Breathing exercises and their benefits

سانس کی مشقیں اور ان کے اصول و فوائد

ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی سیکھنے کے لیے اہم ابتدائی عمل

ہم ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی سیکھنے کے شائقین کو ایک ابتدائی نوعیت کی مشق سے آگاہ کر رہے ہیں، یہ نہایت آسان بھی ہے اور بے حد فوائد بخش بھی، ذرا سی محنت اور پابندی سے آپ اس پر عبور حاصل کرلیں گے۔ خیال رہے کہ اگر آپ نے اس پر عبور حاصل کرلیا تو سمجھ لیجیے کہ پیراسائیکولوجی کے عظیم الشان محل کا ہر دروازہ آپ پر رفتہ رفتہ کھلتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اپنے ارادوں کو مستحکم اور مضبوط کرکے اپنی سوچوں کے زاویے مثبت رکھیں اور اللہ کا نام لے کر مندرجہ ذیل مشق کا آغاز کریں۔
۔ اس مشق کے لیے رات کا ایسا وقت منتخب کریں جب کسی بھی قسم کے شور یا کسی کی مداخلت کا خطرہ نہ ہو۔ جو وقت ایک بار مقرر کرلیں پھر اس میں کسی بھی طور تبدیلی نہ لائیں۔
۔ مشق کے لیے جو کمرا استعمال میں لائیں وہ ہوادار ہو اس میں روشنی کم رکھیں۔ کمرے میں کچھ دیر بیٹھ کر اندازہ کریں کہ وہاں آپ خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں یا نہیں؟
۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرلیں تاکہ تازگی کا احساس پیدا ہو۔
۔ کسی آرام دہ بستر پر لیٹ جائیں یا کسی آرام دہ صوفے یا کرسی پر نیم دراز ہوجائیں۔ اس سلسلے میں جس طرح آپ سہولت اور سکون محسوس کریں وہ طریقہ اپنائیں۔
۔ اپنے جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیں اور ذہن سے ہر فکر کو جھٹک دیں۔
۔ اب ناک کے ذریعے ایک گہری سانس لیں اور جتنی زیادہ دیر تک سانس کو سینے میں روک کر رکھ سکتے ہوں رکھیں۔ جب مزید روکنا مشکل ہوجائے تو پھر منہ کے راستے اس طرح آہستہ آہستہ خارج کریں کہ پھیپھڑے خالی ہوجائیں۔
۔ خیال رہے کہ صرف اپنی برداشت کے مطابق ہی سانس کو سینے میں روکیں، زیادہ جبر سے ہر گز کام نہ لیں۔
۔ مشق کے اس مرحلے میں کسی خوب صورت منظر یا اپنی کسی پسندیدہ شے کا تصور ذہن میں قائم کریں اور کوشش کریں کہ وہ منظر زیادہ سے زیادہ دیر تک آپ کی شعوری اسکرین پر قائم رہے۔
اس بہ ظاہر سادہ اور آسان سی مشق کا مقصد اور اس کے نتائج بھی اب سن لیجیے۔دراصل ہمارے افکار و خیالات کا ہماری زندگی سے انتہائی گہرا ربط قائم ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس کا تعلق کبھی نہیں ٹوٹتا۔ چناں چہ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر ممکن طریقے سے اپنے تصورات اور تخیلات پر اپنا تسلط برقرار رکھیں کیوں کہ آگے چل کر ہمیں اپنی ذہنی، جسمانی اور روحانی تربیت اسی طاقت کے بل بوتے پر کرنی ہے۔ بنیادی طور پر اس مشق کا مقصد یہی ہے کہ ہم ہر قسم کے فضول خیالات کے انتشار سے خود کو پاک کرکے اپنے خیالات اور تصورات پر کنٹرول حاصل کرسکیں۔ تقریباً نوے فی صد لوگ عام حالات میں منتشر الخیالات ہوتے ہیں کیوں کہ دنیا داری کے ہزاروں مسائل ہر شخص سے وابستہ ہیں، لہٰذا ہپناٹزم یا ٹیلی پیتھی پر مکمل عبور حاصل کرنے کے لیے لازمی امر یہ ہے کہ منتشر الخیالی کو سب سے پہلے دور کرکے ذہن کو قوت ِ ارتکاز سے روشناس کرایا جائے۔
مذکورہ بالا مشق منتشر خیالی کو دور کرنے کے لیے بہترین ثابت ہوگی۔ اس مشق کا صرف یہی ایک فائدہ نہیں ہے بلکہ اس مشق کے دوران میں کسی خوبصورت منظر کا تصور قائم کرنے کی ہدایت کا مقصد آپ کی قوت فکر و خیال کو اور قوت ارتکاز کو جلادینا، بڑھانا اور ترقی دینا ہے۔
ابتدا میں آپ ایک دو منٹ تک ہی بمشکل تصور قائم رکھ سکیں گے لیکن جیسے جیسے مشق آگے بڑھتی جائے گی آپ خود محسوس کریں گے کہ تصور قائم رکھنے کے وقت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے یہاں تک کہ ایک دن آپ اس پر اتنا عبور حاصل کرلیں گے کہ جب تک چاہیں گے وہ تصور قائم رہے گا۔ ایک بار پھر ہم یہ بتادیں کہ اس مقام تک پہنچ کر اگر کوئی شخص پیراسائیکولوجی کے کسی بھی شعبے پر دسترس حاصل کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے مشکل نہ رہے گا۔ تصور جب قائم ہوجاتا ہے تو پھر خیالات بھی آپ کی مرضی کے تابع ہوجاتے ہیں پھر آپ جس مسئلے پر چاہیں پوری یکسوئی کے ساتھ سوچ سکیں گے اور دوسرا کوئی غیر متعلق خیال آپ کے ذہن میں آپ کی مرضی کے بغیر مداخلت نہیں کرسکے گا۔ ہپناٹزم کے علم اور فن میں آگے چل کر یہی مشق ارتکاز توجہ اور آٹو سجیشن جیسے معاملات میں آپ کی بڑی مددگار ہوگی۔
اس مشق سے حاصل ہونے والے فوائد کے حوالے سے مشہور ماہر نفسیات اور ماہر ہپناٹسٹ مسٹر اطیر سن کا بیان بھی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں” شہنشاہیت درحقیقت ان لوگوں کی صفت نہیں ہے جو اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا وصف ہے جو اپنے خیالات پر حکومت کرسکتے ہیں“۔
دیکھا آپ نے، منتشر خیالی سے بچ کر یک خیال ہونا اور ذہنی یکسوئی حاصل کرنا کتنا اہم ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بہت سے افراد صرف خیالی بیماریوں ہی کی وجہ سے موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں؟ آخر یہ وہم اور گمان کیا ہے؟ یہ خیال ہی تو ہے اس کا غلبہ بے شمار ذہنی ، جسمانی اور روحانی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
ایک دوسرے ماہر نفسیات کہتے ہیں ” خیالات کو مرکوز کرنے کا عمل ہر قسم کے امور میں استعمال کیا جاسکتا ہے مثلاً جو کام ہم کر رہے ہیں اس میں، جو صفت ہم اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے، اس مخصوص قوت کے لیے جسے ہم حاصل کرنے کا تہیہ کرچکے ہوں یا کسی بری عادت کے لیے جسے ہم چھوڑنا چاہتے ہوں۔“
ایک اور ہپناٹزم کے ماہر کا خیال ہے کہ قوت اختراع بھی اسی قوت فکر و خیال سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ میں نے جب تک یہ مشقیں نہیں کی تھیں میرا یہ عالم تھا کہ میں صحیح طور پر اپنے کسی عزیز کو خط بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔ دماغ میں ہر طرح کے بے پناہ خیالات کا ہجوم رہتا تھا۔ کوئی کام دل جمعی اور یکسوئی سے نہیں کرسکتا تھا ، کرکچھ رہا ہوں، سوچ کچھ رہا ہوں، عجب عالم تھا“۔
اس مشق سے طالب علم ، کلریکل جاب کرنے والے ، شاعر، ادیب، صحافی الغرض ایسے تمام افراد فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے منتشر خیالی کا شکار رہتے ہوں، لکھنے پڑھنے میں یا اپنے کسی بھی کام میں بھرپور توجہ دینے سے قاصر رہتے ہوں یا وہ نمازی افراد جنھیں یہ شکایت رہتی ہو کہ وہ دوران نماز یا دیگر عبادات میں دنیاوی خیالات کی مداخلت سے پریشان ہوجاتے ہیں۔
 :آخر میں مزید چند گزارشات
رات کے علاوہ یہ مشق چوبیس گھنٹوں میں کسی اور وقت بھی کی جاسکتی ہے مگر اس وقت میں ضروری ہے کہ آپ کو خاموشی اور پر سکون ماحول میسر آسکے۔ بہر حال جو وقت بھی مقرر کرلیں پھر روزانہ اس کی پابندی کریں۔ ضروری ہے کہ منتخب کردہ وقت پر آپ بھی ذہنی طور پر پر سکون ہوں۔
مشق شروع کرنے سے پہلے بذریعہ خط ہمیں مطلع کریں یا پھر اگر آپ کسی سلسلے سے وابستہ ہیں، اپنے مرشد یا نگران سے اجازت لیں اور دوران مشق پیدا ہونے والی کیفیات سے اپنے نگران کو آگاہ کرتے رہیں۔
اس مشق کو صرف ایک ماہ تک جاری رکھیں، پھر ہمیں اپنی کفیات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کریں۔ اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھیں کہ مشق کے وقت میں آپ کا معدہ زیادہ گراں بار نہ ہو۔ بہتر ہوگا کہ اس عرصے میں سادہ غذا استعمال کریں اور مشق کے وقت سے تین چار گھنٹے پہلے کھانا کھا لیا کریں۔ اس کے علاوہ بھی کوئی بات جواب طلب ہو تو براہ راست خط لکھ کر معلوم کرسکتے۔
اب آئیے، اس سوال کی طرف کہ ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کا سانس کی مشقوں سے کیا تعلق ہے اور ہم اسے ان علوم کے حصول کے لیے کیوں ضروری خیال کرتے ہیں۔
یہ بات کسی بھی تعلیم یافتہ انسان سے پوشیدہ نہیں کہ ہماری تمام تر باطنی، دماغی اور جسمانی قوتوں کا دارومدار آکسیجن اور دماغ پر ہے اور یہی دونوں چیزیں ہماری زندگی کے لیے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ صحت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے آکسیجن ایک نہایت اہم عنصر ہے۔ اگر آکسیجن ہزار روپے فی گیلن کے حساب سے ہمیں خریدنا پڑتی تو ہم اسے خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں چوں کہ یہ گیس ہمیں مفت مل جاتی ہے اس لیے ہم اس کی صحیح قدر و قیمت اور ضرورت سے باخوبی علم وآگہی نہیں رکھتے۔ آکسیجن حاصل کرنے کا واحد ذریعہ سانس ہے۔یہ جاننے کے لیے ہمارے بدن میں موجود خلیات کے لیے آکسیجن کتنی ضروری ہے، بدن میں آکسیجن کی آمدورفت کے نظام کو ایک نظر دیکھنا لازمی ٹھہرتا ہے۔
اگر ہم اپنے پھیپھڑوں پر توجہ کریں تو ان میں 75 کروڑ تھیلیاں پائیں گے جن میں سے آکسیجن گزر کر ہمارے خون کی نالیوں میں پہنچتی ہے۔اگر ہم ایک پھیپھڑے سے ان تھیلیوں کو نکال کر کسی کھلی جگہ میں پھیلا دیں تو یہ اوسطاً455 فٹ جگہ گھر لیں گی۔ انسان کے بدن میں موجود خون کا چوتھا حصہ ہر سیکنڈ میں پھیپھڑوں میں سے گزرتا ہے( تقریباً ہر صحت مند انسان میں ڈیڑھ گیلن خون ہوتا ہے) خون اس ہوا سے جو ہم سانس میں لیتے ہیں آکسیجن لے کر خلیات میں واپس دورہ کرتا ہے۔ وہ خلیات جن کا کام بدن میں آکسیجن کی آمدورفت کو جاری رکھنا ہے، سرخ رنگ کے ہوتے ہیں، یہ خون کے ہر قطرے میں تقریباً چار ملین (چالیس لاکھ) کے لگ بھگ پائے جاتے ہیں۔ ہر خلیہ اتنی شدید محنت کرتا ہے کہ وہ قریب قریب 90 دن تک زندہ رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ روزانہ ہر سیکنڈ میں ایک کروڑ بیس لاکھ خلیات پیدا ہونے چاہئیں تاکہ انسان کے سارے بدن میں کروڑوں خلیات کو خون پہنچایا جاسکے۔
دماغ کے ماہرین اس امر سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ آکسیجن کی کمی کا سب سے پہلے اور سب سے زیادہ احساس کرنے والے خلیات ہمارے دماغ ہی میں ہتے ہیں۔ اب جب کہ ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی، مستقبل بینی اور دیگر تمام ایسے علوم جن کا انحصار ہی ہماری دماغی قوتوں پر ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آکسیجن ہمارے جسم خصوصاً دماغی قوتوں کے لیے کس قدر اہم ہے۔
ہمارا دماغ ہمارے جسمانی نظام کو قائم رکھنے کے لیے ایک پاور ہاوس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی بہم پہنچائی ہوئی بجلی سے ہمارے تمام اعصاب کام کرتے ہیں اور اسی کی دی ہوئی برقی قوت سے ہمارے حواس بجا رہتے ہیں اور ہماری جان یا ہماری زندگی کی گاڑی کھنچی چلی جاتی ہے۔
ہمارا دماغ یہ بجلی کیسے پیدا کرتا ہے، اپنی ضروریات کہاں سے پوری کرتا ہے اور یہ بجلی آتی کہاں سے ہے( اگر یہ بجلی بھی واپڈا سے آتی تو ہزاروں لوگ روزانہ سفر آخرت پر روانہ ہوتے نظر آتے) یہ وہ سوالات ہیں جو منطقی طور پر پیدا ہونے چاہئیں، ان کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ ہمارے دماغ کی تمام ضروریات کی کفالت آکسیجن ہی سے ہوتی ہے اور اس کا سرچشمہ ہوا ہے، جسے ہم سانس کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بذریعہ سانس صاف آکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں بھرلی جائے تو وہ ہمارے خون میں گردش کرکے بدن میں برقی رو پیدا کردیتی ہے، وہی برقی رو ہماری باطنی اور جسمانی قوتوں کو نکھارنے ، بڑھانے اور پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب بھی سانس کے ذریعے آکسیجن کی کمی واقعی ہوتی ہے تو سب سے پہلے دماغ کے اعلیٰ ترین مراکز اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے عقل میں کمی، چڑچڑاپن، بے صبری اور قوت ارادی میں شدید کمی یا دیگر بڑی بڑی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں، جب کہ مذکورہ بالا علوم کے حصول کے سلسلے میں ہمیں ہر وقت عقل مند، خوش مزاج، صابر و شاکر اور مضبوط قوت ارادی والا انسان ہونا چاہیے۔ ویسے بھی تمام انسانوں کی بہ نسبت ایک ہپناٹسٹ یا ٹیلی پیتھی جاننے والے کو آکسیجن کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے جو غور فکر کرتے ہیں اور تحقیقی کام کرتے ہیں مثلاً شاعر، ادیب، مصور، سائنس دان وغیرہ۔
ڈاکٹر سیمسن رائٹ کا کہنا ہے کہ بدن میں آکسیجن کی مقدار کم ہوجاتی ہے تو ذہانت اور احساسات سست اور کمزور پڑ جاتے ہیں۔ متاثرہ افراد کو علم بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ کند ذہن، غبی اور بے حس ہوتا جارہا ہے، وہ چڑچڑا ہوکر جھگڑالو ہوجاتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر جوزف ہنروٹ فرماتے ہیں جب کسی شخص کے دماغ میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے تو اس میں بے صبری اور متلون مزاجی کا زیادہ رجحان پایا جاتا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر جان ایس ہیلڈ ا نے یہ دریافت کیا کہ انسانی دماغ جب آکسیجن کی کمی کا شکار ہوتا ہے تو آدمی کی عقل اور یادداشت میں خلل پیدا ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ معمولی معمولی سوالات کے جوابات بھی احمقانہ انداز میں دیتا ہے، مزید یہ کہ وہ اپنے تئیں پورا پورا یقین رکھتا ہے کہ وہ اپنے وجود پر قابض ہے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کی نسوں اور اعصاب کاسلسلہ نارمل نہیں رہتا۔ دماغ اچھی طرح کام نہیں کرتا، احساسات شدید متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جذبات قابو میں نہیں رہ سکتے۔
اب آپ یقینا اس نتیجے تک پہنچ چکے ہوں گے کہ ہم نے ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی وغیرہ سیکھنے کے سلسلے میں قدیم روایات کو توڑ کر سانس کی مشقوں کو کیوں اولیت دی ہے( قدیم روایات میں شمع بینی، دائرہ بینی، سورج بینی وغیرہ شامل ہیں)
اب سانس کی ایک اور مشق دی جارہی ہے جو نہایت سادہ اور آسان ہے۔ یہ بھی آپ کو صحت مند جسم و دماغ اور خیالات رکھنے والی شخصیت بنائے گی۔ صرف چند منٹ کی یہ مشق ان لوگوں کے لیے بھی بے حد مفید نتائج لائے گی جو امراض قلب،ہائی بلڈ پریشر یا کسی دماغی بیماری کا شکار ہیں۔
۔ اس مشق کے لیے صبح سورج نکلنے کے بعد کا وقت مقرر کریں اور کسی کھلی ہوا دار جگہ کا انتخاب کریں، گھر کی چھت یا کسی پارک وغیرہ میں بھی اسے بہتر طور پر انجام دیا جاسکتا ہے۔
۔ کسی پر سکون جگہ پر کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ اپنی نچلی پسلیوں پر رکھ لیں اور ذہن کو آزاد چھوڑ دیں۔دونوں ٹانگیں کھول کر اس طرح کھڑے ہوں جیسے بچے پی ٹی کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں۔
۔ ناک سے آہستہ آہستہ گہری سانس اندر کی طرف کھینچیں اور منہ کے راستے سانس کو زور سے خارج کریں۔ اس مشق میں سانس کو سینے میں روکنا نہیں ہے بلکہ تسلسل کے ساتھ اندر کھینچنا اور باہر خارج کرنا ہے۔
۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ سانس کھینچنے کے ساتھ نچلی پسلیاں باہر کی طرف ابھرتی رہیں۔
۔ ناک کے راستے دوسری سانس تیزی سے اور زور سے کھینچیں اور اب کی بار منہ کے راستے آہستہ آہستہ خارج کریں، یعنی پہلی بار ناک کے راستے آہستہ آہستہ سانس کھینچی تھی اور منہ سے زور کے ساتھ خارج کی تھی تو دوسری بار اس کے برعکس کریں گے پھر تیسری بار حسب سابق کریں یعنی ناک سے آہستہ آہستہ سانس لیں اور منہ سے زور سے خارج کریں بس اس طرح ہر بار لوٹ پلٹ کر سانس کھینچئے اور خارج کرنے کا عمل کریں۔
۔ دوران مشق کبھی کبھی پسلیوں سے ہاتھ اٹھاکر سانس کھینچنے کے ساتھ ہاتھ بھی اوپر اٹھاتے جائیں اور پھر سانس کے اخراج کے ساتھ ہاتھ نیچے لاتے جائیں۔
ہمیں امید ہے بلکہ یقین ہے کہ یہ آسان سی مشق بچے، جوان اور بوڑھے سب ہی کرسکتے ہیں۔ ایام حمل میں عورتوں اور مادر شکم میں موجود بچوں کے لیے یہ بے ضرر سی مشق نہایت اعلیٰ فوائد اور اثرات کی حامل ہے۔ اس سے ہمارے جسمانی پاور ہاوس کو مکمل اور بھرپور ایندھن فراہم ہوگا اور ہماری رگوں میں اندھیروں اور مایوسیوں کے بجائے بجلیاں کو ندنے لگیں گی۔