انسانی زندگی کے اہم پہلو علم نجوم کی روشنی میں نمایاں ہوتے ہیں

انسان کائنات کی سب سے عجیب مخلوق ہے، لاکھ بھیدوں کا ایک بھید ہے۔ خود اپنی ذات و صفات میں سر الاسرار ہے۔ کہیں یہ شعلہ ہے، کہیں یہ شبنم، کہیں اس کی جرأت و ہمت و بہادری کے چرچے ہیں تو کہیں بزدلی، پست ہمتی اور مایوسی کا شکار نظر آتا ہے۔ ایسے ایسے کام اور کارنامے اسی حضرت انسان سے منسوب ہیں جن پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کہیں معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے کہ عجیب عجیب حماقتیں بھی اسی سے سرزد ہوتی ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ انسانی زندگی کا جس قدر بھی مطالعہ کیا جائے حیرتوں کے نت نئے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
تاریخ عالم کا کوئی بھی طالب علم زمانہ قدیم کے غیر معمولی انسانوں کی کارگزاریوں پر جب نظر ڈالتا ہے تو ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اسی ایک انسان کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی بدولت ممکن ہوا تھا اور وہ انسان بھی نہایت معمولی سا۔ یہی صورت حال ماضی قریب یا موجودہ دور کی ہے۔
ہر دور میں غیر معمولی افراد اپنے اپنے زمانے میں یادگار کردار دنیا میں ادا کر کے دنیا کو محو حیرت چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ قدیم زمانے کے دانشور، فلسفی، ماہر فلکیات، طبیب، ادیب و شاعر ہوں یا عظیم جنگجو سپہ سالار، فاتح، حکمران، منتظم یا انسانی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے سائنسداں، تاریخ کی کتابیں ان کے غیر معمولی کارناموں سے بھری پڑی ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جنہوں نے ساری زندگی ناکامیوں، پریشانیوں اور مصیبتوں میں گزاری۔ ایسے لوگوں کی اکثریت ماضی میں بھی مل جاتی ہے اور حال میں بھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جو انسانی کامیابیوں اور ناکامیوں میں فرق کرتی ہے۔

کامیابی یا ناکامی ایک اہم سوال؟

یہ سوال کوئی نیا سوال نہیں ہے۔ شاید زمانہ قدیم سے ہی یہ سوال زیر بحث رہا ہے اور ہر دور کے اہل علم، دانشور، فلسفی یا سائنسداں اس پر غور کرتے رہے ہیں اور اپنی اپنی سمجھ بوجھ اور تحقیق و تجربے کے مطابق اس سوال کا جواب دیتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سوال کے جواب پر اتنی زیادہ آرا سامنے آئیں کہ کسی ایک جواب پر متفق ہونا مشکل ہو گیا۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس ایک سوال کو اگر دنیاوی حالات کے عوامل کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو انسانی ذہن بہت سی مختلف سمتوں میں بھٹکنے لگے گا۔ کبھی تعلیم اور مختلف ہنر زیر بحث آئیں گے، کبھی معاشیات کو سامنے رکھا جائے گا، کبھی انسان کی کامیابیوں اور خوش نصیبیوں کے حوالے سے اس کا خاندانی، قومی یا قبائلی پس منظر یا ملکی حالات زیر بحث آئیں گے۔ ہمارے خیال میں یہ تمام چیزیں اس سوال پر غور کرنے کے لیے دوسرے نمبر پر آتی ہیں۔ پہلے نمبر پر یہ جاننا ضروری ہے کہ جس انسان کی کامیابیوں یا ناکامیوں پر بات کی جا رہی ہے وہ خود کیا ہے اور کیسا ہے ؟

انسان شناسی اور وقت شناسی

ہمارے مروجہ علوم میں انسان کی شخصیت اور اس کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے علم نفسیات کو ایک مستند علم تسلیم کیا جاتا ہے مگر کیا علم نفسیات مکمل طور پر اس ضرورت کو پورا کرتا ہے اور کیا اس علم کے ذریعے ہم وقت سے بہت پہلے یہ بتا سکتے ہیں کہ فلاں بچہ یا نوجوان کس قسم کی صلاحیتیں، خوبیاں یا خامیاں لے کر دنیا میں آیا ہے۔ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔ کوئی بھی ماہر نفسیات ہر گز یہ نہیں بتا سکتا۔ گویا اس حوالے سے نفسیات کا موجودہ علم نہایت محدود اور نامکمل ہے بلکہ اس حقیقت سے انکار کرنا بھی ممکن نہیں۔ اکثر ماہرین نفسیات نے انسانی شخصیت کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے علم نجوم سے مدد لی ہے اور اس سلسلے میں سرفہرست عظیم نفسیات داں کارل یونگ کا نام ہے۔ واضح رہے کہ کارل یونگ علم نفسیات کے میدان میں ایک معتبر نام ہے۔ اس نے اپنے پیشرو سگمنڈ فرائڈ سے بھی اختلاف کیا اور اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ وہ اپنی نفیساتی تحقیقات کے سلسلے میں علم نجوم سے مدد لیتا رہا ہے۔
ہم اپنے کالموں میں اکثر و بیشتر یہ مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں کہ انسان اور اس کی نفسیات کو سمجھنے میں جس قدر علم نجوم معاون ہے دوسرا کوئی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ سے بعض حلقے اپنی کم فہمی کے سبب اس مفید ترین علم کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اس علم کی معقول انداز میں تشہیر و ترویج کبھی نہیں ہو سکی۔ اکثر علم نجوم کو غیب یا قسمت کا حال کہہ کر مطعون کیا گیا اور اس حقیقت کو کبھی نہیں سمجھا گیا کہ یہ علم انسانی شناسی اور وقت شناسی کا علم ہے۔
علم نجوم کی اصل حقیقت سے ناواقفیت کی بنیاد پر مسلمانوں میں اسے بہت زیادہ نظر انداز کیا گیا اور اس کے خلاف فتوے بھی دیے گئے لیکن مغرب میں جہاں کسی بھی علم کے مفید پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاتا اس علم پر بہت زیادہ کام ہوا حالانکہ وہاں بھی نہ صرف یہ کہ کٹر مذہبی حلقوں نے اس کی مخالفت کی بلکہ ایسٹرونومی سے تعلق رکھنے والے بعض سائنسدانوں نے بھی اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا لیکن ایسٹرونومی کے ماہر بعض بڑے بڑے سائنسدانوں نے ایسٹرولوجی کا مقدمہ بھی لڑا کیوں کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ دنیا کے چند بنیادی اور اہم ترین ماہرین فلکیات میں جو ایسٹرولوجی پر یقین رکھتے تھے ، نکولس کوپرنیکس، گلیلیو گیلیلی، ٹائیکو براہے، جوہن کیپلر اور سر آئزک نیوٹن شامل ہیں۔ ان ناموں کو اور ان کے کاموں کو نظر انداز کرنا موجودہ دور کے ماہرین فلکیات کے بس کی بات نہیں ہے۔
عزیزان من! اس ساری گفتگو کی ضررت ایک بار پھر اس لیے محسوس ہوئی کہ اگر ہم علم نجوم سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنی شخصیت، فطرت، کردار اور اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی حاصل کرنے کی روایت ڈالیں تو یقیناً زندگی میں کامیابیوں کا تناسب بڑھ جائے گا اور ناکامیاں یا مایوسیاں کم ہو جائیں گی، حالاں کہ یہ بھی ایک بڑا مشکل ترین کام ہے کہ انسان اپنی خامیوں سے واقف ہونے کے بعد انہیں تسلیم بھی کرے۔ عموماً ایسا نہیں ہوتا، یہ ہمارا رات دن کا تجربہ ہے، لوگ اپنی خوبیاں سن کر تو خاصے خوش ہوتے ہیں لیکن جب انہیں ان کی کمزوریوں اور خامیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ افسردہ اور ملول ہوتے ہیں بلکہ کچھ ناک بھوں بھی چڑھانے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ غیر جذباتی ہو کر صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سنجیدگی سے اپنی خامیوں یا کمزوریوں پر قابو پائیں تو ان کے بہت سے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔

ماجرائے ناکامی

ایسٹرولوجی کی دنیا ایک جہان حیرت ہے جو اس کی گہرائیوں میں ڈوبتا ہے وہی اس میں چھپے ہوئے حیرت انگیز مناظر کا لطف اٹھاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے سخت محتاط بھی ہونا پڑتا ہے۔ اس علم کے جاننے والے کے لیے پوری دیانت داری کے ساتھ سچ بولنا بڑا مشکل اور خطرناک کام ہے۔
مندرجہ بالا ساری گفتگو کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ اس وقت ہمارے پیش نظر جو خط ہے اس میں ایک ایسا سوال اٹھایا گیا ہے جس کا جواب علم نجوم کے علاوہ کسی ذریعے سے نہیں دیا جا سکتا۔ آیئے پہلے سوال کا جائزہ لیا جائے۔
این، ایم لکھتے ہیں ’’آپ کا کالم ضرور پڑھتا ہوں۔ آج خیال آیا کیوں نہ میں اپنی زندگی کی ناکامی کی وجہ معلوم کروں۔ میری عمر تقریباً 60 سال ہے۔ نہ شادی کی نہ روپیہ جمع کیا۔ تعلیم بھی اچھی حاصل کی، پھر بھی محنت مزدوری میں زندگی گزاری۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ براہ کرم میرا ستارہ اور حالات کے مطابق اپنے کالم میں جواب دیجیے۔‘‘
جواب:۔ محترم آپ کی تاریخ پیدائش کے مطابق تو آپ کی عمر 65 سال ہے بلکہ اس سال مارچ میں آپ پورے 66 سال کے ہو جائیں گے۔ پتا نہیں کیوں آپ نے خود کو 60 سال کا لکھا ہے۔ اپنی عمر کے حساب سے اس قدر بے خبری ہے یا کوئی تجاہل عارفانہ ہے۔
آپ کا شمسی برج حوت (Pisces) ہے جب کہ قمری برج سنبلہ۔ اس کا حاکم سیارہ عطارد ہے چونکہ وقت پیدائش آپ نے نہیں لکھا لہٰذا طالع پیدائش کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
شمسی برج حوت کے تحت آپ کی شخصیت خاصی پراسراریت کی حامل ہے جس کی وجہ آپ کا حاکم سیارہ نیپچون ہے جو آپ کی پیدائش کے وقت برج سنبلہ میں تھا گویا پیدائشی قمر کے ساتھ۔ یہ پوزیشن سونے پر سہاگا ہے یعنی آپ کے اندر مزید پراسراریت بڑھا رہی ہے۔ ہماری تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ آپ دماغ سے زیادہ دل کے زیر اثر ہیں۔ گویا آپ ذہنی سوچ بچار سے زیادہ وجدانی محسوسات کے آدمی ہیں۔ ممکن ہے خود آپ کے پیش نظر بھی ساری زندگی یہ سوال رہا ہو کہ آخر آپ کا مسئلہ کیا ہے تو ہم آپ کو بتا دیں آپ کا بنیادی مسئلہ عدم اطمینان ہے۔ آپ کبھی کسی چیز، کسی شخص یا کسی صورت حال سے زیادہ عرصے مطمئن نہیں رہ سکتے۔ اس کی وجہ آپ کا قمری برج سنبلہ ہے جو آپ کو فطرتاً ایک انتہائی پرفیکٹ بناتا ہے اور ایسا پرفیکٹ جو دوسروں سے کیا خود اپنے کام سے بھی کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔
شمسی برج حوت کے حامل افراد اتنے ذہین نہیں ہوتے جتنے وجدانی اور تخلیقی ہوتے ہیں لہٰذا یہ آرٹ کے شعبوں میں زیادہ کامیاب رہتے ہیںیا پھر خدمت خلق کے کاموں میں زندگی گزارنا انہیں اچھا لگتا ہے۔ زندگی کے تاریک پہلوؤں پر یہ خاص طور پر توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیشہ ایک اداسی کی سی کیفیت ان پر طاری رہتی ہے۔ شاید اسی کیفیت پر غلبہ پانے کے لیے مستقبل کے سہانے خوابوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ بے حد حساس ہوتے ہیں۔ غیر عملی مزاج اور موڈی پن اکثر ان کی ناکامیوں کا سبب ہوتا ہے۔ اپنے موڈ کے خلاف کوئی کام، کوئی مشغلہ اختیار نہیں کرتے۔ خواہ کتنا ہی پیسہ کمائیں، خرچ کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ عشق و محبت ان کی ایک عجیب بیماری ہے۔ ہم نے بیماری کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ان کا عشق بھی کوئی عام قسم کا عشق نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک روگ بن کر ان کی روح میں سما جاتا ہے جس کا علاج تقریباً ناممکن ہے اور پھر مصیبت یہ ہے کہ اگر وہ عشق کامیاب ہو جائے یعنی ان کی اپنے محبوب سے شادی ہو جائے تو ضروری نہیں ہے کہ یہ مطمئن ہو جائیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہیں پھر ایک اور عشق کی ضرورت محسوس ہونے لگے گی اور یہ محسوس کریں گے کہ جس محبت کی انہیں تلاش تھی وہ اب بھی نہیں ملی ہے۔
برج حوت والوں کے لیے یہ مقولہ مشہور ہے کہ اگر ان سے 70، 80 سال کی عمر میں بھی یہ پوچھا جائے کہ آپ کی کوئی ایسی خواہش جو پوری نہ ہو سکی ہو کون سی ہے؟
ان کا جواب یہ ہو گا ’’ایک محبت کا سوال ہے بابا۔‘‘
ابھی کوئی چند مہینے پہلے کی بات ہے ہماری ایک واقف خاتون نے ہمیں فون کیا۔ وہ بڑی پریشان تھیں۔ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا۔ ایک 65، 70 سال کے بزرگوار جو ماشاء اﷲ پوتا پوتی، نواسا نواسی والے ہیں ان پر عاشق ہو گئے ہیں حالانکہ وہ خاتون خود بھی تقریباً 50 سال کی ہیں اور جوان بچوں کی ماں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بزرگوار ان پر پاگل پن کی حد تک فدا ہیں جب ہم نے تاریخ پیدائش معلوم کی تو بزرگوار کا شمسی برج حوت نکلا۔
ہمارا خیال ہے کہ اس قدر وضاحت سے آپ کو اپنے اس سوال کا جواب تو مل گیا ہو گا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود آپ کی زندگی مادی طور پر کیوں ناکام رہی۔ آپ کے زائچے میں تعلیم سے متعلق سیارگان کی نشست اگرچہ بہت اچھی ہے جس کی وجہ سے آپ نے بہتر تعلیم حاصل کی اور اپنے موڈ اور مرضی کے مطابق زندگی گزاری، مگر شادی نہیں کی، اس کی وجہ زائچے میں شادی اور کرئر سے متعلق سیاروں کی ناقص پوزیشن ہے،شادی اور ازدواجی زندگی کا نمائندہ سیارہ زہرہ ہے، یہ زائچے میں اپنے برج ہبوط سنبلہ میں ہے،اسی طرح بدقسمتی سے حیثیت کا نمائندہ سیارہ شمس بھی راہو کیتو محور میں پھنس کر اپنی اہمیت کھوچکا ہے، اس صورت حال نے آپ کو زندگی کی حقیقی کامیابیوں اور خوشیوں سے محروم رکھا، شادی کا نہ ہونا ایک ایسی محرومی ہے جو اکثر مادی زندگی میں ترقی کے راستے بند کرنے کا سبب ہوتی ہے کیوں کہ جب آپ جیسے آدمی پر جو بہت زیادہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے اور محض اپنے احساسات کے سہارے جیتا ہے اگر ذمے داریوں کا بوجھ نہ پڑے تو مادی کامیابیوں کے لیے زیادہ کچھ کرنے کی لگن پیدا نہیں ہو سکتی۔
آئیے تھوڑا اس سوال کا بھی جائزہ لیا جائے کہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی یا آپ کی شادی کیوں نہ ہو سکی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نہایت شدید قسم کے جذباتی آدمی ہیں اور انتہا درجے کے حساس بھی ہیں۔ زائچے میں شمس و قمر اور زہرہ اور مریخ کی پوزیشن بتا رہی ہے کہ آپ کا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے اور زندگی میں کوئی ایسا عشق ضرور ہے جس کی ناکامی آپ کے لیے روگ بن سکتی ہے اور آپ زندگی بھر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں بلکہ اپنے ایک تجربے کی بنیاد پر جنس مخالف سے ہی ہمیشہ کے لیے نفرت کر سکتے ہیں۔ آپ کے زائچے میں زہرہ ، قمر اور نیپچون برج سنبلہ میں ہیں ۔ برج سنبلہ میں قمر انٹرنیشنل کنواروں اور کنواریوں کا نشان ہے۔ خاص طور سے خواتین کے زائچے میں قمر برج سنبلہ میں شادی یا سیکس سے بیزاری کا اظہار لاتا ہے بلکہ برج سنبلہ میں شمس کی موجودگی بھی سنبلہ افراد میں جذباتی سرد مہری کا سبب بنتی ہے۔ مشہور عالم خاتون جنہیں نوبل پرائز دیا گیا، مدر ٹریسا کا تعلق بھی برج سنبلہ سے ہے۔ انہوں نے ساری زندگی شادی نہیں کی اور خود کو ساری زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔
آپ کے شادی نہ کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آپ ذمے داریوں سے بھاگنے والے آدمی ہیں خصوصاً ایسی ذمے داریاں جو آپ کی آزادی میں رکاوٹ ڈالیں اور آپ کی پسندیدہ دلچسپیوں میں حارج ہوں۔
اب تک ہم نے آپ کے زائچے کا جو تجزیہ کیا ہے یہ آپ کے سوالات کے جوابات پر بھرپور روشنی ڈال رہا ہے اور اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ مادی طور پر یا مالی طور پر نمایاں کامیابیاں حاصل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آپ نے اپنی مخصوص شخصیت اور فطرت کے سبب خود کو ان راستوں پر آگے جانے ہی نہیں دیا جو بالآخر مالی آسودگی اور زندگی کی دیگر ضروریات کے حصول کا حقیقی ذریعہ تھے۔ آپ کے زائچے کی روشنی میں ایک شعر ہمارے ذہن میں آ رہا ہے جو آپ کی زندگی، آپ کی شخصیت اور فطرت کی عکاسی کرتا ہے اور چونکہ آپ اردو ادب کا بھی اچھا مطالعہ رکھتے ہیں تو یقیناً اس شعر سے اپنے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ع
کوئی رنگ و نور سے مطمئن تو کوئی نمود سحر سے خوش
مگر ایک شام فراق ہے جو مجھ سے خوش میرے گھر سے خوش