ڈرگ مافیا اور روحانی بابا! علاج معالجے میں فراڈ

خدا وندا ! یہ تیرے سادہ دل بندے کد ھر جا ئیں؟

ڈرگ مافیا اور روحانی بابا! علاج معالجے میں فراڈ

اکثر جس مشکل مسئلے سے ہمارا سامنا ہوتاہے وہ مریضوں یامسائل زدہ افراد کودرست بات کا سمجھانااور ان کے دل ودماغ میںجوفتور پیدا ہوگیاہے اسے دورکرنا، درحقیقت اتنا مشکل کام ہے کہ اس کا اندازہ صرف وہی لوگ لگاسکتے ہیں جوکسی عملی تجربے سے گزرے ہوں۔

دراصل شک اوروہم ایسی بیماریاں ہیں جوانسان کوجسمانی اورروحانی طورپرہزارہاقسم کی دیگربیماریوں کے جال میں پھنسادیتی ہیں ۔ان کی موجودگی میں مریض یا مسائل زدہ افراد مثبت انداز میں سوچنے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ لہٰذا اکثرانہیں سمجھانا ناممکن ہوکررہ جاتا ہے۔کیونکہ اپنے شک یا وہم کی تائید کے لئے دلیل وجواز ان کے پاس بھی کم نہیں ہوتے۔

ایک خاتون جن کی عمرتقریباً48سال اوران کے شوہر کی عمربھی 55`50سے کم نہ تھی، بچے بھی بڑے ہوچکے ہیں ، صاحب حیثیت ہیں، مالی طورپرکوئی پریشانی نہیں ، پریشانی ہے تو شوہر کی طرف سے جو ریٹائرڈ لائف گزاررہے ہیں۔ صاحب دولت وجائیداد ہیں، دونوں میاں بیوی میں زندگی کے کسی حصے میں بھی معقول انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوسکی، گویا وہ حقیقی محبت اورخلوص جوکسی بھی ازدواجی زندگی میں خوشیوں اورآرام و سکون کا باعث ہوسکتاہے ہمیشہ مفقود رہا، نتیجتاً ساری زندگی ایک دوسرے سے توتو میں میں کرتے گزری، خاتون کوبہت سی جسمانی بیماریاں لاحق ہیں جن میں سے کچھ توعمر کا تقاضا ہے اورکچھ ناکام اورنامناسب ازدواجی زندگی کے نفسیاتی پہلوﺅں کا شاخسانہ ہیں اورکچھ بیماریاں ایلوپیتھک طریقہ علاج کا شاخسانہ ہیں۔

شوہر کی صحت بھی کسی طرح بھی تسلی بخش نہیں کہی جاسکتی کیوں کہ شوگر‘بلڈپریشر اورانجائنا جیسے امراض انہیں لاحق ہیں جومستقل علاج معالجے کے متقاضی ہوتے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں خاتون کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان کے شوہر نہایت آوارہ مزاج ہیں۔ جوانی میں بھی ان کی رنگین مزاجی عروج پر رہی، ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پرفائز رہنے کے سبب انہوں نے اپنی رومان پرستی کے لیے بہت سے ناجائز راستے ڈھونڈرکھے تھے اوراب بھی ان کی نظر اپنے سے آدھی سے بھی زیادہ کم عمر کی لڑکی پرہے۔ وہ اس سے شادی کرناچاہتے ہیں مگر خاتون کے مرنے کے بعد!اوربات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرناچاہتے ہیں بلکہ خاتون کے خیال میں اس لڑکی اورا س کی ماں کا منصوبہ بھی یہی ہے کہ وہ ان سے شادی کرکے ساری دولت اور جائیداد پر قبضہ کرلیں۔

نہایت دلچسپ پہلواس معاملے کا یہ ہے کہ وہ لڑکی اوراس کی ماں کوئی غیر نہیں ہیں، خاتون کی نہایت قریبی عزیزہ ہیں اوراس رشتے داری کی وجہ سے خاتون کے گھرمیں آزادانہ عمل دخل رکھتی ہیںاورخود خاتون سے اوران کے شوہر سے مددکی طلب گار ہیں کہ ان کا رشتہ کسی معقول جگہ کرانے میں تعاون کریں۔ گویا بظاہر ایسی کوئی بات نہیں جووہ خاتون سمجھ رہی ہیں لیکن خاتو ن کا کہنایہ ہے کہ میں اپنے شوہر کے مزاج اورفطرت کوسمجھتی ہوںاوراپنی رشتے دار خاتون سے بھی واقف ہوں۔

 ماضی میں بھی ان سے خاندانی طورپر چپقلش رہی تھی مگران کا کبھی زور نہیں چلا۔اب چونکہ انہیں نظرآرہا ہے کہ میری زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں لہٰذا وہ اپنی بیٹی کوچارہ بنا کرمیرے بچوں کوان کے حق سے محروم کرناچاہتی ہیں۔

خاتون کومختلف عاملوں اورباباﺅں نے یہ یقین دلایا ہے کہ ان کے مخالف ماں بیٹیوں نے ان پرکچھ ایسے تعویز گنڈے کرائے ہیں جن کی وجہ سے وہ کسی کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوچکی ہیں۔

 ایک اﷲ والی خاتون نے تویہاں تک کہ دیا کہ تم پرخطرناک قسم کا سفلی علم کرایا گیا ہے اورمرگھٹ میں تمہارے نام کی چوکی بٹھائی گئی ہے جس کی وجہ سے تم 4مہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہوگی۔

اس صورتحال میں جب بڑے بڑے مشہور روحانیت کے چیمپئن ایسی باتیں کررہے ہوں تو مریضہ کا کیاحال ہوگا۔ ہمارے لئے توان کویہ سمجھانا مشکل ہوگیا کہ جیسا کچھ آپ خیال کررہی ہیں اورجیسا کچھ آپ کوبتایا جارہاہے یہ سب غلط ہے۔ اصل مسئلہ صرف اتنا ہی ہے کہ آپ کے شوہر سے توآپ کی پہلے بھی کبھی نہیں بنی جو اب وہ آپ سے حسن سلوک اورمحبت کا مظاہرہ کریں۔ باقی گھرآنے والے مہمانوں سے اگروہ اچھی طرح پیش آتے ہیں، ان کی خاطر تواضع کرتے ہیں تویہ دنیا کا دستور ہے۔اپنی پرانی دشمنی کے باوجود آخر آپ بھی توان کی خاطرداری کرتی ہیں اوران سے کسی خراب رویے کااظہار نہیںکرتیںاوراگروہ آپ سے یاآپ کے شوہرسے یہ کہتی ہیں کہ میری لڑکی کے لئے کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈدیں توآپ ان کی اس بات کا یہ مطلب کیوں لے رہی ہیں کہ ان کی نظر آپ کے شوہر پرہی ہے۔ سوائے دولت وجائیداد کے۔

آپ کے شوہر میں کیا رکھا ہے جولڑکی کویا اس کی ماں کومتاثر کرے گا۔ آپ کے بچے ماشاءاﷲ جوان ہیں۔ ایک لڑکی کی آپ شادی کرچکی ہیں دونوں لڑکے اب شادی کی عمرکوپہنچ چکے ہیں۔ وہ اپنے باپ کی دولت وجائیداد کے شرعی طورپر وارث ہیں۔ ایک زیرتعلیم ہے۔ دوسرا تعلیم سے فارغ ہوکر ملازمت کررہاہے۔

ہم نے عرض کیا کہ کہیں ایساتونہیں کہ وہ آپ کے بیٹے سے اپنی بیٹی کا رشتہ چاہتی ہوں توانہوں نے بتایاکہ وہ لڑکی ان کے بیٹے سے عمرمیں5سال بڑی ہے۔

خاتون کی بیماریوں کی تفصیل یہ ہے کہ وہ آرتھرائیٹس کی مریضہ توہیں ہی آپریشن کے ذریعے ان کا پتابھی نکالا جاچکاہے اوریوٹرس بھی اس کے علاوہ ہائی بلڈپریشر، ایسیڈیٹی وغیرہ سے بھی مستقل واسطہ رہتاہے۔ ہم نے پوچھا کہ ڈاکٹرز آپ کی بیماریوں اورزندگی موت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟اورآپ کوجویہ خیال ہے کہ تعویز گنڈوں کے ذریعے کوئی خطرناک بیماری آپ کی جان لینے کے درپے ہے تواس کا سراغ ڈاکٹرکیوں نہیں لگا پارہے؟توانہوں نے بتایا کہ بیماری ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آرہی اوریہی وجہ ہے کہ وہ اپنی بیماری کوپراسرار سمجھ رہی ہیں۔

مندرجہ بالا کیس میں خاتون کوجوبیماریاں لاحق ہیں ان کا مکمل اورشافی علاج توکسی بھی طریقہ علاج میں نہیں ہے۔ایلو پیتھک ڈاکٹرزآرتھرائیٹس کی خطرناک صورت حال کنٹرول کرنے کے لئے کارٹی زون جیسی دوائیں استعمال کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں جوخود ایک سلوپوائزن ہے اس صورتحال میں اپنی پراسرار بیماری کے لئے یہ دلیل دینا کہ کسی علاج یا کسی دوا سے فائدہ ہی نہیں ہوتاکوئی معقول بات نہیں ہے۔

ایسی بہت سی بیماریاں ہیں یابعض امراض اکثرایسے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی دواکام ہی نہیں کررہی ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب لیناکہ بیماری کی وجہ سحروجادو کے اثرات ہیں۔ مریض کی فطری قوت مدافعت کو بھی کمزورکردیتی ہے۔

ہمارے کالم کی ایک پرانی قاری شوگر کی مریضہ ہیں ہم نے ایک بار شوگرکنٹرول کرنے کے لئے ایک ہومیوپیتھک نسخہ لکھاتھا۔ انہوں نے اسے استعمال کیا۔شوگرکے ساتھ کچھ دیگر تکالیف بھی اکثرہوتی رہتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ہمارے پاس آئیں اوران کا علاج شروع ہوگیا۔

شوگربذات خود سوبیماریوں کی ایک بیماری ہے جوانسان کواندرہی اندر کھوکھلا کرتی رہتی ہے۔ کسی طریقہ علاج میں بھی اس کا شافی اورکافی علاج موجود نہیں ہے۔

معاملہ حد سے گزرجائے اورروک تھام کی تمام دوائیں ناکام ہوجائیں توآخری حربے کے طورپرانسولین دی جاتی ہے۔ اگرشوگر کنٹرول میں نہ ہوتو عموماً دوسری تکالیف اورزیادہ پریشان کرتی ہیں اوران پرقابو پانا مشکل ہوجاتاہے۔ خدانخواستہ شوگر کے ساتھ بلڈپریشر بھی ہائی ہونے لگے تومزید خرابیوں کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔گزشتہ دنوں علاج معالجے کے دوران کچھ بے احتیاطیاں ہوئیں جس کے نتیجے میں پہلے شوگرانتہائی کم ہوگئی اوربعدازاں بہت بڑھ گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ بعض بیماریوں سے نمٹنا غریب لوگوں کے بس کی بات نہیں ۔ان میں سے شوگر بھی ایک ایسی ہی بیماری ہے ۔اس کے پرہیز بھی نرالے ہیں یعنی بعض اوقات سادہ سی خوراک مثلاً روٹی چاول، سبزیاں بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی ایک عام آدمی کے لئے مستقل شوگرچیک کراتے رہنا بھی اکثرمسئلہ بن جاتاہے۔ لہٰذا جب دواﺅں کے مستقل استعمال سے شوگر بہت کم ہوجائے توبھی مریض کی حالت خراب ہونے لگتی ہے اوراس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیا ہورہاہے۔ اس وقت میں اگربلڈپریشر بھی لوہوجائے تومریض کاذہن کام کرنا چھوڑ دیتاہے اوروہ ہذیانی کیفیت کا شکار ہوکر عجیب عجیب باتیں کرنے لگتا ہے جس سے کسی ماورائی اثر کا گمان ہونے لگتاہے جبکہ شوگر کا حد سے زیادہ بڑھ جانا بعض دیگر تکالیف کوبڑھاوادیتاہے۔ چنانچہ ایسی ہی صورتحال جب پیش آئی تووہ گھبراگئیں۔

ایسی صورت میں عزیز رشتے دار اپنا عیادت کا فریضہ پورا کرنے کے لئے آجاتے ہیں اوران میں طرح طرح کے ماہرین اوردانش مند بھی موجود ہوتے ہیں۔ سب کے پاس اپنے تجربات ومشاہدات کی بھاری بھرکم زنبیل ہوتی ہے عیادت کے دوران میں جذبہ خیراندیشی اورہمدردی چونکہ عروج پرہوتاہے لہٰذا ہرآنے والا صورتحال کوکنٹرول کرنے اورمسئلے کا حل تجویز کرنے میں پیش پیش نظر آتاہے اوربعض افراد جوش وجذبات میں اس قدراندھے ہوجاتے ہیں کہ اپنی بات اورمشورے پرعمل کرنے کے لیے پورا زورلگادیتے ہیں۔

حالانکہ ضروری نہیں ہے کہ وہ درست سمت میں سوچ رہے ہوں یا صورتحال کوصحیح طرح سمجھ رہے ہوں۔لہٰذاان کی باتوں سے مریض اوراس کے گھروالے عجیب عجیب طرح کے کنفیوژن کا شکارہوجاتے ہیں ۔یہی کچھ شوگرکی مریضہ ہماری قاری خاتون کے ساتھ ہوا۔ ان کے کوئی قریبی رشتے دار کسی بابا صاحب کے نہایت عقیدت مند ہیں۔لہٰذا وہ یہ دیکھ کر ان کی بیماری حد سے بڑھتی جارہی ہے جوش جذبات میں بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے جنہوں نے اپنے روحانی کشف وکرامات سے کام لیتے ہوئے مریضہ کے حق میں سحری اثرات کا فتویٰ جاری کردیا اورروحانی علاج معالجے کے لیے لمبے چوڑے طریقہ کار کی فہرست پیش کردی۔

خدا کا شکر ہے کہ خاتون اوران کا گھرانہ ہمارے کالم کا مستقل قاری ہے۔ خاتون پھربھی بہت سمجھ دار ہیں ۔انہوں نے تمام صورتحال ہمیں بتادی انہیں سمجھانے اوران کے شک ووہم کودور کرنے میں بہت زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔

ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں۔ جہاں میڈیکل کے علم سے ناواقفیت بعض اوقات چھوٹی موٹی تکلیفات کوبھی ایک نیا ہی پراسرار رنگ دے دیتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کل اخبارات ورسائل‘ٹی وی چینلزاور سوشل میڈیا میڈیکل سے متعلق مضامین اورپروگراموں سے بھرے پڑے ہیں۔ مگراس کے باوجود طب وصحت کے حوالے سے لوگوں کی معلومات نہایت ناقص ہیں۔آخراس کی وجہ کیاہے؟

جہاں تک ہم سمجھ سکے ہیں اس کی پہلی وجہ تویہی ہے کہ لوگ زیادہ مطالعے کے شوقین نہیں ہے۔صرف ضرورت کے تحت یا اپنے شوق اوردلچسپی کے تحت جوکچھ آسانی سے مل جائے پڑھ لیتے ہیں یاکوئی ٹی وی پروگرام دیکھ لیتے ہیں لیکن طب وصحت سے متعلق مضامین یا پروگرام میں بھی اسی وقت دلچسپی لیتے ہیں جب وہ ان کے اپنے ہی کسی مسئلے سے متعلق ہویہ ذوق وشوق عام طورسے نظرنہیں آتا کہ اس شعبے سے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کیاجائے اورصحیح یا غلط کا شعورحاصل کیاجائے۔

ہمارے ملک میں ذرائع ابلاغ ہمیشہ سے ہی کسمپری کا شکاررہے ہیں۔ انہیں اپنی بقاءکی خاطرجائز وناجائز کیا کچھ برداشت کرناپڑتا ہے۔ اس حقیقت سے واقفان حال خوب باخبرہیں۔ تمام ذرائع ابلاغ وہ اخبارات ورسائل ہوں یا آج کے دور کے پرائیویٹ ٹی وی چینل‘ اشتہارکی توانائی حاصل کئے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتے۔ ان کی اس کمزوری کی وجہ سے بھی لوگ غلط دواﺅں اور گمراہ کن معلومات کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ ایسے اشتہارات کونہایت دلچسپی سے دیکھتے ہیں جن میں مہلک اورخطرناک بیماریوں سے فوری نجات کی نوید دی جاتی ہے۔

حالانکہ درست طبی معلومات رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات جانتاہے کہ پیچیدہ امراض سے مکمل طورپرفوری نجات کسی دوا سے ممکن نہیں۔مکمل صحت بخشی کے لیے ہرطریقہ علاج میں مرحلہ وار ہی بہتری ممکن ہے۔ جبکہ بعض امراض ایسے بھی ہیں جن کے علاج میں انسان کوناکامی کا منہ دیکھناپڑتاہے اورجدید میڈیکل سائنس ابھی تک ان کی تشخیص کے موثرطریقے بھی دریافت نہیں کرسکی ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ جب تک عام آدمی طب وصحت کے حوالے سے درست اورمعقول معلومات حاصل کرنے کا شوق اپنے اندرپیدانہیں کرے گا۔وہ اپنے اوراپنے خاندان کے جسمانی اورنفسیاتی مسائل کے حل کیلئے صحیح سمت کا انتخاب کرنے کے قابل نہیں ہوسکے گا۔ اورکمرشلزم کا شکار ہمارا طب وصحت کا شعبہ اسے لوٹتا اوربے وقوف بناتارہے گا۔ جس کے نتیجے میں بیماریاں نت نئی پیچیدگیاں اختیار کرکے آسیبی اورماورائی روپ دھارتی رہیں گی۔

ہم اسی صفحے پر ایسی ایلوپیتھک ادویات کے بارے میں تازہ ترین معلومات جوتحقیق کے بعدسامنے آتی ہیں شائع کرتے رہتے ہیں جن سے عام لوگوں کومعلوم ہوکہ وہ کون سی خطرناک دوائیں ہیں جو نہایت آزادی سے بلاخوف وخطر استعمال کرکے آپ اپنے لئے کیسے بھیانک خطرات مول لے رہے ہیں اوربین الاقوامی سطح پردواساز کمپنیاں صرف اپنے منافع کی خاطر علاج معالجے کے بہانے معاشرے میں کون ساز پرپھیلارہی ہیں۔

ایک تازہ ترین خبریہ ہے کہ نیوکیسل یونیورسٹی آسٹریلیا کے ماہرین تحقیق نے ایک نیاانکشاف کیاہے اوروہ یہ ہے کہ دواساز کمپنیاں زیادہ سے زیادہ دوائیں فروخت کرنے کی غرض سے بیماریاں ایجاد کررہی ہیں۔ پبلک لائبریری آف سائنس میڈیسن کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ بیماریوں کے بارے میں غلط قسم کی اطلاعات اورافواہوں کے ذریعے غیر موجود بیماریوں کا خوف لوگوں کے دلوں میں ڈالا جارہاہے۔ چھوٹے چھوٹے طبی مسائل کوبھیانک شکل میں پیش کیاجارہاہے۔ اس کا مقصد منافع کماناہے۔ مثلاً ہرعورت کوسن یاس کے مرحلے سے گزرنا پڑتاہے۔

یہ زندگی کا ایک معمول ہے عمرکے تقریباً45سے اور50سال کی عمرتک یہ مرحلہ آتاہے اور اس دوران میں بعض اوقات کچھ تکالیف کا شکار ہوناپڑتاہے لیکن فارماسیوٹیکل کمپنیاں مینوپاز کوبیماری کے طورپرپیش کررہی ہیں۔ اسی طرح خون میں کولیسٹرول کی زیادتی اورہڈیوں کی خستگی جیسے عوامل جن سے اگرچہ صحت کوخطرہ لاحق ہوسکتاہے لیکن انہیں خطرناک بیماری کے طورپر اجاگر کیاجارہاہے اورپیٹ میں مروڑجیسے معمولی طبی مسائل کوبھی گھمبیر صورت دی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ پاﺅں میں جھنجھناہٹ کوبھی بیماری کا درجہ دیاگیاہے۔اس رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ”بیماریوں کی سوداگری “سے عوارض کی حدیں بڑھائی جارہی ہیں اوراس سے ان لوگوں کوفائدہ پہنچ رہاہے جودوائیں فروخت کرتے ہیںاورعلاج فراہم کرتے ہیں۔

دنیا بھر کے ڈاکٹر صاحبان کے حوالے سے بھی ایسی رپورٹیں منظر عام پرآچکی ہیں جن میں بتایاگیاہے کہ وہ بڑی بڑی دواﺅں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آلہ کار کا کردارادا کررہے ہیں اورانہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ مرض اورمریض کاانجام کیا ہوگا۔ ان کی پریکٹس کا اندازایسا ہی ہے جیسے کسی کلرک کا روزانہ ڈیوٹی پرحاضررہنا اورفائلوں کاپیٹ بھرکے سمجھ لینا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی۔

بیماریاں پھیلانے کایہی کام ہمارے ملک میں خانہ ساز قسم کے بابا لوگ اوراﷲ والی باجیاں بھی کررہی ہیں۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی مسائل زدہ یا بیماران کے پاس جائے یاان سے رابطہ کرے اوروہ اس پراثرات، بندش یا آسیب وجنات کافتویٰ نہ لگائیں۔ہم نے تویہاں تک دیکھا کہ ٹیسٹ رپورٹس بتارہی ہیں کہ مریض کے دل کا کوئی والوبند ہے یا اس کا جگرخراب ہے ہیپاٹائٹس کی رپورٹ مثبت آگئی ہے۔ گردوں میں انفیکشن ہے یا پتھری ہے مگراسے بھی اثرات اورجادو کے کھاتے ہیں ڈالا جارہاہے اوردلیل یہ ہے کہ بہت علاج کروایا مگرفائدہ ہی نہیں ہوتا۔

ایسے کیسوں میں ایسے مریض بھی شامل ہیں جواپنی عمرطبعی پوری کرچکے ہیں یعنی65`60اور70برس کی عمروں کوپہنچ چکے ہیں مگراس وہم میں مبتلا ہیں کہ ان کی موجودہ بیماریوں کا سبب جادوئی اثرات وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں۔ بعض جگہ یہ وہم اورشک طویل بیماری سے پیدا ہونے والی مایوسی کی وجہ سے جنم لیتاہے اوربعض جگہ ہمارے روحانی معالجین کی نظرکرم کانتیجہ ہوتاہے۔