روحانی سائنس ایک زیادہ حساس و لطیف شعبہ ء علم ہے 

علم نقوش و طلسم، زمانہ ء قدیم سے انسان کی اہم ضروریات میں نہایت اہم کردار ادا کرتا رہا ہے، اہل علم و دانش اس حوالے سے تحقیق و جستجو میں مصروف رہے ہیں اور توقیق الٰہی کے مطابق مشاہدات و تجربات دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے ہیں، کرۂ ارض پر زندگی کا آغاز ہوا تو انسان اپنی ضروریات کے مطابق ایجادات میں مصروف رہا، کہتے ہیں وقت بڑا استاد ہے، زندہ رہنے کے سب ہی رنگ ڈھنگ سکھادیتا ہے، انسان بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل کے حل پر قادر ہوتا چلا گیا، بے شک اس کی حقیقی رہنمائی اللہ نے اپنے نبیوں کے ذریعے کی اور اسے زندگی گزارنے کے درست اصول و قواعد سے آگاہ کیا، کہا جاتا ہے کہ حضرت ادریس ؑ وہ پہلے نبی ہیں جنھوں نے قلم سے کام لیا اور لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ دلائی، یہ سلسلہ ء نبوت اسی طرح جاری و ساری رہا اور انسان کو انسانیت کی حقیقی تعلیم سے آشنا کرتا رہا، اس خدائی رہنمائی کا اختتام دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کُل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ہوا۔
زندگی کا یہ طویل سفر جو صدیوں پر محیط ہے، انسان پر ہر دور میں علم و آگہی کے نت نئے دروازے کھولتا رہا ہے، موجودہ دور مادّی سائنس کی ترقی و عروج کا دور ہے لیکن ماضی میں مادّیت سے زیادہ زور روحانیت پر رہااور روحانی سائنس کے نابغہ ء روزگار اپنے کمال فن میں یگانہ افراد تحقیق و تجربات کے میدان میں داد حاصل کرتے رہے،اکثر قدیم کُتب اور کتبات سے ان کے علم و فضل کا سراغ ملتا ہے لیکن افسوس موجودہ مادّی دور میں ہم روحانی سائنس سے دور ہوتے جارہے ہیں یا پھر لکیر کے فقیر بن کر مکھی پہ مکھی مارنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، خصوصاً ہمارا ملک پاکستان جس طرح دیگر مادّی سائنسی علوم میں دنیا سے بہت پیچھے ہے، اسی طرح روحانی سائنسی علوم میں بھی ہماری تحقیق و جستجو نہ ہونے کے برابر ہے، ہم چند سو پرانی کتابوں میں درج اعمال روحانی کے گرد گھوم پھر کر مطمئن ہوجاتے ہیں، کسی نئی تحقیق و جستجو کی زحمت ہی نہیں کرتے اور اگر کوئی اور ایسی کوشش کرتا بھی ہے تو اسے نظر انداز کرتے ہیں یا اپنی محدودیت کے دائرے میں سمٹ کر اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں، علم نجوم، علم الجفر خصوصی طور پر اس پسماندگی کا شکار ہیں، ہماری اکثریت لکیر کی فقیر ہے، قدیم نظریات اور اصول و قواعد میں کسی اجتہاد کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا شعبے انحطاط سے دوچار ہوکر اپنی افادیت اور اپنا اعتماد کھورہے ہیں،سائنسی ذہن رکھنے والا تعلیم یافتہ طبقہ اپنا عدم اطمینان کھل کر ظاہر کرتا ہے اور اسے مطمئن کرنا مروجہ طور طریقوں سے ممکن نہیں ہے۔
جب ہم روحانیات کی بات کرتے ہیں تو دین و مذہب کا سہارا لیے بغیر گفتگو کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا اور یہی بات ایک سائنسی ذہن قبول نہیں کرتا، اسے کائناتی مشاہدات و تجربات کے ٹھوس ثبوت اور حوالے درکار ہیں، اس کا مذہبی ذہن عبادات کو فرائضِ دینی کے طور پر قبول کرسکتا ہے، آخرت میں نجات کا ذریعہ تسلیم کرسکتا ہے لیکن اپنی دنیاوی زندگی کی مادّی ضروریات کو پورا کرنے کا اہل نہیں سمجھتا، وہ سائنس کے ساتھ روحانیات کے عجائبات کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے اور ہمارے اکثر اہل علم کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے۔
علم نجوم دنیا بھر میں جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات میں شامل ہورہا ہے اتنی ہی تیزی سے ہمارے ملک میں تنزلی اور تحقیر کا نشانہ بن رہا ہے، ہماری اکثریت اس علم سے محض تفریحی طور پر شغف رکھتی ہے یا اکثر موقعوں پر ہم کسی شدید اور پریشان کن صورت حال میں کسی امید کی کرن سے روشناس ہونے کے لیے اس علم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں،اگر تسلی بخش جواب مل جائے تو خوش امیدی کا دامن تھام لیتے ہیں، بصورت دیگر حقیقت سے نظریں چراکر کسی اور سمت دیکھنے لگتے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم اس علم کی سائنسی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے، اسے استغفراللہ غیب دانی یا قسمت سے جوڑ لیتے ہیں جو غلط ہے۔

علم نجوم

گزشتہ و موجودہ صدی ایسٹرولوجی میں بڑے انقلابات لائی، کمپیوٹر نے دیگر علوم کے ساتھ اس علم کو بھی ترقی کے نئے راستے دکھائے جس کے نتیجے میں قدیم ماہرین فلکیات کے کام کی جانچ پڑتال آسان ہوگئی اور جدید ماہرین کو نئے اصول و قواعد مقرر کرنے میں آسانی ہوئی چناں چہ اگر علم ہیئت (Astronomy) کے انکشافات و مشاہدات میں اضافہ ہوا تو ساتھ ہی علم نجوم (Astrology) کے قدیم نظریات و مشاہدات میں بھی قابل اعتماد تبدیلیاں لائی گئیں جو علم نجوم کو بھی ایک سائنسی علم کے طور پر قبول کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوئیں اور آج دنیا بھر میں ایسٹرولوجی کو ایک سائنسی علم کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے، چناں چہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیز میں اس کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان یونیورسٹیز کے فارغ التحصیل طلبہ کو ہی معاشرے میں حکومت کی طرف سے ایسٹرولوجیکل پریکٹس کا اجازت نامہ ملتا ہے، پاکستان میں بہر حال صورت حال مختلف ہے۔

علم جفر

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ علم نجوم اور علم جفر میں چولی دامن کا ساتھ ہے، علم جفر کے حصہ ء اخبار و آثار دونوں ہی علم نجوم کے محتاج ہیں کیوں کہ دونوں ہی وقت کی لطافت و کثافت کو اہمیت دیتے ہیں،کوئی لطیف یا کثیف وقت جس طرح کسی خبر کے حصول میں نتائج پر اثر انداز ہوسکتا ہے، اسی طرح ہمارے کسی عمل کے اثر کو بھی متاثر کرتا ہے اور وقت کی لطافت و کثافت کا علم مکمل طور سے علم نجوم کی مدد و معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے، مشہور مقولہ ہے کہ علم نجوم درحقیقت وقت کا علم ہے (Astrology is a knowledge of the time)
زمان و مکان (Time and space) کی تھیوری ہمارے اہل تصوف کا محبوب موضوع رہی ہے، زمانہ ء قدیم سے آج تک کے فلاسفہ بھی اس حوالے سے غوروفکر کرتے رہے ہیں، علم ریاضی کی ترقی نے انسان کو آج اس قابل بنادیا ہے کہ وہ وقت اور مقام کی لطافت و کثافت کا تعین نظام شمسی میں سیاروی گردش کو مدنظر رکھ کر درست بنیادوں پر کرسکے اور خبر کی صحت و ضعف کا تعین کرسکے ، عمل کے اثر پر بھروسا کرسکے۔

علم جفر آثار

علم جفر بنیادی طور پر حروف اور اعداد کی روحانی سائنس ہے،جفر آثار کا تعلق حروف و اعداد کے باطنی خواص کے ذریعے کائناتی امور پر تصرف حاصل کرنا ہے، اس مقصد کے لیے حروف و اعداد کے باطنی یا روحانی اثر کو مادّے میں محفوظ کرکے مخصوص مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، زمانہ ء قدیم سے انسان اس سائنس کی مبادیات سے آگاہ رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنے علم و فن میں اضافہ کرتا رہا ہے، اس مقصد کے تحت وہ حروف و اعداد کے باطنی خواص پر بھی تجربات و مشاہدات کرتا رہا اور فلکیاتی سیاروی اثرات بھی اس کے پیش نظر رہے، چناں چہ وہ حروف و اعداد کے مخصوص نقش و طلسم، خاص سیاروی اثرات کے ساتھ امتزاج دے کر اپنے استعمال میں لاتا رہا۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ اہم حقیقت سیاروی اثرات کے درست وقت کا حصول ہے جو قدیم زمانے کی بہ نسبت فی زمانہ زیادہ آسان ہوگیا ہے،یہ آسانی کمپیوٹر میں موجود جدید ایسٹرولوجیکل سوفٹ ویئرز کی مدد سے حاصل ہوئی، ایسا نہیں ہے کہ پہلے یہ ناممکنات میں سے تھا بلاشبہ ان علوم کے ماہرین علم ریاضی میں بھی اپنا بلند مقام رکھتے تھے اوروہ بہترین حسابی عمل سے کام لے کر مناسب وقت کا تعین کرلیا کرتے تھے لیکن ایسے کاموں میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا تھا اور غلطی کا امکان بھی رہتا تھا،کمپیوٹر کے ذریعے یہ کام زیادہ سہل اور معتبر ہوگیا ہے۔

قوت و ضعف سیارگان

قدیم زمانے سے سیارگان کے شرف و ہبوط کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے، ہر سیارہ کسی مخصوص برج میں شرف (Exaltation) یا ہبوط (Debilated) سے دوچار ہوتا ہے، شرف اس کی اعلیٰ قوت کو ظاہر کرتا ہے جب کہ ہبوط کمزور ترین پوزیشن کا اظہار ہے، اس حوالے سے قدیم ماہرین فلکیات نے مخصوص بروج اور ان کے مخصوص درجات بھی متعین کیے ہیں، اسی طرح سیارگان کے درمیان تشکیل پانے والے جیومیٹریکل زاویے بھی بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کو اصطلاحی طور پر قران (Conjuction) ، تثلیث (Triane) ، تسدیس (Sextile) مقابلہ (Opposition)، تربیع (Square) وغیرہ کے نام دیے گئے ہیں، قران دو سیاروں کا باہم ایک دوسرے کے انتہائی قریب آنا یعنی ملاپ ہے، تثلیث دونوں کا 120 ڈگری کے زاویے پر باہم زاویہ بنانا ، تسدیس 45 ڈگری کا زاویہ، مقابلہ 180 درجہ ، تربیع 60 درجہ ، واضح رہے کہ دائرۂ بروج (Zodic sign) ، ہماری کہکشاں میں 360 ڈگری پر پھیلا ہوا ہے اور ہر برج 30 درجے پر محیط ہے۔
علم نجوم کی جدید تحقیقات کے مطابق شرف و ہبوط کے لیے مخصوص بروج کی اہمیت اور اثر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن درجات سے اختلاف پیدا ہوگیا ہے کیوں کہ ایسٹرولوجی کے جدید اصول و قواعد کے مطابق شرف و ہبوط کے مخصوص درجات کی اہمیت ختم ہوگئی ہے،کوئی سیارہ جب کسی برج میں داخل ہوتا ہے تو وہ پورے برج ہی میں شرف یافتہ یا ہبوط کا شکار تصور کیا جاتا ہے، البتہ ہر برج میں اس کی قوت و اثر کا انحصار اس کی مخصوص پوزیشن پر منحصر ہے اور یہ پوزیشن کسی وقت کے مکمل ایسٹرولوجیکل چارٹ کی مرہون منت ہوگی، ہم نے اپنی کتاب ’’پیش گوئی کا فن‘‘ میں ضروری اصول و قواعد بیان کیے ہیں، یہاں اختصار کے ساتھ چند اہم اور ضروری نکات پیش کیے جارہے ہیں۔

جدید اصول و قواعد

کسی بھی برج میں جب کوئی بھی سیارہ داخل ہوتا ہے تو ابتدائی پانچ درجے تک اس کا ’’عہد طفولیت ‘‘ شمار ہوتا ہے، یہ سیارے کی کمزوری ہے، اسی طرح کسی بھی برج کے آخری پانچ درجات سیارے کا ’’عہد ضعف‘‘ شمار ہوگا یعنی بوڑھاپا، اسی طرح وہ جس برج میں حرکت کر رہا ہے اس کا حاکم سیارہ اگر کسی کمزوری کا شکار ہے تو اس کا اثر مہمان سیارے پر پڑے گا اور وہ قابض برج میں خوش حال تصور نہیں ہوگا، تیسری بات یہ کہ اگر راہو کیتو یا کوئی اور زائچے کا منحوس اثر رکھنے والا سیارہ اس برج کو جس میں سیارہ حرکت کر رہا ہے،بہ لحاظ درجات ناظر ہوگا یا اس کے مول ترکون برج کو ناظر ہوگا تو یہ بھی اسے کمزور کرنے کے مترادف ہوگا، خواہ وہ سیارہ اپنے ذاتی برج میں ہو یا اپنے شرف کے برج میں، یہ جدید اصول کسی بھی سیارے کے قوت و ضعف کی نشان دہی کرتے ہیں، بہ حیثیت مجموعی کوئی بھی سیارہ اپنے ذاتی برج اور شرف کے برج میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے، اگر مندرجہ بالا اصول و قواعد کو مدنظر رکھا جائے۔
ہماری اکثریت قدیم کتابی اصول و قواعد کی اسیر ہے، اس میں کسی نئی بات یا نئے خیال یا نئی تحقیق کو اہمیت نہیں دی جاتی، برسوں پرانے معمولات پر کاربند ہے جس کے نتیجے میں ہمیں وہ نتائج نہیں ملتے جو درحقیقت ملنا چاہئیں، قسمت سے کوئی اچھا وقت ہاتھ آجائے اور ہم اپنی کوششوں میں کامیاب ہوجائیں تو سبحان اللہ! بہ صورت دیگر ہم اپنی کسی کوتاہی پر توجہ دینے کے بجائے نامعقول مفروضات پر مطمئن ہوجاتے ہیں اور اکثر کسی عمل ہی کے اثر سے منکر ہوجاتے ہیں، حالاں کہ ہر عمل اپنا ردعمل ضرور ظاہر کرتا ہے، وہ ردّعمل منفی بھی ہوسکتا ہے اور مثبت بھی،یہ بات ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔

نظریہ ء تاثیر

یاد رکھنا چاہیے کہ رب کائنات کا کوئی بھی کام حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہے، تخلیق کائنات بعض غیر مذہبی سائنس دانوں یا فلسفیوں کی نظر میں ایک حادثاتی واقعہ ہوسکتا ہے لیکن خدائے واحد پر یقین رکھنے والے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ہمارے پروردگار کا سوچا سمجھا فیصلہ اور عمل ہے اور ایک مضبوط، اغلاط سے پاک حسابی نظام کے تحت جاری و ساری ہے، ہمیں بار بار اس نظام پر غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے اور پھر یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ اس نظام کا علم توفیق الٰہی پر منحصر ہے، ہم سچی لگن اور کوشش کے ذریعے اس کے رازوں کو سمجھ سکتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ؂

کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

روحانی سائنس ، مادّی سائنس سے زیادہ حساس و لطیف علم ہے، جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا تھا کہ قدیم زمانوں میں مادّی سائنس سے زیادہ روحانی سائنس پر انحصار کیا جاتا تھا ، اس میدان میں دنیا کی بعض قوموں نے غیر معمولی ترقی کی اور حیرت انگیز تجربات کے ذریعے مفید ترین نتائج حاصل کیے لیکن اکثر خرابی کا سبب کفر و الحاد رہا جس کی وجہ سے بعض قومیں تباہی و بربادی کے انجام سے دوچار ہوئیں۔
پروردگار نے دنیا میں ہر شے کو ’’دو رُخوں‘‘ کے قانون پر پیدا کیا ہے، اس کا ایک رُخ ظاہری ہے اور ایک باطنی، ظاہری رُخ پر سب سے پہلے نظر پڑتی ہے جب کہ باطنی رُخ کوشش و جدوجہد اور توفیق الٰہی سے ہمارے سامنے آتا ہے، نیوٹن یا آئن اسٹائن جیسے لوگ مسلسل کوشش میں سچی لگن کے ساتھ مصروف عمل رہے تو پروردگار نے ان پر کائنات کے بعض راز کھول دیے، ایسی ہی صورت حروف و اعداد کے باطنی خواص سے آگاہی حاصل کرنے والوں کی بھی رہی، اس تحقیق و جستجو کی تاریخ خاصی قدیم ہے ، ابتدا میں غیر مسلم ماہرین کے نام سامنے آتے ہیں اور پھر مسلم ماہرین حروف و اعداد نے بھی اس میدان میں داد تحقیق دی۔
چناں چہ جب مخصوص باطنی خواص کے حامل حروف و اعداد کا مجموعہ کسی خاص ترتیب اور طریق کار کے مطابق تشکیل پاتا ہے تو وہ ایک نئے مخصوص اثر کا حامل ہوتا ہے اور یہ مخصوص اثر کسی خاص مقصد کی انجام دہی میں معاون و مددگار بنتا ہے، یہی صورت ورد و وظائف میں بھی اثر پذیری کا سبب بنتی ہے، مخصوص حروف و عددی قوت کی مسلسل تکرار کائناتی فضا میں اپنے مخصوص ارتعاش کا باعث بنتی ہے اور یہ ارتعاش جس قدر طاقت ور ہوتا چلا جاتا ہے،اسی قدر اس کا اثر بھی پھیلتا چلا جاتا ہے،بعض لوگ محض کتابوں یا سنی سنائی باتوں پر بھروسا کرکے ورد و وظائف میں مشغول ہوجاتے ہیں اور اکثر مثبت کے بجائے منفی اثرات سے دوچار ہوتے ہیں، روحانی سائنس کا یہی سب سے خطرناک پہلو ہے، اس سے بچنا چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ روحانی سائنس، مادّی سائنس سے بھی زیادہ حساس و لطیف کام ہے، جب تک اس موضوع پر بھرپور آگاہی حاصل نہ ہو، فائدے سے زیادہ نقصان کے خطرات رہتے ہیں۔
عزیزان من! علم و آگہی کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، ان شاء اللہ آئندہ بھی روحانی سائنس کے حوالے سے درست رہنمائی کی جائے گی۔