آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا(2)

سائیکک افراد خود زبردست سحری قوتوں کے مالک ہوتے ہیں

گزشتہ کالم میں ایک تفصیلی خط شائع کیا گیا تھا جو جادو یا آسیب وجنات وغیرہ کے حوالے سے تھا۔ ہم نے اپنے قارئین کو دعوت دی تھی کہ وہ اس کا تجزیہ کریں کہ کیا واقعی یہ کوئی جادوئی معاملہ ہے یا پھر جنات وشیاطین کی کارگزاری ہے۔ اس سلسلے میں کئی فون ہمیں مو صول ہوئے جن میں واقف اہلِ علم حضرات کے فون بھی تھے اور کچھ ایسے حضرات بھی تھے جن سے ہم پہلے واقف نہیں تھے تقریباً سب کی رائے یکساں تھی کہ یہ جنات، شیا طین ، خبیث یا کسی بدروح کی کارروائی لگتی ہے اور ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ وہ اس کا علاج کر سکتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ مسئلہ علاج کا نہیں ہے بلکہ تشخیص کا ہے اور ہماری نظر میں علاج تبھی ممکن ہے جب تشخیص درست ہو جائے اور چوں کہ آپ کی تشخیص سے ہمیں اتفاق نہیں ہے لہذا ہم سمجھتے ہیں کہ آپ علاج بھی نہیں کرسکتے۔
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے روحانی معا لجین میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو عملیات و تعویزات کے ذریعے ہر ناممکن کام کو ممکن بنانے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ بے شک عملیات وتعویزات کا علم اپنی جگہ ایک سمندر ہے جس میں ہر مشکل کے حل کے لیے طریقے دیے گئے ہیں اور ہمارے روحا نی معالجین وہ طریقے اپنے مریضوں پر آزماتے رہتے ہیں۔ اگر تیر نشانے پر بیٹھا تو واہ واہ! بہ صورتِ دیگر کو ئی اور نسخہ آزمایا جائے گا اور آخر کار جب سارے نسخے ناکام ہو جائےں تو پھر یہ معالجین مریض کو کسی اور معا لج کی طرف بھیج دیتے ہیں اور صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ آپ پر جو چیز ہے وہ بہت طاقت ور ہے، ہمارے بس کی بات نہیں کہ اس کا مقابلہ کریں لہذا فلاں صاحب کے پاس چلے جاو یا فلاں مزار پر چلے جاو اور پھر مریض کے گھر والے اسے مزاروں پر لیے پھرتے ہیں۔ یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں سے مریض کا کیس مزید خراب ہو جاتا ہے،مذکورہ خط میں ایسے علاج معالجوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ہم ایسے مریضوں کو مزارات پر لے جانے کے خلاف ہیں۔ کیو ں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی سائیکی مزید بگڑ جاتی ہے اور پھر وہ کبھی مکمل طور پر شفا یاب نہیں ہو تے پھر انہیں صرف کسی مزار پر جا کر ہی عارضی آرام ملتا ہے مگر یہ آرام بھی چند روزہ یا چند ماہ تک برقرار رہتاہے اور باقی اصل مرض اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ یہ علاج با لکل ایسا ہی ہے جیسے ایلو پیتھک طریقہ علاج میںآخری چارے کے طور پر کارٹیزون کے مرکبات استعمال کرائے جاتے ہیں جو مریض کا مزید بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔
ہم نے جو کیس شائع کیا ہے ، اسے وہ لوگ با آسانی سمجھ لیں گے جنہوں نے ہمارے پیرا سایئکولوجی سے متعلق مضامین پڑھے ہیں۔ شاید دو تین سال پہلے ہم نے سائیکک افراد کے بارے میں لکھا تھا۔ آسان زبان میں یہ لوگ بہت عمدہ قسم کے معمول(MEDIAM) ہوتے ہیں۔ نا مناسب حالات، غم اور صدمات یا کو ئی جذباتی معاملہ ان کی حساسیّت کو مزید بڑھا دیتا ہے اور یہ ایک خاص انداز میں ٹیون(TUNE) ہو کر رہ جاتے ہیں۔ گویا ایک ایسا ٹرانسسٹر ریڈیو بن جاتے ہیں جس پر مخصوص اسٹیشن اٹک کر رہ جاتا ہے اور اپنی نشریات شروع کر دیتاہے۔ یہ تقریباً نفسیاتی بیماری شیزو فرینیا سے ملتا جلتا معاملہ ہے۔ شیزو فرینیا میں مریض کی شخصیت تقسیم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی شناخت بھول کر لاشعورمیں موجود کو ئی بھی روپ دھار لیتاہے۔ مثلاً وہ کو ئی بابا،صاحبِ مزار بزرگ یا کو ئی جن وغیر ہ بھی بن سکتا ہے۔ لو گ اس کی باتیں سن کر حیران ہوتے ہیں لیکن سا ئیکک افراد کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ مریض ہوش و حواس میںرہتا ہے۔اپنی شناخت قائم رکھتاہے۔ البتہ اپنی منفی روحانی قوتوں کی کارفرمائی سے غافل ہوتا ہے۔وہ تو یہی سمجھتارہتاہے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی اور کر رہا ہے۔ کسی نے اس پر جادو وغیرہ کرایا ہے یا کوئی پر اسرار نادیدہ وجود اسے تنگ کر رہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے جو کچھ بھی ہو رہاہوتا ہے، مریض کی اپنی سوچ اور خیا ل کی کارفرمائی ہوتی ہے۔
مثلاً مذکورہ کیس میں چارپائی کا اچانک ٹوٹنا دونو ں بہنوں میں سے کسی ایک بہن کے خیا ل کی قوت کا مظاہرہ تھا چوں کہ بڑی بہن جو زیا دہ بھاری بھرکم تھی لہذا اس کے ذہن میں یا اس کی بہن کے ذہن میں یہ خیال ایک لمحے کے لیے آسکتا تھا کہ چارپائی ٹوٹ جائے گی اور بس چارپائی ٹو ٹ گئی۔ بعد میں اس بات پر کون دھیان دیتا ہے کہ ہم نے جو سوچا وہ اتنی جلدی کیسے ہو گیا یا جب چھوٹی بہن چھت میں لگے پنکھے سے ٹکرائی تو یہ بھی اس کے کسی خیال ہی کی کارفرمائی تھی جس کے نتیجے میں وہ خود بخود ہوا میں بلند ہو گئی۔ جتنے واقعات بھی مذکورہ خط میں لکھے گئے ہیں، سب کے سب دونوں بہنوں کی اپنی منفی سوچ کے مظاہر ہیں۔ بھائیوں کے ایکسیڈنٹ گھر میں پتھروں کا آنا، مالی بد حالی، بیماریاں، کسی بچے کو گھر میں دیکھنا، سوئیاں چبھنا، جسم میں کرنٹ لگنا، منہ پر تھپڑ لگنا، کان مروڑنے کا احساس، سوتے ہوئے ہاتھ پاو¿ں چلانا یا حلق سے آوازیں نکالنا گھر میں اچانک پانی ختم ہو جانا، برتن گرنے کی آوازیں، آپس میں لڑنا جگھڑنا، ایک دوسرے پر شک کرنا، شدید اشتعا ل میں آجانا، دیواروں میں مکے مارنا یا کھڑکی دروازے توڑنا وغیرہ۔ خیال رہے کہ یہ تمام بڑھی ہوئی حساسیت کے نمونے ہیں۔ یہی لوگ ایب نارمل کہلاتے ہیں۔
اکثر پیرا سائیکولو جی کی مشقیں کرنے والے طالب علم ایسے تجربات سے گزرتے ہیں کہ وہ اچانک ہو ا میں اڑنے لگے یعنی ان کا جسم سطح زمین سے کئی فٹ اوپر بلند ہو گیا یا انہوں نے کسی بات کا خیا ل کیا اور وہ ہو گئی۔ ہمارے شاگردوں میں بے شمار تجربات اس نو عیت کے مشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔ ہماری ایک شاگرد نے اپنے خط میں لکھا کہ میں اپنے کمرے میں لکھنے میں مصروف تھی کہ قلم کی روشنائی ختم ہو گئی۔ رات کا وقت تھا نیا قلم ملنا مشکل تھا، میر ے ذہن میں یہ خیا ل آیا کہ بڑے بھائی برابر کے کمرے میں اس وقت جاگ رہے ہو ں گے۔ اگر وہ اپنا قلم مجھے دے دیں تو میں اپنا کا م مکمل کر لوں گی۔ ابھی میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ چند لمحوں بعد بھائی میر ے کمرے میں داخل ہوئے، اپنا قلم مجھے دے دیا کہ لو یہ تم رکھ لو۔اسی طرح ایک روز مجھے خیال آیا کہ حیدرآباد والے بھائی آج گھر آجائیں تو میں ان کی پسندیدہ ڈش بنا رہی ہو ں، وہ بھی کھا لےں گے اور بہت خوش ہوں گے۔ شام کو حیرت انگیز طور پر وہ بھا ئی گھر آگئے اور کہنے لگے کہ مجھے یقین ہے آج تم نے میری پسندیدہ ڈش بنائی ہے۔ میں خود بھی حیران رہ گئی۔
ایسے سیکڑوں واقعات موجود ہیں اور ہمارا رات دن ان سے واسطہ پڑتا رہتاہے۔ دراصل سا ئیکک افراد اپنی کم علمی کے سبب خود اپنی ایک شاندار اور قابلِ فخر قدرتی صلاحیت کو درست انداز میں کنٹرول نہیں کر سکتے بلکہ نا سمجھی کی وجہ سے اس کا غلط استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ حا لات کی سختیاں اور محرومیاں ان کے اندر منفی سوچ کو گہر اکر دیتی ہےں اور وہ اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی، لا شعوری طور پر منفی ہو جاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کے ساتھ اور ان سے جڑے ہوئے دیگر افراد کے ساتھ، سب کچھ غلط ہی ہوتا رہتا ہے۔ انہیں کسی مثبت بات کا یقین نہیں ہوتاجب کہ منفی بات پر گویا ایمان ہوتا ہے مثلاً کسی بھی علاج معالجے کے دوران میں انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے یا اپنے اور گھر والوں کے حالات میں بہتری کا یقین نہیںہوتا البتہ اس بات پر کامل یقین ہو تا ہے کہ ان کے ساتھ چوں کہ کبھی اچھا ہی نہیں ہوا لہذا آ ئندہ بھی کبھی اچھا نہیں ہو گا۔ البتہ ماورائی یا روحانی باتوں پر پورا یقین ہوتا ہے اسی لیے کسی بزرگ کے دم کرنے یا دم کا پانی پینے سے یا کسی نقش تعویذ کو پاس رکھنے سے یا پھر کسی مزار پر حاضری سے انہیں عارضی آرام مل جاتا ہے اور بظاہر نارمل ہو جاتے ہیں مگر کچھ عرصے بعد پھر وہی کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہوتاہے جو پہلے ہوا تھا۔ الغرض یہ چکر عمر بھر چلتا رہتاہے۔
یہ سا ئیکک لوگ جس گھر و خاندان میں بھی ہو ں پورے خاندان کے لیے ایک مسئلہ ہوتے ہیں۔ اگر ان کے بارے میں معقول معلومات نہ ہو ں اور ان کی پرورش خصوصی احتیاط کے ساتھ نہ کی جائے، خاص طور سے ان کی محرومیوں اور خوشیوں کا خیا ل نہ رکھاجائے تو ان کی سائیکی بگڑنے لگتی ہے اور پھر وہ کو ئی بھی خطرناک رنگ اختیا رکر سکتی ہے۔
اگر ان کی ابتدا ہی سے معقو ل تربیت کی جائے تو یہ نہا یت غیر معمولی صلا حیتوں کے حامل افراد دنیا میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیتے ہیں۔ یہ اپنے پسندیدہ شعبوں کی طرف جاتے ہیں اور نمایا ں حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسی مثالوں میں عظیم سائنس داں آئن سٹائن، شہرہ آفاق ہالی ووڈ اسٹار الزبتھ ٹیلر، راسپوٹین وغیرہ شامل ہیں لیکن ان لوگوں کی ابتدائی تربیت درست انداز میں ہو گئی تھی مگر اس کے باوجود کہ انہوں نے ایک شاندار کریئر کے ذریعے دنیا کو حیران کیالیکن اپنی ذاتی زندگی انتہائی ناقص اور بعض نے بہت گھناونے انداز میں گزاری۔ آئن اسٹا ئن کی پہلی بیوی نے تنگ آکر اس سے طلاق لے لی اور دوسری زندگی بھر ایک عذاب جھیلتی رہی۔
ابتدا ہی میں ایسے لوگوں کا سراغ صرف ان کے زائچے پیدائش کے ذریعے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر زائچہ مثبت ہو اور باقوت وسعد اثرات رکھتاہو تو ان لوگوں کی زندگی میں کو ئی گڑبڑ واقع نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اگر زائچہ منفی اور نحس اثرات رکھتا ہو تو اکثر ابتدائی زندگی یا کبھی کبھی بچپن ہی میں گڑبڑ شروع ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے دائرہ بروج کے تین حساس ترین برج سرطان، عقرب اور حوت ہیں۔ ایسے کیسوں میں ان تین برجوں کی کارفرمائی کسی نہ کسی طور سے ضرور نظر آتی ہے۔ اس کے بعد زائچے کے دیگر پہلووں کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔
ہمارے مطالعے اور تجربے میں ہندی جوتش کے بعض ایسے یوگ بھی ہیں جو انتہائی نا قص اور بھیانک اثرات دیتے ہیں جن میں گروچنڈال یوگ سرِفہرست ہے۔ یہ دونوں یوگ اگر کسی زائچے میں خراب گھروں میں موجود ہوں تو صاحبِ زائچہ اپنی اور پورے خاندان کی تباہی کا باعث ہو سکتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ دونوں لڑکیاں پیدائشی طور پر سائیکک تھیں۔ بعد میں ماں کا انتقال بھی ایک حادثے میں ہو گیا۔ باپ کی مالی پوزیشن پہلے بھی کبھی اچھی نہیں رہی تھی اور بعد کا تو خیر ذکر ہی کیا لہذا محرومیاں حد سے زیادہ تھیں اور خواہشات اس سے بھی زیادہ۔ واضح رہے کہ ایسے لوگ فطرتاً نہایت حاسد، جیلس اور اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں لیکن جب خواہشات پوری نہ ہوں، جذبات کو کچلنا پڑے تو ان کے اندر انتقام کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ یہ انتقام وہ سب سے لیتے ہیں، اپنوں سے بھی، غیروں سے بھی۔ حد یہ کہ خود اپنے خلاف بھی ایک طرح کے انتقامی ردِّ عمل کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیںاور مظلوم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ منفی سوچیں دل و دماغ پر پوری طرح قبضہ جما لیتی ہیں اور بس! سوچ اور خیال کی شدت جب عروج پر پہنچتی ہے تو رنگ برنگے تماشے شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مثبت سوچ اپنائیں۔ اپنے اور دوسروں کے لیے ہمیشہ اچھا سوچیں، خوش اُمید رہیں اور خوش رہنا سیکھیں۔ عموماً وہ جواب میں یہی کہتے ہیں کہ ہم تو سب کے لیے اچھاہی سوچتے ہیں۔ اپنے لیے اسی وقت اچھا سو چیں گے جب ہمارے ساتھ اچھا ہو گا اور ہمارے ساتھ اچھا ہوتا ہی نہیں ہے۔
یہ لو گ اپنے لاشعور کے منفی ردّعمل سے ہمیشہ بے خبر ہوتے ہیں۔ دیکھنے میں بظاہر بڑے مظلوم و معصوم، نیک و پرہیزگار، گناہوں سے نفرت کرنے والے، ظلم وزیادتی کو ناپسند کرنے والے، اکثر عبادت گزار اور روحانی مشاغل کے شوقین خصوصاً مزارات پر جانے کے شوقین ہوتے ہیں لیکن جب آپ کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزاریں اور قریب سے ان کی نجی زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ اپنے قول وفعل میں تضادات کا شکار نظرآئیں گے یعنی عبادات یا روحانی مشاغل، مزارات پر حاضری ، مذہبی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ، تبلیغی سرگرمیوں میں آگے آگے لیکن حقوق العباد کی ادائیگی سے غافل۔ ماں باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں کے حقوق سے بے نیاز بلکہ اکثر ظلم و زیادتی کرتے نظر آئیں گے۔ اپنی رائے اور مرضی زبردستی اپنے اہل خانہ پر متشدّانہ انداز میں مسلط کرتے ہیں۔ اپنے سوا سب کو غلط قرار دیتے ہیں اور اپنے عقائدو نظریات کے خلاف کوئی بات سنتے ہی بھڑک اٹھتے ہیں بلکہ مارنے مرنے کے لیے تیارہو جاتے ہیں۔ سائیکک افراد کی یہی ابتدائی نمایاں نشانیاں ہیں۔
عزیز ان من! مذکورہ بالا کیس کی ممکن حد تک وضاحت کر دی گئی ہے۔ اس قدر تفصیل کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ ہمارے معاشرے میں سحر جادو، آسیب وجنات کے حوالے سے جو وباءپھیلی ہوئی ہے اس کے کرداروں کی اکثریت سائیکک افراد پر مشتمل ہے اور یقیناً اگر آپ باریک بینی سے اپنے ارد گرد نظر ڈالیں گے تو ایسے افراد آپ کو بہ آسانی نظر آجائیں گے اور ایسے لوگوں کا علاج وظیفوں یا تعویزات کے ذریعے ممکن نہیں البتہ ہومیو پیتھی ایسا روحانی طریقہ علاج ہے جو ان مریضوں کو مکمل طور پر صحت یاب کرسکتا ہے مگر یہ لوگ اس پر یقین نہیں رکھتے،یہ علاج بھی اپنی مرضی کا چاہتے ہیں ،چناں چہ کبھی ٹھیک نہیں ہوتے۔