ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں ہمارے تجربے اور مشاہدے کے مطابق مریض کو اور ڈاکٹر کو جو دشواریاں پیش آتی ہیں، ان میں سرفہرست اس طریقہ علاج کے بارے میں لوگوں کی کم فہمیاں اور غلط فہمیاں سرفہرست ہیں، اکثر لوگ ہومیو پیتھی کے بارے میں عجیب عجیب مفروضات اپنے ذہنوں میں لیے بیٹھے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ یہ طریقہ بہت دیر میں اثر کرتا ہے، کوئی کہتا ہے کہ ہومیو پیتھک دوا سے ابتدا میں مرض کو بڑھایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے، ہومیو پیتھک دوا سے زیادہ زود اثر اور تیز ترین کام کرنے والی کوئی دوسری دوا نہیں ہے، اسی طرح مرض کو بڑھانے کا مفروضہ بھی غلط ہے، البتہ مضمن امراض (Chronic Diseases) کیوں کہ طویل عرصے سے مریض کے جسم میں اپنی جڑیں گہری کرچکے ہوتے ہیں،انھیں باہر نکالنا ضروری ہوتا ہے، ایسی صورت میں ہومیو پیتھک دوا ضرور ری ایکشن کرتی ہے لیکن وہ بھی دو چار روز سے زیادہ کا نہیں ہوتا، ایسے ری ایکشن جسم سے فاسد مادوں کو باہر نکالتے ہیں، بعض لوگ ایسی صورت سے گھبرا جاتے ہیں، حالاں کہ انھیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے جسم میں حقیقی شفا بخشی کا عمل شروع ہوچکا ہے،اسے جاری رہنے دیا جائے۔
ساری خرابی ایلو پیتھک مروج علاج معالجے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، ایسٹریورائیڈ زکے ذریعے (عارضی آرام دینے والی دوائیں) لوگوں کو فوری آرام یا فائدے کی بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے،اگر نزلہ ہے تو ایک دو گولیاںکھاتے ہی رک جائے گا، بخار ہے تو ایک انجکشن سے اتر جائے گا، دست آرہے ہیں تو ایک دو خوراک سے بند ہوجائیں گے، قصہ مختصر یہ کہ ہر تکلیف کا فوری حل ایلوپیتھک اینٹی بائیوٹک یا ایسٹریورائیڈزکے ذریعے موجود ہے اور عام لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں، اکثر تو وہ ڈاکٹر کے پاس جانا بھی ضروری نہیں سمجھتے اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ایلوپیتھک دوائیں میڈیکل اسٹور سے خرید کر استعمال کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے نہ ان کا نزلہ ختم ہوتا ہے ، نہ کوئی اور بیماری جان چھوڑتی ہے اور وہ لوگ مسلسل ایسٹریورائیڈزاستعمال کرکے مرض کومزید بگاڑ دیتے ہیں، نزلے کو فوری روکنے کا نتیجہ سائنس جیسی موذی بیماری کی شکل میں نکلتا ہے جس کا آخری علاج آپریشن کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، بخار کو فوری روکنے کے نتیجے میں اکثر بچوں کو مختلف نوعیت کی خطرناک بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے، یہی صورت موشن روکنے سے پیش آتی ہے، کھانسی یا سانس کی کوئی تکلیف میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے ۔
اکثر عام بیماریاں کسی غلط طریق علاج کے باعث خاص ہوجاتی ہیں اور پھر عمربھر پیچھا نہیں چھوڑتیں، ایلوپیتھک طریقہ کار میں کسی بیماری کا بھی مکمل اور شافع علاج نہیں ہے، ٹائیفائیڈ، ایگزیما، دمہ، سائنس، پیچش، نمونیہ، ٹی بی، سرطان ایسے امراض ہیں کہ یہ ایلوپیتھک دواوں سے عارضی طور پر دب تو جاتے ہیں مگر ختم نہیں ہوتے بلکہ اندر ہی اندر کسی نئی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، گویا ایک بار اگر ایسی کسی بیماری کا علاج ایلوپیتھک طریقے سے کرالیا گیا ہے تو سمجھ لیں کہ اب زندگی میں مسلسل نت نئی تکالیف کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، جدید تحقیق کے مطابق تو بچوں کی جو ویکسی نیشن کی جاتی ہے اور بعض خطرناک بیماریوں سے حفاظت کے لیے ٹیکے وغیرہ لگائے جاتے ہیں ان کے بھی سائیڈ ایفیکٹ بعد میں کسی نہ کسی مرحلے پر کسی نئی بیماری کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں، ایلو پیتھی کے مقابلے میں حکمت یا آئیور ویدک طریق علاج کم ضرررساں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہومیو پیتھی سے کس طرح بھرپور استفادہ ممکن ہے ؟
جہاں تک ڈاکٹر حضرات کا معاملہ ہے ، ہمارے ملک میں اس حوالے سے ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شعبے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے، وہ آسانی سے ہومیو پیتھک ڈاکٹر یا روحانی معالج بن کر پیسا کمارہا ہے، ایسے ڈاکٹروں اور روحانی معالجین سے دور رہنے کی ضرورت ہے، ہومیو پیتھی ایک بہت بڑا اور مسلسل پریکٹس کا علم ہے جس میں بے پناہ مطالعے، مشاہدے کے ساتھ ڈاکٹر کے لیے نفسیات اور مابعدالنفسیات سے متعلق علم بھی ضروری ہے، ہومیو پیتھک کی ابتدائی تعلیم ہمارے ملک میں بہت آسان ہوگئی ہے،ایسے کاروباری کالج وجود میں آگئے ہیں جو صرف پیسے لے کر پریکٹس کاسر ٹیفکیٹ دلوا دیتے ہیں اور دوسرے ہی دن ڈاکٹر صاحب کلینک کھول کر میدان عمل میں آجاتے ہیں، حالاں کہ کم از کم پانچ سال انھیں کسی قابل اور تجربے کار ڈاکٹر کی زیر نگرانی پریکٹس کی ضرورت ہے، اس کے بغیر وہ قابل بھروسا ہومیو پیتھ نہیں بن سکتے اور نہ ہی مضمن امراض (Chronic Diseases)کا علاج کرسکتے ہیں۔
جہاں تک مریضوں کا تعلق ہے کہ جیسا کہ پہلے نشان دہی کی ہے کہ وہ انہی طور طریقوں سے عادی ہوچکے ہیں جو ایلوپیتھی یا حکمت سے متعلق ہیں، ان کے لیے ڈاکٹر کو صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ میرے سر میں یا پیٹ میں یا جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہے یا کوئی اور تکلیف ہے مگر صرف اتنا بتانے سے بات نہیں بنتی، ایک اچھا ہومیو پیتھک ڈاکٹر ان کی تکلیف کے بارے میں مختلف سوالات کرتا ہے، انہیں چاہیے کہ ان سوالات کے جوابات پوری ایمان داری اور ذمے داری کے ساتھ دیں تاکہ ڈاکٹر ان کے لیے صحیح دوا تجویز کرسکے۔
ہمارے ذاتی تجربے اور مشاہدے کے مطابق مریضوں کو اپنی جسمانی صحت کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں ہوتیں،انھیں یہ بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ دن بھر میں پانی کتنا پیتے ہیں، قبض کا مطلب کیا ہے؟مزید یہ کہ جو تکلیف بھی انھیں شروع ہوئی ہے اس کا بنیادی سبب کیا ہے؟ ان کی معلومات اکثر سنی سنائی باتوں پر ہوتی ہے۔
عام طور پر جب مریض سے پوچھا جائے کہ آپ کی پیاس کیسی ہے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ”نارمل“ مزید پوچھا جائے کہ دن میں کتنے گلاس پانی پی لیتے ہو تو جواب ہوگا ”چار، پانچ گلاس“ یا یہ کہ ”پانی تو میں بہت پیتا ہوں“اصولی طور پر پانی کم پینا یا زیادہ پینا دونوں ہی ایب نارمل صورتیں ہیں، نارمل صورت میں 24 گھنٹے میں 8 سے 10 گلاس پانی پینا چاہیے، اسی طرح جسم سے متعلق دیگر مسائل میں بھی نارمل اور ایب نارمل صورتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، رات کی نیند کیسی ہے ؟ رات کو نیند کے دوران میں آنکھ کھلتی ہے یا نہیں اور کھلتی ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے، آنکھ کھلنے کی وجہ کیا ہے؟پخانے کی حاجت روزانہ ہوتی ہے یا ایک دو دن بعد، بعض لوگ قبض کا درست مفہوم نہیں سمجھتے، قبض کے معنی بندش کے ہیں یعنی ایک دن یا اس سے زیادہ دن اگر حاجت نہ ہو تو یہ قبض کی علامت ہے۔
عزیزان من! ہومیو پیتھک طریقہ علاج ہمارے تمام جسمانی نظام میں فطری توازن کو درست کرتا ہے، گویا اس کا کام نارملائزیشن ہے،کسی قسم کا اضافہ یا کمی ہومیو پیتھی میں ممکن نہیں ہے، اگر ایسی کوئی صورت موجود ہے تو وہ یقینا کسی نہ کسی بیماری کا سبب ہے، بھوک زیادہ لگنا یا کم لگنا یا بالکل نہ لگنا ، پیشاب زیادہ آنا یا کم آنا، بات کرتے کرتے رونا، مایوس رہنا، غم زدہ رہنا، چڑچڑاپن، بد مزاجی، حد سے زیادہ غصہ، بہت زیادہ بولنا یا بالکل نہ بولنا ، الغرض یہ تمام علامات انسان کو ایب نارملٹی کی طرف لے جاتی ہیں، بعض مخصوص خواہشات کی شدت مثلاً میٹھا کھانے کا بے حد شوق یا نمکین خوراک کا زیادہ استعمال ،خواتین خصوصاً کم عمر لڑکیاں یا جوان عورتیںعموماً میٹھے سے پرہیز کرتی ہیں کیوں کہ انھیں اپنا وزن بڑھنے یا موٹاپے کا خطرہ ہوتا ہے، اس صورت میں نمک کا مسلسل استعمال جاری رہتا ہے، چناں چہ جسم میں گلوکوز اور سالٹس کا توازن بگڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے عجیب و غریب قسم کی نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں، بے شک چینی سے پرہیز ضرور کریں، یہ بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے لیکن قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والا گلوکوز ضرور استعمال کریں جو پھلوں ،شہد وغیرہ کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے۔
کسی معاملے میں بے رغبتی کا شکار ہونا اور کسی معاملے میں بہت زیادہ شدت پسندی یا جنون !اسی طرح گرمی اور سردی کے مسائل ، کچھ لوگ گرم موسم میں یا گرم ماحول میں خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں جب کہ کچھ سرد موسم میں بہتری محسوس کرتے ہیں، ٹھنڈی چیزوں کی خواہش کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
ایسی ہی اور بہت سی علامات ہوسکتی ہیں، جو ایک اچھے اور قابل ہومیو ڈاکٹر کو درست دوا کے انتخاب میں مدد دے سکتی ہیں،حاد امراض یعنی موسمی یا عارضی بیماریاں اکثر اتنی تفصیلات کی متقاضی نہیں ہوتیں لیکن مضمن امراض کا علاج اس کے بغیر ممکن نہیں ہے، ایسی صورت میں ڈاکٹر کو مریض کی مکمل کیس ہسٹری درکار ہوتی ہے جس میں بچپن سے جوانی تک یا بوڑھاپے تک پریشان کرنے والی تمام بیماریوں سے واقفیت ضروری ہوتی ہے، بعض بیماریاں جو نسل در نسل جاری رہتی ہیں جیسے ٹیوبر کولیسس (ٹی بی) سرطان (کینسر) ایگزیما یا سورائسس، آتشک، سوزاک، گنٹھیا، شوگر وغیرہ ۔
یقینا اب آپ کو اندازہ ہورہا ہوگا کہ ہومیو پیتھک طریق علاج کس قدر اہم اور سنجیدہ ہے، کسی بھی ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے پاس جانے سے پہلے اپنی کیس ہسٹری ضرور ذہن میں تازہ کرلیں، خصوصاً کرانک امراض کے علاج کے سلسلے میں، اگر آپ ایک یا دو بار یا اس سے زیادہ مرتبہ سرجری کا شکار رہے ہیں تو یہ بھی اہم بات ہے، اس کا ذکر بھی ڈاکٹر سے ضرور کریں۔
ایک مثالی کیس
شہرہ آفاق ڈاکٹر رابن مرفی نے اپنی کتا ب میں ایک تجزیاتی کیس تحریر کیا ہے، اسے پڑھنے کے بعد آپ سمجھ سکیں گے کہ کس طرح کسی خاص بیماری میں دوا تجویز کی جاتی ہے، وہ لکھتے ہیں
”ایک ماہر امراض دل نے مریض کی تکلیف کو (Premature Vascular contraction (PVC) قرار دیا تھا، مریض کو شدید سردی کی بھی شکایت تھی، مریض سرد مزاج بھی تھا، اس علامت کے نیچے دو لکیریں لگائی گئیں، مریض کی انرجی خاصی کم ہوگئی تھی،۔ماہر امراض دل نے ایک beta blocker مریض کے لیے تجویز کیا تاکہ اس کے دل کی دھڑکن باقاعدہ ہوسکے مگر اس سے مریض کی تکلیف مزید شدید ہوگئی، مریض کو تھائیرائیڈ کے مقام پر ایک گومڑ بھی تھا مگر اس کے تھائیرائیڈ کے افعال بالکل ٹھیک تھے(ٹیسٹ سے درست ثابت ہوئے) اس گومڑ کی بائی اوپسی بھی کرائی گئی جو کہ منفی ثابت ہوئی، مریض کا بلڈ پریشر وقفوں وقفوں سے بڑھ جاتا تھا، جب بھی اس کی دھڑکن بگڑتی تھی اس کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا تھا، اس کے سینے میں تناو آجاتا تھا جس کے ساتھ ساتھ مریض کو آکسیجن کی کمی کے احساس کے ساتھ ساتھ سانس کی تنگی ہوجاتی تھی ایک دن اس نے تقریباً 35 میل کا سفر موٹر سائیکل پر کیا۔
(نوٹ) اگر 35 میل کا سفر موٹر سائیکل پر کرنے سے اس کے اندر کوئی علامت پیدا ہوتی تو میں لکھتا، اب نہیں لکھوں گا کیوں کہ یہ ایک بڑا سفر ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی اگلے دن جسم میں خرابی محسوس کرسکتا ہے، یہاں تک کہ اگر آپ روزانہ سفر کرنے والے ہوں پھر بھی 35 میل کا سفر آپ کو ضرور متاثر کرے گا یہ کوئی خاص علامت نہیں ہے، البتہ اگر اس نے صرف سیڑھیاں چڑھنے سے کوئی تکلیف محسوس کی ہوتی تو ایک علامت بن سکتی تھی) ہاں البتہ مریض ذہنی دباو سے ضرور متاثر ہوتا تھا کیوں کہ ذہنی دباو سے اس کی تکالیف کے دورے (Episode) واپس لوٹ آتے تھے، اس نے Menoxydyl بال اگانے کے لیے استعمال کی تھی جس کے کچھ معمولی سائیڈ ایفکٹس اس کے جسم پر رونما ہوئے تھے۔
مریض جب بھوکا ہو تو اس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے اس علامت کے نیچے 2 لائنیں اسے بہت جلد اور زیادہ مقدار میں پسینہ آتا ہے، اس علامت کے نیچے دو لائنیں دھوپ میں اس کی تکالیف بڑھ جاتیں وہ چٹ پٹے کھانوں سے پرہیز کرتا تھا، کافی، چائے، سوڈا واٹر وغیرہ اس کی تکالیف کو بڑھاتی تھیں ان سب کے لیے میں ایک لفظ Stimulents (محرک اشیائ) کا لفظ استعمال کیا، وہ میٹھی اشیاءپسند کرتا اور میٹھی اشیاءسے بہتری محسوس کرتا تھا، وہ فروٹ کثیر مقدار میں استعمال کرتا تھا اس علامت کے نیچے دو لائنیں، محرک اشیاءکا استعمال بھی مریض کے دوروں کو بڑھا دیتا تھا، اس کی طاقت تیزی سے کم ہوتی اور پھر بحال ہوجاتی تھی، اگر مریض چکنائی والی غذا کھا لیتا تو اس کے پیٹ میں گیس ہوجاتی اور پیٹ میں اپھار پیداہوجاتا تھا وہ گوشت بالکل نہیں کھاتا تھا، وہ ڈیری فارم کی اشیاءدودھ اور پنیروغیرہ کا استعمال کرنا پسند کرتا تھا، اس علامت کے نیچے دو لائنیں۔
اس کا وزن زیادہ تھا اور وزن کم کرنے میں اسے دقت محسوس ہوتی تھی، وہ دن میں چار سے پانچ گلاس دودھ روزانہ پیتا تھا، اس کی نیند بہتر تھی اور وہ سو کر تازہ دم ہوجاتا تھا گیارہ سال کی عمر میں اسے جگر میں سوجن Hepatites کی تکلیف ہوئی تھی اور سات ماہ تک بستر پر پڑا رہا تھا، اس کا کہنا تھا کہ اس کا جسم گرم محسوس ہوتا ہے مگر اسے ٹھنڈ(سردی) زیادہ لگتی ہے، اکثر اسے کپکی ہونے لگتی ہے اور سردی کا احساس زیادہ ہوتا ہے، اگرچہ اس کا جسم گرم رہتا ہے لیکن جیسے ہی بیرونی درجہ حرارت کم ہوتا ہے اس کے جسم کا درجہ حرارت بھی گر جاتا ہے،اس کے باوجود اسے سرد مشروبات پسند تھے، اس علامت کے نیچے دو لائنیں وہ تازہ ہوا میں رہنا چاہتا تھا کیوں کہ اسے آکسیجن کی کمی اور گھٹن کا احساس رہتا تھا(خاص طور پر جب اسے تکلیف کا دورہ پڑا ہوا ہو)، اس کیس کو ریپرٹرائز کریں۔
میں ہمیشہ ایسی دوا تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو کہ مکمل کیس کی عکاسی کرے، ہم دیکھیں تو مریض میں افعالی خرابی ہے نہ کہ پیتھالوجیکل کیوں کہ اس کے تمام ٹیسٹ نارمل ہیں اس کا دل بھی ٹھیک ہے، یہ صرف مخصوص محرکاتی وجوہات اور افعالی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مریض کو تکلیف کا دورہ پڑتا ہے(جسے مریض Episode کا نام دیتا تھا)، اس شخص کے ساتھ PVC کے علاوہ اور کیا مسئلہ ہے؟ نمایاں ترین مسئلہ یہ ہے کہ اس کی طاقت میں اتار چڑھاو پیدا ہوتا ہے ، ہم اس کو مدنظر رکھ کر اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ ٹھیک سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے کہ کوئی چیز اسے متاثر کرجاتی ہے وہ کیا ہے؟
اس کیس میں ہمیں دو چیزیں ایسی دکھائی دیتی ہیں جو کہ مریض کی تکلیف کو ابھارنے کا کام کرتی ہیں، ایک تو اس کے جسم میں شوگر کی کمی ہے۔ (Hypoglycemia) اسے ہم نے ٹھیک کرنا ہے، دوسرے یہ کہ مریض کی میڈیکل ہسٹری بتاتی ہے کہ اسے جگر کا عارضہ ہوا تھا جس نے اس کے جگر کو کمزور کردیا اسی وجہ سے مریض کو گیس اور پیٹ کے اپھارے کی شکایت رہتی ہے( یہ بھی جگر کی کمزوری کی تصدیق کرنے والی علامت ہے) تیسری بات یہ ہے کہ جب وہ بھوکا ہوتا ہے تو بہت کمزوری محسوس کرتا ہے اور اسے تکلیف کا دورہ پڑجاتا ہے، یہ بھی جسم میں شوگر کی کمی کا اظہار ہے لہٰذا سب سے بڑی اور اہم ریو برک خون میں شوگر کی کمی (Hypoglycemia) ہے ہمیں جاننا ہے کہ اس میں کتنی ادویات موجود ہیں، دوسری علامت بھوک سے تکلیف کا بڑھنا ہے، یہ تمام افعالی باتیں ہیں اس کے لیے مزید ہم چھوٹے اشاروں کی طرف دیکھتے ہیں جیسا کہ فروٹ کھانے سے تکلیف کا کم ہونا، فروٹ کھانے سے خون میں شوگر کی مقدار پوری ہوجاتی ہے اور اس کی طاقت بحالی ہوجاتی ہے اور جب شوگر کی مقدار کم ہوجاتی ہے اس کی طاقت کمزور ہونے لگتی ہے اور اسے دل کی دھڑکن کا عارضہ محسوس ہونے لگتا ہے اس کے سانس کی رفتارکم ہوجاتی ہے، ایسے میں جب وہ فروٹ کھاتا ہے تو تکلیف رفتہ رفتہ جاتی رہتی ہے بظاہر وہ موٹا تازہ اور صحت مند دکھائی دیتا ہے مگر جیسے ہی اس کے خو ن میں شوگر کی مقدار کم ہوتی ہے وہ تکلیف کے دور سے دوچار ہوجاتا ہے، 35میل تک یا اس وقت تک موٹر سائیکل پر سفر کرسکتا ہے، جب تک کہ اس کے خون میں شوگر کی مقدار کم نہ ہو لیکن جیسے ہی شوگر کی مقدار کم ہوتی ہے وہ تکلیف میں چلا جاتا ہے ، یہی وہ باتیں ہیں جن کا ہمیں جائزہ لینا ہے نمبر ون خون میں شوگر (شکر) کی مقدار نمبر 2ورزش نمبر 3 ذہنی دباو(یہ بھی مریض کی طاقت کو کم اور زیادہ کرتا ہے) اور اس کا بھی مریض کے جسم میں شکر کی مقدار کم کرنے میں پورا عمل دخل ہے، پس تمام کیس سے واضح ثبوت یہ ملتا ہے کہ مریض کو جگر کے متعلقہ کسی دوائی کی ضرورت ہے۔
ریپر ٹری کو دیکھنے سے پہلے کیس کا اچھی طرح سے جائزہ لیں تو ہمیں سمجھ آجائے گا کہ مریض کو کمزوری کیا ہے وہ صحت مند نظر آتا ہے مگر اسے کمزور کرنے والی علامات کی ایک زنجیر موجود ہے اور اس کو ہم نے مدنظر رکھنا ہے، اب جگر کی ادویات پر جائیں تو ہمیں چیلیڈونیم، لائیکوپوڈیم، فاسفورس، کارڈس، وغیرہ وغیرہ ادویات ملیں گی۔
فاسفورس اور چیلیڈ و نیم میں جو سب سے بڑا فرق ہے وہ یہ ہے کہ چیلڈونیم کا مریض ہر چیز گرم کھانا پسند کرتا ہے(گرم مشروبات، گرم سوپ، گرم غذا وغیرہ) جب کہ یہ مریض سرد مشروبات پسند کرتا ہے جو کہ فاسفورس کی علامت ہے لہٰذا میں نے اسے ایک خوراک فاسفورس کی دی، یہ دوا میں نے اپنے کئی سال کے تجربے کی بنیاد پر دی کیوں کہ اس دوا کی مدد سے خون میں شکر کی کمی کی تکلیف(Hypoglycemia) کے بہت سے مریض ٹھیک ہوئے ہیں، جب کہ مریض میں ہیپاٹائٹس کی تکلیف کی ہسٹری اور ٹھنڈے مشروبات کی خواہش، فاسفورس کی نشان دہی کرتے ہیں، میں نے مریض کوفاسفورس 6cمیں دی اور کہا کہ روزانہ ایک خوراک لے لیکن جب شدت تکلیف ہو تو پوٹینسی کو 30 کرلیا جائے۔
عزیزان من! یقینا آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ ہومیو پیتھک طریق علاج کے اصول وقواعد کیا ہیں، یقینا آپ ان اصولوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں گے اور جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جائیں گے خاص طو ر سے کرانک امراض کے سلسلے میں تو اپنی پوری کیس ہسٹری سے اسے درست طور پر ضرور آگاہ کریں گے۔