کردہ بگاڑ اور سوم سعد سیارگان کی زائچے کے منحوس گھروں میں نشست۔
یہ تینوں صورتیں کسی بھی عورت یا مرد کے زائچے میں مختلف نوعیت کے گونا گوں مسائل کا سبب بنتی ہیں‘ ہماری کتاب ”پیش گوئی کا فن“ حصہ اول و دوئم میں ان خرابیوں کی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور مثالی زائچوں کے ذریعے ان کی وضاحت بھی کی گئی ہے،اپنے کالموں میں ہم اکثر کسی زائچے پر بات کرتے ہوئے بھی ایسی خرابیوں کی نشان دہی کرتے رہتے ہیں۔

سیاروی کمزوری

پہلی صورت یعنی کسی سیارے کی کمزوری بہت زیادہ خطرناک اس صورت میں نہیں ہوتی جب وہ زائچے میں سعد گھروں میں قابض ہو البتہ نحس گھروں میں قبضہ اسے مزید خراب کردیتا ہے اور وہ اپنے متعلقہ سعد گھر کی منسوبات کے لیے ایک عضوِ معطل ہو کر رہ جاتا ہے‘ مزید یہ کہ اپنے فعال دور اکبر و اصغر میں زیادہ فائدہ بخش ثابت نہیں ہوتا‘ اس کمزوری کو مخصوص پتھر یا لوح یا خاتم وغیرہ کے استعمال سے دور کیا جا سکتا ہے لیکن بعض زائچوں میں ایک سے زائد سعد سیارگان کی کمزوری مسئلہ بن جاتی ہے‘ ایسی صورت میں ایک سے زائد قیمتی پتھر یا الواحِ سیارگان کا استعمال مسئلہ بن جاتا ہے، مزید یہ کہ قیمتی پتھر عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوجاتے ہیں مثلاً سیارہ زہرہ کا پتھر ڈائمنڈ ہے اور عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہے ‘ اسی طرح عمدہ کوالٹی کے ڈائمنڈ فیملی سے متعلق پتھر نیلم‘ یاقوت‘ پکھراج وغیرہ بھی بہت مہنگے ہیں ‘ سچا موتی نایاب ہوتا جا رہا ہے اس لیے بہت قیمتی ہے ۔

پتھروں کا استعمال اور حصول

آج کے زمانے میں قیمتی پتھروں کی ڈپلیکیٹ بنانے کا رواج عام ہوگیا ہے اور اس حوالے سے دھوکے اور فراڈ کا امکان بہت بڑھ گیا ہے لہٰذا پتھروں کے استعمال میں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ پہلی بات تو پتھر کا اصلی ہونا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنی کوالٹی کے اعتبار سے عمدہ قسم کا ہو‘ بازار میں عام طور سے دوسرے اور تیسرے درجے کے پتھر عام ملتے ہیں جو کسی حد تک کم قیمت بھی ہوتے ہیں ‘ ان پتھروں کی اثر پذیری مشکوک ہو سکتی ہے‘ ان کا استعمال ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی بیماری میں معیاری دوا کے بجائے سستی دو نمبر دوا استعمال کرے ۔
اکثر خواتین و حضرات ذاتی طور پر پتھروں کی معقول شناخت نہیں رکھتے کیوں کہ یہ بھی علیحدہ سے ایک علم اور فن ہے،بڑے بڑے ماہر جوہری بھی اس معاملے میں دھوکا کھا جاتے ہیں،لوگ اکثر ادھر اُدھر سے خریدے ہوئے یا تحفتاً آئے ہوئے پتھر ہمیں دکھاتے ہیں اور جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اصلی نہیں ہیں یا کمتر درجے کے ہیں تو انہیں مایوسی ہوتی ہے،سب سے زیادہ مایوسی انہیں اُس وقت ہوتی ہے جب وہ ایران ، عراق یا سعودی عربیہ سے منگوائے ہوئے یا لائے ہوئے پتھروں کے بارے میں یہ سنتے ہیں کہ یہ نقلی ہے یا کمتر درجے کا ہے،گزشتہ آٹھ دس سال سے ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ جعلی یا کمتر درجے کے پتھر ایران، عراق اور سعودیہ سے لوگ لارہے ہیں،وہ اپنی عقیدت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ملکوں میں کاروبار کرنے والے بھی دھوکا یا فراڈ کرسکتے ہیں،لوگوں کے لیے تو اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ وہاں سے پتھر لے کر اُسے مزارات سے مس کرلیتے ہیں، ایسے پتھروں سے عقیدت و محبت اپنی جگہ مگر ان کی بنیادی خصوصیات کے اثر پر اعتبار کرنا مشکوک ہوجاتا ہے۔
ڈائمنڈ فیملی کے پتھر (ڈائمنڈ، نیلم، پکھراج، زمرد،یاقوت وغیرہ) اگر اعلیٰ کوالٹی کے ہوں تو قیمت لاکھوں میں چلی جاتی ہے اور لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ انہیں کسی نے تحفتاً دیا ہے،اتنا مہنگا تحفہ دینا بڑے دل گردے کا کام ہے،ان پتھروں کی کمتر درجے کی اقسام بھی آج کل اتنی ارزاں نہیں ہیں کہ عام آدمی خرید سکے لہٰذا لوگ مجبوراً ایسے پتھر استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو بہت ہی گھٹیا درجے کے یا اپنے اندر نقص رکھتے ہوں، ایسے پتھروں کا استعمال فائدے کے بجائے کسی نقصان کا باعث بن جاتا ہے،ایسی صورت میں عام طور پر لوگ خیال کرتے ہیں کہ پتھر ہمیں راس نہیں آیا، راس نہ آنے کی پہلی وجہ تو پتھر کا گھٹیا اور کسی نقص کا حامل ہونا ہوتا ہے اور دوسری وجہ جو نہایت اہم ہے،وہ پتھر کا انتخاب ہے جو آسان کام نہیں ہے، ہمارے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں اس حوالے سے خاصے اختلافی مسائل موجود ہیں اور یہ موضوع علیحدہ سے ایک مضمون کا متقاضی ہے۔

سیاروی بگاڑ

زائچے میں خرابی کی دوسری صورت فعلی منحوس سیاروں کا پیدا کردہ بگاڑ ہے‘ یہ سب سے زیادہ خراب صورت ہے ‘ یہ بگاڑ دو قسم کا ہوتا ہے اول منحوس سیار گان سعد سیارگان کو قران یا نظر کے ذریعے نقصان پہنچاتے ہیں‘ دوم زائچے کے گھروں کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ اس کے لیے پہلی معالجاتی تدبیر تو صدقات اور نیک عمل کی پابندی ہے اور دوسری متاثرہ سیار گان کو تقویت پہنچانا ہے‘ اس حوالے سے پتھر اور مخصوص نقوش و طلسم استعمال ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ سعد سیارگان کا متاثر ہونا (زائچے کا ملٹی پل بگاڑ) یا دیگر نوعیت کی خرابیوں میں مبتلا ہونا ‘ ایک سے زیادہ پتھروں یا الواح وغیرہ کے استعمال کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو عام طور پر لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کیوں کہ پتھروں کی کوالٹی اکثر مشکوک ہوتی ہے،جہاں تک نقوش و الواح کا تعلق ہے تو یہ کام بھی جس مہارت اور سلیقے کا محتاج ہے، وہ مفقود ہوتی جارہی ہے،حقیقی علم سے ناواقف افراد کی کثرت ہے،وہ نہ علم جفر جانتے ہیں اور نہ نجوم۔

سیاروی نحوست

تیسری صورت سعد سیارگان کا منحوس گھروں میں قیام ہے‘ یہ بھی دوسری صورت کے مقابلے میں کم خطرناک نہیں ہے،البتہ اس وقت یہ صورت زیادہ پریشان کن ہو سکتی ہے جب فعلی منحوس ایسے سیارگان سے قران یا نظر کے ذریعے رابطہ کریں اور انہیں متاثر کریں۔
قصہ مختصر یہ کہ زائچے میں موجود خرابیاں جو انسان کو مسائل و مشکلات میں مبتلا کرتی ہیں تقریباً ہر زائچے کا لازمی جُز ہیں‘ یہ خرابیاں انسان کی بہترین صلاحیتوں ‘ عادت و اطوار وغیرہ کو بھی متاثر کرتی ہیں اور زندگی میں ترقی اور کامیابی کے راستوںکو بھی محدود کرتی ہےں مثلاً سیارہ قمر دماغ سے متعلق ہے اور عطارد ذہن سے‘ اگر دونوں یا کوئی ایک زائچے میں کمزور ہے یا کسی بگاڑ کا شکار ہے تو ایسا شخص اعلیٰ درجے کی دماغی اور ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں بعض بدترین قسم کی نفسیاتی بیماریاں بھی جنم لے سکتی ہیں‘ یہ دونوں سیارگان زائچے کے جن گھروں کے حاکم ہوں گے‘ ان گھروں کی منسوبات بری طرح متاثر ہوں گی۔

علاج بالنجوم و جفر

زائچے کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ زائچے میں موجود خرابیوں پر کیسے قابو پایا جائے اورصاحب زائچہ کو اس کی زندگی میںکیسے آسانیاں فراہم کی جائیں؟ عام طور پر صدقات و خیرات کے ساتھ ورد و وظائف پر زور دیا جاتا ہے،بے شک صدقہ ردّ بلا ہے اور نحوست سیارگان کی کاٹ کرتا ہے،اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ پیدائشی یا وقتی سیاروی نحوست سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات پر زور دیا جائے، زندگی میں مثبت طور طریقے اختیار کیے جائیں اور منفی دلچسپیوں یا سرگرمیوں سے گریز کیا جائے، نیکی کا راستہ اختیار کیا جائے،جہاں تک ورد و وظائف کا تعلق ہے تو سب سے پہلے فرائض کی ادائیگی پر زور دیا جائے جن میں مقررہ عبادات کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی سب سے زیادہ اہم ہے،اکثر لوگ ان بنیادی باتوں کو زیادہ اہمیت دینے کے بجائے محض ورد و وظائف ، عمل و چلّے کرنے میں زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں،ایسے لوگوں کے ورد و وظائف اور چلّے وغیرہ بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
ہم ایک ایسے مادّی دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں مادّی ضروریات روحانی ضروریات پر غالب آچکی ہیں اور اس حد تک بڑھ چکی ہیں جہاں صدقات و خیرات کھلے دل سے اور کھلے ہاتھ سے کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے،اسی طرح بنیادی عبادات و وظائف کے لیے بھی لوگ وقت نہیں نکال پاتے۔
علاج بالنجوم و جفر کو بالکل اسی طرح سمجھنا چاہیے جس طرح کسی بیماری سے نجات پانے کے لیے ہم ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور اُس کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کرتے ہیں،اسی طرح ایک ماہر نجوم و جفر پیدائشی زائچے کی کمزوریوں اور خرابیوں کو مدنظر رکھ کر کوئی پتھر یا نقش و طلسم تجویز کرتا ہے جو ہمارے زائچے کی خرابیوں کو کم کرنے یا دور کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس موضوع پر ہماری تحقیق کے مطابق سب سے پہلے عرب ماہرینِ فلکیات نے غور و فکر کیا اورغالباً پہلا نام اس حوالے سے ثابت ابن قرّہ (آٹھویں یا نویں صدی عیسوی) کا ہے‘ انہوں نے ایسے نقوش و طلسمات پر گفتگو کی ہے جو پیدائشی زائچے کی خرابیوں کو دور کرنے میں معاون و مددگار ہو سکتے ہیں‘ علامہ مجریطی کی کتاب غایت الحکیم بھی اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہے جو غالباً دسویں یا گیارہویں صدی عیسویں میں لکھی گئی اور یہ کتاب آج بھی مغرب میں نہایت اہم سمجھی جاتی ہے ‘ اس کے تراجم سولہویں صدی عیسوی میں اطالوی، جرمن زبان میں ہوئے اور اب انگریزی زبان میں ہو چکے ہیں‘ مغرب کے ماہرین نجوم اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ‘ یہی صورت انڈیا میں بھی نظر آتی ہے ‘ روایتی ہندو عقائد سے قطع نظر جو جدید فکر کے حامل ماہرین نجوم ہیں وہ بھی قدیم عرب اسکالرز کے نظریات سے متاثر ہیں لیکن اپنے فطری تعصب کی بنیاد پر اس کا اظہار نہیں کرتے۔
ثابت ابن قرہ کا نظریہ یہ تھا کہ کسی شخص کی پیدائشی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ایسا طلسمی و روحانی مواد مہیا کیا جائے جو صورت حال کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ایسا مواد اپنے اجزائے ترکیبی میں حروف و اعداد کے باطنی خواص کے ساتھ فلکیاتی روحانیت کے امتزاج سے ہی ممکن ہوگا، اس حوالے سے وہ صاحب زائچہ کا ایک نیا زائچہ تخلیق کر کے جو اپنی سعادت میں اعلیٰ صفات کا حامل ہو‘ اس کی تاثیرات کو مخصوص طریقِ کار کے ذریعے کسی نقش یا طلسم میں محفوظ کرنے کا مشورہ دیتے ہےں اور پھر اسے کسی سعد و مبارک وقت پر مطلوبہ شخص کو استعمال کرایا جائے تو ایسے نقش یا طلسم کا اثر آہستہ آہستہ پیدائشی زائچے کی خامیوں اور کمزوریوں پر غالب آجائے گا لیکن یہ کام بہت سست رفتار بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کا انحصار زائچے کی خرابیوں کی نوعیت پر ہے کہ وہ کس درجے کی ہےں؟