اہل بابل کا جادو، شہر نمرود کے چھ عجیب طلسمات

مغربی محققین کی نظر میں جادو کے کردار اور نظریات پر پہلے بات ہوچکی ہے اور اس حوالے سے زمانہ قدیم میں جادو اور مذہب کے درمیان جو تعلق رہا ہے اس کی بھی نشان دہی کردی گئی ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قدیم اقوام عالم جادو کو مذہب کا حصہ سمجھتی تھیں اور اپنی زندگی کے لیے ایک اہم ضرورت خیال کرتی تھیں کیونکہ ان کے تمام مسائل جادو کے ذریعے ہی حل کیے جاتے تھے، یہاں تک کہ عبادات کے سلسلے میں بھی جادو سے متعلق رسومات ادا کی جاتی تھیں، ان کے مذہبی و روحانی پیشوا عموماً اعلیٰ درجے کے جادو کے ماہرین ہوا کرتے تھے، وہ کہانت کے ذریعے لوگوں کو ان کے حال و مستقبل کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے اور آنے والی پریشانیوں، حادثات و سانحات سے نمٹنے کے لیے جادوئی طریقے اختیار کرتے تھے، بادشاہِ وقت کے بعد ان کا مقام و مرتبہ نہایت اہم اور قابل تعظیم ہوا کرتا تھا بلکہ بعض معاشروں میں بادشاہ کو بھی ان کے حکم کی تعمیل کرنا پڑتی تھی، تقریباً تمام ہی معبدوں اور مندروں میں ایسے راہب، پنڈت یا کاہن ہوا کرتے تھے۔

ابتدائی انسان کے مسائل

مذہبی تعلیمات کی روشنی میں انسان کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی، اگرچہ آپ اللہ کے نبی تھے مگر ابتدائی دور میں انسان کو زمین پر جن مسائل کاسامنا تھا اور جو مشکلات درپیش تھیں ان کا حل اسے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق نکالنا تھا، لہٰذا وہ اللہ کے احکامات اور نبی کی تعلیمات سے انحراف بھی کر بیٹھتا تھا خصوصاً اپنی خواہشات کا غلام ہوکر جیساکہ ہابیل اور قابیل کے واقعے سے ظاہر ہے، گویا غلط روی اور جرم کی ابتدا بھی خود انسان ہی نے کی، غیر مذہبی نظریات کے مطابق بھی انسان نے جب دنیا میں آنکھ کھولی تو اسے یہ ایک بھول بھلیاں نظر آئی، اِدھر وہ پیدا ہوا اور اُدھر الف لیلیٰ اور فسانہ عجائب کے تمام طلسم خانے اس پر ٹوٹ پڑے، وہ بہت پریشان ہوا اور حیران بھی، اس کی سمجھ میں خاک نہ آیا، پھر بھی وہ ہاتھ پاؤں مارے بغیر نہ رہا، فطرت نے اس میں تجسس اور تفکر کی خُو ڈالی تھی، چناں چہ وہ حیات و کائنات کی ٹوہ میں لگ گیا، اس نے اپنی محدود عقل کے دائرے میں رہ کر سوچنا شروع کیا، ابھی تجربے کی دانش نہ ہونے کے برابر تھی، لہٰذا جس طرف منہ اٹھا، چل پڑا۔
بقول پروفیسر گلبرٹ مرے ”ہر کہیں دور اوّل کی نسل ہر مظہر حیات اور دستور کائنات کی سوجھ بوجھ کے ضمن میں ذاتی نظریہ وضع کرتی رہی، ہوا چلتی تو آدمی سمجھتا کہ کوئی مافوق الفطرت انسان نما ہستی مصروف عمل ہے اور اس کے ہانپنے سے ہوا کے جھکڑ چل رہے ہیں، اگر بجلی گرنے سے کوئی درخت زمین پر آرہتا تو سمجھاجاتا کہ کسی غیبی قوت نے اس پر کلہاڑا چلایا ہے، بعض لوگ طبعی موت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، ان کے نزدیک بدروح آدمی کو ہلاک کردیتی تھی، اسی طرح آدمی نے ہر صبح سورج کی روشنی کو پھیلتے اور شام کے بعد ختم ہوتے دیکھا، پھر یہ بھی دیکھا کہ بارش اچانک شروع ہوتی اور اچانک ختم ہوجاتی ہے یہ بھی اس کے اختیار سے باہر ایک معاملہ تھا، قصہ مختصر یہ کہ ایسی بے شمار چیزیں اور واقعات اسے رفتہ رفتہ حیران و پریشان کرتے رہے ہیں، کائنات اس کے لیے ناقابل فہم اور لاینحل مسئلہ بن گئی، اس کی حیرت اور بے چارگی لاعلاج تھی۔“

ماورائی قوت

تواتر کے ساتھ نہ سمجھ میں آنے والی باتوں اور مظاہر کا سامنا کرنے والے انسان کی بالآخر یہ سمجھ میں آیا کہ اس کائنات میں ایک پراسرار مخفی، غیبی قوت موجود ہے جو بے پناہ طاقت کی مالک ہے اور کائنات کے ذرے ذرے میں اس کی کارفرمائی جاری و ساری ہے، جو محیط کُل ہے اور سب پر مسلط ہے، جب کسی پہاڑی پر سے پتھر اچانک لڑھک آتا تو اس کے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا قدرتی اور ناگزیر تھا کہ پتھر نے جان بوجھ کر حرکت کی ہے ورنہ پہلے تو یونہی ساکت و جامد تھا، اسی طرح دیگر مظاہر قدرت کو اس نے اپنے طورپر معنیٰ پہنا دیے، اسے یہ محسوس ہوا کہ اس کائنات میں وہ ایک پراسرار مخفی، غیبی اور بے پناہ قوت کے سامنے بے دست و پا اور انجان بنا کھڑا ہے، اس قوت سے شناسائی اور رابطے کا کوئی ذریعہ اس کے پاس نہیں تھا، (شاید اسی لیے اللہ نے قوموں کے درمیان اپنے نبی بھیجنے کا سلسلہ دراز کیا تاکہ وہ انسان کی اپنے مالک حقیقی سے شناسائی کا ذریعہ بن سکیں، یہ الگ بات ہے کہ انسان نے انہیں جھٹلایا اور اپنی محدود و ناقص عقل پر زیادہ انحصار کیا) چناں چہ وہ اس کھوج میں لگ گیا کہ کس طرح غیبی قوت سے فائدہ اٹھائے، حیات و کائنات اور مظاہر قدرت تو پراسرار ہیں ہی، خود اس کی ذات بھی کسی اندھے پاتال سے کم نہ تھی، ویسے وہ بھی قوت محسوس کرتا تھا، اس میں بھی رس تھا، اس پر بھی رنگ روپ آتا اور پھر دھرتی کے مانند وہ بھی خزاں کی نذر ہوجاتا، اس بھری دنیا میں وہ خود بھی ایک سوالیہ علامت تھا، نہ جانے وہ کب تک تاریک راستوں پر بھٹکتا رہا اور پھر نہ جانے کب اسے اس طلسم کدے کی چابی مل گئی۔

نادیدہ قوتوں کی پرستش

یہ سب کچھ ایک شاعرانہ اسلوب میں ہوا یعنی کائنات ایک شعری صداقت بن گئی اور آدمی نے اسے اسی پیرائے میں سمجھا، یوں تو یہ دنیا زندگی کی تجربہ گاہ ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ ایسا میدان ہے جہاں خیال کے گھوڑے زیادہ آسانی سے دوڑائے جاتے ہیں، پھر انسان نے یہ جان لیا کہ کائنات میں ایک مخفی اور غیبی قوت موجود ہے جو نہایت طاقت ور اور کرشمہ ساز بھی ہے تو اس نے اس طاقت کے آگے سر جھکادیا اور اس کی پرستش شروع کردی، مگر یہ سب کچھ اس نے اپنے تخیل کے وسیلے سے قیاس وقیافے کی بنیاد پر کیا اور توہمات سے ناطہ جوڑ لیا، اس طرح زندگی، موت اور کائنات نیز اس کی اشیا کے اسرار و رموز سمجھنے کے علم کا نام جادو پڑ گیا، جادوگر ان اسرار و رموز کا عالم ہوتا، اسی قدر نہیں بلکہ وہ عالم باعمل ہوتا، وہ دعویٰ کرتا کہ مخفی، پراسرار، مافوق الفطرت اور غیبی قوت اس کے قبضہئ قدرت میں ہے، وہ اسی قوت کی مدد سے غیر فانی ہستیوں کے اعمال اور ان کی منشا میں دخل رکھتا، جادو اس کا آلہ کار تھا، گویا جادو وہ فن تھا جس پر عمل کرنے والا عامل پراسرار غیبی قوت تک رسائی حاصل کرلیتا تھا اور اس کی مدد سے لوگوں کے مشکل کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ داری ادا کرتا تھا۔
سر پال ہاروے کے الفاظ میں جادو وہ جھوٹا فن تھا جس کی بابت یقین کیا جاتا کہ قدرتی واقعات پر اثر انداز ہوتا ہے، اس کی اصل وہ غلط فہمی ہے جو اولین دور کی نسل کو قوانین فطرت سمجھنے میں ہوئی، انسان نے علم و عرفان کے ابتدائی مدارج میں سخت خطا کھائی اور پھر اس عالم گیر عقیدے نے اور بھی غلط فہمی پھیلائی کہ ارواح کائنات میں اثر و نفوذ رکھتی ہیں اور معمولات فطرت میں دخیل ہوتی ہیں۔
ارواح آدمی کو خوف زدہ کرتی رہتیں، اچھے لوگوں کی ارواح تو خیر کچھ نہ کہتیں لیکن بقول مین کین نہ ان سے کسی کو پالا پڑتا نہ ان کی کبھی کوئی خبر ملتی اور نہ وہ دکھائی دیتیں، وہ تو ایک جگہ جاکر چپ چاپ رہنے بسنے لگتیں، جیسا کہ اسلامی نقطہ نظر بھی ہے، البتہ برے لوگوں کی ارواح بہت تنگ کرتیں، رات کے وقت چلتی پھرتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر سہم جاتے، جادوگر ان بد ارواح کو تابع کرکے ان سے تخریبی کام کرواتا۔
ایک اور مغربی مصنف جیمز ایچ لوبا لکھتا ہے ”قدیم قبائل اور مذہب کی تحقیق و تفتیش کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھوت پریت کا عقیدہ کچھ یوں بھی پختہ ہوا کہ آدمی کے ساتھ ساتھ اس کا سایہ اور عکس موجود ہوتا ہے، گویا مرنے کے بعد یہی سایہ اور عکس بھوت پریت کی شکل میں منتقل ہوجاتا اور پھر خواب میں بھی نظر آتا، خواب میں یہ زندوں کے ہم شکل ہوتے اور پھر جب زندہ لوگ خواب میں آتے تو وہ فرق مٹا دیتے جو بصورت دیگر زندوں اور مردوں میں قائم ہے۔“
بھوت ایک طرح سے روح کا غیر ترقی یافتہ جد امجد ہے، اس کے جنم لیتے ہی لوگ اس سے ڈرنے اور سہمنے لگتے ہیں، اس کی پیدائش سب سے پہلے انسان کے خیال و قیاس میں ہوتی ہے، پھر یہ اتنا توانا ہوجاتا ہے کہ انسان کے دل و دماغ پر پوری طرح قبضہ جما لیتا ہے۔
مین کین نے ارواح، بھوت پریت، چڑیل اور جن وغیرہ کو چھوٹے خدا کہا ہے، انہیں ہم خداؤں کے خدام کہہ سکتے ہیں، یہ چھوٹے خدا مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتے اور ان گروہوں کے کام اور نام بھی الگ الگ ہوتے، یونانیوں کے یہاں چھوٹے چھوٹے دیوی دیوتاؤں اور عظیم خداؤں کے غلاموں کا ایک پوا لشکر صف آرا ہوتا، قسمت کی دیویاں، علم و ہنر کی دیویاں، انتقام کی دیوی نیز رب الارباب کے خدام ”زور دیو“ اور ”طاقت دیو“ اسی قبیل سے ہیں اور یہ روایت آج بھی جاری ہے، آج بھی یہ جن، پری، بھوت پریت، چڑیل وغیرہ ہمارے معاشرے میں لکھی جانے والی کہانیوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، تقریباً یہی صورت حال ہندو اور دیگر قوموں کی دیومالا کا ہے۔
زمانہء جاہلیت کے مذہبی نظریات شاید غیر معمولی قسم کی آفات کے سلسلہئ حوادث سے پیدا ہوئے، معمولی معمولی باتوں اور چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کی تو کسی کو پروا بھی نہ ہوتی، جب بارش پڑتی تو قریب میں کوئی پناہ گاہ نہ ملتی تو انسان جانوروں کی طرح چپ چاپ بھیگ جاتا، خوراک کی کمی پڑتی تو پتے یا ٹہنیاں چبا چبا کر کھاجاتا، جاڑا لگتا تو اُسے بھی برداشت کرلیتا، کوئی مکار دشمن اس کی شریکِ حیات کو اغوا کرکے لے جاتا تو یہ بات بھی قابلِ برداشت تھی، وہ ان باتوں سے پریشان ضرور ہوتا لیکن ان وجوہات کی بنیاد پر مر نہ جاتا، ہر چند کہ وہ ان کے تدارک کے لیے غیر معمولی جدوجہد کرتا لیکن بعض حادثات سے اس کی جان جاتی، وہ ڈوبنے سے بہت ڈرتا اور سمجھتا کہ کوئی مخفی طاقت تیرتے وقت آدمی کو سمندر کی تہہ میں کھینچ لیتی ہے، اسی طرح وہ آسمانی بجلی سے ڈرتا اور اسے قدرتی حادثات و آفات کی پشت پر مرعوب کُن اور خوف ناک قوتیں کارفرما معلوم ہوتیں۔
انسان میں فطری طور پر توہمات کا غیر معمولی رجحان موجود تھا اور اُس کا ذہن بھی اُن کی پرورش کے لیے بے حد زرخیز تھا،انہی توہمات کی وجہ سے خداؤں اور نیم خداؤں یا دیوی دیوتاؤں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا ہوا اور ان سب سے نمٹنے کے لیے جادو کی دریافت ہوئی، ابتدائی اقوام میں جادو ہی مذہب تھا، یہی ضابطہ ء حیات تھا،اسے عالم گیر قبولیت حاصل تھی،اس کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگ سکتا ہے کہ آدمی نے سب سے پہلے علم و فن کا یہی شعبہ قائم کیا، اس کی ابتدا تاریخ سے پہلے ہوئی،دنیا کے متعدد عجائب خانوں میں جو دستاویزات، مخطوطے اور دیگر اشکال محفوظ پڑے ہیں وہ ہمیں صرف چند ہزار سال پیچھے لے آتے ہیں،ان سے تاریخی اعتبار سے سحریاتی ادوار کا پتہ ملتا ہے، قرآنِ حکیم میں حضرت موسیٰ ؑ کے علاوہ دیگر انبیاء کے زمانوں میں بھی سحرو جادو کا زور نظر آتا ہے، حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں بھی جادو کا فن عروج پر تھا، شہرِ نمرود کے چھ سحری عجائبات مشہور ہیں اور ان کا تذکرہ قدیم تاریخی مواد میں موجود ہے۔

شہر بابل کے عجائبات

معتبر تاریخوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کلدانی سحریات کے زبردست ماہر تھے اور نمرود کے زمانے میں بابل کے جادوگروں نے چھ طلسمات ایسے تیار کیے تھے جو عقل و فہم سے بالاتر تھے انہوں نے تانبے کی ایک ایسی بطخ بنائی تھی جو کسی چور یا جاسوس کی خبر دیتی تھی، جب بھی کوئی چور یا جاسوس شہر کی چار دیواری میں داخل ہوتا تھا تو یہ بطخ خود بخود بولنے لگتی تھی اور لوگ سمجھ جاتے تھے کہ شہر میں کوئی بدنیت شخص داخل ہوا ہے، لوگ اس کی تلاش میں لگ جاتے، آخر کار اسے گرفتار کرلیا جاتا۔
دوسرا طلسم ایک عجیب نقارہ تھا، اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اگر کسی شخص کا مال یا اور کوئی شے گم ہوجاتی تھی تو وہ شخص نقارہ بجاتا تھا تو اُس سے آواز آتی تھی کہ تمہاری گم شدہ شے فلاں جگہ یا فلاں شخص کے پاس ہے۔
تیسرا طلسم ایک حوض تھا، جب لوگ کسی جشن کے موقعے پر اس حوض پر جمع ہوتے تو مختلف قسم کے شربت اس میں ڈال دیتے تھے اور جس وقت ان کو ضرورت ہوتی ان کا پسندیدہ مشروب انہیں مل جاتا۔
چوتھا طلسم ایک آئینہ تھا اور جب کوئی شخص غائب ہوجاتا یا گم ہوجاتا تو اس کے عزیزو اقارب آئینے کے سامنے جاکر سوال کرتے اور آئینے میں نظر آجاتا کہ وہ شخص کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔
پانچواں طلسم پانی کا ایک تالاب تھا جو لوگوں کے متنازع مسائل حل کرتا مثلاً اگر دو افراد کسی ایک چیز کے دعوے دار ہوتے تو دونوں کو اس تالاب میں اتار دیا جاتا جو حق پر ہوتا تھا، تالاب کا پانی اس کی ناف تک آتا تھا اور جو غلط ہوتا تھا وہ اس تالاب میں ڈوب جاتا تھا۔
چھٹا طلسم ایک درخت تھا جو نمرود کے محل کے دروازے کے سامنے لگایا گیا تھا، جس کا سایہ آدمیوں کی تعداد کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا تھا، غالباً کسی بڑے جلسے کے انعقاد کے سلسلے میں یہ بندوبست کیا گیا تھا، یہ تمام طلسمات نمرود کے دارالحکومت بابل میں موجود تھے لیکن بہر حال غور طلب بات یہ ہے کہ ان طلسمات کی تعمیر میں پوشیدہ غرض و غائیت مثبت اور تعمیری تھی۔

اہل بابل کا جادو

سحریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کلدانیوں کا سحر بہت ہی مشکل ہے اور اس کے حاصل کرنے میں نہایت سخت محنت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس علم کا عامل اپنے علمی کمالات سے زبردست کام لے سکتا ہے جن کو عقل و فہم بھی سمجھنے سے قاصر رہ جائے،اس زمانے میں جادو ایک عظیم سائنس کی حیثیت رکھتا تھا اور اسے مثبت یا منفی کاموں میں استعمال کیا جاتا تھا۔
الہامی کتابوں اور انبیاء کی تعلیمات نے قدیم جادوئی سائنس کی حد بندی کی اور خاص طور پر شرکیہ اعمال اور شیاطین کی مدد سے انجام دیے گئے سحری اثرات کی سختی کے ساتھ ممانعت کی، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے مسلمان یا دیگر اہل کتاب بھی اپنی نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر آج بھی سحریات کے اس قدیم کھیل میں مصروف رہتے ہیں لیکن وہ کبھی فلاح نہیں پاتے۔
اہلِ بابل یعنی کلدانی ہاروت و ماروت کی تعلیم کے مطابق تسخیر روحانیاتِ علویہ، سفلیہ اور جسمانیہ وغیرہ کرتے تھے جب کہ اہلِ یونان تسخیرِ روحانیاتِ علویہ پر اکتفا کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ روحانیاتِ علویہ کی تسخیر کے بعد روحانیات سفلیہ کی تسخیر کی ضرورت نہیں ہے، زمانہ ء قدیم میں ہندوستان میں بھی اہلِ بابل کا طریقہء سحر رائج تھا، بعد میں یونانی اعتقادات بھی شامل ہوگئے۔(جاری ہے)