موافقت اور مزاجی ہم آہنگی کامیاب شادی کے لیے ضروری ہے

شادی کے لیے دو افراد (عورت و مرد) کے درمیان موافقت اور مزاجی ہم آہنگی نہایت ضروری ہے،بہ صورت دیگر کسی اختلافی صورت حال میں دونوں کی زندگی جہنم کا نمونہ بن سکتی ہے،چناں چہ اکثر لوگ شادی یا رشتہ طے کرنے سے پہلے لڑکا لڑکی کے درمیان موافقت و محبت معلوم کرنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں، حالاں کہ یہ بھی ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر صورتوں میں اس بات کی کوئی فکر نہیں کی جاتی کہ دونوں باہمی طور پر ساتھ ساتھ خوش گوار زندگی گزار سکیں گے یا نہیں،اکثر خاندانوں میں اس مسئلے کو قسمت پر یا اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے،اگر بعد میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے یعنی دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہوتے ہیں تو پھر اہل علم حضرات سے مشورے کیے جاتے ہیں مگر یہ مشورے پھر کسی کام نہیں آتے کیوں کہ مزاجوں کا اختلاف کسی صورت بھی ختم نہیں ہوتا، ایسی صورت میں سارا دباو لڑکی پر ڈال دیا جاتا ہے کہ اب جیسے بھی ہو گزارا کیا جائے تاکہ طلاق جیسی لعنت سے بچا جاسکے۔
ہم ایسی بے شمار خواتین اور مرد حضرات سے بھی واقف ہیں جو باہمی طور پر عدم موافقت کے باوجود اپنی شادی شدہ زندگی کی گاڑی کو کسی نہ کسی طور کھینچتے رہتے ہیں کیوں کہ بعد ازاں بچوں کی پیدائش دونوں کے پیروں میں ایسی بیڑیاں ڈال دیتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوتے اور اسی طرح لڑتے جھگڑتے، روٹھتے منتے زندگی کا طویل عرصہ گزر جاتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جسے زندگی کا کوئی منحوس وقت کہنا زیادہ صحیح ہوگا کیوں کہ اُس وقت میں کسی نہ کسی بہانے زندگی کی ایک طویل رفاقت کا خاتمہ ہوجاتا ہے، بچے بڑے ہوچکے ہوتے ہیں، ایسے بہت سے کیس ہماری نظر میں ہےں، اکثر تو شادی کے فوراً بعد ہی جب دونوں کے درمیان مزاجی ہم آہنگی نہیں ہوتی اور ایک دوسرے سے شکوے شکایت شروع ہوتے ہیں تو معاملہ ابتدا ہی میں علیحدگی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔
شاید اسی وجہ سے لوگوں کی اکثریت یہ جاننے کے لیے بے چین ہوتی ہے کہ شادی سے پہلے ہی دو افراد کے درمیان ہم آہنگی معلوم کرلی جائے، اس سلسلے میں سب سے پہلے استخارے پر زور دیا جاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ فی زمانہ استخارے کے نام پر جو تماشے ہورہے ہیں، وہ ارشاد نبوی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں، استخارہ کرنے والے پیشہ ور حضرات اور غیر پیشہ ور حضرات یعنی مولوی یا پیر وغیرہ بذریعہ استخارہ ہر سوال کا جواب دیتے نظر آتے ہیں،کاروبار کیوں بند ہے؟ رشتہ کیوں نہیں آتا؟ اور آتا ہے تو واپس کیوں چلا جاتا ہے؟ مرض کیا ہے؟ شفاءکیوں نہیں ہوتی؟ بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوگی یا نہیں؟ پسند کی جگہ شادی ممکن ہے یا نہیں ؟نظربد ہے یا آسیب و جادو کے اثرات ہیں؟ الغرض ہر مسئلے کا جواب استخارے کے ذریعے معلوم کیا جارہا ہے۔
جب کہ استخارے کے سلسلے میں ارشاد نبوی صرف اس قدر ہے کہ جب تم کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے تشویش کا شکار ہو تو اللہ سے رجوع کرو، اس حوالے سے استخارے میں پڑھنے کے لیے دعا بھی بتائی گئی ہے، اس طریق کار کے مطابق استخارے کے کئی طریقے موجود ہیں،دو افراد کی شادی کے بارے میں یا کسی بڑے کام کی ابتدا کرنے سے پہلے سنت طریقے کے مطابق استخارہ کرلینا چاہیے اور یہ کام خود کرنا چاہیے تاکہ جو رہنمائی بھی اللہ رب العزت کی طرف سے ہو، اس سے براہ راست آپ مطمئن ہوں لیکن ہمارے ہاں یہ کام بھی دوسروں سے کرانے کا رواج پیدا ہوگیا ہے اور باقاعدہ طور پر ہزاروں ”استخارہ سینٹر“ کھل گئے ہیں۔
استخارے کے بعد لوگ دو افراد کے ناموں کا ستارہ ملانے یا ملوانے کا شوق پورا کرتے ہیں یا علم جفر کے دیگر طریقوں سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، اس معاملے میں بھی قابل بھروسا علم و آگہی کا فقدان ہے،عام طور پر وہ لوگ یہ کام کرتے ہیں جنہیں نہ علم نجوم سے واقفیت ہے اور نہ علم جفر سے، اگر واقفیت ہے تو محض واجبی سی کیوں کہ ان کا علم کتابی ہوتا ہے یعنی کسی کتاب میں کوئی طریق کار پڑھ لیا اور اس پر کاربند ہوگئے، بعد میں ان کے بتائے ہوئے نتائج کے خلاف صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس کے لیے ان کے پاس بہت سے حیلے بہانے موجود ہوتے ہیں۔
ہم کافی پہلے علم نجوم کے ذریعے دو افراد کی مزاجی ، فطری ہم آہنگی اور دونوں کی شراکت سے پیدا ہونے والی دیگر صورتوں کا جائزہ لینے کے لیے علم نجوم کے اصول و قواعد بیان کرچکے ہیں جو ہماری کتاب ”اک جہان حیرت“ میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔
علم نجوم ایک سائنٹیفک علم ہے، اس سے حاصل کردہ جواب اسی صورت میں غلط ہوتا ہے جب دونوں کی تاریخ پیدائش غلط ہو، ہمارے معاشرے میں اکثر تاریخ پیدائش غلط بتانے کا رواج عام ہے، زندگی کے اتنے اہم معاملے میں بھی لوگ جھوٹ بولنے سے بعض نہیں رہتے یا پھر بعض لوگوں کو درست تاریخ پیدائش معلوم ہی نہیں ہوتی،ایسی صورت میں علم نجوم آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا، لوگ اسرار کرتے ہیں کہ آپ صرف دونوں کے نام مع والدہ سے ستارہ ملاکر دیکھ لیں لیکن ہم اُن سے صاف طور پر کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک نام سے ستارہ ملانے کا طریق کار زیادہ معتبر اور مستند نہیں ہے۔
ہم بار ہا یہ بات لکھتے رہے ہیں کہ نام تاریخ پیدائش کے مقابلے میں کم حیثیت ہے، تاریخ پیدائش اور وقت پیدائش ہر انسان کا اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا، ہم اپنی مرضی سے اپنی کسی پسندیدہ تاریخ یا وقت پر پیدا نہیں ہوسکتے، ہماری پیدائش کی تاریخ اور وقت ہی دراصل ہماری قسمت ہے،اچھی یا بری!
نام بچے کی پیدائش کے بعد ماں باپ یا خاندان کے دیگر افراد تجویز کرتے ہیں،اسے تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے اور اکثر لوگ عمر کے کسی حصے میں اُسے تبدیل بھی کرلیتے ہیں لہٰذا تبدیل ہونے والی چیز کو بنیاد بناکر جو اندازے لگائے جائیں گے، وہ بہر حال معتبر نہیں ہوں گے ۔

نام سے ستارہ معلوم کرنا

نام سے ستارہ ملانے یا دوافراد کے درمیان موافقت و ہم آہنگی معلوم کرنے کے لیے علم جفر کے اصولوں سے مدد لی جاتی ہے، اس سلسلے میں کئی طریقے مروج ہیں جو اکثر کتابوں میں مل جاتے ہیں، سب سے پہلے نام کے پہلے حرف سے ستارہ معلوم کرکے دونوں کے درمیان موافقت دیکھی جاتی ہے، یہ سب سے زیادہ کمزور اور ناقابل بھروسا طریق کار ہے کیوں کہ اول تو نام کے پہلے حرف سے جو ستارہ علم نجوم کے قوانین کے مطابق معلوم کیا جائے گا، وہ کسی صورت بھی درست نہیں ہوگا کیوں کہ ہمارے ملک میں علم نجوم کے اصولوں کے مطابق بچوں کا نام رکھنے کا رواج نہیں ہے البتہ انڈیا میں یہ رواج ہے، مزید یہ کہ نام کے پہلے حرف سے ستارہ معلوم کرنے کا طریقہ علم نجوم میں اور علم جفر میں مختلف ہے اور ستاروں کی باہمی دوستی و دشمنی کے مسائل بھی خاصے متنازع ہیں۔
دوسرے طریقے کے مطابق جو خالص علم جفر سے متعلق ہے،نام مع والدہ کے اعداد لے کر انہیں 7 پر تقسیم کیا جاتا ہے،اس طرح نام کا جو ستارہ دریافت ہوتا ہے،اس کے ذریعے فریق ثانی کے ستارے کو دیکھاجاتا ہے، تیسرے طریقے کے مطابق نام مع والدہ کے اعداد کو 12 پر تقسیم کیا جاتا ہے،اس طرح نام سے متعلق برج معلوم ہوتا ہے اور پھر دونوں کے برجوں کی باہمی موافقت یا مخالفت دیکھی جاتی ہے، اسی طرح دونوں فریقین کے نام مع والدہ اعداد کو 4 پر تقسیم کرکے عنصر معلوم کیا جاتا ہے اور باہمی طور پر عناصری موافقت معلوم کی جاتی ہے، اس تمام طریق کار کو ایک مثال کے ذریعے سمجھنا چاہیے۔
مثلاً رشید بن عابدہ ، خالدہ بنت رضیہ کے درمیان مزاجی موافقت دیکھنا مقصود ہے تو پہلے رشید اور عابدہ کے اعداد معلوم کیے، ابجد قمری سے یہ 596 ہوئے، اب 596 کو 7 پر تقسیم کیا تو باقی 1 بچا، اصول یہ ہے کہ اگر 1 باقی بچے تو ستارہ قمر ہوگا، 2 باقی رہے تو عطارد، 3 باقی رہے تو زہرہ،4 باقی رہے تو شمس، 5 باقی رہے تو مریخ، 6 ہوں تو مشتری، 7 ہوں تو زحل ستارہ کہلائے گا، اس مثال میں باقی 1 بچا لہٰذا رشید بن عابدہ کا ستارہ قمر ہوا۔
فریق ثانی خالدہ بنت رضیہ کے اعداد ابجد قمری سے معلوم کیے تو 1655 ہوئے، 7پر تقسیم کیا تو باقی 3 بچے لہٰذا خالدہ کا ستارہ زہرہ ہوا، اب اصول کے مطابق قمر اور زہرہ میں موافقت ہے لہٰذا حکم لگادیا گیا کہ دونوں میں موافقت ہوگی اور شادی کامیاب رہے گی مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام حسابی عمل ابھی ادھورا ہے اس کے دیگر پہلو بھی ہیں، وہ بھی دیکھنا ضروری ہیں۔

نام سے برج معلوم کرنا

دونوں کے نام مع والدہ اعداد کو 12 پر تقسیم کیا گیا تو برج برآمد ہوا یعنی 596 کو 12 پر تقسیم کیا تو باقی 10 بچے، اصول یہ ہے کہ باقی 1 بچے تو برج حمل ، 2 بچےں تو ثور، 3 بچےں تو جوزا، 4 بچےں تو سرطان، 5 بچےں تو اسد، 6 بچےں تو سنبلہ، باقی 7 رہیں تو میزان، 8 رہیں تو عقرب، 9 باقی ہوں تو قوس، 10 باقی ہوں تو جدی، 11 باقی رہیں تو دلو، 12 باقی رہیں یعنی صفر بچے تو حوت برج ہوگا لہٰذا رشید کا برج جدی ہوا اور خالدہ کا دلو ہوگا، دلو اور جدی تحویلی برج کہلاتے ہیں یعنی دونوں برابر برابر ہیں، دلو سے جدی بارھواں ہے اور جدی سے دلو دوسرا لہٰذا دونوں کے درمیان ترقی اور خوش حالی کا عمل بہتر نہیں ہوگا، لڑکی کے نصیب سے لڑکے کو فائدہ ہوگا لیکن لڑکی اُس کے ساتھ پریشان رہے گی، اس طریق کار میں دونوں کے ستارے اور بروج متضاد ہوجاتے ہیں، مثلاً لڑکے کا ستارہ قمر اور برج جدی متضاد ہیں کیوں کہ برج جدی کا حاکم اصولاً سیارہ زحل ہے، لڑکی کا ستارہ زہرہ اور برج دلو میں تضاد ہے حالاں کہ برج دلو کا حاکم بھی سیارہ زحل ہے۔
اب ایک تیسرا عمل بھی ضروری ہے، دونوں کے نام مع والدہ اعداد کو 4 پر تقسیم کریں،اس طرح عنصر معلوم کیا جاتا ہے، اگر تقسیم سے 1 باقی بچے تو عنصر آگ ہوگا، 2 باقی رہیں تو عنصر باد یعنی ہوا ہوگا، اگر تین باقی رہیں تو عنصر آب یعنی پانی ہوگا، چار یا صفر باقی رہیں تو عنصر خاک ہوگا، رشید کا عنصر خاک ہے، جب کہ خالدہ کا آب ہے، مٹی اور پانی میں موافقت ہے لہٰذا دونوں ایک دوسرے سے مخلص اور وفادار ہوں گے۔
اس سلسلے میں نام کے پہلے حرف کا عنصر بھی معلوم کیا جاتا ہے، رشید کے نام کا پہلا حرف ”ر“ ہے، اس کا عنصر خاک ہے اور خالدہ کے نام کا پہلا حرف ”خ“ ہے، اس کا عنصر بھی خاک ہے لہٰذا دونوں میں موافقت ہے، عنصر کا تجزیہ کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اصول مقرر ہیں۔
آگ اور پانی میں دشمنی ہے، آگ پانی کو بھاپ بناکر اڑادیتی ہے اور پانی غالب آجائے تو آگ کو بجھادیتا ہے لہٰذا یہ دونوں عناصر ایک دوسرے کی ضد ہیں، اب نام کے پہلے حرف آبی اور آتشی ہوں یا چار پر تقسیم کرنے کے بعد دونوں کا عنصر آگ اور پانی ہو تو سخت ناموافقت پیدا ہوگی۔
مٹی اور ہوا میں دشمنی ہے، مٹی ہوا کو آلودہ اور کثیف کرتی ہے جب کہ ہوا مٹی کو منتشر کردیتی ہے چناں چہ نام کے پہلے حرف یا چار پر تقسیم کی صورت میں دونوں کے عناصر خاک اور باد ہوں تو یہ بھی ناموافقت کی نشانی ہے۔
آگ اور ہوا میں موافقت ہے، ہوا آگ کو جلنے میں مدد دیتی ہے جب کہ آگ ہوا کو حرارت دے کر توانا بناتی ہے، مٹی اور پانی میں موافقت ہے ، پانی مٹی کو زرخیز بناتا ہے جب کہ مٹی پانی کو راستہ دیتی ہے۔
عزیزان من! یہ اصول و قواعد نہایت قدیم زمانے سے مروج ہیں، ماہرین جفر اسی طریق کار کے مطابق ستارہ ملاتے ہیں لیکن ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ یہ طریقہ سو فیصد نتائج نہیں دیتا، البتہ کسی حد تک ان اصولوں پر بھروسا کیا جاسکتا ہے، خاص طور سے دونوں کے عناصر کی موافقت یا مخالفت بڑی اہم ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاتا، ایسی صورت میں اگر شادی ضروری ہو تو دونوں میں سے کسی ایک کا نام تبدیل کرکے موافقت پیدا کی جاسکتی ہے، آخر میں ہم ایک بار پھر یہی گزارش کریں گے کہ دونوں کی تاریخ پیدائش زیادہ اہم ہے، اس کے مطابق دونوں کے مزاج ، سوچ، فطرت اور پسند نا پسند کبھی تبدیل نہیں ہوتے اور ہمیشہ نام سے اخذ کیے گئے نتائج پر غالب رہتے ہیں۔