سانس کی مشق کی اہمیت اور دیگر اصول و قواعد
مشق کے دوران میں پیش آنے والے تجربات و مشاہدات
ہپناٹزم سیکھنے کی ایک ابتدائی مشق کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ ہماری نظر میں یہ مشق صرف ہپناٹزم ہی نہیں، پیراسائیکولوجی کی تمام شاخوں کی طرف پیش قدمی کے لیے ابتدائی زینہ ہے۔ مثلاً ٹیلی پیتھی، روشن ضمیری یا مستقبل بینی وغیرہ۔
م ج، ملیر کراچی سے لکھتے ہیں۔ کیا اس مشق میں عمر کی قید ہے؟ میری عمر اس وقت 55 سال ہے۔ کیا یہ ضروری ہے مشق کا وقت رات کو رکھا جائے اور اندھیرا رہے؟ کیا وقت کا تعین ضروری ہے؟ اس وقت کوئی خلل واقع ہوجائے تو مشق بے کار ہوجائے گی۔ نیز مجھے مشق کرنے کی اجازت ہے؟
محترمً اطلاعاً عرض ہے کہ کسی بھی علم کو سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ آپ کم از کم اس قدر صحت مند ضرور ہوں کہ یہ مشق آسانی کے ساتھ کرسکیں اور مشق کے وقت کسی ایسی تکلیف میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ کی یکسوئی متاثر ہو۔ مشق کے لیے رات کا وقت ہی زیادہ مناسب اور بہتر ہے۔ بہ صورت دیگر اگر آپ کی رہائش کسی پر سکون علاقے میں ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ دن میں کسی وقت آپ کو ہر قسم کی مداخلت اور شور شرابے سے پاک وقت مل سکتا ہے تو پھر دن میں بھی اس مشق کو کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے اندھیرا کرنے کے بارے میں ہر گز نہیں لکھا تھا بلکہ نیم تاریکی کا مشورہ دیا تھا۔ پہلے روز جس وقت مشق کریں پھر آئندہ بھی اسی وقت کی پابندی کرنا ضروری ہوگا۔ مشق کے دوران اگر کوئی خلل واقع ہوا تو مشق بے کار ہوجائے گی۔
اس مشق کے سلسلے میں ہماری اجازت حاصل کرنا قطعاً ضروری نہیں ہے کیوں کہ یہ کوئی روحانی عمل کا وظیفہ یا چلہ وغیرہ نہیں، ہپناٹزم تو ایک روحی فن ہے، سائنس ہے اس سے استعداد رکھنے والا اپنی ذہنی اور روحی قوتوں میں اضافہ محسوس کرتا ہے اور پھر اس سے کام لے کر اپنے یا دوسروں کے بہت سے مسائل حل کرسکتا ہے۔ ہم نے اس مشق کو شروع کرنے والوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ شروع کرنے سے پہلے اور بعد میں بھی ہمیں یا اپنے کسی بھی نگران کو اطلاع ضرور دیں تاکہ درمیان میں اگر کوئی الجھن درپیش ہو تو رہنمائی کی جاسکے۔ اگر کوئی ضروری نہ سمجھے تو کچھ حرج نہیں ہے۔
کراچی ہی سے ایک صاحبہ نے لکھا ہے ” کیا سانس کی مشقیں کرنا ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی سیکھنے کے لیے بہت ضروری ہے اور ضروری ہے تو کیوں؟ میں نے پڑھا تھا کہ اس کے لیے شمع بینی ، نقطہ بینی وغیرہ کی زیادہ اہمیت ہے۔“
محترمہ! سانس کی مشقیں جسمانی نشو ونما، روحی ترقی، اعصابی اور دماغی ترقی اور توجہ کی ایک نقطے پر مرتکز کرکے اسے قوی کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ جب منتشر خیالی کی وجہ سے آپ کا ذہن کسی ایک نقطہ پر کامل یکسوئی کے ساتھ توجہ مرتکز ہی نہیں کرپائے گا تو آپ شمع بینی یا نقطہ بینی وغیرہ کیسے کرسکیں گی۔ اسی لیے تو ہم سانس کی مشق کو ان علوم تک رسائی کا پہلا زینہ قرار دے رہے ہیں۔ یقینا شمع بینی ، جسمانی ریاضت ، متبادل طرز تنفس ، آزاد نگاری اور آزاد گوئی وغیرہ بھی ان علوم میں درجہ ءکمال تک پہنچنے کے مختلف زینے ہیں لیکن ان کا نمبر بہر حال بعد میں آتا ہے اور انشاءاللہ وقت آنے پر اس کا بھی ذکر کیا جائے گا۔
میرپورخاص سے ارباب شاہ لکھتے ہیں :” اس مشق سے کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا خطرہ تو نہیں ہے؟ میں نے سنا ہے کہ اس قسم کے کاموں میں آدمی کے پاگل ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے؟“
برادرم ارباب شاہ صاحب! ہم اس سلسلے میں یہی عرض کریں گے کہ ایسی افوا ہیں عموماً وہی لوگ پھیلاتے ہیں جو اس علم کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے یا پھر کسی کو اس علم کے حصول سے روکنا مقصود ہو۔ دراصل ہپناٹزم کی تمام مشقیں دماغ، اعصاب اور جسم کی نشوونما اور بالیدگی کے لیے کی جاتی ہیں۔ دنیا میں آج تک ایک بھی ایسا واقعہ سامنے نہیں آیا کہ ان مشقوں کے دوران کوئی شخص اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہو۔ عزیزم! یہ تو ایسی مشقیں ہیں کہ اگر کوئی مخبوط الحواس شخص بھی ان پر عمل کرے تو کچھ عرصے بعد قوی امکان ہے کہ وہ صحت مند اور صاحب حواس ہوجائے۔ دماغ ان لوگوں کے خراب ہوتے ہیں جو عموماً اپنی ذاتی خواہشات کے زیر اثر خطرناک قسم کے اعمال و وظائف شروع کردیتے ہیں مثلاً تسخیر ہم زاد یا تسخیر جنات وغیرہ۔
س۔ ج کا مسئلہ کراچی سے لکھتی ہیں ” آپ مجھے قد بڑھانے کے لیے کوئی دوا، وظیفہ یا یوگا کی مشق بتادیں۔ میں انشاءاللہ نہایت پابندی سے اس پر عمل کروں گی۔ میں ہر وقت سوچتی رہتی ہوں اور ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے تقریبات میں بھی بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ آپ میری اس بات کو مذاق نہ سمجھئے۔ اس پر بہت ہی زیادہ غور کریں اور جلد از جلد مجھے جواب دیں“
عزیزہ س ۔ ج۔ آپ قد کی کمی کی وجہ سے اتنی پریشان ہیں حالاں کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو صرف آپ کے ساتھ ہی ہو۔ دنیا میں بے شمار عورت و مرد پستہ قد ہوتے ہیں اور اپنے چھوٹے قد کے ساتھ نہایت کامیاب اور مسرور و مطمئن زندگی گزارتے ہیں لہٰذا آپ کا اس معاملے میں حد سے زیادہ پریشان ہونا مناسب نہیں ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ اپنا جسمانی قد بڑھانے کے بجائے اپنا علمی اور اخلاقی قد بڑھانے کی کوشش کریں پھر دیکھیں کہ کیسے کیسے جسمانی طور پر قد آور لوگ آپ کے سامنے بونے نظر آنے لگیں گے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ دنیا کے عظیم فاتحین چنگیز خان اور نیپولین بونا پارٹ بہت پستہ قد تھے لیکن انھوں نے ساری دنیا کو اپنے سامنے جھکالیا تھا اور ہمیشہ کے لیے ان کا نام تاریخ عالم میں زندہ رہے گا۔
آج بھی دنیا کی بہت سی نام ور اور کامیاب خواتین قد کے لحاظ سے چھوٹی ہیں۔ آپ اپنے حسن اخلاق، خدمت، ہمدردی اور محبت کے ذریعے جو مقام پیدا کرسکتی ہیں وہ جسمانی قد بڑھا کر کبھی نہیں کرسکیں گی۔ جسمانی دل کشی سے زیادہ اخلاقی حسن انسان کو ہر دل عزیز بناتا ہے۔ آپ شاید سوچ رہی ہوں کہ ہم نے بات کو ٹالنے کے لیے اتنی ساری نصیحت کردی لیکن ایسا نہیں ہے قد کی کوتاہی کو دور کرنے کے لیے آج کل ہارمونز کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے کیوں کہ جسمانی نشوونما میں ہارمونز ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کے علاوہ ہومیو پیتھک طریقہ میں بھی اس کی دوائیں موجو د ہیں اور یوگا کی بعض ورزشیں بھی اس سلسلے میں معاون ہوتی ہیں مگر یہ سب دوائیں اور طریقہ صرف بیس یا اکیس سال کی عمر تک ہی موثر اور مفید ہوسکتے ہیں اس کے بعد محض وقت اور پیسے کازیاں ہے اور آپ کی عمر اب اس حد سے کافی آگے نکل چکی ہے۔ امید ہے آپ کی تسلی ہوگئی ہوگی۔
سانس کی مشقوں کے دوران میں پیش آنے والی کیفیات
سانس کے حوالے سے ریاضت کرنے والے مختلف مکاتب فکر کے علما ءناک کے راستے کو سانس کی قدرتی گزرگاہ قرار دیتے ہیں مگر اس معاملے میں بھی دو نکتہ نظر پائے جاتے ہیں، ایک کا موقف یہ ہے کہ صرف ناک ہی کے ذریعے سانس کی آمدورفت جائزہے جب کہ دوسرے گروہ کا خیال یہ ہے کہ ناک کے ساتھ ضرورت کے تحت منہ سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے۔ ہمارا ذاتی خیال بھی یہی ہے، ناک کے دونوں نتھنوں سے سانس کی آمدورفت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، داہنے نتھنے کے سانس کو مثبت (سولر کرنٹ یا شمسی رو) اور بائیں نتھنے کے سانس کو منفی ( لیونر کرنٹ یا قمری رو) کہا جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں روحیت کے ماہرین ناک کے دونوں نتھنوں کے منفی اور مثبت سانس کے اثرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے متبادل طرز تنفس کی سفارش کرتے تھے اور اس مشق کے ذریعے انسان کی روحی قوتوں میں اضافے کے لیے کوشش کی جاتی تھی، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، متبادل طرز تنفس کی مشق سے جسم کے تمام پاور ہاوس پوری قوت سے کام کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے، اس راستے میں نفس انسانی کی مزاحمت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ مشق کرنے والا ابتدا میں نت نئی الجھنوں اور پے چیدگیوں کا شکار ہوتا ہے، اسی لیے اسے کسی ماہر استاد یا نگران کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ اکثر تو ابتدائی مراحل میں ہی گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں یا کسی حماقت کا شکار ہوکر نقصان بھی اٹھالیتے ہیں۔
سانس کی مشقوں کے متواتر عمل کے خلاف انسانی نفس کی مزاحمت کوئی عجیب بات نہیں، یہ وہ مزاحمت ہے جو ہر بگاڑ کے بعد اصلاح کی کوششوں کے خلاف ہمیں اکثر ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ انسان کا برسوں پرانا بگڑا ہوا نفس بھی اصلاحی اقدام کے خلاف مزاحمت کرتا ہے، یہ مزاحمت لاشعور میں پیدا ہوتی ہے اور انسان کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ اس پر کس طرح اثر انداز ہورہی ہے ا ور اسے اصل راستے سے ہٹانے کے لیے جو اصلاح کا راستہ ہے، کون کون سے حربے استعمال کر رہی ہے۔ ہمارے پاس آنے والے بے شمار خطوط لاشعوری مزاحمت کے ان تماشوں سے بھرے پڑے ہیں۔
دراصل ان مشقوں کو شروع کرتے ہی انسانی لاشعور میں ہلچل مچ جاتی ہے اور جتنی مثبت اور منفی خصوصیات لاشعور میں دبی ہوئی ہوتی ہیں وہ شعور کی طرف سفر شروع کردیتی ہیں لہٰذا مشقیں کرنے والے نت نئے مشاہدات اور تجربات سے گزرتے ہیں جن میں سرفہرست فریب حواس یا التباس حواس ہے۔ اسے خوشبو یا بدبو محسوس ہونے لگتی ہے، بھیانک خواب، مہیب شکلیں نظر آنا اور مختلف آوازوں کا سنائی دینا بھی اس میں شامل ہے۔
کئی افراد نے ہمیں لکھا کہ مشق شروع کرنے کے بعد گندے اور برے خوابوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ہر وقت گندے خیالات ذہن کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ بعض مردوں میں عورت بننے کی خواہش بے دار ہوئی اور بعض لڑکیوں میں مردانگی کی طرف رغبت کا احساس اجاگر ہوا جس کے حوالے سے نت نئے عوارض اور تجربات اس سلسلے میں مشاہدے میں آتے ہیں جن کے اظہار سے قلم قاصر ہے۔ یہی حال لاشعور میں دبی ہوئی آرزووں اور خواہشوں کا ہوتا ہے وہ نت نئے بہروپ بھر کر سامنے آتی ہیں۔ لاشعور میں چھپے ہوئے خوف، اندیشے اور واہمے بھی اچانک ہی ابھرنا شروع ہوجاتے ہیں، وہ نت نئی شکلوں اور رنگوں میں ظاہر ہوکر انسان کو ہراساں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ وہ امراض ہائے پوشیدہ و دیرینہ جو برسوں سے اندر ہی اندر اپنی خفیہ کارروائیوں میں مصروف تھے اور انسانی جسم و روح کو اپنی سڑاند سے آلودہ کر رہے تھے سانس کی مشقوں کے ذریعے اپنی خفیہ کمیں گاہوں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے مگر کسی بھی مرض کا اچانک شعوری سطح پر نمودار ہونا ایک عام آدمی کے لیے پریشانی اور الجھن کا باعث تو ہوگا ہی اور وہ اگر حقیقت سے بے بہرہ بھی ہوتو اس صورت حال کا الٹا ہی مطلب لے گا، یعنی یہ کہ اس مشق کی وجہ سے مجھ پر یہ آفت آپڑی ہے لہٰذا فوراً مشق چھوڑ بیٹھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا باغی نفس فتح یاب ہوا اور آپ نے شکست تسلیم کرلی لیکن اس کے برعکس انسان اگر مقابلے پر ڈٹ جائے تو پھر یہ تمام مزاحمتیں رفتہ رفتہ دم توڑنے لگتی ہیں اور آخر کار وہ وقت آجاتا ہے جب آپ اپنے سر کش اور باغی نفس پر قابو پالیتے ہیں۔
اب چند خطوط کی روشنی میں دیکھیے کہ اس راستے میں لوگوں کے تجربات و مشاہدات کیا ہیں، ہم یہاں ان کے نام وغیرہ یا مکمل خطوط شائع نہیں کرسکتے، صرف ان کے تجربات بیان کریں گے۔ بعض افراد نے لکھا کہ شروع میں انھوں نے بہت فائدہ محسوس کیا مگر پھر اچانک سابقہ حالت لوٹ آئی اور پھر بہت دنوں تک کوئی بہتری نظر نہ آئی مگر یکا یک پھر بہتری شروع ہوگئی۔
مشقوں کے دوران میں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تمام معاملات جو بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہے ہوں اچانک ان کے بالکل الٹ صورت حال ہوجاتی ہے۔ انسان اپنی صلاحیتوں کی بے داری اور ذہنی و جسمانی حالت کی بہتری پر خوش ہورہا ہوتا ہے کہ اچانک بساط الٹ جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب تک جو محنت کی تھی سب ضائع ہوگئی اور وہ ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر کھڑا ہے، اس صورت حال کو ”قبض“ کی اصطلاح سے واضح کیا گیا ہے۔
ایک اور صاحب کا بیان ملاحظہ کیجیے ” سخت مایوسی کا شکار ہوں، نہایت خوف ناک خواب نظر آرہے ہیں جن میں عجیب و غریب چہرے نظر آتے ہیں۔ دن کو بھی خوف زدہ رہتا ہوں۔ہر آدمی سے ڈر لگتا ہے یہاں تک کہ اپنے دوستوں کو بھی مشکوک نظر سے دیکھتا ہوں، ان سے خطرے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ہر ایک شخص اپنا دشمن نظر آتا ہے، کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ خود کشی کرلوں مگر اچانک ہی بالکل ہشاش بشاش ہوجاتا ہوں۔“
ایک خاتون نے لکھا کہ مشق شروع کرتے ہی ایسا جھٹکا لگا جیسے الیکٹرک کا شاک لگا ہو، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے روح جسم سے الگ ہوگئی ہو اور پھر یک لخت دوبارہ لوٹ آئی ہو۔
ایک اور صاحب کی تحریر دیکھیے ، لکھتے ہیں کہ ان مشقوں سے جذبات میں کسی قدر شدت پیدا ہوگئی ہے۔ مشق کرتے ہوئے پسینے پسینے ہوجاتا ہوں، سانس کی آمدورفت میں ایسی گرمی پیدا ہوجاتی ہے جیسے گرم گرم بھاپ اندر جارہی اور باہر آرہی ہے۔ کبھی کبھی یہ حیرت انگیز تجربہ ہوتا ہے کہ میں دو مقامات پر موجود ہوں مگر جب آنکھیں کھولتا ہوں تو خود کو اپنے کمرے میں موجود پاتا ہوں پھر دوبارہ جب آنکھیں بند کرتا ہوں تو اسی مقام پر واپس چلا جاتا ہوں۔ کان میں ایسی آوازیں آتی ہیں جیسے تیز آندھی چل رہی ہے اجنبی صورتیں نظر آتی ہیں، مشقوں کے دوران میں ایک سبز آنکھ خود بخود سامنے آگئی اور عجیب و غریب خوفناک شکلیں نظر آنے لگیں۔
ایک صاحبہ نے لکھا ” مشق کے دوران میں یہ محسوس ہوا جیسے میرے جسم سے ایک اور جسم برآمد ہوا، وہ بالکل میرا ہی ہم شکل اور ہم زاد ہے۔ معمولی آہٹ بھی اعصاب پر بہت زور ڈالتی ہے۔ کانوں میں سائیں سائیں ہونے لگتی ہے، یوں لگتا ہے کہ آواز میرے پورے جسم میں ارتعاش پیدا کر رہی ہے، خصوصاً ذہن میں اپنے آپ سے باہر ہوجانے کا اندیشہ ہونے لگتا ہے، رگوں میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ اب مشقوں کے دوران میں پاوں سے لے کر سر تک لہریں سی چلتی محسوس ہوتی ہیں اور بہت گرمی لگتی ہے جیسے جسم سے چنگاریاں نکل رہی ہوں، کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل میں آگ سی لگ رہی ہے“
یہ تھے مشق کے دوران پیش آنے والے چند تجربات اور مشاہدات۔