20 سال بعد اہم سیاروی اجتماع، نئے رنگ ڈھنگ ، نئے نظریات

علم نجوم فلکیاتی سائنس ہے جس میں کرئہ قرض کے سات حرکت کرتے ہوئے دیگر اجرام فلکی کی گردش کا مطالعہ کیا جاتا ہے، ہماری کہکشاں کے معلوم سیارگان کی پوزیشن اور ان کے درمیان قائم ہونے والے باہمی زاویے اس مطالع میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، علم ہیئت (Astronomy) اگر فلکیاتی مشاہدات کا نام ہے تو علم نجوم (Astrology) فلکیاتی مشاہدات سے دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہی کا نام ہے، یہ سائنس ہزاروں سال سے مشاہداتی اور تجرباتی مراحل سے گزر کر اب اس مقام پر ہے کہ ماضی کے سیاروی اجتماعات یا زاویوں کی روشنی میں حال کے ایسے ہی اجتماعات اور زاویوں پر گفتگو کی جاسکتی ہے، یہ بالکل ایک تجزیاتی اور حسابی عمل ہے، اس میں ہر گز کسی غیب دانی کا کوئی عنصر شامل نہیں ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس قسم کی باتیں علم نجوم کے حوالے سے پھیلائی جاتی ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے، یاد رہے کہ ستارہ شناسی اور ستارہ پرستی میں بڑا فرق ہے، ماضی بعید میں دنیا بھر میں ستارہ پرستی عام رہی ہے اسی لیے دوسرے خلیفہ ءراشد حضرت عمر ؓ نے جب محسوس کیا کہ سمندر میں جہاز رانی ضروری ہے اور اس ضرورت کے لیے علم ہیئت سے واقفیت بھی ضروری ہے تو آپ نے فرمایا ”لوگوں علم نجوم سیکھو مگر رک جاو¿، مبادہ ستارہ پرستی میں مبتلا نہ ہوجاو¿“
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اللہ رب العزت کا قائم کردہ نظام کائنات ایک مخصوص حسابی سسٹم کے تحت چل رہا ہے، وہ خود فرماتا ہے کہ سیارے اپنے اپنے دائروں میں تیر رہے ہیں اور سورج کی مجال نہیں کہ قمر کو پکڑ لے اور قمر بھی ایسا نہیں کرسکتا، مفہوم یہ ہے کہ تمام سیارے اللہ کے قائم کردہ نظام کے تابع ہےں اور اپنی اپنی گردش میں مصروف ہیں، ان کی گردش صرف دن اور رات یا موسمیاتی تغیر و تبدل تک محدود نہیں ہیں بلکہ زمانوں کی تبدیلی بھی ان کی گردش کا طویل مدتی نتیجہ ہوتی ہے، یہ حقیقت سالہا سال کے ایسٹرولوجیکل مشاہدے اور مطالع سے ثابت ہوچکی ہے۔

اکثر یہ سیارگان جب کسی ایسی خاص پوزیشن میں آتے ہیں جو معمول کے خلاف اور برسوں میں کبھی تشکیل پاتی ہے تو ماہرین فلکیات ان پر ضرور غوروفکر کرتے ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آنے والے زمانوں میں کیا توقعات کی جاسکتی ہیں، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارا نظام کائنات منجمد نہیں ہے، ازل سے ہی اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، یہ تبدیلیاں صرف ارضیاتی ہی نہیں معاشرتی، نظریاتی اور علمی ہوتی ہیں، قوموں کے عروج و زوال ان تبدیلیوں کے مظہر ہیں۔
26 دسمبر 2019 ءکو ایسا ہی ایک اہم سیاروی اجتماع ہونے والا ہے یعنی تقریباً سات اجرام فلکی ایک ہی برج قوس میں جمع ہوں گے،یونانی سسٹم کے مطابق یہ اجتماع برج جدی میں ہوگا،جب کہ ویدک سسٹم کے مطابق برج قوس میں، دونوں صورتوں میں برج کا حاکم سیارہ اس اجتماع میں شامل ہوگا۔
عزیزان من! ایسے سیاروی اجتماعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اجتماعات کے بعد دنیا بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے مراحل سے گزرتی ہے، گویا ایک نئے دور یا زمانے کا آغاز ہوتا ہے، موجودہ اجتماع سے قبل ایسا ہی اجتماع برج حمل میں 4 مئی 2000 ءمیں ہوا تھا، ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد دنیا کس طرح تبدیل ہوئی، برج حمل کا حاکم سیارہ مریخ طاقت و توانائی سے متعلق ہے لہٰذا دنیا بھر میں طاقت کا استعمال گزشتہ بیس سال سے جاری ہے، اس کے بعد نائن الیون کا خوف ناک واقعہ پیش آیا اور اس کے نتیجے میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، عراق پر امریکی حملہ بھی اس اجتماع کے بعد ہی ہوا، ساری دنیا میں عالم اسلام کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈا کیا گیا، امریکا جو کہ فطری طور پر ایک جنگ جو قوم ہے، اپنی طاقت اور اثرورسوخ کی بنیاد پر دنیا بھر میں کوئی نہ کوئی تنازع کھڑا کرتا رہتا ہے، بہر حال سن 2000 ءسے اور 2019ءتک دنیا میں جو تبدیلیاں آئیں اور جو حالات و واقعات رہے، سب کے سامنے ہیں، اس سے بھی پیچھے ہم جائیں تو تقریباً بیس سال قبل یکم ستمبر 1981 ءکو ایسا ہی سیاروی اجتماع برج سنبلہ میں ہوا جس کے نتیجے میں روس افغانستان میں داخل ہوا اور پھر مسلسل جنگ جس میں امریکا پوری طرح شامل رہا، روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، بعد میں مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی ایک ہوگئے،ایران ، عراق جنگ، کویت پر عراقی حملہ اور پھر امریکا کی ایران کے خلاف کارروائی گویا بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی تبدیلیاں سامنے آئیں۔
مزید ماضی میں دیکھیں تو ایسا سیاروی اجتماع 5 فروری 1962 ءکو برج جدی میں نظر آتا ہے جس کے بعد روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر پہنچی، دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان زمینی تنازعات پر جنگ و جدل کا بازار گرم رہا، پاکستان اور بھارت کے درمیان دو جنگیں ہوئیں، پاکستان دولخت ہوگیا، اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان دو جنگیں ہوئیں، بیت المقدس اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا، ایسا ہی اجتماع 26 اپریل 1941 ءمیں برج حمل میں نظر آتا ہے جس کے بعد دنیا یکسر تبدیل ہوگئی تھی ، ایک بار پھر طاقت و توانائی کا بھرپور اظہار ہوا جس میں پہلی بار ایٹمی طاقت بھی استعمال کی گئی۔
26 دسمبر 2019 ءکو ہونے والا سیاروی اجتماع اس اعتبار سے بھی منفرد ہے کہ اسی وقت سورج گہن بھی ہوگا، یہ ایک الگ بحث ہوگی ، اہم بات یہ ہے کہ یہ اجتماع اس بار آئین و قانون ، مذہب اور نظریات کے برج قوس میں ہورہا ہے، موجودہ سیاروی اجتماع دنیا میں کیا تبدیلیاں لائے گا ؟ اس کا انحصار دنیا کے مختلف ممالک کے انفرادی زائچوں پر ہوگا، اس حوالے سے علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے جو بہت جلد آپ کی نظر سے گزرے گا، بنیادی بات بہر حال یہ ہے کہ اب دنیا نئے نظریات ، نئے قوانین اور آئینی ضروریات پر زور دے گی، طاقت کے استعمال کے بجائے نظریاتی اور آئینی محاذ آرائی نمایاں ہوگی، مذہبی انتہا پسندی یا کسی بھی نظریے کی انتہا پسندی اور شدت میں اضافہ ہوگا۔
فی الوقت ہمارا موضوع صرف پاکستان ہے اور پاکستان کا پیدائشی برج ثور تین درجہ 55 دقیقہ ہے، چناں چہ یہ اہم سیاروی اجتماع پاکستان کے آٹھویں گھر میں ہوگا، اس گھر کو کایا کلپ کا گھر بھی سمجھا جاتا ہے یعنی نئی زندگی بعد از موت۔
واضح رہے کہ پاکستان کے علاوہ بھارت ، مصر، ملائیشیا، بحرین اور میکسیکو کا پیدائشی برج بھی ثور ہے لیکن دیگر ملکوں کے زائچے اپنی پیدائشی سیاروی پوزیشن کے اعتبار سے ہی زیر بحث آسکتے ہیں، پاکستان کے زائچے میں اس سیاروی اجتماع کے اثرات کسی حد تک دوسرے ممالک سے مختلف ہوسکتے ہیں، اس اجتماع کے وقت راہو دوسرے گھر میں ، مریخ ساتویں گھر میں اور نہایت حساس پوزیشن میں ہوگا جب کہ شمس ، قمر ، عطارد، مشتری، زحل ،پلوٹو اور دیگر آٹھویں گھر میں ہوں گے، راہو کیتو کی موجودگی کے سبب قران شمس و قمر سورج گہن کا باعث بھی ہوگا، گویا زائچے کے اہم گھروں یعنی تیسرے، چوتھے، پانچویں ، آٹھویں، دسویں گھروں کے مالکان اس اجتماع میں شریک ہوں گے، تیسرا گھر ایکشن ، نئے فیصلوں اور اقدام کا ہے، اس کا تعلق ذرائع ابلاغ سے بھی ہے، اس کا حاکم قمر شمس سے قران کے سبب غروب ہوگا، چوتھے کا حاکم شمس ہے جس کا تعلق داخلی امور سے ہے، یہ راہو کیتو سے قریبی قران کی وجہ سے متاثرہ ہوگا، پانچویں گھر کا حاکم عطارد بھی غروب ہوگا اور آٹھویں گھر کا حاکم مشتری نہ صرف یہ کہ غروب ہوگا بلکہ راہو کیتو سے بھی متاثر ہوگا، زحل اور پلوٹو باہم قریبی قران میں ہوں گے، گویا زائچہ ءپاکستان کے تیسرے ، چوتھے ، پانچویں، آٹھویں اور دسویں گھر کے سیارگان بری طرح متاثر ہوں گے اور ان گھروں سے متعلق منسوبات بھی متاثر ہوں گی، مزید یہ کہ سیارہ مریخ زائچے کے ساتویں گھر میں رہتے ہوئے ساتویں، دسویں، پہلے اور دوسرے گھر کو متاثر کر رہا ہوگا، یہ صورت حال کسی طرح بھی ملک و قوم اور موجودہ حکومت کے لیے بہتر نہیں ہے، وزیراعظم عمران خان پہلے ہی حالات کی سختی کا شکار ہیں جس میں دیگر سیکورٹی کے خطرات بھی شامل ہیں، اس صورت حال میں وہ کیا فیصلے کرتے ہیں اور ان فیصلوں کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں اس حوالے سے کئی امکانات موجود ہیں جن پر اظہار خیال مناسب نہیں ہے،صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو کسی مقابلے میں کمزوری دکھائیں اور ہتھیار ڈال دیں، آج کل میڈیا میں اس قسم کی باتیں بھی ہورہی ہیں کہ کوئی مائنس ون فارمولا زیر بحث ہے، اسمبلی ہی کے ذریعے تبدیلی لانے کے منصوبے زیر غور ہیں، وغیرہ وغیرہ، ہم پہلے اس اندیشے کا کئی بار اظہار کرچکے ہیں کہ عمران خان کسی انتہائی ناپسندیدہ صورت حال میں اسمبلی توڑنے کا قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔
سیارہ زہرہ جو زائچہ ءپاکستان میں چھٹے گھر کا حاکم اور فوج و بیوروکریسی ، عدلیہ، الیکشن کمیشن کے عملی فیصلوں اور اقدام کو ظاہر کرتا ہے، اس موقع پر نویں گھر میں اور حساس مقام پر ہوگا، گویا کسی ایمرجنسی کے نفاذ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

سیاروی اجتماع کے طویل المدت اثرات

قدیم کلاسیکل ویدک ایسٹرولوجی میں ایسی پوزیشن کسی مخصوص ”یوگ“ کو ظاہر کرتی ہے، ویدک یوگ ودّیا کی قدیم کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ جب تمام سیارگان کسی ایک برج یا دو یا تین برجوں میں قابض ہوں ، اس صورت حال کو ”سولہ یا گولا یوگ“ کہا جاتا ہے، کسی شخص کے انفرادی زائچے میں ایسا یوگ نہایت منحوس تصور کیا جاتا ہے، وہ صاحب زائچہ کو ظالم بناتا ہے، دولت اور ہمت سے محروم کرتا ہے، جنگ جویانہ رجحان اور اس کے ساتھ ہی زخمی ہونے کا امکان ظاہر کرتا ہے لیکن ایسے یوگ کو جب کسی ملک یا قوم کے زائچے میں دیکھا جائے گا تو یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملک یا قوم ظالمانہ روش اختیار کرے گی، معاشی بدحالی کا شکار ہوگی اور کسی جنگ کے نتیجے میں نقصان اٹھائے گی، کسی بھی یوگ کی مزید وضاحت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس بات پر نظر رکھی جائے کہ وہ یوگ ملک کے زائچے میں کون سے گھروں میں تشکیل پارہا ہے جیسا کہ پہلے ہم بتاچکے ہیں کہ برج ثور سے تعلق رکھنے والے ممالک کا آٹھواں گھر اس سیاروی اجتماع کا مرکز ہے جب کہ دیگر ملکوں کے زائچوں میں اس کی پوزیشن مختلف ہوگی لیکن یہ طے ہے کہ موجودہ یوگ دیگر ممالک کے زائچوں میں خواہ کسی بھی گھر میں ہو ، سعد اثرات کا حامل نہیں ہوگا۔
برج ثور سے متعلق ممالک کی ہم نشان دہی کرچکے ہیں، دیگر اہم ممالک میں برج سرطان کے زیر اثر ممالک میں امریکا ، روس، فرانس، ایران، ترکی شامل ہیں، ان ملکوں کے چھٹے گھر میں یہ سیاروی اجتماع ہوگا جس کے نتیجے میں نئے تنازعات جنم لیں گے اور نئی محاذ آرائیاں سامنے آئیں گی۔
برج سنبلہ کے زیر اثر انگلینڈ ، جرمنی، کنیڈا، برما، لبنان اور افغانستان ہیں، ان ملکوں کے زائچوں میں یہ اجتماع چوتھے گھر میں ہوگا، داخلی صورت حال میں انتشار اور بدنظمی دیکھنے میں آئے گی، عوام کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔
برج عقرب کے تحت شام ، شمالی کوریا اور لیبیا ہے،موجودہ اجتماع زائچے کے دوسرے گھر میں ہوگا جس کا تعلق اسٹیٹس ، معاشی اور اقتصادی صورت حال سے ہے، اچھی بات یہ ہے کہ سیارہ مریخ اور زہرہ اس قران میں شامل نہیں ہوں گے لہٰذا ان ملکوں میں صورت حال کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی لیکن ایک صبر آزما وقت گزرنے کے بعد۔
برج قوس کے زیر اثر سعودی عربیہ ہے، اس کے زائچے میں موجودہ اجتماع زائچے کے پہلے گھر میں ہوگا اور زائچے کا حاکم سیارہ مشتری غروب ہوگا، مستقبل میں نمایاں طور پر آئینی و نظریاتی تبدیلیاں سعودیہ عرب میں آسکتی ہیں، ملک کسی عوامی احتجاج کی طرف بڑھ سکتا ہے، مذہبی شدت پسندی میں کمی آئے گی، شاہی نظام کو خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
برج جدی کے زیر اثر چین، جاپان، اسرائیل اور یوکرائن ہیں، موجودہ اجتماع زائچے کے بارھویں گھر میں ہوگا اور انتہائی نقصان دہ اثرات ڈالے گا، دیگر ممالک سے تنازعات بڑھیں گے اور اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
عزیزان من! یہ موضوع خاصا تفصیل طلب ہے، اس پر تفصیلی گفتگو کے لیے ہر ملک کے زائچے پر علیحدہ تجزیاتی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، چناں چہ ہم نے اختصار کے ساتھ اہم نکات بیان کردیے ہیں، ممکن ہوا تو آئندہ علیحدہ علیحدہ مختلف ممالک کے زائچوں پر تجزیاتی نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔