تحریر : سید انور فراز
ہم نے ہوش سنبھالا تو گھر میں طب یونانی کا چرچا سنا، والد صاحب کا اپنا مطب تھا جو گھر سے ہی متصل تھا، ان کے ایک واقف ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے، جب کبھی ملاقات کے لیے آتے تو دونوں کے درمیان حکمت اور ہومیوپیتھی کے حوالے سے باتیں ہوتیں جو ہماری کبھی سمجھ میں نہیں آئیں، ہماری عمر تقریباً 12 سال تھی کہ والد صاحب کا سایہ ء شفقت سر سے اٹھ گیا اور پھر ایک طویل دور سرگرانی شروع ہوا جس کی تفصیل یہاں مناسب نہیں ہے۔
غالباً 1985 ء کی بات ہے، جب ہم ماہنامہ جاسوسی ڈائجسٹ کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے، ہمارے ایک قریبی دوست ذیابطس کے عارضے میں مبتلا ہوئے، ہم نے کسی سے سن رکھا تھا کہ ہومیوپیتھک طریقہ ء علاج میں اس مرض کا بھی علاج موجود ہے مگر ڈاکٹر کا قابل اور تجربے کار ہونا ضروری ہے،ابتدا ہی میں اگر درست طور پر علاج کیا جائے تو مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے لہٰذا قابل اور تجربے کار ڈاکٹر کی تلاش شروع ہوئی ، ہمارے ایک بزرگ دوست نے فرمایا کہ آپ مشہور شاعر حنیف اسعدی کے پاس کیوں نہیں جاتے، وہ بڑے پائے کہ ہومیو ڈاکٹر بھی ہیں، ہم انہیں شاعر کی حیثیت سے تو خوب جانتے تھے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ہومیو ڈاکٹر بھی ہیں، چناں چہ اپنے قریبی دوست کو حنیف اسعدی صاحب کے پاس لے گئے اور اس طرح ہومیوپیتھی سے باقاعدہ شناسائی کا آغاز ہوا لیکن یہ شناسائی صرف اس حد تک رہی کہ کبھی کبھی ہومیو پیتھی اور الیکٹروہومیوپیتھی کے حوالے سے اسعدی صاحب ہمیں کوئی لیکچر دے دیا کرتے تھے جو عام طور پر ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتا تھا، وہ بہت زور دیا کرتے کہ جب تک میں زندہ ہوں ، کچھ سیکھ سمجھ لیں لیکن ہماری تمام علاج معالجے کی ضروریات ان کی عنایت سے پوری ہوجاتی تھی لہٰذا ہم نے ہومیو پیتھی پڑھنے اور سیکھنے پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔
اسی زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہمیں سنجیدگی سے ہومیو پیتھی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا، شادی کے بعد ایک حادثے کے سبب ہمارا پہلا بچہ زندہ نہیں رہا اور دوسرا آپریشن کے ذریعے پیدا ہوا، اس کی وجہ بھی ایک پرائیویٹ کلینک کی لالچی لیڈی ڈاکٹر تھی، تیسرا بچہ بھی زندہ نہیں رہا اور یہی کچھ چوتھے بچے کے ساتھ ہوا، اس سارے عرصے میں ہماری شریک حیات کو دو بار میجر آپریشن سے گزرنا پڑا۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پانچویں بار پریگننسی ہوئی اور وائف ایک مشہور اسپتال گئیں جہاں پہلے بھی ان کے کیس ہوتے رہے تھے تو لیڈی ڈاکٹر نے نہایت حوصلہ شکن باتیں کیں، مثلاً یہ کہ بی بی! یہ تم نے کیا کرلیا؟ ابھی ایک سال پہلے تمہارا آپریشن ہوچکا ہے، یوٹریس بے حد کمزور ہے، اس میں تو تمہاری جان جانے کا بھی خطرہ ہے۔
شام کو جب ہم دفتر سے گھر آئے تو بیگم کا چہرہ اُترا ہوا تھا، اس کی خاموشی کو بھانپ کر ہم نے پوچھا ’’خیریت تو ہے، کیا ہوا، آج تم اسپتال گئی تھیں ؟‘‘
اتنا پوچھنا تھا کہ وہ رونے لگیں اور روتے روتے یہ انکشاف کیا کہ ڈاکٹرنی کہہ رہی ہے ، اس بار تم بچوگی نہیں، یہ سن کر ہمیں بھی سخت فکر ہوئی اور پریشانی کے عالم میں اپنے معمول کے مطابق اسعدی صاحب کے کلینک پہنچ گئے، اس زمانے میں یہ ہمارے معمول میں شامل تھا کہ دفتر سے گھر آکر کھانا کھایا اور چہل قدمی کرتے ہوئے تقریباً ایک ڈیڑھ کلو میٹر پر واقع اسعدی صاحب کے کلینک پہنچ جاتے اور رات بارہ بجے تک وہیں نشست رہتی، شعر و ادب کی باتیں اور دیگر موضوعات زیر بحث رہتے، اس نشست میں محترم سحر انصاری بھی پابندی سے شریک ہوتے، کبھی کبھی پروفیسر مجتبیٰ حسین، عزیز حامد مدنی، شمیم نوید اور دیگر شاعر و ادیب بھی آجاتے کیوں کہ 9 بجے کے بعد کلینک بند ہوجاتا تھا اور پھر اسعدی صاحب کے احباب ہی وہاں حاضری دیتے تھے۔
حنیف اسعدی (اللہ انہیں غریق رحمت کرے) بہت اعلیٰ پائے کے شاعر اور ہومیو پیتھ ہونے کے علاوہ بڑے ظریف، فقرے باز، انتہائی نیک اور شریف انسان تھے، ہم پر ہمیشہ خصوصی محبت اور شفقت کی نظر کرتے، اُس روز ہمارا چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ کوئی ناخوش گوار بات ضرور ہے، ہم نے احوال واقعی سے آگاہ کیا تو مسکرائے اور فرمایا ’’ڈاکٹر جاہل اور احمق ہے، جیسا اُس نے کہا ایسا کچھ نہیں ہوگا، تم تسلی رکھو، ابھی تمہارا مسئلہ حل ہوجائے گا، تازہ غزل سنو!
ہماری ہمت نہیں تھی کہ غزل سننے سے انکار کریں، حالاں کہ دل کی کیفیت کچھ اور تھی، اسی دوران میں سحر انصاری صاحب آگئے، اسعدی صاحب نے ہنستے ہنستے فرمایا ’’لیجیے، ان کی بیگم کو سنبھالیے‘‘ پھر پورا ماجرا کہہ سنایا، سحر بھائی نے بھی ہمیں حوصلہ دیا اور کہا کہ بکواس کرنے دیں اُس ڈاکٹر کو اور کل اپنی بیگم کو لے کر ہمارے گھر آجائیں، یہ سن کر ہم خاصے حیران ہوئے۔
پروفیسر سحر انصاری صاحب کی بیگم ایک کہنہ مشق اور بہت قابل ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں، وہ اپنے گھر ہی میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ہومیوپیتھک پریکٹس کرتی تھیں اور صرف خواتین اور بچوں کا علاج کرتی تھیں، دوسرے روز سے ہماری بیگم کا علاج شروع ہوگیا اور جب تک ڈیلیوری کا وقت نہیں آیا ، یہ علاج جاری رہا۔
چوں کہ پہلے دو آپریشن ہوچکے تھے اور اب تیسرا ہونا تھا لہٰذا ڈاکٹرز نے ہم سے کہا کہ اس آپریشن کے بعد یوٹریس نکالنا پڑے گا کیوں کہ اب وہ اس قابل نہیں ہے، مزید کوئی رسک لیا جاسکے چناں چہ ہم نے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے ضروری کاغذات پر دستخط کردیے مگر قدرت کے کھیل نرالے ہیں، اس کے بعد ایک اور روح کو دنیا میں آنا تھا، آپریشن کے فوراً بعد لیڈی ڈاکٹر نے ہمیں بلایا اور کہا ’’ہماری توقع کے خلاف یوٹریس کی پوزیشن بہت اچھی ہے لہٰذا ہم ایک اور چانس کے لیے یوٹریس کو ریموو کرنے کا ارادہ ملتوی کررہے ہیں‘‘
اس آپریشن کے نتیجے میں اللہ نے ہمیں ایک پیاری سی بیٹی دی جس کی گزشتہ سال ہم شادی کرچکے ہیں اور اس کے ٹھیک 6 سال بعد اللہ نے ایک اور بیٹی سے نوازا، اس بار بھی ایسی پیچیدگی پیدا ہوئی تھی کہ ڈاکٹرز ابارشن کا مشورہ دے رہے تھے تو ہم نے فوراً سحر بھائی کے گھر کا رُخ کیا اور ان کی بیگم نے کیس کو سنبھالا۔
عزیزان من! یہ ہماری زندگی کا وہ اہم ترین واقعہ ہے جس نے ہمیں ہومیوپیتھی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا اور ہم نے دیکھا کہ ہومیو پیتھی نے جدید ترین ایلوپیتھی کو شکستِ فاش دی، اسی دوران میں ہمیں رہائش تبدیل کرنا پڑی اور اپنی صحافتی مجبوریوں کے سبب آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک فلیٹ میں منتقل ہونا پڑا،چناں چہ جناب حنیف اسعدی سے جو میڈیکل ایڈ ہمیں مفت میں دستیاب تھی اس سے محروم ہوگئے، دوسری طرف بیوی بچوں یا اپنی صحت کے مسائل اپنی جگہ تھے، چناں چہ فیصلہ کیا کہ خود ہومیو پیتھی طریق علاج کا مطالعہ کیا جائے،ہماری پہلی رہنما کتاب ڈاکٹر رام لعل کی ایک چھوٹی سی پاکٹ بک تھی جس کے ذریعے ہم ابتدائی ایمرجنسی کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے، چند ضروری دوائیں لاکر گھر میں رکھ لی تھیں۔
ہمارے آفس کے ساتھیوں میں مشہور ادیب اور کہانی کار جناب محمود احمد مودی بھی تھے، انہی دنوں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ہومیوپیتھی پڑھ رہے ہیں اور باقاعدہ کالج میں ایڈمیشن لے کر امتحان دینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس طرح دفتر ہی میں ایک اور ساتھی مل گیا، ان کے مشورے سے ڈاکٹر دولت سنگھ کی کتابیں خرید لیں اور ان کا مطالعہ شروع کردیا، دفتر ہی کے ایک پرانے ساتھی جو ان دنوں ریٹائرمنٹ لے چکے تھے اور وہیں آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے، ان کے بارے میں مودی صاحب سے معلوم ہوا کہ وہ بھی ہومیوپیتھی کے دیوانے ہیں، حالاں کہ ہم خاصا عرصہ ان کے ساتھ کام کرچکے تھے لیکن کبھی ہمیں یہ راز معلوم نہیں ہوا، بہر حال ہم نے انہیں گھیر لیا۔
وہ لوگ جو جاسوسی ناولوں کے شوقین ہیں اور خاص طور پر ابن صفی مرحوم کے ناول پڑھتے رہے ہیں، شاید ہمارے ان ممدوح کے نام سے واقف ہیں، ابن صفی کے بعد جاسوسی ناول نگاری میں جب ایچ اقبال (ہمایوں اقبال) صاحب نے قدم رکھا تو ان کے ناول احمد سعید صاحب ہی شائع کرتے تھے جنہیں قریبی جاننے والے ’’شافع صاحب‘‘ کہا کرتے تھے،بعد ازاں شافع صاحب جاسوسی ڈائجسٹ کے مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے، ان کے ادارہ چھوڑنے کے بعد یہ ذمے داری ہم نے سنبھالی، قصہ مختصر یہ کہ شافع صاحب کی ہومیوپیتھی نہایت خفیہ تھی، کسی سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے، جب ہم نے رابطہ کیا تو ہم سے بھی ابتدا میں گھماؤ پھراؤ کی باتیں کرتے رہے اور آخر میں معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک ہومیو ڈاکٹر کے پیروکار ہیں اور وہ فرانسیسی ڈاکٹر جھار ہیں۔
ڈاکٹر جھار کی چالیس سالہ پریکٹس کے نام سے بڑی مشہور کتاب موجود ہے، شافع صاحب کی ہومیو پیتھی اسی کتاب کے گرد گھومتی تھی، آج کے زمانے میں ڈاکٹر جھار کے اصولوں پر پریکٹس کو ممکن ہے پاگل پن قرار دیا جائے لیکن ان کے طریقہ ء کار سے اختلاف ممکن نہیں ہے، یقیناً ہومیوپیتھ حضرات اس طریق کار سے واقف ہوں گے۔
ہماری ہومیو پیتھی سے دلچسپی اسی طرح بڑھتی جارہی تھی کہ اچانک ہماری شریک حیات سینے کے کنجکشن کا شکار ہوئیں اور برنس روڈ کے ایک چیسٹ اسپیشلسٹ نے انہیں دمے کا مریض قرار دے دیا، یہ بیماری والدہ کو بھی تھی اور ہم دیکھ چکے تھے کہ ہر سال سردیوں کے موسم میں ان کی بہت بری حالت ہوتی تھی اور پھر مخصوص ایلوپیتھک دوائیں اور انجکشن استعمال ہوتے تھے، اس صورت حال سے ہم بہت پریشان ہوئے اور فوراً ہومیوپیتھی سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔
دفتر ہی کے ایک اور رائٹر اور ہمارے بہت عزیز دوست علیم الحق حقی جو اب اس دنیا میں نہیں رہے، ہم سے بولے ’’یار ہم تو ایک ہی ہومیوپیتھک ڈاکٹر کو جانتے اور مانتے ہیں، ہمارا بچپن انہی کے سامنے گزرا ہے، ہمارے سارے گھرانے کا علاج وہی کرتے رہے ہیں لہٰذا آپ بھابھی کو ان کے پاس لے چلیں کیوں کہ ہمارے فیملی مراسم ہیں لہٰذا وہ آپ پر خصوصی توجہ دیں گے‘‘
ہم نے کہا کہ آپ ان سے ٹائم لے لیں،حقی صاحب نے جب سارا ماجرا ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھا تو وہ بہت خوش ہوئے اور بولے کہ بھائی میں انہیں اچھی طرح غائبانہ طور پر جانتا ہوں کیوں کہ میں جاسوسی ڈائجسٹ کا مستقل قاری ہوں، آپ انہیں اور ان کی بیگم کو کلینک کے بجائے میرے گھر لے آئیں، اس طرح ہماری ملاقات جناب ڈاکٹر اعجاز حسین سے ہوئی، ہم ان کے گھر گئے، انہوں نے وائف کا معائنہ کیا اور اعلان کردیا کہ کوئی دمہ ومہ نہیں ہے، اپنے کلینک سے دوا دی، ہمیں نہیں معلوم، کیا دوا تھی اور ایک ہفتے بعد دوبارہ بلایا۔
ایک ہی ہفتے میں مریضہ کی حالت بہتر ہوگئی، اس حد تک کہ دوسرے ہفتے میں وہ دوا لینے جانے کے لیے تیار نہیں تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن ہم انہیں زبردستی لے گئے، اس بار ڈاکٹر اعجاز صاحب نے 15 دن کی دوا عنایت کی اور الحمداللہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگئیں، تیسری بار دوا لینے نہیں جانا پڑا، اس طرح ہمارے مراسم محترم ڈاکٹر اعجاز صاحب سے بڑھتے چلے گئے، البتہ ابھی تک یہ مراسم محدود حد تک تھے۔
1992 ء میں ہماری ملاقات ایک اور نادرِ روزگار شخصیت سے ہوئی جو ہومیوپیتھی میں ایک عالمانہ مقام رکھتے تھے لیکن باقاعدہ ہومیوپیتھک پریکٹس نہیں کرتے تھے کیوں کہ وہ اس زمانے میں کراچی بلدیہ کے ایڈمنسٹریٹر تھے، اس سے پہلے اور بھی اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہے، ان کے والد صاحب باقاعدہ طور پر ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے، شاید اسی وجہ سے وہ بھی ہومیو پیتھی کی طرف آئے، ان کا نام محمد افتخار عالم تھا۔
ہم انہیں افتخار بھائی کہا کرتے تھے، ان سے راہ و رسم ہمارے مرحوم دوست خان آصف کے ذریعے بڑھی، افتخار بھائی ہومیو پیتھی کے علاوہ اکلٹ سائنسز کے بھی شوقین تھے، چناں چہ جب خان آصف نے علم نجوم کے حوالے سے ہمارا تعارف کرایا تو افتخار عالم صاحب خود ہمارے دفتر آئے، واضح رہے کہ اس وقت وہ بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر تھے لیکن ان میں سرکاری افسروں والی کوئی بوباس نہ تھی، بڑے بااخلاق، کھلے ذہن و دل کے نہایت ہمدرد انسان، اکثر غریب غربا کا علاج مفت کیا کرتے تھے، پاکستان کے نامور ڈاکٹر نادر کے قریبی دوستوں میں تھے اور ہم نے دیکھا کہ ڈاکٹر نادر جیسا کُھرّا اور بددماغ انسان بھی افتخار عالم کی بے حد عزت کرتا تھا، ہومیوپیتھک معاملات میں افتخار صاحب سے مشورے بھی جاری رہتے، جن دنوں افتخار صاحب سے مراسم کا آغاز ہوا، انہی دنوں ہماری آخری بیٹی کا کیس سامنے آیا، ابتدا میں تو پروفیسر سحر انصاری صاحب کی بیگم نے معاملات کو سنبھالا مگر چوں کہ ہماری رہائش آئی آئی چندریگر روڈ پر تھی اور وہ پاپوش نگر میں کلینک کرتی تھیں لہٰذا وائف کو وہاں لے جانا خاصا مہنگا اور درد سر ہوگیا تھا، انہی دنوں ایک روز افتخار بھائی کا فون آیا، پوچھا ’’کہاں غائب ہیں آپ؟ بہت دنوں سے ہماری طرف چکر ہی نہیں لگایا‘‘
ہم نے اپنی تازہ بپتا سنائی تو فرمایا ’’آپ آئیں تو صحیح، آپ کا یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا‘‘
بہر حال دوسرے روز ہم ان کے آفس پہنچ گئے، افتخار بھائی کے دفتر میں بھانت بھانت کے لوگ حاضر رہا کرتے تھے، اکثریت سرکاری افسران کی ہوتی، انہیں دربار لگانے کا بڑا شوق تھا اور اپنے دربار میں وہ اپنے سوا کسی کو بولنے نہیں دیتے تھے، سارے درباری دست بستہ گوش برآواز رہتے، ہم نے بھی حاضری لگائی اور ایک نشست سنبھال لی لیکن ہمیں اپنی بات کہنے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا، مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں، جب بھی ہم نے کسی موقع پر انہیں اپنی ضرورت کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی، انہوں نے کوئی اور موضوع چھیڑ کر بات کو گھمادیا، آخر محفل برخاست ہوئی تو افتخار بھائی نے ایک پرچی ہماری طرف بڑھائی اور کہا ’’بس یہ شروع کردو، سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘
ہم نے پرچی پر نظر ڈالی تو پلسا ٹیلا 30 صبح و شام اور بائیو پلاسجین 26 دو، دو گھنٹے سے دو ٹیبلیٹ۔
اب ہمیں ہومیوپیتھک دواؤں کے بارے میں خاصی معلومات ہوچکی تھیں اور ہم سمجھتے تھے کہ بلاشبہ پلساٹیلا خواتین کے مسائل کی اہم دواؤں میں شمار ہوتی ہے لیکن ہماری وائف کے کیس کی سنگین نوعیت کے پیش نظر ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ افتخار بھائی نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، بہر حال ہم نے دوائیں شروع کرادیں، اُس وقت مریضہ کی صورت حال کچھ یوں تھی کہ ایلوپیتھک ڈاکٹر ابارشن کا مشورہ دے چکے تھے کیوں کہ بلیڈنگ ہوگئی تھی لیکن سحر صاحب کی بیگم نے صورت حال کو سنبھال لیا اور مکمل بیڈریسٹ کا مشورہ دیا جس کی وجہ سے تقریباً 3 ماہ خیر خیریت سے گزر گئے مگر کمزوری اور نقاہت اتنی زیادہ تھی کہ وہ گھر کا کوئی کام کاج نہیں کرسکتی تھیں اس نسخے کے استعمال کے بعد غالباً تیسرے یا چوتھے روز سے ان کی حالت سنبھلنے لگی اور ایک روز جب ہم دفتر سے گھر پہنچے تو وہ کچن میں تھیں، ہم بڑے حیران ہوئے، پوچھا کیا ماسی نہیں آئی؟ تو انہوں نے کہا کہ آئی تھی لیکن اتنے دن میں اُس نے کچن کا برا حال کردیا ہے تو میں نے سوچا کہ ذرا کچن کو ٹھیک ٹھاک کرلوں، وہ بہت گھریلو ، سلیقہ شعار خاتون تھیں، ہر کام خود کرنا پسند کرتی تھیں، ماسیوں کے کام سے کبھی مطمئن نہیں ہوتی تھیں، بہر حال یہ صورت حال دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوگیا کہ افتخار بھائی کا نسخہ اپنا صحیح کام کر رہا ہے، آخر وقت تک یہی نسخہ جاری رہا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ اک دم نہیں ہوتا
زندگی کے نشیب و فراز بھی عجیب ہوتے ہیں، ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ آج جس حال میں ہیں،جس رنگ میں ہیں، جس ترنگ میں ہیں، کیا کل بھی یہی سب کچھ ہوگا؟ایسا نہیں ہوتا، ہومیوپیتھی سے ہماری شناسائی کا پہلا باب جناب حنیف اسعدی کے زیر سایہ تحریر ہوا اور پھر کچھ نئے کردار محض خانہ پری کے لیے آتے گئے مگر ایک بڑا انقلاب ابھی آنا باقی تھا۔
ہمارا آفس اور گھر دونوں ہی آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک ہی گلی میں تھے، بعض ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر ہمیں نارتھ کراچی شفٹ ہونا پڑا، اس دوران میں ہومیوپیتھی ہماری زندگی میں بھرپور طریقے سے داخل ہوچکی تھی، گھر میں دوائیں اور کتابیں خاصی تعداد میں جمع ہوچکی تھیں، یہ الگ بات ہے کہ اب بھی ہمیں کسی اہم مسئلے میں اپنے ہومیو پیتھک احباب سے فون پر مشورہ کرنا پڑتا تھا اور اس وقت صورت حال بڑی دلچسپ ہوجاتی جب مشورے کے طور پر تجویز کردہ دوا ہمارے پاس نہ ہوتی، کتابوں کا مطالعہ بھی اس دوران میں ضرورت کے تحت ہوتا تھا یعنی جب کسی تکلیف یا بیماری سے پریشان ہوئے تو مختلف کتابیں دیکھنا شروع کردیں اور پھر بھی مطمئن نہ ہوئے تو کسی واقف کو فون کرکے مشورہ کرلیا۔
اچانک ہمارے ادارے کے دفاتر آئی آئی چندریگر روڈ سے ڈیفنس فیز ٹو میں شفٹ ہوگئے، یہ ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی تھی، اب ہمارے لیے دفتر تک کا سفر بھی ایک جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا، آخر کار ہم نے خود بھی ڈیفنس شفٹ ہونے کا فیصلہ کرلیا اور ایک کرائے کا مکان لے کر اپنا ذاتی مکان جو نارتھ کراچی میں تھا، کرائے پر اُٹھا دیا، دیگر مسائل اور مشکلات جو اس شفٹنگ کا باعث بنے، وہ اپنی جگہ لیکن ہمارے ہومیو پیتھی کے شوق کو مزید ہوا دینے والے عوامل اب ہمارے بہت قریب آچکے تھے یعنی افتخار عالم صاحب کی رہائش قریب تھی تو دوسری طرف ڈاکٹر اعجاز حسین محمود آباد میں ہم سے بہت قریب ہوچکے تھے اور تیسرا اہم ترین واقع یہ ہوا کہ ہمارے باس یعنی جاسوسی ڈائجسٹ پبلیکیشنز کے مالک جناب معراج رسول بھی ہومیو پیتھی کے زیر اثر آچکے تھے، صاحب حیثیت آدمی تھے، دولت کی کوئی کمی نہیں تھی لہٰذا جب ہومیو پیتھی سے دلچسپی پیدا ہوئی تو اس موضوع پر ہر معیاری کتاب منگالی، یہی حال دواؤں کے سلسلے میں بھی رہا۔
اب اکثر یہ ہوتا کہ جب وہ فارغ ہوتے تو ہمیں اپنے کمرے میں بلالیتے اور مختلف بیماریوں اور ان سے متعلق دواؤں پر گفتگو ہوتی رہتی، ان کی وجہ سے ہمیں بھی خصوصی تیاری کرنا پڑتی یعنی جس بیماری یا مسئلے پر گفتگو ہوتی، ہم گھر آکر اس حوالے سے مزید کتابیں کھنگالتے۔
اب ہماری ہومیو پیتھی کی تعلیم کے تین اہم مراکز قائم ہوچکے تھے، پہلا ہمارے اپنے دفتر ہی میں تھا، دوسرا ہر ہفتے کی شام افتخار بھائی کا ڈرائنگ روم جہاں اکثر دیگر ڈاکٹر صاحبان سے بھی ملاقاتیں رہیں جن میں ڈاکٹر نادر اور ڈاکٹر سید ابرار شاہ کا نام سرفہرست ہے۔
ڈاکٹر نادر جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ، ایک بددماغ بلکہ بعض اوقات بے ہودہ اور بدتمیز انسان تھے، کسی سوال پر جھلّا کر نہایت بے ہودہ جواب دیتے لہٰذا ہم نے کبھی ان سے سوال کرنے کی ہمت ہی نہیں کی، البتہ افتخار بھائی سے وہ معقولیت کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور ہمارے لیے دونوں کی یہ علمی گفتگو ایک بہت بڑا سرمایہ تھا۔
اگر اس موقع پر ایک دلچسپ نشست کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی، ایک روز افتخار بھائی کا فون آیا کہ آج ایک بڑے زبردست ہومیوپیتھی کے عالم ڈاکٹر صاحب تشریف لارہے ہیں اور ان سے ملاقات کے لیے ڈاکٹر نادر بھی آرہے ہیں لہٰذا سارے کام چھوڑ کر آجاؤ، اب یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم اس اہم میٹنگ کو چھوڑدیتے۔
افتخار بھائی گزری میں ذوالفقار مرزا (پیپلز پارٹی فیم)کے پڑوسی تھے، جب ہم آفس سے چھٹی کرکے ان کے ڈرائنگ روم میں پہنچے تو ڈاکٹر نادر کی دھواں دار تقریر جاری تھی اور وہ فرمارہے تھے کہ کڈنی شلنگ کو روکنے کے لیے کوئی دوا کارگر نہیں ہورہی، معلوم نہیں کراچی کے پانی میں ایسی کیا خرابی ہے جس کی وجہ سے کڈنی شلنگ کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں، بڑے بڑے کروڑ پتیوں کے بچے اس موذی بیماری کا شکار ہیں اور وہ میرے پاس دولت کے ڈھیر لیے آجاتے ہیں ، اگر اس مسئلے کے لیے کوئی دوا مل جائے تو کیا کہنے۔
خلاف معمول افتخار بھائی خاموشی سے ڈاکٹر نادر کی باتیں سن رہے تھے ، ایک دوسرے صوفے پر ایک اور معمر لمبے قد کے حامل صاحب بھی براجمان تھے، ڈاکٹر نادر نے انہیں مخاطب کرکے سوال کیا کہ آپ کی نظر میں کڈنی شلنگ کو روکنے کے لیے کون سی دوا ہے؟یہ ڈاکٹر سید ابرار شاہ تھے جن سے پہلی بار ہم متعارف ہوئے اور بعد ازاں ان کی شاگردی میں ہومیوپیتھی کے بہت سے رموز و نکات سمجھنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر شاہ کے بارے میں کچھ عرصے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ہمارے ایک عزیز ترین مرحوم دوست سراج منیر کے ماموں ہیں، گویا معروف عالم دین مولانا متین ہاشمی کے برادرِ نسبتی ہیں اور صرف پاؤں دیکھ کر مریض کی کانسٹی ٹیوشنل دوا تجویز کردیتے ہیں،بہر حال اس وقت کے دو بڑے ہومیوپیتھ آمنے سامنے تھے، ڈاکٹر نادر اور ڈاکٹر شاہ کے درمیان کڈنی شلنگ کے موضوع پر گفتگو نتیجہ خیز نہیں رہی کیوں کہ دونوں صاحبان ایک دوسرے کی ضد تھے ، ڈاکٹر نادر کھلے دل دماغ کے آدمی تھے اور ڈاکٹر شاہ اس کے برعکس، وہ آسانی سے کوئی راز نہیں کھولتے تھے، دونوں ایک دوسرے کی دلیلوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔
ایک موقع پر ڈاکٹر شاہ نے کہا کہ فلاں فلاں مدرٹنکچر ملاکر استعمال کرایا جائے، جواباً ڈاکٹر نادر نے کہا، کئی دواؤں کو ملاکر دینا تو ہومیو پیتھک اصول کے خلاف ہے جس پر ڈاکٹر شاہ نے فرمایا ’’ہمارے بنگال میں مدرٹنکچرز کو ملاکر استعمال کرنا جائز ہے‘‘
واضح رہے کہ ڈاکٹر شاہ تقریباً 12 سال کلکتہ کے موتی رام بھگت رام ہومیو اسپتال میں ہومیوفزیشن کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے تھے اور ہومیوپیتھی میں کلکتہ اسکول آف تھاٹ کے پیروکار تھے،وہ یوگی بھی تھے اور نبض دیکھنے کے بھی ماہر تھے،اس گفتگو کے دوران میں افتخار بھائی نے کڈنی شلنگ کو روکنے کے لیے ایک دوا کا نام لیا جس پر ڈاکٹر نادر اور ڈاکٹر ابرار شاہ دونوں نے خاموشی اختیار کی یعنی کوئی اعتراض نہیں کیا،یہ دوا جونی پرس تھی، بعد ازاں کڈنی شلنگ کے ایک کیس میں یہ دوا استعمال کی گئی جس سے بہت اعلیٰ درجے کے نتائج سامنے آئے اور اس حوالے سے روزنامہ نوائے وقت میں خبریں بھی شائع ہوئیں، اب ہمارے استعمال میں بھی یہ دوا رہتی ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
اگر ہم اپنے تمام اساتذہ کا فرداً فرداً ذکر اور تحصیل علم کے قصے بیان کریں تو پوری ایک کتاب درکار ہوگی لہٰذا اب اُس نابغہ ء روزگار ہستی کا ذکر خیر ہوجائے جس کے زیر سایہ ہم حقیقی معنوں میں ہومیوپیتھ بنے، یہ محترم خلد آشیانی ڈاکٹر اعجاز حسین ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ ڈیفنس فیز ون میں رہائش کے سبب لیاقت اشرف کالونی بہت قریب ہوگئی تھی جہاں ڈاکٹر اعجاز حسین تقریباً 1971 ء سے ہومیوپیتھک پریکٹس کر رہے تھے،وہ اصول و قواعد کے سخت پابند اور عام لوگوں کے لیے خاصے بددماغ انسان تھے،حقیقت یہ ہے کہ وہ علامہ اقبال کے اس شعر کی مکمل تفسیر تھے
ہو حلقہ ء یاراں تو برِیشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ، انسانیت کے علم بردار، اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے والے ڈاکٹر اعجاز حسین کو نامعلوم کیوں ہم سے اس قدر لگاؤ اور محبت تھی کہ کبھی کبھی شوخیاں اور چھیڑ چھاڑ کرنے کے بھی ہمیں آزادی تھی، ان کے اصولوں میں وقت کی پابندی کو خصوصی اہمیت حاصل تھی لیکن ہم وقت بے وقت بھی انہیں تنگ کرنے پہنچ جایا کرتے تھے،ویسے تو اپنے معمول کے مطابق وہ جمعہ کو کلینک بند کرتے تھے اور بعد نماز جمعہ سے عصر و مغرب تک اپنی بیٹھک میں اپنے مخصوص احباب کے ساتھ گپ شپ کیا کرتے تھے اور یہ گپ شپ عام طور پر استادانہ نوعیت کی ہوتی تھیں کیوں کہ اکثر نوواردانِ ہومیو پیتھی اس بیٹھک میں حاضری دیا کرتے تھے،نئے سیکھنے اور پڑھنے والوں کے علاوہ حکیم شمیم احمد اور ڈاکٹر اسلم صاحب بھی موجود ہوتے،ہم نے بھی اس محفل میں حاضری کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا۔
ڈاکٹر اعجاز حسین کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کلاسیکل ہومیوپیتھی کے بنیادی اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے تھے اور عموماً اپنے شاگردوں کو ان اصولوں کی سختی سے پابندی کرنے کی ہدایت کرتے، ان اصولوں کے تحت وہ اکثر پیتھالوجیکل لیبارٹریز کی رپورٹس کو بھی نظرانداز کردیا کرتے تھے،ہمیں یاد ہے کہ ایک گردے میں پتھری کے کیس میں ٹیسٹ رپورٹس کے مطابق پتھری دائیں گردے میں تھی لیکن مریض کو گردے میں درد بائیں طرف ہوتا تھا لہٰذا بعض دیگر ڈاکٹر صاحبان کی مخالفت کے باوجود اعجاز صاحب نے دوا بربریس ولگریس ہی استعمال کرائی جس کے بہترین نتائج سامنے آئے اور حیرت انگیز طور پر دائیں گردے کی پتھری بھی نکل گئی۔
اعجاز صاحب ہمیشہ علامات کو اہمیت دیتے تھے اور ان کے مطابق ہی دوا تجویز کرتے،اس بیٹھک میں اکثر بحث مباحثے ہوا کرتے اور مختلف نوعیت کے امراض اور ان کے ہومیو پیتھک علاج پر گفتگو ہوتی، ڈاکٹر صاحب اپنے تجربات بیان کرتے اور نہایت اطمینان بخش طور پر کسی بھی دوا کے استعمال کی وجوہات بھی بیان کرتے، اعجاز صاحب کے زیر سایہ ہمیں جو ہومیوپیتھی کی تعلیم ملی وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ملی تھی کیوں کہ دیگر ہمارے سینئر اساتذہ اس طرح تفصیل سے ہر دوا اور ہر مرض کی جزئیات پر بات نہیں کرتے تھے،ڈاکٹر ابرار شاہ سے تو کوئی بات اگلوانا بہت ہی مشکل کام تھا بلکہ کبھی کبھی وہ خاصے گھماؤ پھراؤ سے کام لیتے تھے،ڈاکٹر افتخار عالم بھی آسانی سے کوئی بات نہیں بتاتے تھے، حالاں کہ اپنے معرکہ آرا علاج معالجوں کے قصے سنانے کا انہیں بڑا شوق تھا لیکن جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ نے مریض کو کیا دوا دی تھی تو وہ بات کو گول کرجاتے مگر بہر حال ہم سے ان کے مراسم پھر ایسے مرحلے میں داخل ہوئے کہ وہ حقیقی معنوں میں شفقت فرمانے لگے اور عموماً تنہائی میں ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔
ڈاکٹر اعجاز حسین کی مہربانی اور نوازش کے سبب ہم اس قابل ہوسکے کہ اپنا ذاتی کلینک شروع کرسکیں، انہوں نے دامے درمے سخنے قدمے ہر طرح ہماری مدد کی، اس سلسلے میں ہم نے پارٹ ٹائم کے طور پر ہومیوپیتھک پریکٹس کا باقاعدہ آغاز کیا یعنی اپنے آفس سے آف ہونے کے بعد رات 7 بجے سے 10 بجے تک کلینک شروع کیا،تقریباً تین سال تک ہمارا یہی معمول رہا، بعد ازاں ہم نے ادارہ جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشن سے علیحدگی اختیار کرلی، اس کی بنیادی وجہ جناب معراج رسول کی خرابئ صحت کے سبب ادارے سے علیحدگی تھی، ان تین سالوں میں ہماری پریکٹس بہتر انداز میں جاری ہوچکی تھی اور ہمیں بھی ملازمت کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی،یہ پریکٹس آج بھی جاری ہے۔
سال 2006 ء ہمارے لیے اور ہمارے دیگر ہومیوپیتھ ساتھیوں کے لیے ایک نہایت ہی تکلیف دہ سال تھا کیوں کہ اسی سال ڈاکٹر اعجاز حسین ہم سے جدا ہوگئے، ہم نے ان سے گزارش کی تھی کہ وہ اپنے علاج معالجے کے نمایاں کیسز کو تفصیلاً لکھنا شروع کردیں اور یہ کام وہ کر رہے تھے، روزنامہ جرأت میں ان کے یہ آرٹیکل شائع ہوتے رہے،اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے ایک کتاب ہومیوفارمیسی پر بھی تحریر کی تھی جو ان کی زندگی ہی میں شائع ہوگئی تھی، بہر حال ان کی کمی آج تک محسوس ہوتی ہے کیوں کہ جس انداز میں وہ کیس ٹیکنگ کرتے تھے اور دوا کا انتخاب کرتے تھے وہ ہم نے کم کم ہی دیگر ڈاکٹروں میں دیکھا ہے، الحمداللہ ہم ان کی پیروی کرتے ہیں۔
اس دشتِ پُرخار میں قدم رکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہومیوپیتھی بچوں کا کھیل نہیں ہے،جس طرح داغ دہلوی نے اردو زبان کے بارے میں کہا تھا ’’کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے‘‘ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ آتی ہے یہ پیتھی بھی آتے آتے،پاکستان میں آج کل ہومیوپیتھک تعلیم اور پریکٹس کی صورت حال خاصی ناگفتہ اور ناگوار ہے،ہر سال ہومیوپیتھک کالجوں سے ڈھیروں طلبہ فارغ التحصیل ہوتے ہیں لیکن ان کے لیے قابل اور تجربے کار ڈاکٹروں کے ساتھ پریکٹس کرنے کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، مزید خرابی یہ ہے کہ وہ طلبہ اپنی اسناد اور پریکٹس کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر روزی کمانے میں مصروف ہوجاتے ہیں لیکن ہومیوپیتھی علاج معالجہ حقیقی معنوں میں ان کے بس کی بات نہیں ہوتی، اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے مجبوراً انہیں مختلف کمپنیوں کے کمپاؤنڈز کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس طرح اصل ہومیوپیتھک طریقہ ء علاج کا خون ہوجاتا ہے،آج کل تقریباً تمام ہی دوا ساز ادارے اور ڈیلرز کمپاؤنڈز سسٹم پر زور دے رہے ہیں کیوں کہ اس طرح ان کی پروڈکٹس کی کھپت بڑھ جاتی ہے لیکن یہ کمپاؤنڈز بالکل وہی حیثیت رکھتے ہیں جو ایلوپیتھی میں اسٹیریو رائڈز کی ہیں یعنی فوری طور پر عارضی آرام، مرض کا مکمل طور پر خاتمہ ان کے ذریعے ممکن نہیں اور خصوصاً کرانک امراض میں یہ فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
یہ صورت حال ہومیوپیتھی کی تباہی کا باعث بن رہی ہے اور ہومیوپیتھی آہستہ آہستہ ایلوپیتھی سے مشابہ ہوتی جارہی ہیں،اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، بے شک سنگل ریمیڈی پر پریکٹس خاصا مشکل کام ہے لیکن اگر آپ محنت کریں ، اپنا مطالعہ بڑھائیں، اچھے اساتذہ کی خدمت میں رہیں تو ایسا ناممکن بھی نہیں ہے، یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ چار سال کے ہومیوپیتھک کورس کے بعد کوئی یہ سمجھ لے کہ وہ لوگوں کا علاج معالجہ کرنے کے قابل ہوچکا ہے اور فوری طور پر اپنا کلینک کھول کر بیٹھ جائے کیوں کہ اکثریت تعلیم کے دیگر شعبوں میں ناکام ہونے کے بعد اس طریقے پر روزی کمانے کو آسان سمجھتی ہے حالاں کہ یہ آسان نہیں ہے۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں