نفسیاتی امراض اور مسائل کی تشخیص میں علم نجوم کی اہمیت

نفسیات کا علم دلچسپ بھی ہے اور زندگی آمیز و زندگی آموز بھی، علم نفسیات کو موجودہ دور میں ایک سائنس کا درجہ حاصل ہوچکا ہے، سگمنڈ فرائیڈ کو علم نفسیات کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے، اسی فرائیڈ کے شاگردوں میں کارل یونگ کا نام نہایت قابل احترام ہے، اس نے سگمنڈ فرائیڈ کے کام کو آگے بڑھایا اور بعض جگہ فرائیڈ سے اختلاف بھی کیا۔
تنگ نظر ماہرین نفسیات اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کارل یونگ صرف ماہر نفسیات ہی نہیں ایک ایسٹرو لوجر بھی تھا، اس نے خود یہ اعتراف کیا کہ میں نے انسانی نفسیات کو سمجھنے میں علم نجوم سے رہنمائی لی، بعد میں کارل یونگ کے شاگردوں نے اس کی علم نجوم سے دلچسپی پر پردہ ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے، اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ اگر نفسیاتی مریضوں کے علاج معالجے میں علم نجوم سے مدد لی جائے تو تشخیص اور علاج آسان ہوجاتا ہے، مغرب میں ماہرین نفسیات علم نجوم سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن ہمارا حال مختلف ہے، ہم تو ابھی تک اسی مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ علم نجوم ایک سائنس ہے یا کوئی غیب کا علم یا قسمت کا حال؟ ؎

اڑائی رندوں نے مل کہ باہم، چڑھائی زاہد نے چھپ کر پیہم
یہاں تو یہ سوچتے ہی گزری کہ بادہ نوشی حرام کیوں ہے؟

ہمارے مذہبی حلقے آنکھیں بند کرکے اس علم کے خلاف فتوے صادر کرتے رہتے ہیں حالانکہ وہ اس علم کی ابجد سے بھی واقف نہیں بس ایک مفروضے کے طور پر علم نجوم کو علم غیب سمجھتے ہیں اور یہی وجہ مخاصمت ہے۔ لہٰذا اس علم سے فائدہ اٹھانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتیں، علم نجوم کی مزید بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس کا نام بد نام کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، خیر ہم اس وقت کسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتے، ہمارے پیش نظر ایک خط ہے، آیئے پہلے اس کا مطالعہ کرتے ہیں، نام اور جگہ کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے ہم یہ خط نقل کر رہے ہیں۔
”میں بچپن سے تنہا رہنے کا عادی ہوں، بچپن میں، میں تنہائی میں اپنے آپ سے باتیں کرتا تھا، اسکول میں میرا کوئی دوست نہیں تھا، اسکول سے گھر آنے کے بعد تمام وقت پڑھائی میں صرف کردیتا، پڑھائی میں مجھے دقت پیش آتی مگر میں نے محنت کرکے اس پر کسی حد تک قابو پالیا، مجھے لوگوں کے رویّے اور گفتگو سمجھ میں نہیں آتے تھے، اب بھی ایسا ہوتا ہے، اسکول جاتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی تھی، کلاس میں بھی خاموش رہتا، پی ٹی کے لئے بلایا جاتا تو ٹانگیں کانپنی شروع ہوجاتیں، اکثر بہانہ بنا کر الگ ہو جاتا، اکثر گھبراہٹ رہتی جس کو دور کرنے کے لئے مختلف بہانوں سے خوش رہنے کی کوشش کرتا، کبھی خیال آتا کہ میں دوسروں سے مختلف کیوں ہوں؟ میرے ہم عمر مجھ سے زیادہ ہوشیار ہیں، پڑھائی میں بھی اور دوسرے کاموں میں بھی، سات سال کی عمر میں جسمانی نشو نما رک گئی مگر میں نے ان تمام باتوں کا اپنے والدین سے ذکر نہیں کیا، کچھ تھوڑا سا بڑا ہوا تقریباً 12 سال کی عمر ہوئی تو والدین کہنے لگے کہ محلے کے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا کرو مگر میں ان میں ایڈجسٹ نہ ہوسکا، ان کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور میں سوچتا کہ میرا علم ان سے زیادہ ہے، وہ لڑکیوں کے بارے میں باتیں کرتے جس سے مجھے گھبراہٹ ہوتی، میٹرک کے بعد گھبراہٹ اور بڑھنے لگی، میں پڑھ نہیں سکتا تھا، کافی دیر تک ایک ہی صفحے کو پڑھتا رہتا اس موقعے پر بھی میں اپنے والدین کو بتا نہ سکا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کالج میں بہت خوش رہتا لطائف سناتا، لڑکے جب لڑکیوں کی باتیں کرتے تو مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑتا اور گھبراہٹ ہوتی، میں ان سے الگ ہوجاتا، رزلٹ آیا تو نمبر بہت کم تھے، بلخصوص انگلش اور حساب میں نمبر کم آئے، انجیئرنگ میں داخلہ نہ ملنے کا بہت دکھ ہوا، مجھ پر مایوسی طاری رہنے لگی کہ میں اس سے بہتر کارکردگی ظاہر کرسکتا تھا مگر ایسا کیوں نہ ہوسکا، حالانکہ میں نے محنت کرنے کی بڑی کوشش کی تھی، میں ایک دن اپنی والدہ کے سامنے رونے لگا کہ مجھے پتہ نہیں کیا ہوتا ہے، میری ذہنی سطح اور پست ہوگئی اب مجھے سمجھنے اور یاد کرنے میں اور مشکلات در پیش ہوگئیں۔
”اب میں سائیکا ٹرسٹ کے پاس گیا اس کو میں نے بتایا، اس نے مجھے ایک سائیکا لوجسٹ کے پاس بھجوایا مگر میں اس کے پاس نہ گیا کیونکہ وہ ایک خاتون تھیں، پھر تعلیمی سال کے آخر میں ایک اور سائیکا ٹرسٹ کے پاس گیا اور اسے بتایاکہ میں امتحان نہیں دینا چاہتا، اس نے کچھ ادویات تجویز کیں، امتحان کا نتیجہ پھر مایوس کن رہا، میں نے اس سائیکا ٹرسٹ کو بتایاکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سب لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں، اس نے دوائی تجویز کی مگر اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، بالآخر پھر میں یونیورسٹی میں پہنچ گیا، وہاں مجھے لڑکیوں سے خوف آنے لگا، تعلیمی معاملات میں، میں کنسنٹریٹ نہیں کرپاتا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ سب لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں، مجھے سخت گھبراہٹ ہوتی، گھر پر کئی کئی گھنٹے بے سدھ پڑا رہتا، یوں محسوس ہوتا کہ جسم میں جان نہیں، یہ کیفیت صبح کے وقت ہوتی، پھر میں نے ایک اور سائیکا ٹرسٹ سے مشورہ کیا، مگر بے سود، اب میری ذہنی کیفیت یہ ہوگئی کہ مجھے پڑھائی میں کسی بھی چیز کی سمجھ نہ آتی اور نہ ہی کچھ یاد رہتا، پھر مجھے ایک روحانی شفا خانے لے کر جایا گیا، وہاں سے کچھ تعویز صبح نہار منہ پینے کے لئے دیے گئے اور رات کو بھگوئے ہوئے چند بادا م کھانے کو کہا گیا، ایک مولوی صاحب نے آیات ِشفا پڑھنے کی ہدایت کی اور ایک اور وظیفہ بھی پڑھنے کے لئے بتایا، پھر ایک اور مولوی صاحب نے سورہ جن ایک خاص تعداد میں پڑھنے کو کہا، پھر مختلف اسپتالوں کے سائیکا ٹری وارڈ میں جاتا رہا، ایک سائیکا ٹرسٹ کی تجویز کردہ دوا سے بھولنے کامرض لاحق ہوگیا۔
”پھر مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ کچھ لوگ مجھے ابزرو کر رہے ہیں، اس دوران میں مجھے ایک ملازمت مل گئی مگر وہاں لوگوں کے رویے اور گفتگو نہ سمجھ سکا، مجھے ہر وقت گھبراہٹ ہونے لگی، کام کے بارے میں بھی کچھ سمجھ نہ آئی، دفتر میں دوپہر کا کھانا وہیں پکا ہوا ملتا تھا اور میں دوسرے لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتا، اس دوران مجھے وہم ہونے لگا کہ وہ مجھے کھانے میں کچھ ملا کر کھلاتے رہے ہیں، میرا ذہن ماؤف ہوگیا، مجھے محسوس ہوا کہ میری یاد داشت ختم ہوگئی ہے، ذہن میں خیالات گھومنے لگے، میری ذہنی سطح ایک بچے کی طرح ہوگئی، میں اپنی ذہنی سطح کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا مگر مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا بات کروں، جو کچھ پڑھا تھا وہ بھی بھول گیاتھا، پھر ایک اور ملازمت ملی لیکن میں وہاں بھی کام نہیں کرسکا اور مجھے نکال دیا گیا، اب میری ذہنی سطح بہت ہی پست ہوگئی ہے، جو کچھ پڑھتا ہوں وہ یاد نہیں رہتا یا سمجھ میں نہیں آتا، فقرہ زیادہ لمبا ہوجائے تو وہ بھی ذہن میں نہیں رہتا، اپنا سارا وقت گھر پر گزارتا ہوں، بچوں کی طرح گھر والے بتاتے رہتے ہیں کہ یہ بات اس طرح کرو، انجانا سا خوف رہتا ہے، باتوں اور مشاہدے سے نتائج اخذ نہیں کرپاتا، گھر کے کسی فرد سے جذباتی وابستگی نہیں، کسی بھی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں، چھوٹے چھوٹے کام نہیں کرسکتا، اب مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کام کروں اور اپنی طبیعت کو کیسے سنبھالوں؟“
جواب: عزیزم! آپ نے اپنی جو کیفیات لکھی ہیں اور موجودہ ذہنی کیفیت کی جو نشان دہی کی ہے آپ کی تحریر اس کے برخلاف تصویر دکھا رہی ہے، آپ کا کہنا یہ ہے کہ آپ کو کچھ یاد ہی نہیں رہتا، ذہنی سطح انتہائی پست ہوچکی ہے، آپ ایک بچے کے مانند ہوچکے ہیں، گھر والوں کو بتانا پڑتا ہے کہ فلاں کام اور فلاں بات اس طرح کرو وغیرہ وغیرہ مگر آپ نے اپنے خط میں اپنے بچپن سے لے کر آج تک کی کیس ہسٹری بہت عمدہ طریقے سے بیان کردی ہے، چھوٹی چھوٹی جزویات بھی آپ نے نظر انداز نہیں کیں، آپ کو یہ بھی یاد ہے کہ کب کیا ہوا تھا اور آپ نے کیا محسوس کیا تھا اور کیا سوچا تھا، لہٰذا ہم کیسے مان لیں کہ آپ کی یادداشت خراب ہے، آپ کو کچھ یاد نہیں رہتا، آپ کی تحریر میں بھی خاصی پختگی اور انداز بیان میں روانی ہے، آپ کی باتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں، حد یہ کہ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ کب آپ کو وہم ہوا یا شک ہوا، آپ تعلیمی میدان میں بھی جیسے تیسے بہر حال یونیورسٹی تک پہنچ گئے، اس ساری صورتِ حال کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ آپ کو کچھ یاد نہیں رہتا اور آپ کے لئے پڑھنا لکھنا ہمیشہ ایک مسئلہ بنا رہا۔

ہمارا خیال ہے کہ آپ اپنے کیس کے سلسلے میں جو تجزیے کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہیں، اپنے پورے بیان میں آپ نے ایک مرتبہ بھی یہ نہیں بتایا کہ سائیکا ٹرسٹ حضرات نے آپ کے مسائل اور امراض کے بارے میں کیا کہا، ان کی تشخیص کیا تھی، انہوں نے اس سلسلے میں کون سی دوا تجویز کی تھی یا یہ کہ آپ کے گھر والے یا دیگر ملنے جلنے والے آپ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، دراصل سب سے بڑی خامی اور مسئلہ یہی ہے کہ آپ اس بات پر توجہ ہی نہیں دیتے کہ کون کیا کہہ رہا ہے اور آپ کے بارے میں کیا رائے دے رہا ہے، آپ تو اپنے طور پر سب کچھ محسوس کرتے رہتے ہیں اور آپ کا سارا کھیل ہی احساسات پر مبنی ہے، آیئے ہم تھوڑا سا آپ کے زائچے کی روشنی میں آپ کو بتائیں کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
آپ کا شمسی برج میزان ہے لیکن شمس برج میزان کے پہلے درجے پر ہے، گویا اس نے ابھی برج میزان میں صرف قدم رکھا ہے، دوسرے معنوں میں ہم یہ کہیں گے کہ آپ کی پیدائش برج سنبلہ اور برج میزان کی سرحد پر ہوئی ہے، ایسے لوگوں کو دونوں برجوں کی مشترکہ خصوصیات کا حامل سمجھا جاتا ہے، میزان ایک ہوائی برج ہے اور سنبلہ خاکی، مٹی اور ہوا میں تضاد ہے، ایسے لوگ مزاج اور فطرت کے اعتبار سے متضاد رویّے کے مالک لیکن غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل اور بڑے کارنامے انجام دینے والے ہوتے ہیں اگر ان کے زائچے میں دیگر عوامل متوازن ہوں مگر آپ کا معاملہ مختلف ہے، آپ کا پیدائشی برج (Birth Sign) سرطان ہے اس کا حاکم سیارہ قمر برج حوت میں ہے، گویا آپ کا قمری برج حوت ہے، اس آدھے ہوائی اور آدھے خاکی برج کے ساتھ 2 آبی مونث برج (سرطان اورحوت) آپ کی ذہنی اور نفسیاتی تشکیل کر رہے ہیں، یہ بھی کوئی برائی یا خراب بات نہیں ہے کیونکہ ایسا کمبی نیشن ایک شان دار تخلیق کار کو جنم دیتا ہے، زبردست قسم کی تخلیقی اور وجدانی قوتیں آپ کے اندرموجود ہیں، خرابی یہ ہے کہ آپ کے زائچے میں سیارگان ایک ٹی اسکوائر بنا رہے ہیں، شمس، یورینس، مریخ، چیرون اورراہو کے درمیان مقابلہ اور تربیع ہے، مزید یہ کہ زہرہ، نیپچون کے درمیان تربیع ہے اورقمر و زہرہ بھی ایک دوسرے کے مقابل ہیں، سعد نظرات میں قمر اور مریخ کی تسدیس اور زہرہ اور مریخ کی تثلیث ہے۔
ہم یہاں زیادہ ٹیکنیکل باتوں میں نہیں الجھنا چاہتے کیونکہ وہ آپ کی یا ہمارے قارئین کی سمجھ میں بھی نہیں آئیں گی، مختصراً آپ کی شخصیت اور نفسیاتی پیچیدگی پرروشنی ڈالیں گے۔
پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ آپ غیر معمولی طور پر حساس انسان ہیں، عمل سے زیادہ تصور آپ کی زندگی پر حاوی ہے، زائچے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے والد انتہائی سخت مزاج بلکہ نامناسب رویہ رکھنے والے انسان ہیں، ان کا سلوک آپ کی والدہ کے ساتھ بھی کبھی اچھا نہیں رہا ہوگا، ممکن ہے انہوں نے آپ کی والدہ کو کافی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی ہوں جس کی وجہ سے ابتدا ہی سے گھر کا ماحو ل نہایت نا خوش گوار اور خوفزدہ کرنے والا رہا ہوگا، آپ کے دیگر بہن بھائی بھی اس ماحول سے متاثر ہوئے ہوں گے اورنتیجے کے طورپر ایک دوسرے سے بے تکلفانہ انداز نہ رہا ہوگا، والد کے نا مناسب رویّے اور طرز عمل سے والدہ بھی چڑچڑی اوربدمزاج ہوسکتی ہیں، اس صورتِ حال کا ناخوش گوار اثر آپ نے ابتدا ہی سے قبول کیا ہے، سرطانی ہونے کی وجہ سے آپ کی فطری وابستگی اور جھکاؤ ماں کی طرف رہا ہے اور آپ نے چھوٹی عمر میں ماں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی گہرا اثر لیا ہے، بہت چھوٹی عمر میں یہ صورتِ حال شدید غصے کا سبب بنتی ہے مگر اس کا اظہار ممکن نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اندر ہی اندر گھٹن بڑھتی ہے اور نیگٹیو رویے دل و دماغ میں جڑ پکڑنے لگتے ہیں، اس صورت ِ حال میں پرورش پانے والا بچہ اگر غیر معمولی طور پر حساس اورجذباتی بھی ہو تو اس کی نفسیات بگڑتے دیر نہیں لگتی، ایسا ہی کچھ آپ کے ساتھ ہوا ہے، بقول اقبال ؎مری تعمیر میں مضمر ہے صورت اک خرابی کی، ان تمام باتوں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ کے 2 برج یعنی سرطان اور حوت مونث برج ہیں، میزان کے ساتھ بھی مونث برج سنبلہ کے اثرات شامل ہیں، آپ کا زائچہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ ابتدا ہی سے ہارمون ڈسٹربنس کے مریض ہیں، آپ نے اپنے خط میں لڑکیوں یا خواتین سے بات کرنے میں یا ان کے پاس جانے میں گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کیا ہے یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جو ہارمون ڈسٹربنس کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے، یقینا آپ کے کسی معالج کو آپ کے ہارمون ٹیسٹ کا خیال نہیں آیا ہوگا، ہومیو پیتھک علاج سے اس بیماری کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ابتدا ہی میں جب نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں تو بعد میں کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر ہمارے خیال میں آپ کا اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، یہ ضرور ہے کہ آپ اپنی بیماریوں سے فائدہ اٹھاکر سست اور کاہل ہوچکے ہیں اور اب آپ کو اس کیفیت میں رہتے ہوئے لطف آنے لگا ہے شاید مردانگی سے زیادہ نسوانیت کا غلبہ ہو رہا ہے اور دوسروں کے دست نگر بن کر رہنے کی خواہش بڑھ چکی ہے، لاشعوری طور پر ایسے مریض صحت مند ہونا نہیں چاہتے، وہ زندگی کی سختیوں اور زمانے کی نا ہمواری کا مقابلہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتے ہیں جو آپ نے اختیار کر رکھی ہے، سائیکا ٹرسٹ حضرات نے یقینا آپ کو مسکن ادویات استعمال کرائی ہوں گی جو اور بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں، اگر اب بھی آپ ایسی میڈیسن استعمال کر رہے ہیں تو ہمت کرکے ان سے جان چھڑائیں، پیرا سائیکلوجی کا طریقہ علاج اختیار کریں اور ساتھ ہی ہومیو پیتھک ادویات کا سہارا لیں، آپ کا علاج ناممکن نہیں ہے، ایک قابل ہومیو پیتھ جو نفسیاتی مسائل کو بھی سمجھتا ہو آپ کا علاج کرسکتا ہے۔
چاند کا تعلق ہمارے دماغ سے بڑا گہرا ہے اور آپ کے زائچے میں چاند ہی زیادہ متاثر ہے، آپ کا حاکم سیارہ بھی چاند ہے اور زائچے کے نویں گھر میں ہونے کی وجہ سے اچھی پوزیشن رکھتا ہے، اس کی قوت کو بڑھانے کے لئے آپ کو سچا موتی پہننا چاہئے، ہومیو پیتھک دوائیں ہم یہاں تجویز نہیں کرسکتے، اس سلسلے میں آپ کو کسی ہومیوپیتھ ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑے گا، پیرا سائیکلو جیکل ٹریٹمنٹ کے لئے سب سے پہلے سانس کی مشق شروع کریں۔
آخری بات جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ آپ جیسے مریض اپنا علاج خود نہیں کرسکتے، اس صورت ِ حال میں آپ کے گھر والوں کو اہم کردار ادا کرنا پڑے گا، آپ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی، ہمارے تجربے کے مطابق تو ایسے مریض دوا بھی وقت کی پابندی کے ساتھ نہیں کھاتے، ہر دوسرے تیسرے دن ان کی کیفیات اور موڈ مزاج بدلتا رہتا ہے، اس صورتِ حال کو گھر والے ہی کنٹرول کرسکتے ہیں، آپ چند دن ضرور ہمارے مشوروں پر عمل کرلیں گے مگر پھر کسی نئی قسمت آزمائی کی طرف آپ کا دھیان چلا جائے گا، اس طرح کوئی علاج بھی درست طور پر لمبے عرصے تک نہیں چل پاتا۔