دینی علوم کے علاوہ کوئی علم بھی اسلامی‘ہندو‘ عیسائی یا یہودی نہیں ہوتا

قیام پاکستان کے بعد ہر شعبے میں ایک نئے آغاز کی ضرورت تھی، پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک تھا، ملک کی بیشتر آبادی زراعت پیشہ تھی، البتہ بڑے شہروں مثلاً لاہور، کراچی، پشاور، ملتان، راولپنڈی وغیرہ میں صورت حال کافی مختلف تھی،تجارتی سرگرمیاں اور علم و ہنر سے متعلق دلچسپیاں ان شہروں میں موجود تھیں، لاہور اس حوالے سے بہت بڑا علمی مرکز تھا،بعد ازاں انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں نے کراچی کو ایک بڑا علمی و ادبی مرکز بنایا، چناں چہ ہر شعبے میں نئی بنیادیں ڈالی گئیں اور ایک نئی مملکت کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوششیں کی گئیں۔
ابتدا میں زیادہ تر انڈیا سے آنے والے مشہور اور قابل افراد نے آگے بڑھ کر نئی مملکت کے لیے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے،آنے والے سب سے پہلے لاہور آئے اور پھر مختلف شہروں میں پھیلتے چلے گئے، پاکستان کی فلم انڈسٹری اور دیگر بہت سے شعبے ہندووں کے قبضے میں تھے،اُن کی جگہ رفتہ رفتہ انڈیا سے آنے والے ہنر مندوں نے لے لی،اس حوالے سے ہم زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتے، ہر شعبے سے متعلق افراد اس حقیقت سے باخبر ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ابتدائی بنیادیں رکھنے والے کون لوگ تھے، مثلاً آل انڈیا ریڈیو کے زیڈ اے بخاری نے ریڈیو پاکستان کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں،فلم کے میدان میں اداکار و ہدایت کار نذیر ، شوکت حسین رضوی، ڈبلیو زیڈ احمد، سبطین فضلی اور بہت سے دوسرے لوگ جو انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تھے ، فلم انڈسٹری کی بنیادیں کھڑی کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
اس گفتگو کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ابتدا ہی سے ہر شعبے میں پاکستان کو ایک نیا آغاز کرنا پڑا، یہی صورت حال اخبارات و رسائل کی بھی رہی، لاہور کا روزنامہ نوائے وقت ضرور خالص لاہوری اخبار تھا لیکن جنگ ، ڈان، انجام اور حریت بہت سے دوسرے اخبار بعد میں انڈیا سے آنے والے صحافیوں نے شروع کیے، یہی صورت حال رسائل کی رہی، باقی شعبے اپنے اپنے طور پر ایک ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے ترقی کرتے رہے۔

ہندو مسلم محاذ آرائی

سب سے زیادہ برا حال اکلٹ سائنسز کا ہوا، متحدہ انڈوپاک میں اس شعبے پر بھی ہندو حاوی تھے،مسلمان ذرا کم کم ہی اس طرف توجہ دیتے تھے اور اس حوالے سے بھی ایک مخصوص گروپ بندی ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان موجود تھی،خصوصاً علم نجوم کے حوالے سے دونوں گروپ ابتدا ہی سے ایک دوسرے کے مقابل صف آراءتھے،ہندو جوتش ودیا (ویدک سسٹم) کو اہمیت دیتے تھے جب کہ مسلمان یونانی یا ویسٹرن سسٹم اختیار کرکے یہ سمجھتے تھے (بلکہ اب بھی سمجھتے ہیں) کہ یہ اسلامی علم نجوم ہے، حالاں کہ کوئی بھی علم سوائے علم دین کے ، اسلامی ، ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، یہودی نہیں ہوتا، وہ صرف علم ہوتا ہے اور ہر علم کا استعمال اچھا یا برا بھی ہوسکتا ہے مثلاً سائنس نے ایٹم کا راز دریافت کیا جو آج کے دور کی اہم ترین ضرورت ہے،ایٹمی توانائی پاور سیکٹر میں استعمال ہورہی ہے لیکن اس کا دوسرا رُخ یعنی ایٹم بم بھی ہے جس کے بھیانک ترین نتائج جاپان کے دو شہروں میں دیکھے گئے۔
متحدہ انڈوپاک میں ہندو مسلم چپقلش اور معرکہ آرائی ہمیشہ جاری رہی، دونوں قومیں مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنی برتری ثابت کرنے میں ہمیشہ مصروف رہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی کبھی کمی نہیں رہی جو علمی معاملات کو علمی سطح تک ہی رکھتے تھے اور اس حوالے سے کوئی مذہبی تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے،ایسے لوگ بہر حال بہت کم تھے،اکثریت انہی لوگوں کی تھی جو علمی میدانوں میں بھی ہندوازم اور اسلام ازم کا نعرہ بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان میں اکلٹ سائنسز

ملک کی تقسیم سے پہلے اکلٹ سائنسز کے جو رسائل یا کتابیں شائع ہوتے رہے، اُن میں مذہبی تعصب بہت زیادہ نظر نہیں آتا لیکن تقسیم کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی کیوں کہ تقسیم کا عمل بڑا ہی تکلیف دہ اور خوں چکاں تھا جس میں لاکھوں انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، نتیجے کے طور پر ہندو مسلم نظریاتی اختلافات اس قدر شدید ہوگئے کہ ایک دوسرے کی ہر چیز سے نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور باقاعدہ طور پر ہر شعبے میں یہ مہم تیز کردی گئی کہ ایک دوسرے کی علمی اور نظریاتی روایات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کیا جائے گا، ابتدا میں چوں کہ ایسے اہل علم و فن موجود تھے جو ہندو مسلم مشترکہ ثقافت و ادب کے حوالے سے زیادہ متعصب نہیں تھے، چناں چہ تقریباً 1965 ءتک پھر بھی صورت حال کافی حد تک نارمل رہی مگر 65 کے بعد اس میں مزید شدت آئی،انڈیا میں اور پاکستان میں ہر سطح پر مسلم یا ہندو روایات سے گریز کا رویہ اختیار کیا جانے لگا، اس کی جھلک یقیناً ان لوگوں نے محسوس کی ہوگی جو پرانی انڈین اور پاکستانی فلمیں دیکھتے رہے ہیں،زبان کے حوالے سے بھی زیادہ سخت رویہ اختیار کیا جانے لگا، اُردو میں سے ہندی کے الفاظ نکالے جانے لگے اور انڈیا میں اُردو کو ہندی زدہ کرنے کی کوشش تیز ہونے لگی، مشہور شاعر قتیل شفائی نے یہ طے کرلیا تھا کہ اپنے گیتوں میں ہندی الفاظ استعمال نہیں کریں گے حالاں کہ گیت بنیادی طور پر ہندی صنفِ سخن ہے اور اس میں ہندی یا پوربی وغیرہ کے الفاظ کے استعمال سے مٹھاس بڑھ جاتی ہے مگر قتیل صاحب اپنے موقف پر قائم رہے جب کہ ان کے ہم عصر اور بہت بڑے فلمی گیت نگار تنویر نقوی یا دیگر شاعر زبان میں کسی تعصب کے حامی نہیں تھے۔
ایسی ہی صورت حال ہر شعبے میں نظر آئی، شہروں میں مختلف شاہراہوں کے نام تبدیل ہوئے، قصہ مختصر یہ کہ انڈیا میں ہندوازم کا زور بڑھا اور پاکستان میں اسلامائیزیشن کا عمل جاری رہا، یہی صورت حال پاکستان میں اکلٹ سائنسز کے رسالوں اور کتابوں کی بھی رہی،لاہور سے ماہنامہ آئینہ ءقسمت یونانی علم نجوم کا نمائندہ تھا اور کراچی سے روحانی دنیا ، یہی دو اُردو میگزین نمایاں حیثیت کے حامل اور سب سے قدیم ہیں،باقی اکّا دکّا رسائل وقتاً فوقتاً نکلتے رہے اور بند ہوتے رہے،یہ دونوں بنیادی رسالے یونانی نجوم کو اسلامی نجوم کے طور پر پیش کرتے رہے،البتہ آئینہ ءقسمت کی پالیسی کسی حد تک لبرل رہی، بعد ازاں کراچی سے ماہنامہ فلکیات جاری ہوا، اُس کی پالیسی بھی لبرل رہی لیکن روحانی دنیا کے مدیر اور برصغیر کے عظیم جفار محترم المقام حضرت کاش البرنیؒ کا رویہ اس حوالے سے ہمیشہ نہایت سخت رہا، انہوں نے اپنے رسائل میں خالص یونانی اور مسلمان عرب منجمین کی تقلید پر زور دیا، اس حوالے سے انہوں نے زائچے کے اسٹائل کو بھی بدل ڈالا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں اکلٹ سائنسز کی معیاری تفہیم اور تشریح کے حوالے سے انہوں نے بہت کام کیا ہے اور اس علم کو ایک سائنس کے طور پر متعارف کرایا،اپنی علم نجوم کی کتابوں میں ہندی اصطلاحات کو ترک کیا اور اُردو، فارسی اور عربی کی نئی اصطلاحات وضع کیں۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں اکلٹ سائنسز کی ترقی میں تنہا حضرت کاش البرنیؒ کی کاوشیں بہت سے دوسرے لوگوں پر بھاری ہیں اور بعد میں آنے والے بہت سے منجم یا جفار اُن کی پیروی پر مجبور ہوئے، ہم بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں۔
یونانی یا عرب منجمین کی تقلید پاکستان میں حضرت کاش البرنیؒ کی کوششوں کا نتیجہ ہے ورنہ بعض دیگر پاکستانی منجمین کا جھکاو اکثریت کے ساتھ ویدک سسٹم کی جانب رہا ہے،تقسیم سے قبل کے اکثر مسلمان منجمین نے ویدک سسٹم پر کتابیں بھی تحریر کی ہیں ، خاص طور پر حکیم غلام قادر کی کتاب ”مراة النجوم“ یا حصین الدین احمد کی کتاب ”النجوم“ ویدک سسٹم کی اہم کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔
پاکستان کے دیگر منجمین میں ڈاکٹر ایوب تاجی آف کراچی، ڈاکٹر اختر امرتسری آف لاہور، حکیم ضبط قریشی آف راولپنڈی اور ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ آف راولپنڈی ، غازی منجم آف راولپنڈی، ویدک سسٹم کے ماہرین میں شامل رہے ہیں (آج مورخہ 29 اکتوبر کو جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ کے انتقالِ پر ملال کی خبر آئی، انا للہِ وانا الہِ راجعون)
اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر افراد ویدک سسٹم کو فالو کرتے ہیں اور اس کی پریکٹس کرتے ہیں جن میں ہم بھی شامل ہیں ، ہم نے اس موضوع پر دو کتابیں بھی تحریر کی ہیں جو اسی سال شائع ہوئی ہیں اور تیسری کتاب بھی انشاءاللہ اس سال کے آخر تک شائع ہوجائے گی۔
حضرت کاش البرنیؒ کی کوششوں کے اثرات اور بعض کاروباری مجبوریاں یونانی سسٹم کے پھیلاو اور عام ہونے کا باعث ہےں، مختلف رسائل اور اخبارات کی مجبوری یہ ہے کہ سن سائن ایسٹرولوجی کے ذریعے اپنے قارئین کو متوجہ کریں کیوں کہ ہفتہ، مہینہ یا سال کیسا گزرے گا؟ یہ سلسلہ صرف اور صرف سن سائن ایسٹرولوجی یعنی شمسی برج کے ذریعے ہی ممکن ہے جب کہ حقیقی علم نجوم سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے، اس کی حیثیت محض تکّے بازی تک ہے، چناں چہ ہر وہ شخص جو 12 برجوں کی خصوصیات تھوڑی بہت بھی جان لیتا ہے، ایسٹرولوجر بن بیٹھتا ہے ، ایسے اکثر ”ماہر نجوم“ ٹی وی کی اسکرینوں پر کثرت سے نظر آنے لگے ہیں۔

یونانی اور ویدک علم نجوم

عزیزان من! پاکستان میں علم نجوم اور دیگر اکلٹ سائنسز کے حوالے سے مختصراً یہ وضاحت اس لیے پیش کی گئی ہے کہ ہمارے پیش نظر ایک ایسا خط ہے جس میں بعض علمی مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے جو یونانی اور ویدک سسٹم سے متعلق ہیں، آئیے پہلے اس خط کا مطالعہ کیجیے۔
ایم ، آر، خان لکھتے ہیں ”میں آپ کا پرانا قاری ہوں،تاریخ ، علم نجوم اور ہومیو پیتھی سے دلچسپی ہے، نجوم کے سلسلے میں کیوں کہ ویدک سسٹم پر نہ تو کتابیں ملتی ہیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کچھ آگاہی تھی،البتہ ویسٹرن نجوم سے آگاہی ہے، آپ کی تحریروں سے ویدک سسٹم سے متعلق آگاہی ہوئی ، نام نہاد ماہرین نے علم کو شاید اسلامی اور غیر اسلامی میں تقسیم کر رکھا ہے ، شکر ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں قدم بڑھایا اور معلومات بہم پہنچائیں، آپ نے تو ویدک علم نجوم پر کتاب بھی تحریر کردی ہے اور شاید یہ سلسلہ آپ آگے بھی بڑھائیں گے، ایک الجھن کا شکار ہوں ”تقویم سیارگان“ شاید لندن سے شائع ہوتی ہے GMT ٹائم کے حساب سے ہوتی ہے، مروجہ طریقہ ءکار سے سیارگان کا وقت اپنے شہر کے لیے معلوم کیا جاتا ہے لیکن ویدک سسٹم کے لیے کوئی تقویم سیارگان شاید نہیں ہے یا میری نظر سے نہیں گزری،ویدک سسٹم کے حساب سے کسی بھی کوکب کا کسی بھی برج میں پڑاو¿، رفتار یا وقت کیسے معلوم کیا جاتا ہے؟ اس سلسلے میں الجھن کا شکار ہوں،ویدک سسٹم میں دنوں کے نام اور مہینوں کے نام بھی ہندی میں ہیں اور ہر ماہ کے ایام کی تعداد بھی معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ یہ ہمارے ہاں استعمال نہیں ہوتے، یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ فروری کی طرح 28 یا 29 دنوں کے ہیں یا 30 اور 31 دنوں کے، صرف اتنا معلوم ہے کہ قمر کی منازل ویدک سسٹم میں 27 ہیں جب کہ چاند کبھی 29 دن بعد اور کبھی 30 دن بعد ظاہر ہوتا ہے۔ اگر ممکن ہوسکے تو برائے مہربانی اپنے کسی مضمون میں اس مسئلے پر روشنی ڈالیں تاکہ میری اور بہت سے دوسرے قارئین کی الجھن ختم ہوسکے اور ویدک سسٹم کو سمجھنے میں آسانی ہو، ویسٹرن نجوم اور ویدک نجوم میں شاید 24 درجے کا فرق ہے جس سے بڑی گڑبڑ ہے ، کوکب برجوں میں فرق پیدا کردیں گے، یونانی سسٹم کے تحت کوکب جس برج میں ہوگا، ویدک سستم میں اس کے خلاف کسی اور برج میں ہوگا،مہربانی کریں اور اس کی تشریح فرمادیں“
جواب: آپ کا خط پڑھ کر خوشی ہوئی کہ علمی مسائل پر سوچتے اور غوروفکر کرتے ہیں، جب کہ اکثر لوگوں کو ایسی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے یا پھر عام طور سے ہر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے الگ تھلگ بیٹھا ہے اور اپنی ذات میں کامل ہے، خود کو عقل کُل سمجھتا ہے،کسی نئی بات یا نئی سوچ پر توجہ ہی نہیں دیتا۔
ہم نے آپ کے خط سے پہلے پاکستان میں اکلٹ سائنسز کے حوالے سے جو حقائق پیش کیے ہیں وہ یقیناً آپ کے لیے صورت حال کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے،آپ کے پہلے سوال یعنی تقویم سیارگان کا مسئلہ نہایت آسانی سے حل ہوسکتا ہے ، اگر آپ کمپیوٹر سے مدد لیں اور کوئی بھی ایسٹرولوجیکل پروگرام اُس میں ڈال لیں ، اس صورت میں یونانی یا ویدک دونوں طرح کی تقویم سیارگان آپ کو سیکڑوں نہیں ہزاروں برس کی دستیاب ہوجائے گی، یہ درست ہے کہ ”ایفے مری“ کے نام سے لندن سے تقویم سیارگان شائع ہوتی رہی ہے، اس کے علاوہ امریکا سے بھی شائع ہوتی ہے لیکن موجودہ دور میں کمپیوٹر کے ایسٹرولوجیکل سافٹ ویئرز کی وجہ سے ایسی کتابوں کی اہمیت ہی ختم ہوگئی ہے، پھر بھی اگر آپ چاہیں تو ایسی کتابیں باہر سے منگواسکتے ہیں ، پاکستان میں شاید کسی ادارے نے ویدک تقویم سیارگان شائع کی تھی،اس سے پہلے مکتبہ آئینہ ءقسمت لاہور نے یونانی تقویم سیارگان بھی شائع کی تھی جو اب نایاب ہے، مزید ایسی کتابیں شائع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے کیوں کہ ایک ملاقات میں محترم شاہ زنجانی نے ہمیں بتایا کہ وہ تقویم سیارگان شائع کرکے خاصے پریشان ہوئے کیوں کہ ایسی کتابیں ہر شخص نہیں خریدتا۔
آپ جانتے ہیں کہ یونانی اور ویدک طریق کارمیں چوبیس درجے کا فرق ہے لہٰذا باآسانی یونانی سیارگان یا بروج کے درجات میں 24 درجے کم کرکے اُسے ویدک سسٹم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے،یہ درست ہے کہ اس طریقے سے کسی سیارے کا برج تبدیل ہوجائے گا ، مثلاً آج کل سیارہ مشتری یونانی سسٹم کے مطابق برج سنبلہ کے تقریباً 12 درجے پر حرکت کر رہا ہے تو 24 درجے کم کردیں ، اس طرح برج اسد کے تقریباً 18 درجے پر ویدک سسٹم کے مطابق ہوگا، اسی طرح ہر کوکب کا حساب نکالا جاسکتا ہے مگر یاد رہے کہ درستگی کا اعلیٰ ترین معیار آپ کو کسی کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے ہی حاصل ہوسکے گا۔
جہاں تک دنوں اور مہینوں کے ناموں کا تعلق ہے تو تمام پاکستانی جنتریوں میں ہندو بکرمی کلینڈر دیا جاتا ہے اور مہینوں کے نام اور دنوں کی تعداد بھی موجود ہوتی ہے، اُس میں دیکھ لیا کریں،منازل قمری کے حوالے سے ہماری نئی کتاب ” اک جہان حیرت“ بازار میں موجود ہے، اُس کا مطالعہ کریں تو آپ کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے، اگر ویدک ایسٹرولوجی سے آگاہی کا شوق ہے تو ہماری کتاب ”پیش گوئی کا فن“ آپ کی بھرپور رہنمائی کرے گی،اس کا دوسرا حصہ بھی اس سال کے آخر تک شائع ہوجائے گا مگر ایک بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، دونوں سسٹم ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہیں، جو لوگ یونانی سسٹم کے تحت پریکٹس کرتے ہیں، اُن کے لیے اکثر ویدک سسٹم ایک کڑوی گولی ثابت ہوتا ہے،جسے حلق سے اتارنا خاصا مشکل محسوس ہوگا کیوں کہ یونانی سسٹم کو ذہن میں رکھ کر ویدک سسٹم کو سمجھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، دونوں طریق کار ایک دوسرے سے بعض جگہ پر بالکل مختلف نظریہ پیش کرتے ہیں،خاص طور پر نظراتِ سیارگان کے اصول دونوں جگہ بالکل مختلف ہیں،اسی طرح سیارگان کی مختلف بروج میں پوزیشن بھی یکساں نہیں ہے، بہر حال جدید ایسٹرولوجیکل ریسرچ کے بعد علم نجوم کی جو نئی شکل سامنے آئی ہے، وہ قدیم نظریات سے بہت مختلف ہے اور ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قدیم کتابوں کے نظریات کو معاذ اللہ قرآن و حدیث سمجھ کر سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ،حالاں کہ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آج سے 100یا 200 سال قبل یا اس سے بھی پہلے کہ ماہرین نے جو کام بھی کیا وہ یقیناً قابل قدر ہے مگر حرف آخر نہیں ہے کیوں کہ اُس زمانے میں ان لوگوں کے جتنے وسائل تھے اور جتنی کوشش تھی ، وہ آج کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے،آج جدید سائنسی ترقی نے انسان کو مریخ پر پہنچا دیا ہے ، حساب کتاب کے ایسے فارمولے دستیاب ہوچکے ہیں کہ انسان زمین کی ہی نہیں دیگر سیارگان کی بھی صحیح پیمائش کرنے کے قابل ہوچکا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ قدیم زمانے میں علم نجوم کے جو اصول و قواعد مرتب کیے گئے ، اُن کے مطابق نظام شمسی میں زمین کو ساکت اور دیگر سیارگان کو زمین کے گرد گردش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے،جب کہ جدید سائنسی تحقیق نے اسے غلط ثابت کیا ہے اور بتایا ہے کہ زمین ساکت نہیں ہے اور وہ دیگر سیارگان کے ساتھ سورج کے گرد چکر لگارہی ہے مگر ہم ہیں کہ قدیم نظریات سے لپٹے ہوئے ہیں ، ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ قدیم کتابوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور جدید تحقیقات کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں، حالاں کہ قدیم زمانے میں لکھی گئی بعض کتابیں درحقیقت جہالت کا پلندہ ہےں جو ہمارے پاکستان میں بہت زیادہ قیمت پر بعض ادارے فوٹو کاپی کی شکل میں فروخت کر رہے ہیں،خصوصاً علم نجوم کے حوالے سے، امید ہے کہ آپ کے سوالوں کے جواب کے علاوہ ہمارے دیگر قارئین کے لیے بھی اس تحریر میں بہت سی چشم کشا باتیں سامنے آئی ہوں گی۔