غیر مرئی شیطانی قوتو ں یعنی ارواح خبیثہ ‘ہمزاد اور مؤکلات کے نام پر فراڈ

اکثر ایسے واقعات ہمارے علم میں آتے رہتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیمی شعور کی کمی عام لوگوں کو نہایت بھیانک غلطیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسی غلطیاں جو ان کی دنیا اور دین دونوں کے لیے تباہی وبربادی کاباعث ہوتی ہیں ۔
گزشتہ دس پندرہ سال سے بھارت اور پاکستا ن میں کالے جادو اور سفلی عملیات کا رواج بہت بڑھ گیا ہے ۔بھارت کی حدتک تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن پاکستا ن کے اسلامی معاشرے میں یقیناًیہ بات نہ صرف باعث حیرت ہے بلکہ شرمناک بھی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ یقیناًعلمی اوردینی شعور کی کمی ہے ۔ بعض لوگ اپنے مسائل کے حل اور اہم ضروریات کے سلسلے میں جائز یاناجائز کی تفریق بھی بھول بیٹھتے ہیں‘ وہ بس ہر صورت میں صرف اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ جب روحانی امداد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو آیات قرآنی یااسمائے الہیٰ سے مدد لیتے ہوئے صبر کا دامن چھوڑبیٹھتے ہیں اور اپنی مرضی کے فوری نتائج کے فریب میںآکر خود کو شیطان کے حوالے کردیتے ہیں‘ اس سلسلے میں نہایت مکروہ شیطانی کردار ہمارے اکثر جعلی عامل اور پیر فقیر انجام دے رہے ہیں جن کا مقصد محض دولت کمانا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک لڑکی نے ہم سے رابطہ کیا ‘وہ اپنی پسند کی جگہ شادی کرنا چاہتی تھی‘ اس سلسلے میں وہ بہت سے پیروں اور عاملوں کے پاس گئی‘ اس نے بتایا کہ ایک نام نہاد جعلی عامل اور ماہر نجوم ہونے کا دعویٰ کرنے والے نے اس کا مسئلہ معلوم کرنے کے بعد کہا کہ یہ معاملہ نوری علم کے ذریعے حل نہیں ہوگا‘ اس کے لیے تو دوسراطریقہ ہی اختیارکر نا ہوگا یعنی سفلی قوتوں سے مدد لینا ہوگی‘ اگر تم تیار ہو تو میں تمہارے لیے بات کرتا ہوں کیونکہ میرے پاس دونوں طرح کی طاقتیں موجود ہیں۔
لڑکی نے سوال کیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاک و نا پاک قوتیں ایک جگہ ہی اکٹھی ہوجائیں ‘ اگر آپ نورانی علوم کے عامل ہیں تو سفلی علم کیسے کر سکتے ہیں ؟
عامل صاحب نے اس حوالے سے بڑی دلچسپ توجیہ پیش کی اور فرمایا کہ دراصل میری نورانی قوتیں اتنی زیادہ ہیں کہ دیگر سفلی قوتیں میراحکم نہیں ٹال سکتیں‘ تمہاری خاطرمیں انہیں تمہارے کام کا حکم دے سکتا ہوں ۔
لڑکی نے پھر سوال کیا‘ آخر آپ نورانی طریقے سے اس کام کو کیوں نہیں کرتے؟ میرے کام میں ایسی کون سی ناجائز بات ہے جس کے لیے آپ کو کسی گندے سفلی ذریعے سے مدد لینے کی ضرورت ہو‘ میں شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن اپنی پسند کے مطابق ۔
عامل موصوف نے اس سوال کا عجیب و غریب جواب دیا‘فرمایا کہ تم جس لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہو اس کی ماں نے اسے تم سے دور رکھنے کے لیے ایک ہندو عامل سے عمل کرایا ہے اور لڑکے کے سر پر سفلی مؤکلات کی چوکی بٹھائی ہے‘ اسے ہٹانے کے لیے نورانی طریقے پر کوئی عمل اس لیے نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ لڑکا میرے پاس نہیں آیا‘ نہ میرا اس سے کوئی واسطہ ہے‘ اگر وہ میرے پاس علاج کے لیے آتا یا تم اسے میرے پاس لے آؤتو بات دوسری ہوگی پھر میں نورانی طریقے سے تمہار امسئلہ حل کردوں گا ‘ بصورت دیگر تو یہی ممکن ہے کہ میں ان کا لی طاقتوں سے تمہارے لیے بات کروں جو میرا بڑا احترام کرتی ہیں‘وہ اس لڑکے پر تعینات مؤکلات کی چوکی ہٹانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
لڑکی کے سر پر اگرچہ عشق کا بھوت سوار تھامگر بہر حال مسلمان تھی اور ابھی ایمان کی کرنیں ا س کے دل میں موجود تھیں لہٰذا اس نے اپنی تسلی کے لیے مزید سوال کر ڈالا کہ کیا ایسا کرنے سے میں کافر تو نہیں ہوجاؤں گی ؟جواباً عامل صاحب نے کہا کہ ہر گز نہیں ‘ تم کوئی ایسا کام تھوڑی کررہی ہو جسے غیراسلامی کہا جائے بلکہ اس کا م کی نوعیت تو بس اتنی ہے کہ ہم اپنے دشمن سے چھٹکا را پانے کے لیے دشمن کے کچھ ساتھیوں کو بیچ میں ڈال کر ایک صلح نامہ کررہے ہیں۔
لڑکی اس دلیل سے مطمئن ہوگئی اور اس نے کہا’’ ٹھیک ہے‘ آپ ان سے بات کرلیں‘‘
عامل نے لڑکی سے تین روز بعد آنے کے لیے کہا اور جب دو تین روز بعد وہ ان کے پاس گئی تو بتایا کہ میری بات ہوگئی ہے اور چوکی کے مؤکلات اس لڑکے کا پیچھا چھورنے کے لیے تیار ہیں مگر وہ اس سلسلے میں اپنی مقررہ بھینٹ (قربانی) مانگ رہے ہیں ۔
لڑکی نے پوچھا کہ وہ بھینٹ کیا ہوگی؟ تو جواب میں عامل صاحب نے بتایا کہ وہ ایک سرخ رنگ کی گائے کا مطالبہ کررہے ہیں‘ لڑکی نے کہا کہ میں کہاں سے گائے لاؤں گی تو عامل صاحب نے کہا کہ آپ گائے کی قیمت مجھے دے دیں‘باقی تمام انتظام میں کرلوں گا ۔
گائے کی قیمت سن کر لڑکی کے ہوش اڑگئے اور اس نے صاف طور پرکہہ دیا کہ میں اتنی رقم کا بندوبست نہیں کرسکتی‘ عامل صاحب نے جب یہ دیکھا کہ شکار ہاتھ سے نکل رہا ہے تو انہوں نے نیا پینترا بدلا اورکہا کہ میں تمہاری خاطر ایک بار پھر بات کرتا ہوں‘ وہ دوسرے کمرے میں گئے اور کچھ دیر بعد واپس آکر لڑکی کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور اسے بھی اپنے ساتھ دوسرے کمرے میں لے گئے جہاں ایک پتھر کی مورتی رکھی تھی اس کے ارد گرد پھول اور کچھ دیگر سامان بھی رکھاتھا‘ اگر بتیا ں جل رہی تھیں‘کمرا عجیب سی خوشبو سے مہک رہا تھا ‘عامل صاحب نے لڑکی سے کہا کہ اپنا ہا تھ مورتی کے سر پر رکھو‘ لڑکی نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ رکھ دیا ۔اس کے بعد انہوں نے کچھ پڑھنا شروع کیا اور پھر بولے کہ وعدہ کرو جوحکم دیاجائے گا تم اس پر عمل کرو گی ۔
لڑکی کچھ گھبراگئی تھی‘ اس نے پوچھا ’’ کیسا حکم ؟ میں آپ کو بتاچکی ہوں کہ میں زیادہ پیسوں کا انتظام نہیں کرسکتی‘‘اس پر عامل نے کہا میں تمہاری مالی پوزیشن بتاچکا ہوں لہٰذ ا فوری طور پر تم پر کوئی مالی بوجھ نہیں ڈالا جائے گا لیکن جب تم بھینٹ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجاؤگی تو وہ تمہیں ضرور ادا کرنا ہوگی‘لڑکی نے اس بات کا وعدہ کرلیا۔
اس کا رروائی کے بعد جو واقعات پیش آئے‘ انہیں اگر تفصیل سے لکھا جائے تو شاید یہ تفصیل ہمارے مزید دو تین کالموں پر محیط ہوگی‘ مختصر اً صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ اس گورکھ دھندے میں پھنسنے کے بعد لڑکی کس طرح تباہ ہوئی وہ ایک داستان عبرت ہے‘ اسے اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے اور بلیک میلنگ کا شکار بھی ہونا پڑ ا‘ ساتھ ہی اس لڑکے کی نفرت کا بھی شکار بنی جس کی محبت میں اس نے یہ سب کچھ کیا تھا‘ بقول اس کے یہ درست ہے کہ کچھ عرصے بعد وہ اس لڑکے سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی اور وہ اس سے شادی کے لیے بھی تیار ہوگیا تھا مگر اس وقت تک وہ عامل صاحب کے شکنجے میں پوری طرح پھنس چکی تھی اور بقول خود وہ اپنے آپ کواس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اس لڑکے سے شادی کرے۔
عزیزان من!خدامعلوم ایسی کتنی بھیانک داستانیں ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہمارے خیا ل میں یہی ہے کہ ہم نے اﷲ کے احکام پر اور سنت رسول ﷺپر اور سنت اولیا ء پر عمل کرنا چھوڑدیا ہے ‘ صبرو برداشت ہمارے اند رباقی نہیں رہی ہے‘ ہماری خوا ہشات بے لگام ہوچکی ہیں جن کے زیر اثر ہم جائزو ناجائز کی تمیز کھو کر ہر اس راستے پر چل پڑتے ہیں جو ہمیں جلد ازجلد منزل تک پہنچائے ‘ خواہ اس کا نتیجہ بعد میں کتنا ہی بھیناک اور تباہ کن کیوں نہ ہو ۔
ہم ایسے بے شمار کیسوں کے دیدہ وشنیدہ ہیں اور رات دن یہ تماشے دیکھتے رہتے ہیں ‘ سحر اور جادو کا زور بلاشبہ ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہوگیا ہے اور ہماری سادہ لوح جذباتی خواتین بہت جلد اس فریب میں آجاتی ہیں‘اس موقع پر ہم اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سحر اور جادو جو آج کل کالا جادویا سفلی علم وغیرہ کے نام سے مشہور ہے یاایسے طریقے جن میں غیر مرئی شیطانی قوتو ں یعنی ارواح خبیثہ ‘ہمزاد اور مؤکلات سے مد د لی جاتی ہے‘ ہر گز قرآنی یا نورانی قوتوں سے اتحاد نہیں کرسکتے اور جو شخص یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ دونوں طریقوں سے کام لیتا ہے‘ وہ یقیناًلوگوں کو فریب دے رہا ہے‘اس کے لیے خواہ وہ اپنے طور پر کوئی بھی دلیل و جواز پیش کرے ۔
ہم یہاں ایک مشہور واقعہ نقل کر رہے ہیں جو اس موضوع کے حوالے سے کافی و شافی دلیل ہے‘ یہ واقعہ ’’تذکرۂ غوثیہ‘‘ سے لیا گیا ہے ۔
تذکرۂ غوثیہ حضرت سید غوث علی شاہ پانی پتی رحمتہ اﷲ علیہ کے ملفو ظات پر مشتمل ہے اور آپ کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ایک روز ارشاد ہوا‘حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک عورت تھی جس کو اپنے شوہر سے بدرجہ غایت محبت تھی لیکن شوہر کو نہایت نفرت تھی‘ ہر طرح کی تدبیر کی‘کوئی کارگر نہیں ہوئی ۔ اس نے سنا کہ مدینہ منورہ میں ایک عورت بڑی ساحرہ ہے ۔لاچار اس کے پاس گئی اور اپنا درددل ظاہر کیا ۔اس نے کہا ’’اچھا میں تجھے سلطانِ ساحرین کے پا س لیے چلتی ہوں وہ کچھ علاج معقول کرے گا‘‘
رات کے وقت دونوں مدینہ طیبہ سے باہر نکلیں‘دیکھا دو جانور سیاہ رنگ‘ گدھے کے برابر کھڑے ہیں ۔دونوں سوار ہوکر روانہ ہوئیں اور آناً فاناً ملک عراق کے اندر چاہ بابل کے کنارے جا اتریں جہاں ہاروت ماروت دو فرشتے الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔
وہ ساحرہ کنوئیں کے اندر گئی‘اپنے ساتھ والی کی سفارش کی ۔وہ دونوں سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور کہا ’’بلاؤ‘‘
عورت اس کے ساتھ اندرگئی اوراپنا تمام ماجرا بیان کیا‘انہوں نے پہلے تو اسے سمجھایا کہ تو جادو نہ سیکھ‘ اہل اسلام کو یہ بات زیبانہیں مگر اس عورت نے اصرار کیا ۔ہاروت ماروت نے کہا ’’خیر تیری خوشی ‘ باہر ایک تنّور ہے اس میں پیشاب کر کے آ‘‘
وہ عورت گئی اور یونہی بیٹھ کر آگئی‘پیشاب نہ کیا‘ واپس آئی تو انہوں نے پوچھا ‘’’کیا دیکھا ؟‘‘
اس نے کہا ’’کچھ بھی نہیں‘‘
انہوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے پیشاب نہیں کیا پھر جا اور پیشاب کر پھردوسری بار بھی ایسا ہی کیا کہ پیشاب نہیں کیا‘ تب فرشتوں نے کہا ’’جب تک نہ کرے گی مطلب حاصل نہیں ہوگا‘‘
ناچار تیسری بار اس نے پیشاب کیا اور دیکھا کے ایک سفید چیز جسم سے نکلی اور سیاہ چیز داخل ہوگئی‘ واپس آکر ان سے کیفیت بیان کی‘ دونوں نے کہا کہ جااب تو پور ی ساحرہ ہوگئی ہے ۔
دونوں جس طرح گئی تھیں رخصت ہوکر واپس آگئیں لیکن اس کا فکر اور تردہ نہ گیا ‘پہلی ساحرہ نے پوچھا ’’اب کس لیے پریشان ہے؟‘‘ تو اس نے کہا کہ مجھ کو تسلی اور اطمینان کیا خاک ہو ‘ نہ کوئی جنتر‘ نہ منتر‘ نہ پڑھنت‘ نہ تعلیم ‘ نہ تلقین میں تو جیسی تھی ویسی اب بھی ہوں ۔
پہلی ساحرہ نے کہا کہ یہاں پڑھنے پڑھانے کی کچھ حاجت نہیں شاید تجھ کو اپنی سحر آموذی پر یقین نہیں ہوا ۔ذرااس درخت کی طرف جو سامنے ہے بہ نظر غضب دیکھ ۔اس نے جو دیکھا‘ درخت فی الفور خشک ہوگیا ۔عورت نے کہا کہ اب نظر رحمت سے دیکھ‘ رحمت کی نظر ڈالی تو معاً سبز ہوگیا ۔عورت بولی کہ اب بھی تجھ کو یقین آیا کہ نہیں ؟ بس تیرے ارادے پرموقوف ہے جو چاہے ہوجائے گا‘تب اس عورت کو اطمینان ہوگیا ‘گھر آگئی‘ شوہر کو نظرِ محبت سے دیکھا‘ وہ اسی وقت مطیع و فرمابردار ہوگیا ۔
کچھ عرصہ بعد ایک دن اظہا ر محبت کے لیے اپنے شوہر سے تمام ماجرا کہہ دیا کہ تمہارے واسطے ایسی مشقت اٹھائی ہے‘ جادو سیکھ کر تم کو بس میں کیا اور پھر طرح طرح کے جادواس کو دکھائے‘ وہ شخص نہایت حیران و پریشان ہوا‘ جب صبح ہوگئی تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس کو لے گیا اور تمام حال بیان کیا ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے غسل کا حکم دیا اور پھر فرمایا اب کلمۂ شہادت پڑھو ۔اس نے کلمۂ شہادت پڑھا‘ جب تیسری دفعہ اس نے کلمۂ شہادت پڑھا تو ا سی وقت ایک سیاہ چیز اس کے جسم سے نکلی اور ایک سفید چیز داخل ہوگئی ۔
عزیزان من ! یہ واقعہ ایک کھلی دلیل ہے کہ نوری علم اور کالے علم کے درمیان اتحاد ویکجائی ممکن نہیں جولوگ غلطی سے کسی ایسے عمل میں مبتلا ہوجائیں جس کا تعلق سحر وجادو یا شیطانی اعمال سے ہو ‘ ان کے لیے توبہ کے دروازے بند نہیں ہیں فوراً شرعی طریقے سے غسل کرکے کلمۂ شہادت کا کثرت کے ساتھ ورد کرنا چاہئے اور کثرت سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔
جیسا کہ ہم نے ابتد ا میں ذکر کیا ہے کہ پاکستان میں سحر جادو کا بے انتہا چرچا ہوتا رہتا ہے‘اس حوالے سے ہمارامشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے نام نہاد عاملین و کاملین حقیقی معنوں میں سحر یات کے علم سے یا تو ناواقف ہیں یا پھر اکثر یت محض لوگوں کو بے وقوف بناکر پیسے بٹور نے کاکام کررہی ہے ‘ بہر حال دونوں صورتوں میں نقصان تو ان ہی سادہ لوگوں کا ہے جوا پنا ایمان بھی غارت کررہے ہیں اور پیسہ بھی‘ ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آتا بلکہ وہ تباہی کے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے اکثر تو واپسی ہی نا ممکن ہوجاتی ہے ۔