وہ ماہر نجوم تھا یا کاہن‘اس کی پیش گوئیاں دُرست ثابت ہوتی رہیں

 اس میں شک نہیں کہ لوگ ناسٹرا ڈیمس کے نام سے واقف ہیں کہ وہ ایک عظیم مستقبل شناس تھا لیکن اکثریت اس کے حالات زندگی اور طریقِ پیش گوئی سے ناواقف ہے۔
کنیڈا سے ہمارے ایک قاری نے ناسٹرا ڈیمس پر بننے والی ایک اور فلم کا تذکرہ کیا ہے جو ہالی ووڈ میں بنائی گئی تھی اور اس میں ناسٹرا ڈیمس کی اکثر پیش گوئیوں کو دکھایا گیا تھا‘ اتفاق سے وہ فلم ہماری نظر سے نہیں گزری‘بہر حال ناسٹرا ڈیمس ہمارے لیے بھی ایک نہایت پُراسرار کردار کی حیثیت رکھتا ہے لٰہذا ہمیشہ سے ہماری دلچسپی کا محور رہا ہے‘ ہم نے ماہنامہ سرگزشت کی ادارت کے زمانے میں دنیا کے اکثر غیر معمولی افراد کے حالات زندگی شائع کرنے میں دلچسپی لی اور ناسٹرا ڈیمس کی کہانی بھی شائع کی تھی لیکن اس سے قطع نظر نہایت اہم سوال ہمارے پیش نظر یہ رہا کہ ناسٹرا ڈیمس کا انداز اور طریق پیش گوئی کیا تھا؟ وہ ایسٹرولوجر تھا یا کوئی اسپریچولسٹ یا کاہن ؟
جہاں تک ایسٹرولوجی کا دائرہ کار ہے تو ہم اس سے بہ خوبی واقف ہیں اور ناسٹرا ڈیمس کا طریق پیش گوئی بھی ہمارے سامنے ہے‘ ایک ایسٹرولوجر ہمارے خیال میں اس قدر تفصیلات کے ساتھ کسی واقعے کا منظر نامہ بیان نہیں کر سکتا لہٰذا ہماری نظر میں صرف علم نجوم ہی ایسی پیش گوئیوں کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ پیش گو کی ذاتی روحانی اپروچ بھی ضروری ہے‘ اس کے بغیر کسی واقعہ کا ایسا منظر نامہ پیش کرنا ممکن نظر نہیں آتا‘ ہم سمجھتے ہیں کہ ناسٹرا ڈیمس دیگر دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ ایک زبردست اسپریچول پاورکا حامل انسان بھی تھا اور اس کا ثبوت ہمیں ناسٹرا ڈیمس کے برتھ چارٹ سے بھی مل جاتا ہے‘ اس کا برتھ سائن یعنی طالع پیدائش برج حوت ہے اور حوتی افراد سے زیادہ روشن ضمیری کی صلاحیت کسی میں نہیں ہوتی‘ یہ لوگ غیر معمولی حساس طبعیت کے مالک اور ارتکاز توجہ میں کامل ہوتے ہیں۔
ناسٹرا ڈیمس کے زائچے پر تو بعد میں بات ہوگی‘ پہلے اس کے حالات زندگی اور پیش گوئیوں پر تھوڑی سی گفتگو کرلی جائے، خیال رہے کہ یہ موضوع ایک نشست میں اور ایک کالم میں مکمل ہونے والا نہیں ہے،ہمارا ارادہ ہے کہ ناسٹرا ڈیمس اور اس کے طرزِ پیش گوئی پر تفصیلی اظہارِ خیال کیا جائے۔
سولہویں صدی عیسوی کا آغاز تھا، ترک دنیا بھر کی توجہ کا مرکز تھے اور ترک سلطان سلیم کی فتوحات یورپ اور ایشیا میں جاری تھیں جب14 دسمبر 1503ءکا سورج طلوع ہوا تو تقریباً 11‘ 12بجے کے درمیان اس عظیم پیش گو کی پیدائش فرانس کے ایک شہر سینٹ ریمی میں ہوئی‘ اس کا اصل نام مائیکل ڈی ناسٹرے ڈیمے تھا جو اس نے اپنے زمانہ طالب علمی میں تبدیل کر لیا اور اپنا نام ناسٹرا ڈیمس رکھ لیا۔
یونیورسٹی میں وہ قدیم لاطینی زبان کا طالب علم تھا‘ اس زبان سے اس کی دلچسپی کا سبب کیا تھا؟ اس پر ناسٹرا ڈیمس کے محققین نے کبھی روشنی نہیں ڈالی حالانکہ یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابتداءہی سے قدیم علوم اور خصوصاً اکلٹ سائنسز سے دلچسپی رکھتا تھا اور لاطینی زبان پر عبور حاصل کیے بغیر وہ قدیم علوم کا مطالعہ نہیں کر سکتا تھا۔
واضح رہے کہ چودھویں اور پندرھویں صدی میں عرب اور اسپین کے مسلم ماہرین نجوم اور روحانیات کی کتابیں اٹلی پہنچیں اور پھر ان کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا‘ گویا ناسٹرا ڈیمس کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی پسند کے موضوعات کا مطالعہ کرنے کے لیے لاطینی زبان میں مہارت حاصل کرے۔
نسلی اعتبار سے اس کا خاندان یہودی تھا لیکن شاید اس کے دادا یا پردادا میں سے کوئی کیتھولک عیسائی ہوگیا تھا چنانچہ وہ بھی اس اعتبار سے ایک کیتھولک تھا‘ بچپن میں وہ تتلا کر بولتا تھا‘ شاید والد کے حالات اچھے نہیں تھے اس لیے نانا اور دادا نے اس کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری قبول کی‘ نانا یا دادا میںسے کوئی علم نجوم سے بھی دلچسپی رکھتا تھا‘ انہوں نے اسے عبرانی زبان بھی سکھائی اور علم نجوم سے بھی روشناس کیا‘ گویا گھر ہی میں ایسا ماحول میسر آ گیا جس نے ناسٹرا ڈیمس کے مستقبل کی راہ متعین کردی۔

ایک قدیم طریقِ علاج

تعلیمی زمانے میں ہی اس نے تمام قدیم فلسفیوں کی کتابیں پڑھ ڈالی اور پھر اس کی توجہ میڈیکل سائنس کی طرف مرتکز ہوگئی ‘ اس میدان میں اس نے ایک ذہین طالب علم ہونے کا ثبوت دیا‘ اسی زمانے میں فرانس میں طاعون کی وباءپھیلی جس کی وجہ سے ناسٹرا ڈیمس کو ایک ڈاکٹر کے طور پر بہت شہرت ملی‘ کیوں کہ ایسے متعدد مریض جنہیں دوسرے ڈاکٹروں نے ناقابل علاج قرار دیا تھا وہ ناسٹرا ڈیمس کے علاج سے اچھے ہو گئے‘ ان میں سے بعض مریضوں کی جان تو وہ صرف اس وجہ سے بچانے میں کامیاب ہو سکا کہ اس نے اس وقت کے مروجہ اصولوں کے مطابق ان مریضوں کی ”فصد“ کھولنے سے انکار کردیا تھا‘ اس کا خیال تھا کہ اگر فاسد خون نکالنے کے نام پر ان مریضوں کو جونکےں لگوائی گئیں یا ان کی فصد کھولی گئی تو وہ یقیناً مر جائیںگے۔
قدیم زمانے سے حکماءجونکےں لگا کر یا فصد کھول کر گندہ فاسد خون نکال کر علاج کرنے کے طریقے پر کاربند رہے ہیں‘ اس زمانے میں بھی یہ طریقہ رائج تھا‘ سب سے پہلے اس کی مخالفت ناسٹرا ڈیمس نے کی اور پھر ہومیوپیتھی کے بانی ڈاکٹر ہنی مین نے بھی اس کی مخالفت کی اور اب جدید میڈیکل سائنس بھی ثابت کر چکی ہے کہ یہ طریق علاج درست نہیں ہے بلکہ خطرناک ہے۔
آج کے دور میں طب نبویﷺ کے نام پر حجامہ کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ بھی اسی طریقہ علاج کی ایک شکل ہے‘ اس میں خواہ مخواہ حضور اکرم ﷺ کا نام نامی شامل کر کے لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ میڈیکل سائنس کے اعتراضات سے بچا جا سکے‘ اگر اس زمانے کے طریقہءعلاج کے مطابق اگر حضور اکرم ﷺ نے یہ طریقہ کبھی استعمال کیا تھا تو اسے سنت سمجھ کر تو ایک آدھ بار اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن ایک مستقل طریق علاج کے طور پر اپنانا مناسب فیصلہ نہیں ہے جبکہ میڈیکل سائنس اسے خطرناک قرار دیتی ہے۔

پیش گوئیاں

حقیقت یہ ہے کہ مستقبل کی درست خبر تو اس قادرمطلق ہی کو ہے جو اس عظیم کائنات کا نظام چلا رہا ہے لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے ، انسان مستقبل میں جھانکنے کے لیے ہمیشہ بے چین رہا ہے لہٰذا مختلف علوم وفنون میں مہارت رکھنے والے اپنے حسابی اندازوں سے کس قدر مستقبل کے بارے میں انکشاف کر سکتے ہیں اورکرتے رہتے ہیں،ان کے یہ اندازے درست بھی ثابت ہوتے ہیں اور غلط بھی، درستی کی صورت میں علم کی سچائی کا ثبوت ملتا ہے اور غلطی کی صورت میں حسابی قواعد اور انسانی عقل و فہم کا قصور ہوتا ہے۔
ناسٹراڈیمس کی پیش گوئیوں کے حوالے سے نتائج اخذ کرنے والوں نے کبھی کبھی ٹھوکر بھی کھائی،کبھی مفہوم درست طور پر نہ سمجھ سکے اور کبھی واقعے کے درست وقت کا تعین کرنے میں دھوکہ کھایا،اس حوالے سے ناسٹرا ڈیمس کے شارحین کے درمیان بھی اختلاف رائے رہا ہے،مختلف ادوار میں اس کی شاعرانہ پیش گوئیوں کو دنیا کے بدلتے ہوئے واقعات پر فٹ کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔

سولہویں صدی کا یورپ

ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ سولہویں صدی میں ماحول بے حد خراب تھا‘ کیمیا دان‘ ایسٹرولوجر اور نئی نئی ایجادات کرنے والوں کو پورے یورپ میں کلیسا کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا تھا ‘ مذہب کے ٹھیکے دار انہیں جادو گر قرار دے کر زندہ آگ میں جلوا دیتے تھے‘ ان دنوں تو یہ حال تھا کہ لوگ اپنی دشمنیاں نکالنے کے لیے اس انداز میں مخبری کیا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص کوئی نئی چونکا دینے والی بات یا ایجاد کرتا یا علم فلکیات کے ذریعے کسی قسم کا انکشاف کرتا تو اسے ” شیطان کا چیلا“ کہا جاتا اور گرفتار کر کے سخت اذیتیں دی جاتی تھیں ‘ اس کے ساتھ اس کے گھر والوں کو بھی نہیںبخشا جاتا تھا‘ ایسی فضا میں ناسٹراڈیمس کھل کر کوئی بات کرنے کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اس نے اپنی پیش گوئیوں کے لیے شعر گوئی کا راستہ اختیار کیا اورقطعات لکھنا شروع کردیے‘ اس میں بھی اس نے مزید احتیاط یہ کی کہ اپنے مفہوم کو مختلف اشاروں اور پہیلیوں میںبیان کیا‘ تشبیہات اور استعارے استعمال کیے تو انہیں بھی قدیم کلاسیکی ادب سے لیا‘ اس طرح اپنی پیش گوئیوں میں اس نے سال اور مہینوں کی کوئی ترتیب نہیں رکھی بلکہ انہیں بے ترتیب انداز میں بیان کیا‘ ایک عام پڑھنے والے کے لیے اس طرح وہ کسی مجذوب کی بے سروپا باتیں بن کر رہ گئیں البتہ بعض مواقع پر اس نے علم نجوم کی مخصوص اصطلاحات کا سہارا لیا مثلاً کسی پیش گوئی میں وہ کہتا ہے ”جب فلاں سیارہ فلاں برج میں ہوگا “حالاں کہ اس طرح کسی سال یا صدی کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے خصوصاً جب پیش گوئیوں کا دائرئہ کار صدیوں پر محیط ہو۔

پیش گوئیوں کی تشریحات

ناسٹراڈیمس کی یہ پیش گوئیاں چار ہزار سات سو بہتر مصرعوں پر مشتمل ہیں‘ ان پیش گوئیوں کی پہلی تشریح اور تفسیر 1594ءمیں ہوئی اس کے بعد 1693ءمیںپھر 1840ء‘ 1870اور 1919ءمیں ہوئی۔ اس تشریح و تفسیر میں مختلف افراد نے حصہ لیا لیکن یہ تشریحات بہت نا مکمل اور غیر مستند قرار پائیں‘ آخر اس سلسلے میں ”ڈاکٹر میکس ڈی فونٹ برن“ نے نہایت اہم کام کیا اور اس کی تشریحات مستند قرار پائیں لیکن پیش گوئی کے دُرست اوقات کا تعین پھر بھی ایک مسئلہ رہا ہے،یہ تشریحات دوسری جنگ عظیم سے پہلے 1938ءمیں شائع ہوئیں‘ اپنی کتاب میں ڈاکٹر میکس نے نہ صرف ناسٹراڈیمس کی اس پیش گوئی کا تذکرہ کیا تھا کہ چند مہینوں میں جرمنی بیلجیئم کے راستے فرانس کو فتح کرنے والا ہے بلکہ اس نے اس جنگ میں جرمنی کی شکست اور ہٹلر کی ذلت آمیز موت کا ذکر بھی کیا تھا۔
یہ ایسی بات نہ تھی کہ نازی جرمنی میں معاف کردی جاتی چنانچہ گسٹاپو کے ایجنٹ ڈاکٹر میکس کی جان کے درپے ہوگئے ‘ فرانس کی فتح کے ساتھ ہی اس کی کتاب کے نسخے دکانوں سے ڈھونڈ کر اکٹھے کیے گئے اور جلا دیے گئے‘ حد تو یہ ہے کہ اسے چھاپنے والے پریس پر چھاپا پڑا اور اس کتاب کا ٹائپ سیٹ پگھلا دیا گیا تاکہ آئندہ کوئی ایڈیشن شائع نہ ہو سکے۔

کلیسائی مخالفت

بیسوی صدی میں اس کی پیش گوئیوں کی تشریحات کے حوالے سے جرمنی میں جو کچھ ہوا وہ ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن جب وہ زندہ تھا اس وقت بھی تمام باتیں اشاروں کنایوں میں کرنے کے باوجود لوگ اسے برداشت کرنے کو تیار نہ ہوئے‘ خاص طور پر کلیسا کے راہب اس کی باتوں کو مذہب کے خلاف قرار دینے لگے، اس پر کفر کے فتوے لگائے گئے، اسے پاگل ، جادو گر اور مجذوب قرار دیا گیا‘ بس خوش قسمتی سے وہ زندہ جلنے سے بچ گیا لیکن اس کے گھر کو گھیر لیا گیا ا ور اس کا پتلا نذر آتش کیا گیا۔
اس کارروائی نے ناسٹراڈیمس کو مجبور کردیا کہ کوئی مضبوط سہارا ڈھونڈے چنانچہ اس نے فوراً فرانسیسی ملکہ کیتھرین کے دامن میں پناہ لی‘ کیتھرین نے اس کی قدردانی کی اور اسے سرکاری طور پر سہارا دیا ‘ ملکہ کے حکم پر وہ دوبارہ اپنے شہر سالون آیا تو چند دنوں بعد ملکہ بھی اس سے ملنے سالون پہنچ گئی اور اس کے گھر قیام کیا‘ ملکہ کے اس طرز عمل سے کلیسا اور شہر والوں نے پھر ناسٹراڈیمس کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھائی۔
جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ناسٹراڈیمس کی پیش گوئیوں کا تقریباً دو تہائی حصہ بیسویں صدی سے متعلق ہے اور اس بات کا اس نے خود بھی سرسری تذکرہ کیا ہے کہ صرف بیسوی صدی ہی وہ صدی ہوگی جب اس کے خیالات سمجھے جائیں گے اور اس کی باتوں کو پاگل پن قرار نہیں دیا جائے گا شاید اسی لیے اس نے سب سے زیادہ توجہ بھی اسی صدی پر دی ہے۔

طرزِ پیش گوئی

مستقبل میں جھانکنے‘ سیارگان کی رفتاروں اور بدلتی پوزیشنوں سے آنے والے واقعات و حادثات اور تبدیلیوں کا سراغ لگانے کا اس کا اپنا طریقہ کار تھا‘ اپنے کام کے بارے میں اس نے ایک قطعہ تحریر کیا ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔
” رات کی تنہائی میں ایک دور دراز مقام پر میں کتابوں میں گم ہوتا ہوں، کانسی کی کرسی پر بیٹھ کر میں سوچتا رہتا ہوں تب اس گوشہ نشینی میں ایک شعلہ نمودار ہوتا ہے اور مجھے مستقبل کے بارے میں بتاتا ہے اور یہ باتیں بے معنی یا بے کار نہیں ہوتیں“۔
ناسٹراڈیمس کے بارے میں بعض افواہیں یہ بھی تھیں کہ وہ کسی خفیہ گروہ یا فرقے کا رکن تھا اور اس کے لیے کام کرتا تھا لیکن اس کی کتاب کا یہ ابتدائی قطعہ اور ایک دوسرا قطعہ اس بات کی تردید کرتا ہے ‘ یہ بات اس نے بار بار دہرائی ہے کہ وہ اپنے شہر سالون میں، اپنے کتب خانے میں ہی بیٹھا رہتا تھا اور کتابوں میں گم رہتا تھا‘ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ پیش گوئیاں لکھنے سے پہلے ایک چھوٹی سی چھڑی ہاتھ میں تھام لیتا اور پھر پیتل کی تپائی پر رکھے ہوئے کانچ کے پیالے میں بھرے ہوئے پانی کی سطح پر اپنی توجہ مرتکزکردیتا ‘گویا ایک طرح کا مراقبہ کیا کرتا تھا، بعد ازاں وہ اس پانی کو اپنے ہاتھ کی چھڑی سے ہلا تا اور تب کانچ کے پیالے کی گہرائی سے ایک شعلہ بلند ہوتا اور اسے مستقبل کی جھلک نظر آنے لگتی،ناسٹرا ڈیمس پر بنائی جانے والی فلم میں بھی اس کی پیش گوئی کا یہ انداز دکھایا گیا ہے ۔

طریقِ کار کا تجزیہ

عزیزان من!یہ اندازِ پیش گوئی ہر گز ایسٹرولوجیکل نہیں ہوسکتا، پانی کے پیالے پر توجہ مرتکز کرکے مراقبے کی کیفیت میں چلے جانا اور پھر پانی میں مستقبل کا منظر نامہ دیکھنا تو یقیناً ایک روحانی یا روحی مکاشفہ ہی ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسٹرولوجی سے ناسٹرا ڈیمس کی دلچسپی اپنی جگہ کیوں کہ ابتدائی زندگی ہی میں اس نے اس علم سے واقفیت حاصل کرلی تھی لیکن پندرھویں صدی تک علم نجوم یورپ میں زیادہ ترقی یافتہ شکل میں نہیں تھا، نظام شمسی کا درست تصور تک اس وقت موجود نہیں تھا، یونانی علم نجوم نے کوپر نیکس کی تحقیقات کے بعد نظام شمسی کا درست تصور اختیار کیا اور بعد میں ولیم للّی یا ولیم رامسے جیسے عظیم ماہرین نجوم نے جدید علم نجوم کے اصول وقواعد مقرر کیے، ان سے پہلے کوپر نیکس کے شاگردِ رشید کیپلر نے بھی ایسٹرولوجی کی ترقی اور ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا ۔
ناسٹرا ڈیمس نے جس دور میں ہوش سنبھالا وہ یقیناً ایک دور جہالت تھا لیکن ایسے حالات میں بھی غیر معمولی سوجھ بوجھ اور ذہانت کے حامل افراد کا فطری تجسس کے تحت انوکھی باتوں اور چیزوں کی طرف متوجہ ہونا لازمی امر ہے‘ یہ بھی درست ہے کہ وہ زمانہ ”بلیک میجک“ کے یورپ میں عروج کا زمانہ بھی ہے، اس حوالے سے 2 قسم کے افراد معاشرے میں پائے جاتے تھے،ایک وہ جو میجک سائنس کا منفی استعمال کرکے لوگوں کو نقصان پہنچایا کرتے تھے اور دوسرے وہ جو اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے تحقیقی مشاہدات کے شوقین تھے اور نت نئے تجربات کرتے رہتے تھے۔
ناسٹرا ڈیمس کی زندگی میں بھی ایسے اوقات نظر آتے ہیں جب وہ علمی جستجو میں اپنے وطن سے نکل کر در بدر پھرتا رہا‘ اس در بدری کے زمانے میں یقیناً اس کا رجحان روحی علوم کی جانب ہوا ہوگا اور اس نے یقیناً اپنی روحی قوت میں اضافے کے لیے کوشش کی ہوںگی جن کے نتیجے میں اسے مکاشفے میں مہارت حاصل ہوئی ہوگی اور وہ اپنی پیش گوئیوں میں علم نجوم سے زیادہ مراقبے اور مکاشفے سے مدد لیتا ہوگا جیسا کہ پہلے بیان کیے گئے اس کے قطعے سے ظاہر ہے۔
ناسٹرا ڈیمس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ علم نجوم سے زیادہ اپنی قوتِ مکاشفہ سے کام لے کر مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کرتا تھا‘ گویا اس کی پیش گوئیاں کہانت کا زبردست شاہکار ہیں۔
کہانت اور فال یا رمل کو اسلام میں ممنوع قرار دیا گیا ہے‘ حضور اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے کاہن کی بات مانی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘ ہمارے بعض مولوی حضرات اس حدیث کو علم نجوم کے خلاف بھی پیش کر تے ہیں حالانکہ کہانت (غیب دانی) اور علم نجوم (گردش سیار گان کے اثرات کا مطالعہ) کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔
کہانت میں کوئی ماہر روحیات یا روحانیات اپنی قوتِ نفسانیہ سے کام لے کر مستقبل کے حوالے سے اپنی غیب دانی کا مظاہرہ کرتا ہے جب کہ علم نجوم میں روحی یا روحانی یا وجدانی صلاحیتوں کے استعمال کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وقت اور تاریخ کی بنیاد پر نظام شمسی میں سیارگان کی گردش کو مدنظر رکھ کر مستقبل کی تبدیلیوں پر بات کی جاتی ہے اور اس کی مثال بلکل ایسی ہی ہے جیسے ایک ڈاکٹر کسی مریض کی ٹیسٹ رپورٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے مرض کی سنگینی کا اعلان کرتا ہے‘ اگر ناسٹرا ڈیمس کوئی منجم تھا تو پھر مذکورہ بالا طریقِ پیش گوئی بے معنی اور مفروضات پر مبنی ہے‘ اس طریقے کے مطابق تو اس کا کاہن ہونا ثابت ہے۔
عربوں میں زمانہ جاہلیت سے کہانت کافن عروج پر تھا‘ ہرقبیلے کا اپنا ایک کاہن ہوا کرتا تھا اور لوگ اس کے پاس اپنا مستقبل معلوم کرنے کے لیے جایا کرتے تھے‘ شاید یہ رسم عربوں میں یونان سے آئی ہو‘ کیوں کہ یونان میں صدیوں سے کہانت کا سلسلہ جاری رہا‘ اس حوالے سے زمانہ قبل از مسیح میں ”ڈیلفی کا دارالاستخارہ“ بہت مشہور تھا‘ ڈیلفی کے معبد کی خوب صوت کاہنائےں بہت مشہور تھیں۔
آج کے جدید دور میں کہانت کو ”ایکسٹرا سینسری پرسیپشن(ESP) کا نام دیا گیا ہے‘ اس کی ذیلی شاخوں میں روشن ضمیری یا کشفی صلاحیت‘ مستقبل بینی یا پیش گوئی کی صلاحیت کے علاوہ ٹیلی پیتھی یعنی انتقال خیال کی روحی صلاحیتیں شامل ہیں‘ مستقبل بینی کی صلاحیت جس شخص میں بیدار ہوجائے وہ ان حالات و واقعات کے بارے میں بتا سکتا ہے جو ابھی مستقبل کے پردے میں پوشیدہ ہوں لیکن اس کی یہ صلاحیت اسے دھوکہ بھی دے سکتی ہے اور وہ ”شیطان کا چیلا “ بھی ہو سکتا ہے‘ ایسے انسان کا انجام بخیر نہیں ہوگا جس کی ایک مثال روس کا ”راسپوٹین“ تھا۔
آج کل ہمارے ملک میں ”استخارہ“ کے نام پر جو فراڈ کیا جا رہا ہے وہ بھی کہانت کی ایک جعلی شکل ہے‘ استخارہ کرنے والے حقیقی معنوں میں کہانت یا مکاشفے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے‘ صرف لوگوں کو بے وقوف بنا کر جھوٹی سچی باتیں بتا کر ان سے پیسے ٹھگتے رہتے ہیں‘ یہی صورت علم جفر کے نام پر ”مصتحسلہ“ کی بھی ہے۔
مستقبل بینی‘ روشن ضمیری یا ٹیلی پیتھی کی صلاحیت عام طور سے بعض لوگوں میں پیدائشی طور پر موجود ہو تی ہے‘ خصوصاً برج حوت سے یا برج عقرب سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات اس خوبی کے حامل پائے جاتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے اس وصف سے واقف بھی ہوں‘ انہیں بھی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کڑی ریاضت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ اس سلسلے میں مغرب کے ماہر روحیات اور مشرق میں ہمارے صوفیاءکرام نے ایسے طالب علموں کے لیے باقاعدہ تعلیمی اورتربیتی نصاب مقررکیے ہیں لیکن آج کے زمانے میں ایسی کڑی ریاضتیں کون کرتا ہے‘ کس کے پاس اتنی فرصت ہے؟لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے اور اپنا دھندا چلانے کے لیے تو صرف اپنا حلیہ بزرگانہ بنا لینا ہی کافی ہے‘ لوگ خصوصاً خواتین بہت سادہ لوح اور معصوم ہیں۔(جاری ہے)