خوف اور یقین….دو متضاد اور برسرِ پیکار قوتیں

دماغ کی دنیا میں خوف اور یقین کے درمیان بالا دستی کی جنگ

ہمارے اکثر مسائل کسی نہ کسی قسم کے خوف کی وجہ سے ہی جنم لیتے ہیں لہٰذا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خوف، ڈر، وسوسوں اور اندیشوں سے کیسے چھٹکارا پائے اور وہ چھٹکارا پا بھی سکتا ہے یا نہیں؟ وہ کون سی قوت ہے جو انسان کو اس موذی سانپ سے محفوظ رکھ سکتی ہے، آئیے! اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
انسانی ذہن ایک نہایت ہی عجیب شے ہے، یہ ہر لحاظ، ہر لمحہ نت نئی کیفیات کا شکار ہوتا رہتا ہے اور ان کیفیات کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہتی ہے، پل پل رنگ بدلتی ہوئی ان کیفیتوں میں کبھی بھی ہم آہنگی نہیں رہتی بلکہ یہ متواتر ایک دوسرے کا اثر زائل کرنے میں مصروف رہتی ہیں، ان میں کبھی ایک ہم پر غالب آجاتی ہے تو کبھی دوسری پہلی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتی ہے، ان کیفیات کی یہ جنگ ہار اور جیت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، اسی بار جیت کے درمیان انسان زندگی گزارتا چلا جاتا ہے اور مختلف مواقع پر مختلف کیفیات و احساسات کا اظہار کرتا ہے۔”موڈ“ کا لفظ بھی درحقیقت انہی کیفیات کے بدلتے رہنے کا نام ہے تاہم وہ دو بڑی قوتیں جو ان کیفیات میں تبدل و تغیر کا سبب بنتی ہیں، ان کو اپنے اشارے پر چلاتی، انہیں آگے بڑھاتی اور پیچھے ہٹاتی ہیں، وہ خوف اور یقین ہیں، اب یہی ہمارا موضوع بحث ہیں۔
خوف اور یقین کی ہمارے ذہن پر قابضانہ کوششوں کو ہم ماضی میں امریکا اور روس کی دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوششوں سے تشبیہہ دے سکتے ہیں، یہ دونوں ملک دنیا بھر میں اپنے اپنے اتحادی رکھتے تھے، انہیں ہر قسم کی امداد اور رہنمائی مہیا کیا کرتے تھے اور ضرورت پڑنے پر انہی اتحادیوں کے ذریعے دوسرے بلاک کے ممالک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے، یوں دنیا کی بساط پر مہرے تو بہت سے متحرک نظر آتے تھے مگر انہیں متحرک صرف دو ہاتھ ہی کرتے تھے۔

دماغ اور کامیابی کا راز

دماغ کی دنیا میں بھی خوف اور یقین کے درمیان بالا دستی کی جنگ جاری رہتی ہے لیکن ان میں ایک فریق اپنے اتحادی کو کبھی کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا بلکہ اس پر قبضہ کرنے کے بعد اسے شعوری اور لاشعوری طور پر تباہ و برباد کرکے ہی دم لیتا ہے، یہ اندر ہی اندر اپنے اتحادی کے وجود میں دراڑیں ڈالتا ہے، اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا رہتا ہے اور نتیجتاً کسی بھی ایک معمولی سے واقعے پر اس کے اتحادی کا وجود محض ایک ہلکے سے جھٹکے سے ہی زمین بوس ہوجاتا ہے، یہ پہلا فریق”خوف“ ہے اور اس پر کسی فرد کا حد سے بڑھا ہوا انحصار اسے کہیں کا بھی نہیں رہنے دیتا۔
دوسرے فریق کا نام یقین، اعتماد اور ایمان ہے، یہ خوف کے بالکل برعکس اثرات رکھتا ہے اور اپنے اتحادی کو شعوری اور لاشعوری طور پر ہر موقع کے لیے تیار کرتا ہے۔ ”یقین“ ایک طرح کا پاور جنریٹر ہے جو چوبیس گھنٹے توانائی پیدا کرکے اپنے اتحادی کو سپلائی کرتا ہے تاکہ اس پر زندگی کی مقدار زیادہ سے زیادہ بڑھتی جائے۔ اگر کوئی اپنے یقین پر مکمل انحصار کرتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی کامیابی اور ناکامی کے درمیان فاصلہ متعین کرتا ہے بلکہ اس کی زندگی اور موت کے درمیان بھی حدِّ فاضل مقرر کردیتا ہے، غرض ایک شخص کا کامل یقین اسے آسمانوں سے بھی بلند کرسکتا ہے اور خوف جیسے موذی اژدھے کے مقابل فتح سے ہم کنار کرسکتا ہے، یوں تعمیری اور تخریبی قوتوں کے درمیان اس نمایاں فرق کو سمجھنے کے بعد آپ کے لیے یہ بات اخذ کرنی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کے یقین میں ہی آپ کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔

علاج آپ کے پاس

اگر آپ اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھرپور اور فتوحات سے لبریز اور آسائشوں سے مالا مال دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ پر یقین رکھیے اور جان لیجیے کہ آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں، آپ اگر خوف زدہ بھی ہیں تو کوئی بات نہیں، اس لیے کہ آپ کا علاج آپ کے اپنے پاس موجود ہے، آپ اپنے یقین سے ہر خوف کو شکست دے سکتے ہیں، شرط صرف یہ ہے کہ آپ یہ راز جانتے ہوں کہ یقین کو کس طرح خوف پر غالب کیا جاتا ہے، اسے کس طرح خوف کے سدِّباب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یقین اور خوف کے درمیان کش مکش کی سب سے عمدہ مثال ہمیں پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے والے اس شخص کے علاوہ کہیں نظر نہیں آئے گی جو فضا میں ہزاروں فٹ کی بلندی پر چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہوتا ہے، اگر ایک لمحے کے لیے بھی اس کا یقین متزلزل ہوجائے اور یہ خوف دل میں گھر کرلے کہ چھلانگ لگانے کے بعد پیراشوٹ نہیں کھلے گا تو وہ کبھی نیچے کودنے کی جرات نہ کرے مگر اسے پیراشوٹ پر کامل یقین ہوتا ہے کہ وہ چھلانگ لگانے کے بعد اسے بخیروعافیت زمین تک پہنچادے گا۔بس یہی یقین اسے ہزاروں فٹ بلندی سے کود کر ایک کارنامہ انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔
خوف اور یقین کی اس ہزاروں فٹ بلند مثال سے آپ یقینا یہ بات جان چکے ہوں گے کہ خوف محض وہم، عدم اعتماد، کمزوری اور ارادے کے فقدان کی بنا پر ہی جنم لیتا ہے، جب کسی فرد کو اپنے اوپر بھروسا نہیں رہتا تو وہ خوف زدہ ہوجاتا ہے اور خوف کی بھرپور گرفت میں کوئی کام بھی درست طریقے پر انجام نہیں دے پاتا، نتیجتاً ناکامی اس کا مقدر بنتی ہے اور زندگی ایک عذاب ہوکر رہ جاتی ہے، ایسے افراد عموماً پھر اپنی قسمت کو کوستے نظر آتے ہیں یا پھر دوسروں پر اپنی ناکامیوں کا الزام دھرتے ہیں۔

خوف زدہ افراد

ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ خوف کی ایک سو ایک اقسام باضابطہ طور پر تسلیم شدہ ہیں تاہم ان اقسام کی بھی بے شمار طفیلی قسمیں ہیں، ایسے ہی جیسے کسی درخت کی بے شمار چھوٹی چھوٹی شاخیں، خوف کی یہ چھوٹی چھوٹی اقسام بھی اپنی جگہ منفرد حیثیت رکھتی ہیں اور ان کے اثرات کسی فرد کی شخصیت پر ایک مکمل بیماری سے کم نہیں ہوتے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا یا اگر انہیں اپنے خوف کے بارے میں معلوم بھی ہوتا ہے ، تب بھی وہ اس کے تدارک کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھاتے، وہ خوف کے ماخذ کا سراغ نہیں لگاتے، ان وجوہات کو تلاش نہیں کرتے جن کی بنا پر ان میں کسی شے یا خیال کے بارے میں خوف کے احساس نے جنم لیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ اسی خوف کے سائے میں ساری زندگی گزاردےتے ہیں اور اپنی شخصیت کو تباہ کرلیتے ہیں۔
خوف سے نجات پانے کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ وہ کس شے سے خوف زدہ ہے؟ خوف کی وجہ کا تعین ہی دراصل اس بیماری کا نصف خاتمہ ہے، درحقیقت بیشتر خوف زدہ افراد غیر ارادی طور پر انجانے میں ہی اس بیماری کو اپنے اندر پالیتے ہیں اور لاشعوری طور پر یہ ان کے اندر جڑ پکڑتی جاتی ہے پھر اس کا زور اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ایک روز یہ کھل کر سامنے آجاتا ہے اور خوف زدہ آدمی کی شخصیت کو مضحکہ خیز یا قابل نفرت بنادیتا ہے۔
ایک مثال دیکھیے، یہ ہمیں ملنے والے بے شمار خطوط میں سے ایک ہے،خط لکھنے والی صاحبہ کا نام وغیرہ ہم ظاہر نہیں کرسکتے، وہ لکھتی ہیں
” میں ایک مصیبتوں کی ماری لڑکی ہوں، ہوسکتا ہے یہ ساری مصیبتیں میری اپنی پیدا کردہ ہوں، ہمارے گھر کے حالات ابتدا ہی سے کچھ اچھے نہیں رہے، میرے ابو ایک دوسرے شہر میں کام کرتے تھے، پھر وہ ملک سے باہر چلے گئے، ان کے جانے کے بعد میری امی اور ہمارے ساتھ وہی سلوک ہوتا رہا جو اکثر شوہر اور باپ کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس کی بیوی اور بچوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ظلم کی حد تو شاید میرے اوپر ختم ہوئی، میرے چھوٹے چچا نے مجھے پڑھانا شروع کیا لیکن وہ اتنا مارتے تھے کہ میں آج بھی ان کی مار نہیں بھولی اور اسی چیز نے مجھے پڑھائی سے بے زار کردیا ہے، میں نے اپنے چچا کا ہر کام چھوٹی سی عمر سے کیا ہے اور مجھے بچپن سے یہ احساس رہا ہے کہ میرے ابو ہوتے تو شاید میں کسی اچھے اسکول میں پڑھتی اور مار سے بچتی لیکن خیر! پھر جب میں پانچویں میں تھی تو میرے چچا نے اپنا ایک اسکول کھول لیا اور مجھے بھی وہاں پڑھانے پر لگادیا، میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں پڑھانے لگی کیوں کہ میں اپنے چچا کی مار سے بہت ڈرتی تھی اور یہ بھی جانتی تھی کہ میرے منع کرنے سے کچھ ہوگا نہیں، پھر میں نے پرائیویٹ میٹرک بھی کرلیا تو پورے اسکول کی ذمے داری اور چچا کے گھر کا تمام کام میرے ذمے ہی تھا، اس دوران میں میرے ابو واپس آگئے مگر ان کے آنے سے بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، میرے چچا کا رویہ ابو سے بہت اچھا تھا لہٰذا وہ ان کے آگے کسی کی بات نہیں سنتے تھے، اوپر سے دادا دادی بھی ابو کے کان بھرتے اور امی کے خلاف ابو کو بھڑکاتے رہتے کہ یہ عورت تمہیں مروانا چاہتی ہے، ابو پر دادا دادی کا حکم ہی چلتا ہے، اس لیے اکثر امی ابو کے درمیان جھگڑا رہتا تھا، ابو نے مجھے چچا کے پاس ہی چھوڑ رکھا تھا، اس ساری صورت حال نے مجھے ہمیشہ شدید اذیت میں مبتلا رکھا، ابو کے سامنے یا کسی کے سامنے بھی اپنی کوئی بات کہنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی، یہ خوف رہتا تھا کہ بعد میں چچا ماریں گے اور ابو بھی ان کی بات کو ہی اہمیت دیں گے لہٰذا میں چچا کی خدمت کرتی رہی اور ان کا اسکول چلاتی رہی، اب نئی مصیبت مجھ پر ان کی بیوی نے توڑی ہے، وہ ایک بہت مغرور اور بدزبان بلکہ جھگڑالو عورت ہے، اس کے بھائیوں کی وجہ سے چچا بھی اس سے داب کھاتے ہیں، اسے کچھ نہیں کہتے، وہ میرے ساتھ بہت برا سلوک کرتی ہے، چچا میرے گھر پر سات ہزار روپے مہینہ میری تنخواہ کا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ابو بھی مجھے زور دیتے ہیں کہ پڑھانے جاوں،حالاں کہ میری چچی مجھ سے نفرت کرتی ہے اور چچا پر زور ڈالتی ہے کہ مجھے اسکول سے نکال دیں لیکن وہ اس کی بات نہیں مانتے ، مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اپنا کام کرو، وہ کہتی ہے تو کہنے دو، اب میری چچی لڑ کر اپنے میکے چلی گئی ہے اور مجھے بدنام کر رہی ہے کہ یہ لڑکی میرا گھر برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے، لوگ بھی کہہ رہے ہیں کہ نوکری کرنی ہے تو کہیں اور کرلو، میں بھی یہی چاہتی ہوں مگر خوف کی وجہ سے ابو سے یہ بات نہیں کہہ سکتی، آپ کوئی وظیفہ بتادیں کہ ان مصیبتوں سے میری جان چھوٹ جائے ورنہ اب صورت حال یہ ہے کہ میرا خود کشی کرنے کو دل چاہتا ہے“
عزیزان من! ہم نے یہ خط بہت اختصار کے ساتھ شائع کیا ہے کہ اس سے زیادہ کی گنجائش بھی نہیں تھی، صرف آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ خوف کے سائے میں پلنے والی لڑکی کی زندگی کس طرح تباہ ہورہی ہے، یہاں اس موضوع پر بحث کی گنجائش نہیں کہ ایسا کیوں ہوا ، وہ خط میں بیان کیے گئے حالات سے ظاہر ہے، بات صرف اتنی غور طلب ہے کہ لڑکی اگر خوف کے چنگل سے نکل آئے تو اس کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں، باپ یا چچا اسے جان سے نہیں ماریں گے مگر اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خوف کے سائے میں پل کر اپنی اصل شخصیت ہی مسخ کر بیٹھی ہے اور اس کی مثال کنویں کے اس مینڈک کی سی ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ سمندر کیا شے ہے؟
ہم دیگر تفاصیل میں نہیں جانا چاہتے کہ بعد ازاں اس خوف زدہ لڑکی کو کیسے خوف سے نجات ملی،اس حوالے سے سائیکولوجی اور پیراسائیکولوجی کے ماہرین مناسب ہدایات اور علاج تجویز کرتے ہیں جن میں خاص طور پر فری رائٹنگ کی مشق اور مراقبہ نہایت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ہومیوپیتھک ٹریٹمنٹ بھی ایسے مختلف خوف کا شکار افراد کے لیے نہایت موثر ثابت ہوتا ہے، ایسٹرولوجی اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے، اس موضوع پر انشاءاللہ پھر کبھی گفتگو ہوگی۔