انسان کائنات کا سب سے بڑا عجوبہ ہے اور اس اعتبار سے اس کے مسائل بھی عجیب و غریب ہیں۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔ایک خط سے کچھ اقتباسات ہم یہاں پیش کر رہے ہیں کیوں کہ پورا خط شائع کرنا ممکن نہیں ہے۔
”میں نے جس مسئلے کے لئے آپ کو خط لکھا ہے وہ یہ ہے کہ میرا رشتہ طے ہو گیا ہے لیکن اس رشتے کے لئے میرے بھائی راضی نہیں تھے البتہ والدہ نے یہ رشتہ طے کر دیا۔ تھوڑے دن بعد رشتہ کروانے والوں نے ان کی برائیاں کرنا شروع کر دیں اور میری والدہ پر زور ڈالا کہ یہ رشتہ ختم کر دیا جائے۔ وہ ایسی باتیں کرتے تھے تو میں بہت پریشان ہوئی اور شدید بیمار ہو گئی۔ آخر یہ رشتہ ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے رشتے آنا بند ہو گئے اور کوئی آتا بھی تھا تو دیکھ کر چلے جاتے تھے۔ کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ میری والدہ نے کافی روحانی علاج کروایا۔ کوئی کہتا تھا اس کی بندش کی ہوئی ہے اور کوئی کہتا تھا اس کے اوپر اثرات ہیں جو اس کی شادی نہیں ہونے دیں گے پھر ایک مولانا کے پاس والدہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ تم نے پہلے رشتے کو کیوں منع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے کالے ماش کا صدقہ دینے کے لئے کہا اور کہا کہ جو رشتہ آئے اسے منع نہیں کرنا۔ پھر وہی لوگ جنہوں نے پہلے رشتہ کروایا تھا۔ ایک رشتہ لے کر آئے اور دو دن میں رشتہ طے ہو گیا۔ لڑکے والے آئے اور رسم کر کے چلے گئے لیکن ہمارے گھر میں سے لڑکے کو کسی نے دیکھا تک نہیں۔ اس کے 3 مہینے بعد والدہ پہلی مرتبہ لڑکے والوں کے گھر گئیں اور رسم کر کے آ گئیں۔ مجھ سے کسی نے پوچھا تک نہیں۔ لڑکے کی تصویر تک نہیں دکھائی۔ 2 سال بعد میں نے لڑکے کو دیکھا ایک شادی کی تقریب میں تو اس وقت مجھے اپنے مقدر پر رونا آیا۔ اتنے دکھ اٹھانے کے بعد یہ میرا نصیب ہے؟ مجھے وہ بالکل پسند نہیں آیا البتہ ان کا چھوٹا بھائی مجھے بہت اچھا لگا۔ وہ بھی مجھے بہت پسند کرتا ہے۔ پھر میں نے والدہ سے کہا کہ مجھے یہاں شادی نہیں کرنی۔ آپ منع کر دیں لہٰذا والدہ نے لڑکے والوں سے کہا کہ میری بیٹی کو لڑکا پسند نہیں آیا۔ اس کو آپ کا چھوٹا بیٹا پسند ہے تو انہوں نے جھوٹ بولا کہ ہم چھوٹے سے نہیں کریں اس کا تو رشتہ ہو گیا ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ اس کا رشتہ نہیں ہوا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس رشتے پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ میری ہونے والی ساس اس مسئلے پر بہت برہم ہو گئیں بلکہ غصے سے پاگل ہو گئیں اور چھوٹے بیٹے کو بھی بہت ذلیل کیا اور یہ رشتہ بھی ختم ہو گیا۔ رشتے کے ختم ہونے پر میری امی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ میں نے پریشان ہو کر اپنی ساس کو فون کیا کہ میں اس رشتے پر راضی ہوں اور وہ میری غلطی تھی۔ مجھے معاف کر دیں۔ اس طرح یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ بات دوبارہ بن گئی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اتنا ذلیل ہونے کے بعد میں اپنے سسرال میں خوش رہ سکوں گی؟ جب کہ میرے تمام سسرال والوں کو پتا ہے کہ میں اپنے دیور کو پسند کرتی ہوں اور یہ بات میرے منگیتر کو بھی پتا ہے۔“
جواب:۔ عزیزم! آپ نے جو تاریخ پیدائش لکھنا چاہئے تھی وہ نہیں لکھی یعنی اپنے منگیتر کی، ورنہ ہم ضرور آپ کو بتاتے کہ آپ کا رشتہ درست ہے یا نہیں۔ البتہ آپ نے اپنے دیور کی تاریخ پیدائش لکھ دی ہے لہٰذا ہم آپ کو یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ آپ کی شادی اس سے ہو جائے تو آپ کی زندگی جہنم بن کر رہ جائے گی۔ وہ دیکھنے میں آپ کو جتنا اچھا لگ رہا ہے اندر سے اتنا ہی بدباطن ہے۔ ہماری اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے ہی بڑے بھائی کی منگیتر کو نہ صرف یہ کہ بلا جھجک پسند کر رہا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہے چونکہ تمہارے دماغ پر اپنی پسند کا بھوت سوار ہے لہٰذا ممکن ہے ہماری بات تمہاری سمجھ میں نہ آئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تم گزشتہ تقریباً 3 سال سے سیارہ زحل کی نحوست کا شکار ہو۔ اس پر مزید سونے پر سہاگا یہ کہ سیارہ زحل جولائی 2005 سے اگست 2005 تک تمہارے زائچے کے ساتویں گھر میں تھا، نتیجتاً یا تو کہیں رشتہ طے نہ ہو سکا اور اگر ہوا تو حماقتوں کی نذر ہو گیا اور اب موجودہ رشتے میں بھی تم نے خود کیڑے ڈال لئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ستاہ زحل جب کسی پر اپنا منحوس سایہ ڈالتا ہے تو اس کی عقل ماری جاتی ہے۔ اپنے منگیتر کی اچھائی برائی ناپنے کے لئے آپ کا معیار کیا ہے؟ کیا صرف شکل و صورت؟ اور جو کچھ تمہاری طرف سے کیا گیا ہے اس کے بعد تمہاری ساس کا چراغ پانا ہونا جائز تھا۔ ہمارے خیال سے تو اگر اب بھی وہ تمہیں اپنانے کے لئے تیار ہیں اور انہوں نے تمہاری غلطی کو معاف کر دیا ہے تو یہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور بڑائی اور تمہارے منگیتر کی بھی اعلیٰ ظرفی ہے کہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی تم سے شادی کے لئے تیار ہے۔ اب تمہیں اس بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے اور اس بات کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے اپنے منگیتر کے دل میں اور ساس کے دل میں جگہ پیدا کرنی چاہئے۔ جس طرح ساس سے معافی مانگی ہے منگیتر سے بھی مانگنا چاہئے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ شاید تم ایسا نہ کرو۔ تمہارا قمری برج اسد ہے۔ تمہاری انا کا پرچم بہت بلند ہے۔ تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنی غلطیوں کو بھی غلطی نہیں سمجھتے یا انہیں تسلیم کرنے میں اپنے بے عزتی تصور کرتے ہیں۔ بہرحال تمہارے لئے مشورہ یہی ہے کہ مزید کسی حماقت کا شکار ہوئے بغیر اس رشتے کو پایہ تکمیل تک پہنچاﺅ۔ اپنے منگیتر کی تاریخ پیدائش سے ہمیں آگاہ کرو۔ یقین رکھو کہ اگر وہ واقعی نامناسب اور تمہارے لئے غلط انسان ہو گا تو ہم دوٹوک تمہیں یہ منگنی توڑنے کا مشورہ دے دیں گے لیکن اگر ایسا نہ ہوا اور وہ واقعی ایک معقول انسان اور تمہارے لئے اچھا شوہر نظر آیا تو پھر سمجھ لو کہ اسے ٹھکرا کر تم کفران نعمت کرو گی۔ تمہارے لئے اسم اعظم یہ ہے۔
یا فتاحُ اللطیفُ الباقیُ
نوچندے ہفتہ سے 793 مرتبہ اول و آخر 11 بار درود شریف کے ساتھ پڑھیں اور ہفتہ کے دن کالے ماش کا صدقہ دینا جاری رکھیں۔ یقینا جن مولانا صاحب نے آپ کو یہ صدقہ بتایا تھا وہ علم نجوم سے بھی واقف ہوں گے اور انہوں نے آپ کے مسئلے کا بنیادی حل جان لیا ہو گا۔ آپ کی شادی کا سال 2009 ہے۔ اس کے علاوہ اس سال کے آخری 3 مہینے اکتوبر، نومبر، دسمبر بھی خاصے اہم ہیں۔
اب تک غیر شادی ہوں
م۔ ش۔ جگہ نامعلوم
لکھتے ہیں۔ ”میں آپ کا کالم پڑھتا رہتا ہوں اور اس سے بہت متاثر ہو کر اپنا مسئلہ لکھ رہا ہوں۔ میں تقریباً گزشتہ 2 سال سے پریشان ہوں اور مایوسی کا شکار ہوں، چونکہ میں غیر شادی شدہ ہوں، مجھ میں کوئی عیب نہیں ہے۔ بس میری تعلیم نہیں ہے۔ میرا اپنا ذاتی کاروبار ہے۔ میرا رشتہ جہاں کہیں بھی لگتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ لڑکی والے پسند کر کے چلے جاتے ہیں اور لڑکی بھی ہمیں پسند آجاتی ہے لیکن بعد میں لڑکی والے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسا میرے ساتھ 5,4 مرتبہ ہو چکا ہے اور یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ کوئی بندش ہے یا پھر اﷲ کی طرف سے دیر ہے یا پھر شادی میرے نصیب میں ہے نہیں؟ آپ سے میری ایک گزارش ہے کہ آپ میرے اس مسئلے کا حل بتا دیں۔“
جواب:۔ آپ کی شادی میں نہ کوئی بندش ہے اور نہ بدنصیبی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی شادی کے لئے کوششیں کرنے والے آپ کے اہل خانہ یا دیگر احباب سب نالائق اور احمق ہیں۔ وہ شاید دوسروں کو بھی احمق ہی سمجھتے ہیں۔ انہیں آپ کے لئے جس طرح کا رشتہ ڈھونڈنا چاہئے وہ تو نہیں ڈھونڈ رہے بلکہ ایسے رشتوں کی طرف دوڑ رہے ہیں جو آپ کے لئے کسی طرح بھی مناسب نہیں ہیں اور جن کا ہونا بھی مشکل ہے۔ رہا سوال یہ کہ لوگ آتے ہیں، چلے جاتے ہیں بعد میں انکار کر دیتے ہیں۔ یہ رٹا رٹایا جملہ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ آتے ہیں وہ رشتے کو پسند کریں یا نہ کریں یہ تو ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ جناب ہمیں تو پسند نہیں ہے، خدا حافظ۔ رسماً اخلاقاً لڑکا یا لڑکی پسند ہوں یا نہ ہوں، آنے والے اچھی باتیں کر کے اور تسلی دلاسے دے کر ہی جاتے ہیں۔ انکار کرنے کے لئے بھی چند دن ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے اور اگر درمیان میں کچھ قریبی جاننے والے اور معزز افراد پڑے ہوئے ہوں تو پھر تو فوری انکار کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے لہٰذا عجیب عجیب بہانے بازیاں کر کے انکار کیا جاتا ہے۔ مثلاً استخارہ صحیح نہیں نکلا۔ ہمارے ماموں اپنی بیٹی کے لئے بضد ہو رہے ہیں۔ اب ہم انہیں بھی انکار نہیں کر سکتے یا فلاں رشتے دار نہیں مان رہا۔ الغرض اس قسم کی بہانے بازیاں کر دی جاتی ہیں۔ لیکن اصل حقیقت کوئی نہیں بتاتا کہ انکار کی وجہ کیا ہے۔ آپ کے معاملے میں انکار کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ لوگوں نے اب تک کسی ایسے رشتے پر توجہ نہیں دی ہو گی جو تعلیمی لحاظ سے آپ کے برابر ہو کیوں کہ ہمارے ہاں تو روایت یہ بھی ہے کہ اگر لڑکا کالا ہے تو اس کے لئے اجلی رنگت والی گوری چٹی لڑکی ڈھونڈی جائے اور اگر لڑکا جاہل ہے تو کم سے کم بیوی تو تعلیم یافتہ لائی جائے۔ الغرض عجیب عجیب نظریات اور معیارات، سوچیں اور خیالات ہم لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ہماری اس بات کا یہ مطلب نہ لیں کہ ہم آپ کو کسی جاہل یا گنوار لڑکی سے شادی کا مشورہ دے رہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ کم تعلیم یافتہ لڑکیوں کا کال ہے کیوں کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں بہت آگے جا رہی ہیں لہٰذا مناسب تعلیم کے ساتھ ایسی لڑکی دیکھیں جس کا گھرانا واقعی ضرورت مند ہو یعنی ان کے لئے بھی بیٹیوں کا رشتہ کرنا دشوار ہو رہا ہو۔ ان کے زیادہ ناز نخرے نہ ہوں تو ہمیں امید ہے کہ آپ کو بہت اچھی شریک حیات مل جائے گی۔ خود آپ کے ذہن میں بھی شریک حیات کے حوالے سے پسند و ناپسند کا اگر کوئی خاص معیار موجود ہو تو اس پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ شادی جیسے مبارک کام کو کاروباری انداز میں کرنا ہمارے معاشرے میں رواج پا چکا ہے۔ دونوں فریقین کی نظر حال و مستقبل کے فوائد پر ہوتی ہے۔ اس کام کو ایک کار خیر اور اﷲ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینا چاہئے نہ کہ ذاتی حرص و ہوس، پسند و ناپسند، انا اور عزت و وقار کا مسئلہ بنا کر لڑکا یا لڑکی ڈھونڈنے کی مہم شروع کرنی چاہئے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایسی مہم جوئی میں پڑنے والے نیک مقاصد کے حصول سے محروم رہتے ہیں۔
نشے کی بری عادت
حیدر آباد سے ایک بہن نے ای میل کے ذریعے اپنا مسئلہ بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ”میرا بھائی نشے جیسی بری عادت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اس کی شادی بھی ہو چکی ہے اور بچے بھی ہیں۔ بیوی بہت اچھی ہے مگر اس عادت کی وجہ سے ان کی آپس میں نہیں بن پائی۔ اچھی بات یہ ہے کہ میرا بھائی اس عادت کو خود چھوڑنا چاہتا ہے مگر چھوڑ نہیں پاتا۔ ایک اور بات سے آپ کو آگاہ کرتی چلوں کہ ہماری ایک سوتیلی ماں غیر مسلم ہے اور بہت سے عالموں سے رجوع کیا تو وہ کہتے ہیں کہ بہت سخت قسم کا کالا علم بھائی پر ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ عادت نہیں چھوڑ سکتے چنانچہ پلیز مہربانی فرما کر اس مسئلے کے بارے میں کچھ تجویز فرمائیں۔ اس وجہ سے میری والدہ بہت پریشان رہتی ہیں اور ہمارا یہ ایک ہی بھائی ہے۔ اس کے لئے دعا فرمائیں۔ کیا واقعی اس پر کالا علم ہوا ہے تو اس کا کوئی تو توڑ ضرور ہو گا۔ میں بڑی شدت سے آپ کے جواب کی منتظر رہوں گی۔“
جواب:۔ عزیزم! آپ کے بھائی کا زائچہ پیدائش ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایک بہت شاندار شخص کا زائچہ ہے جس کی صلاحیتوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ نہایت خوددار، انا پرست انسان ہے۔ ایک درد مند اور ہمدرد دل رکھتا ہے۔ دوسروں کے کام آنے والا۔ جیسا کہ آپ نے بتایا یقینا اس کی بیوی بھی بہت اچھی ہے۔ ہماری حساب کے مطابق 1990 سے اس پر سیارہ زحل کی نحوست شروع ہوئی تھی جو تقریباً 1997 تک رہی۔ یہی وہ عرصہ ہے جس میں بہت سی خرابیوں نے اسے گھیر لیا اور وہ ان میں دھنستا چلا گیا۔ بعض خرابیاں ابتدا میں زیادہ خطرناک اور پریشان کن محسوس نہیں ہوتیں، خود انسان یہ سوچتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں ہو گا اور میں سب کچھ ٹھیک کر لوں گا لیکن درحقیقت اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کس سمت جا رہا ہے جہاں سے واپسی اس کے اپنے بس میں نہیں رہے گی۔ جولائی 2005 سے ایک بار پھر وہ خراب وقت کا نشانہ بنا اور اس کے بعد سنبھالا لینا اس کے بس میں نہیں رہا۔ لیکن چونکہ پیدائشی زائچہ مضبوط ہے تو بہرحال وہ سنبھلنے کی خواہش ضرور رکھتا ہے اور واقعی یہ ایک بہت اچھی بات ہے کیوں کہ جو خود سنبھلنے اور سدھرنے کی خواہش نہیں رکھتا اسے نہ کوئی سنبھال سکتا ہے اور نہ سدھار سکتا ہے۔ ان مریضوں کا علاج بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے جو خود صحت مند ہونے کی شدید خواہش نہ رکھتے ہوں اور اپنی بیماری سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوں۔
آپ کے بھائی کا علاج یقینا ہو سکتا ہے۔ باقی جو باتیں آپ کو عالموں نے بتائی ہیں ہم ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ جو شخص خود کسی غلط راستے کی طرف گیا ہو اور اپنے آپ کو تباہ کر رہا ہو اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی کسی کو کیا ضرورت۔ البتہ ایسے مریضوں کا ماحول اور حلقہ احباب بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ کے بھائی چاہتے ہیں تو واقعی اس عادت بد سے ان کا پیچھا چھوٹ جائے تو وہ تعاون کریں۔ ہم انشاءاﷲ ان کی بھرپور مدد کریں گے۔ ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں ایک ایسی دوا موجود ہے جو نشے کی عادت چھڑا دیتی ہے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ مریض خود بھی نشہ چھوڑنا چاہتا ہو اور تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنے پر آمادہ ہو۔ اس دوا کا نام ہم یہاں نہیں لکھ سکتے۔ ویسے بھی وہ دوا آپ کو شاید ہی کہیں مل سکے کیوں کہ بہت کم ہومیو پیتھک ڈاکٹر اسے استعمال کرتے ہیں لہٰذا دواﺅں کی کمپنیاں کم از کم پاکستان میں وہ دوا تیار نہیںکرتیں۔ ہم وہ دوا خود بناتے ہیں لہٰذا صرف ہمارے پاس سے ہی مل سکے گی۔ اس کے مستقل استعمال سے نشے کی عادت چھوٹ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی روحانی مدد بھی لی جا سکتی ہے اور حروف صوامت سے عادت بد کی بندش کی جا سکتی ہے۔ آپ یا آپ کے بھائی اس سلسلے میں براہ راست ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
عزیزان من! آپ حیران ہوں گے کہ ہم نے اپنی روایات کے برخلاف دوا کا نام ظاہر نہیں کیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اول تو وہ دوا جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا بازار میں دستیاب نہیں ہے اگر کسی اسٹور والے کے سامنے آپ نے دوا کا نام لیا تو وہ حیرت سے آپ کی شکل ہی دیکھے گا کیوں کہ اس نے یقینا اس دوا کا نام کبھی نہیں سنا ہو گا۔ ہماری اس بات کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ دوا کوئی ہماری ایجاد ہے۔ وہ دوا ہومیو پیتھک مٹیریا میڈیکا میں موجود ہے اور یقینا بہت سے پرانے تجربہ کار ڈاکٹر اس کے نام سے واقف ہوں گے۔ دوسری وجہ نام ظاہر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ فی زمانہ کاروباری انداز بہت بڑھ گیا ہے اور لوگ ایسی معلومات سے ناجائز کاروباری فائدہ اٹھاتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ جو ضرورت مند دوا کا نام جاننا چاہیں وہ ہم سے ٹیلی فون پر پوچھ سکتے ہیں اور ہماری اس بات کی بھی تصدیق کر سکتے ہیں کہ دوا بازار میں ملتی ہے یا نہیں۔
رشتہ کیسا رہے گا؟
جمیل احمد۔ حیدر آباد
جواب:۔ عزیزم! آپ کی جوڑی بہت اچھی ہے۔ آپ دونوں میں بہت محبت رہے گی۔ آپ کی منگیتر کا شمسی برج سرطان ہے جب کہ آپ کا شمسی برج ثور۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ دونوں کے زائچے میں مریخ اور زہرہ ایک ہی برج میں ہیں۔ یہ بڑی آئیڈیل بات ہے اور اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ مستقبل میں حالات خواہ کیسے ہی ہوں لیکن آپ دونوں ایک دوسرے سے مخلص رہیں گے۔ لہٰذا اس رشتے پر پریشان ہونے کی بجائے آپ کو خوش ہونا چاہئے۔ یاد رکھیں! برج سرطان کے زیر اثر پیدا ہونے والی لڑکیاں ویسے بھی وفادار ہوتی ہیں اور وہ نامناسب ماحول یا نامناسب شوہر کے ساتھ بھی گزارا کر لیتی ہیں۔
ع۔ ب۔ سکھر
جواب:۔ عزیزم! آپ کے لئے یہ رشتہ اتنا زیادہ برا بھی نہیں ہے جتنا آپ سمجھ رہی ہیں۔ بے شک آپ کا منگیتر مزاج کا تیز ہے۔ اپنی بات کو اولیت دے گا یعنی اپنا حکم چلائے گا لیکن کچھ دوسری خوبیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بہرحال اچھا کمانے والا، محنتی اور بہت شدید محبت کرنے والا بھی ہے۔ آپ دونوں کے ستاروں میں زیادہ اختلاف نہیں ہے چونکہ آپ کا شمسی برج دلو ہے تو ممکن ہے آپ کو اپنی سوچوں اور خیالوں میں گم رہنے کی عادت ہے اور یہ بات اس فوجی دماغ کے حملی شخص کو گراں گزرے۔ آپ بس اس بات کا خیال رکھیں کہ جب وہ گھر میں داخل ہو تو تمام کام اس کی مرضی کے مطابق پہلے سے انجام دے کر رکھیں اور دیگر گھریلو نظم و ضبط بہتر رہے تو آپ دونوں کے درمیان کبھی بدمزگی پیدا نہیں ہو گی اور ہمیں امید ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی خوشگوارگزرے گی۔ آپ سے جس نے بھی یہ بات کی ہے کہ وہ دوسری شادی کر سکتا ہے غلط کی ہے۔ اس کا قمری برج سرطان ہے لہٰذا وہ اپنے گھر اور خاندان کے حوالے سے بہت حساس اورنازک مزاج ہے۔ وہ ایسا کوئی قدم کبھی نہیں اٹھائے گا جس کی وجہ سے اس کا گھریلو اور خاندانی ماحول انتشار اور بدنظمی کا شکار ہو۔ آخری بات یہ کہ آپ اس کی ماں کا احترام کر کے اور اس کی خدمت کر کے اس کا دل جیت سکتی ہیں۔ اسی طرح اس کے خاندانی معاملات پر بھی کبھی زیادہ تنقید نہ کریں۔ ہماری ہدایت پر عمل کر کے آپ محسوس کریں گی کہ آپ نے ایک بہت اچھا، دلیر اورخیال رکھنے والا شوہر پا لیا ہے۔
ش۔ ب۔ کراچی
جواب:۔ آپ جس جگہ شادی کی خواہش مند ہیں وہ آپ کے لئے ہر گز مناسب نہیں ہے۔ آپ دونوں کے مزاجوں اور طور طریقوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک مشرق ہے اور دوسرا مغرب۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ہی شدید انا پرست، ضدی اور اپنی برتری چاہنے والے ہیں۔ آپ کا شمسی برج اسد ہے اور اس کا شمسی برج جدی۔ برج جدی کا نشان بکرا ہے اور برج اسد کا نشان شیر۔ بھلا شیر اور بکرا ایک جگہ اکھٹا کیسے رہ سکتے ہیں۔ بکرا اپنے سینگ چبھونے سے باز نہیں آئے گا اور شیر غرانا، دہاڑنا نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ دونوں اگر یکجا ہوں گے تو ایک ایسی کشمکش شروع ہو جائے گی جس میں دونوں ایک دوسرے پر غالب آنے کی جدوجہد شروع کر دیں گے۔ آپ کی یہ کوشش نمایاں اور واضح طور پر ہو گی جب کہ بکرا نہایت خاموشی، ہوشیاری، معصومیت اور چابک دستی کے ساتھ آپ کو اپنے راستے پر چلانے کی کوشش شروع کرے گا۔ نتیجتاً اس کشمکش میں نہ کسی کی جیت ہو گی نہ ہار۔ دونوں عمر بھر اپنا خون کھولانے میں مصروف رہیں گے۔ لہٰذا ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی اس پسند پر نظر ثانی کریں۔