بیماریوں اور تکالیف کے حوالے سے مروجہ طریقہ ء کار کا جائزہ اور کچھ دوسرے پہلو

ایسٹرولوجی پر مسلسل مضامین کا سلسلہ جاری رہتا ہے کیوں کہ یہ انسان کو اور وقت کو سمجھنے اور سمجھانے کا علم ہے لیکن اس بار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ایک دوسرے موضوع پر گفتگو کا ارادہ ہے،امید ہے ہمارے قارئین اس حوالے سے غوروفکر کریں گے۔

امراض اور طریقہ ء علاج

جسمانی امراض اور تکالیف کے بارے میں جدید میڈیکل سائنس کے تجربات اور تحقیق سے نت نئے انکشافات سامنے آتے رہتے ہیں اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نئی تحقیق یا نیا تجربہ کسی پرانے تجربے سے قائم ہونے والے نظریے کو باطل کردیتا ہے اسی طرح نت نئی دوائیں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں اور پرانی دوائیں یا تو غیر تسلی بخش قرار دی جاتی ہیں یا اپنے مضر اثرات کی وجہ سے ممنوع ٹھہرائی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ جدید میڈیکل سائنس میں جاری وساری ہے اور اس دعوے کے باوجود کہ میڈیکل سائنس یعنی ایلوپیتھی نہایت ترقی یافتہ اور زود اثر ہے، پیچیدہ تو کیا عام جسمانی امراض میں بھی ناکافی اور غیر تسلی بخش ثابت ہوتا ہے۔ معمولی نزلہ زکام‘ جگرکی خرابیاں‘ معدے کی خرابیاں‘ گلے کے غدود کی خرابیاں‘ جلدی امراض‘ جسم کے کسی بھی حصے میں رسولیوں کی نمود‘ گردوں سے متعلق خرابیاں‘ بے اولادی‘ بانجھ پن(زنانہ ومردانہ) ہڈیوں اور جوڑوں کے دردیعنی گٹھیاوی تکالیف‘ الغرض کونسی جسمانی بیماری ایسی ہے جس کا ایلوپیتھک دواؤں سے کافی وشافی علاج ممکن ہے؟

ورلڈ ڈرگز مافیا

دنیا بھرکی ایلوپیتھک دوائیں بنانے والی کمپنیاں صرف ایسی دوائیں منظر عام پر لارہی ہیں جن سے مریض کو فوری طور پر آرام مل جائے۔ یقیناً ان جدید ترین دواؤں کے استعمال سے مریض فوری طور پر آرام محسوس کرتاہے اور پھر یہ دوائیں مستقلاً اس کی ضرورت بن جاتی ہیں ان دواؤں کے استعمال سے مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا لیکن مریض زندگی کا کچھ عرصہ ان دواؤں کے سہارے گزارلیتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دواؤں کے سہارے زندگی گزارنا ایک اطمینان بخش بات ہے خصوصاً اس صورت میں جب وہ دوائیں اپنے کچھ مضر اثرات بھی رکھتی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ دولت کمانے کی کاروباری دوڑمیں بین الاقوامی سطح پر اسی طریقۂ کار کو منافع بخش تسلیم کرلیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پروڈکٹس کی کھپت اسی وقت ممکن ہے جب وہ لوگوں کی مستقل ضرورت بن جائے لہٰذا ایسی دواؤں کی ایجاد اور ان کے رواج پر توجہ دی جائے جو زود اثر ہوں‘لوگ ان کے فوری فائدے کو محسوس کریں اور ان کی طرف زیادہ سے زیادہ راغب ہوں۔ علاج کو یا دوسرے الفاظ میں شفا بخشی کے مکمل عمل کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے غالباً اس نظریے کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ انسان جتنے دن بھی دنیا میں زندہ رہتا ہے، آرام وسکون سے زندہ رہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے بیماریوں کو جڑ سے ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ دواؤں کے ذریعے اسے درد وتکلیف سے نجات مل جائے۔
معاملہ جب دواؤں کی رینج سے باہر نکل جائے تو پھر سرجری کا متبادل راستہ موجود ہے جسم کا جو عضو زیادہ پریشان کرنے لگے یا باقی جسم کے لئے خطرناک صورت اختیار کرجائے تو اسے جسم سے علیحدہ کردیا جائے یا پھر ممکن ہوسکے تو اسے تبدیل کردیا جائے جیسا کہ دل ‘گردے‘آنکھ وغیرہ کی تبدیلی فی زمانہ کوئی حیرت کی بات نہیں رہی ہے۔

ہومیو پیتھی کے خلاف سازش

جب سے ہومیو پیتھی کا نظریہ اور طریقہء علاج سامنے آیا ہے،ایلو پیتھی کے کرتا دھرتا اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں،ان سازشوں کا آغاز ہومیو پیتھی کے بانی ڈاکٹر سموئل ہنی مین کے زمانے ہی سے ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں اُس ’’محسن انسانیت ‘‘ کو اپنا وطن جرمنی چھوڑ کر فرانس میں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی ، سازشوں کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے،مختلف قسم کے جاہلانہ اعتراضات ہومیو پیتھی کے حوالے سے کیے جاتے ہیں اور اسے باقاعدہ علاج ہی تسلیم نہیں کیا جاتا،پاکستان میں بھی یہ سلسلہ ابتدا ہی سے جاری رہا، اب ایک نیا قانون بنایا جارہا ہے جس کے تحت ہومیو پیتھک دواؤں پر بھی ایکسپائری ڈیٹ کا اطلاق کیا جائے گا حالاں کہ ہومیو پیتھی سے واقفیت رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی ہومیو پیتھک دوا کبھی ایکسپائر نہیں ہوتی کیوں کہ مصفّا الکوحل میں تیار کی جاتی ہے لہٰذا دوا کے خراب ہونے ، متاثر ہونے یا اس میں کسی بھی نوعیت کی کوئی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،یہ بھی اسی لیے کیا جارہا ہے کہ مال کی کھپت بڑھائی جائے اور اس سازش میں اب ہومیو پیتھک دوا ساز کمپنیاں بھی شامل ہوگئی ہیں،بعض دواؤں کی تیاری پر پابندی لگائی جارہی ہے،وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں اس صورت حال کا فائدہ اٹھاکر بہت سے جعل ساز میدان میں نکل آئیں ہیں اور جعلی دواؤں کی بھرمار ہوگئی ہے،لاہور کی ایک کمپنی ایسی دوائیں بنارہی ہے جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہے،دوا کی شیشی پر Made in Germany لکھا جارہا ہے۔آیئے