انتہا پسندی کی لہر ، عوامی احتجاج، علیحدگی پسندانہ تحریکیں

بھارت کا رنگ روپ پوری دنیا کے لیے حیرت کا باعث ہے، 15 اگست 1947 ءکے بعد بھارتی لیڈروں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا کہ یہ ملک جس میں ایک سے زیادہ مذاہب اور علاقائی شناخت رکھنے والی قومیں آباد ہیں ، کسی ایک مذہب یا کسی ایک قوم کی بنیاد پر متحد نہیں ہوسکتے، اس کا ثبوت موجود تھا، مسلم لیگ نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دو قومی نظریہ پیش کرکے ایک علیحدہ مسلم ملک کا تقاضا کیا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی جس کے نتیجے میں برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک علیحدہ ملک کے طور پر نمودار ہوا۔
یہ حقیقت اس وقت کے بھارتی ہندو رہنماو¿ںکے پیش نظر تھی لہٰذا مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو نے یہی مناسب سمجھا کہ ملک کا آئین سیکولر بنیادوں پر ہونا چاہیے جس میں دیگر مذاہب یا اقوام کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے اور ہندو مذہبی نظریات کو زبردستی دوسرے مذاہب یا قوموں پر مسلط نہ کیا جائے، اس پالیسی کے تحت 70 سال تک بھارت کو استحکام ملا اور مختلف انتہا پسندانہ نظریات پر قابو پانے میں مدد ملی۔
بھارت ایک بہت بڑا وسیع و عریض اور کثیر آبادی کا حامل ملک ہے، ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مخصوص ادوار کے علاوہ کبھی بھی ایک متحد ملک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھتا نظر نہیں آتا، ہمیشہ بھارت مختلف خود مختار ریاستوں کا مجموعہ رہا ہے اور یہ ریاستیں باہمی طور پر ایک دوسرے سے برسرِپیکار رہی ہےں، شاید یہی وجہ تھی کہ مغل دور کی ابتدا میں جس نوعیت کی خانہ جنگیاں شروع ہوئیں انھیں سامنے رکھتے ہوئے تیسرے مغل حکمران جلال الدین محمد اکبر نے محسوس کیا کہ مغل سلطنت کے استحکام کے لیے ایسی پالیسی اختیار کرنا ضروری ہے جو تمام مذاہب اور اقوام کے لیے یکساں ہو، چناں چہ موصوف نے ایک سیکولر دین ”دین الٰہی“ متعارف کرایا جس کی علمائے اسلام نے سختی سے مخالفت کی لیکن اس حکمت عملی کے سبب بہر حال مغل ایمپائر کو استحکام ملا ، اکبر کے بعد اُس کے جانشین جہانگیر اور شاہ جہاں بھی اس پالیسی پر کاربند رہے لیکن اورنگزیب عالمگیر نہایت کٹّر اسلامی ذہن کا حامل بادشاہ تھا اس نے ملک میں خالص اسلامی نظام نافذ کرنے کی کوشش کی ، غیر اسلامی اقلیتوں پر جزیہ نافذ کیا جس کے نتیجے میں غیر مسلم قوتوں کو عالمگیر کے خلاف متحرک ہونے کا موقع ملا اور نتیجے کے طور پر عالمگیر کی ساری زندگی گھوڑے پر سوار گزری، کبھی وہ مرہٹوں کے خلاف مصروف عمل نظر آیا تو کبھی سکھوں کے خلاف اور کبھی پٹھانوں کے خلاف۔
عالمگیر کے بعد ایک بار پھر بھارت کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوگیا، اس کے جانشین اس کی طرح مضبوط پوزیشن کے مالک نہیں تھے، چناں چہ مغل امپائر کا زوال شروع ہوگیا اور بالآخر سات سمندر پار سے آنے والے غیر ملکی ہندوستان کی سیاست پر غالب ہوتے چلے گئے، بھارت تاریخ میں پہلی بار غیر ملکی انگریزوں کی نوآبادی بن گیا تھا۔
غیر ملکیوں سے نجات کے بعد بھارتی رہنماوں نے ماضی کی تاریخ سے جو سبق سیکھا اس کے پیش نظر ملکی آئین کو اور انداز حکمرانی کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیا ، ابتدا ہی سے اس کی مخالفت ہندو انتہا پسندوں نے کی جس کے نتیجے میں ایک انتہا پسند نے مہاتما گاندھی کو قتل کردیا، انتہا پسندوں کی ایک جماعت بھی وجود میں آگئی جس نے اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگایا اس جماعت کا نام جن سنگھ (آر ایس ایس آر) ہے، موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اکثر لیڈر اسی جن سنگھ پارٹی کی پیداوار ہیں جن میں اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی بھی ہیں۔
عزیزان من! نہایت اختصار کے ساتھ انڈیا کے ماضی پر ایک نظر ڈالنا ضروری تھا تاکہ انڈیا کے مستقبل کے حوالے سے جب بات کی جائے تو قارئین کو نئے بھارتی منظر نامے کو سمجھنے میں آسانی ہوسکے، ہمارے پیش نظر بھارت کا زائچہ ہے جو 15 اگست 1947ءبمقام دہلی شب 00:00:01am کے مطابق ہے، تمام بین الاقوامی اور بھارتی منجم اس زائچے پر متفق ہیں لیکن دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ اکثر بھارتی منجم زائچے کے اصل حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے مذہبی یا سیاسی تعصب کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ بھارت جو کہ ایسٹرولوجی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور جہاں ہر گلی کوچے میں ایک جوتشی موجود ہے تو کیا کوئی ایک منجم بھی ایسا نہیں ہے جو علمی طور پر درست اور حقیقی تجزیہ پیش کرے، اس کا جواب یہی ہے کہ بلاشبہ ایسے ماہر فلکیات یقیناً موجود ہیں لیکن موجودہ حالات میں ان کی زبانیں بند ہیں، وہ اگر مذہبی تعصب کا شکار نہیں ہیں تو موجودہ صورت حال سے خوف زدہ ضرور ہیں، ہم اکثر یوٹیوب کے ذریعے بعض بھارتی منجمین کے تجزیے دیکھتے رہتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تقریباً سب ہی یک زبان ہوکر صرف اور صرف نریندر مودی کی قصیدہ گوئی میں مصروف ہیں، علمی انداز میں زائچے کا تجزیہ کرنے کے بجائے مجذوبی بھاشن دے رہے ہیں، یوٹیوب پر تو ویسے بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو صرف اپنا دھندا کرنے میں مصروف ہیں جیسا کہ خود پاکستانی منجمین کا حال ہے۔
ہم یہاں یہ وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ بھارت میں ویدک ایسٹرولوجی عام ہے لیکن ویدک ایسٹرولوجی کا بھی عجیب حال ہے، اس سسٹم کے تحت بھارت میں ایک سے زیادہ اسکول آف تھاٹ موجود ہیں جو تقریباً سب کے سب ہندو مائیتھالوجی سے متاثر ہیں، ایک خالص سائنسی علم کا جو حشر بھارت میں ہورہا ہے یا پاکستان میں اس کی پیروی کرنے والے کر رہے ہیں وہ قابل افسوس ہے، درحقیقت یہ ستارہ شناسی نہیں ہے بلک ہ ستارہ پرستی ہے۔
اس تمہید کے بعد آئیے بھارتی زائچے پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ درحقیقت بھارت میں موجودہ تبدیلی کے اسباب و عوامل کیا ہیں ؟

بھارتی زائچہ

 

 

بھارت کا پیدائشی برج (Birth sign) برج ثور 07 درجے 46 دقیقہ ہے، پہلے گھر میں راہو اور ساتویں گھر میں کیتو شرف یافتہ ہیں، دوسرے گھر میں سیارہ مریخ بھی 7 درجہ 27 دقیقہ موجود ہے، تیسرے گھر برج سرطان میں سیارہ قمر ، عطارد، زہرہ، شمس اور زحل یعنی پانچ سیارے ایک ہی گھر میں موجود ہیں، چھٹے گھر برج میزان میں سیارہ مشتری 25 درجہ 52 دقیقہ پر ہے،گویا راہو اور کیتو شرف یافتہ ہونے کی وجہ سے طاقت ور اثر ڈال رہے ہیں، مریخ بھی طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے، قمر ، عطارد، زہرہ، شمس اور زحل کمزور ہیں ، زحل غروب ہے، اسی طرح مشتری بھی کمزور ہے۔
طالع برج ثور کے لیے راہو کیتو کے علاوہ زہرہ ، مشتری اور مریخ فنکشنل نقصان دہ سیارے ہیں جب کہ قمر، عطارد، شمس اور زحل فنکشنل سعد اثر دینے والے سیارے ہیں، یہ زائچے کی مجموعی صورت حال ہے۔
راہو کیتو طالع کے درجات سے قریبی قران رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری سیاسی نظام کے ساتھ ایک ایسا ملا جلا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو کسی ایک مذہب یا نظریے کا پابند نہیں ہوسکتا، چناں چہ ملکی آئین میں ترامیم اور شعوری رجحانات میں آزادی ضروری ہے،راہو سیاست، دھوکا و فریب سے تعلق رکھتا ہے اور معاشرے میں کرپشن کو بھی فروغ دیتا ہے، چناں چہ بھارتی معاشرہ ابتدا ہی سے اس صورت حال کا شکار ہے۔
بارھویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ زائچے کے دوسرے گھر میں ایسے درجات پر موجود ہے جو زائچے کے ہر گھر کے اہم مو¿ثر پوائنٹس ہیں لہٰذا دوسرے گھر، پانچویں گھر، آٹھویں گھر اور نویں گھر کو ناظر ہے جس کے نتیجے میں اندرونی و بیرونی اختلافات، حادثات و سانحات، مذہبی اور نظریاتی یا آئینی معاملات میں اختلاف و تنازعات ہمیشہ ملک کا اہم مسئلہ رہیں گے، زائچے کے تیسرے گھر کا حاکم سیارہ قمر اپنے ہی برج میں کمزور پوزیشن رکھتا ہے، تیسرا گھر ایکشن، اقدام اور کوشش و جدوجہد سے متعلق ہے، سیارہ قمر پر ساتویں گھر میں موجود طاقت ور کیتو کی نظر ہے، گویا بھارت خواہ کتنا بھی سیکولرازم کا پرچارک ہوجائے لیکن بنیادی طور پر اندر سے انتہا پسندانہ نظریات و رجحانات سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوسکتا، عطارد بھی کمزور پوزیشن رکھتا ہے جو شعور اور عوامی خوش حالی سے متعلق ہے لہٰذا ملک میں شعور کی کمی اور عوامی خوش حالی کا ہمیشہ فقدان رہا ہے، شمس بھی کمزور ہے ، دسویں گھر کا حاکم سیارہ زحل زیادہ خراب پوزیشن میں ہے یعنی غروب بھی ہے اور چھٹے گھر کے حاکم سیارہ زہرہ کے ساتھ قریبی قران بھی رکھتا ہے، زہرہ بھی غروب ہے، یہ تمام صورت حال زائچے کی بہت اچھی پوزیشن ظاہر نہیں کرتی اور کسی طرح بھی ”اکھنڈ بھارت“ جیسے نظریات میں کامیابی کا امکان ظاہر نہیں کرتی، اس زائچے کے تحت ملک میں سیکولر آئین اور سیکولر انداز حکمرانی ہی قابل قبول ہوسکتا ہے اور اس کے لیے مخلص اور ایماندار قیادت ضروری ہے جو ابتدا میں طویل عرصے تک بھارت کو میسر رہی۔
پیدائشی زائچے کی خوبیوں اور خامیوں کے بعد سالانہ سیاروی گردش ملک پر اثر انداز ہوتی ہے، حالات و واقعات میں اُتار چڑھاو¿ کا سبب بنتی ہے۔
آزادی کے بعد زائچے میں دسویں گھر کے حاکم سیارہ زحل کا دور اکبر جاری تھا اور دور اصغر بھی زحل ہی کا تھا،چناں چہ ابتدا ہی سے بہت سے مسائل نے جنم لیا جن میں ملکی تقسیم سے متعلق مسائل کے علاوہ پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ تنازعات بھی شامل تھے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس وقت کی بھارتی قیادت نے نہایت دانش مندانہ طور پر ان مسائل کے حل پر پوری توجہ دی، کشمیر ، جوناگڑھ، حیدرآباد اور دیر ریاستوں سے متعلق اپنے ملکی مفاد کا خیال رکھا جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکا کیوں کہ ایک سال بعد ہی بانی¿ پاکستان اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور پھر معقول اور مخلص قیادت پاکستان کو میسر نہیں آئی، یہی نہیں بلکہ بھارت نے چند سال ہی میں اپنا آئین بھی بنالیا اور اس طرح مکمل طور پر برطانوی گورنر جنرل سے نجات حاصل کرکے حقیقی آزادی حاصل کرلی جو پاکستان کو 1956 ءتک نصیب نہ ہوسکی۔
آئین سازی کے فوری بعد نہرو حکومت نے ملک سے فیوڈل نظام کا خاتمہ کردیا، تمام ریاستوں کو ختم کرکے ایک مکمل جمہوری پارلیمانی نظام کے طابع کردیا گیا، پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوا جب کہ دونوں ملکوں کا بنیادی زائچہ تقریباً ملتا جلتا تھا اس کا جواب صرف یہی ہے کہ بھارت کو طویل عرصے تک جو قیادت میسر رہی وہ انہی لوگوں پر مشتمل تھی جنہوں نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا تھا جب کہ پاکستان میں بہت جلد وہ لوگ ملک پر قابض ہوگئے جن کے بارے میں مشہور شاعر محسن بوپالی کا یہ شعر بہت مشہور ہے

نےرنگی ءسیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

موجودہ بھارت

بھارت کے حالات و واقعات میں مختلف اوقات پر آنے والے اُتار چڑھاو¿ پر تفصیلی تجزیہ یہاں ممکن نہیں ہے ورنہ یہ مضمون بہت زیادہ طویل ہوجائے گا، ہمارا موضوع بھارت کی موجودہ صورت حال ہے، 2013 ءکے انتخابات میں سیکولر نظریے کی حامل کانگریس کو شکست ہوئی اور اس کے نتیجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوئی،یہ پارٹی ابتدا ہی سے انتہا پسندانہ نظریات کی حامل رہی ہے اور بھارت کو مکمل طور پر ایک ہندو معاشرہ بنانے کا رجحان رکھتی ہے، چناں چہ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے انتہا پسند سوچ کے حامل دیگر ساتھیوں نے اس حوالے سے کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ بھارت میں ”ہندوتوا“ کا نعرہ لگاکر اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے فضا ہموار کرنا شروع کی۔

زائچے میں دور قمر کا آغاز

11 ستمبر 2015 ءسے بھارتی زائچے میں سیارہ قمر کے دور اکبر کا آغاز ہوا جو دس سال پر محیط ہوتا ہے گویا یہ دور 10 ستمبر 2025 ءتک جاری رہے گا،پہلے نشان دہی کی جاچکی ہے کہ قمر ایکشن اور رجحان سازی سے متعلق ہے اور اس پر انتہا پسند کیتو کی بھرپور نظر ہے، چناں چہ یہی وہ دور ہے جس میں ہندو انتہا پسندی نے اپنے عروج کی طرف بڑھنا شروع کیا اور بھارت سے ایسی خبریں آنے لگیں جن میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جارحیت کے مظاہرے شروع ہوگئے، پاکستان سے بھی تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی جسے کم کرنے کے لیے ہمارے دانش وروں کا خیال تھا کہ باہمی تجارتی ماحول کو بڑھاوا دیا جائے لیکن ہمارے دانش ور جن کی اکثریت سیکولر سوچ رکھتی ہے اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے کہ بھارتی قیادت اور بھارت میں جنم لینے والی نئی مذہبی لہر کا رُخ کس طرف ہے، چناں چہ پاکستانی سیاست دانوں اور دانش وروں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
2019 ءکے انتخابات تک ہندوتوا کا نعرہ بھارت کا مقبول ترین نعرہ بن چکا تھا، چناں چہ بھارتیہ جنتا پارٹی نہایت طاقت ور انداز میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی اور سیکولر پارٹیوں کا صفایا ہوگیا، اب وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کے لیے میدان صاف تھا،وہ اپنی من مانی کرنے کے لیے آزاد تھے، چناں چہ فوری طور پر کشمیر کی آزاد حیثیت کو ختم کیا گیا اور دیگر آزاد ریاستیں بھی اس اقدام کا شکار ہوئیں،تازہ ترین نئی آئینی ترمیم بھی ایسے ہی انتہا پسندانہ منصوبوں کا حصہ ہے جس پر بھارت میں سخت احتجاج کی لہر اٹھی ہے۔
بھارتی زائچے میں جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ قمر کا دور اکبر جاری ہے اور 11 اگست 2018 ءسے زائچے کے سب سے منحوس سیارے مشتری کا دور اصغر جاری رہا، اسی دور میں بھارت میں انتہا پسندی اپنے عروج پر پہنچی اور پاکستان سے تعلقات مزید کشیدہ ہوئے، اب 11 دسمبر 2019 ءسے قمر کے دور اکبر میں سیارہ زحل کا دور اصغر جاری ہے جو 11 جولائی 2021 ءتک جاری رہے گا۔
سیارہ زحل دسویں گھر کا حاکم ہے، اس کا تعلق حکومت اور سربراہ مملکت سے ہے، پیدائشی زائچے میں یہ غروب ہے اور غروب سیارہ اگرچہ سعد ہو مگر کمزور تصور کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مثبت کے بجائے منفی اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں، فطری طور پر سیارہ زحل عام افراد اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے، چناں چہ اسی کے دور میں بھارت میں عوامی احتجاجی لہر کا آغاز ہوا ہے جس کی پشت پر کوئی سیاسی قوت نہیں تھی، ٹرانزٹ پوزیشن میں سیارہ زحل گزشتہ تقریباً ڈھائی سال سے زائچے کے آٹھویں گھر میں رہا جس کی وجہ سے بھارت میں بھی حکومت کا تقریباً وہی حال رہا جو پاکستان میں رہا، گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والا عظیم سیاروی اجتماع بھی آٹھویں گھر میں تھا جس کے اثرات موجودہ سال میں نہ صرف یہ کہ آئینی و مذہبی مسائل میں اضافے کا باعث ہوں گے بلکہ ایک اور ایسا ہی اجتماع 2021 ءمیں بھی نویں گھر میں ہوگا جس کے نتیجے میں مزید آئینی ترامیم کا امکان موجود ہے، موجودہ حکومت اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے،سیارہ زحل 25 جنوری سے زائچے میں بہتر پوزیشن میں آچکا ہے، فی الوقت پیدائشی قمر سے ناظر ہے، چناں چہ اتنے بڑے احتجاج کے باوجود بھارتی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، کشمیر میں جو صورت حال ہے وہ بھی جابرانہ انداز میں کنٹرول کی جارہی ہے۔
اسی سال فروری کے آخر میں سیارہ مریخ کی پوزیشن ظاہر کر رہی ہے کہ حکومت کو نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا جس کا ایک نمونہ حال ہی میں سامنے آچکا ہے، دہلی کے الیکشن میں حکومت کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ملک کے اکثر حصوں میں خصوصاً ان ریاستوں میں جو آرٹیکل 370 کے زیر اثر تھیں ، عدم اطمینان اور بے چینی پائی جاتی ہے، تقریباً 24,25 فروری کو سیارہ مریخ آٹھویں گھر میں کیتو کے ساتھ قران کرے گا، یہ وقت کسی بڑے حادثے یا سانحے کی نشان دہی کر رہا ہے، اس بات کا امکان موجود ہے کہ فروری کے آخر یا مارچ میں بھارت کا جارحانہ رویہ پاکستان کے خلاف کسی نئی کارروائی کی شکل میں سامنے آئے، ممکن ہے ، احتجاجی لہر پر قابو پانے کے لیے بھارت کوئی ایسا قدم اٹھائے جس کی وجہ سے عوامی توجہ پاکستان مخالف رجحانات کی طرف موڑنے کی کوشش سامنے آئے لیکن اس سے پہلے خود بھارت میں بھی کوئی بڑا سانحہ پیش آسکتا ہے۔
مارچ میں سیارہ مشتری اور مریخ جو زائچے کے انتہائی منحوس اثر رکھنے والے سیارے ہیں باہمی قران کریں گے، چناں چہ مارچ کا مہینہ بھی بھارت کے لیے مزید حادثات کے علاوہ معاشی طور پر نئے مسائل لائے گا، تقریباً جیسی صورت حال معاشی معاملات میں پاکستان کی ہے ، بھارت بھی آہستہ آہستہ اسی سمت بڑھ رہا ہے، اسے بہتر بنانے کے لیے جو اقدام ہونا چاہئیں، وہ نظر نہیں آتے، اس کی وجہ کشمیر کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔
مارچ سے شروع ہونے والا وقت بھارت کے لیے مسلسل نت نئے چیلنجز سامنے لائے گا جو سال کے آخر تک اپنی انتہا کو پہنچیں گے، اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حکومت کے انتہا پسندانہ نظریات اور اقدام بھارت کو مزید انتشار اور علیحدگی پسندانہ رجحانات کی جانب لے جارہے ہیں، اس حوالے سے 2021 ءخاصا نتیجہ خیز سال نظر آتا ہے جس میں عوامی احتجاجی لہر زیادہ شدت سے سامنے آئے گی اور اپوزیشن جماعتیں بھی کھل کر اپنا کردار ادا کرسکیں گی، معاشی صورت حال مزید خراب ہوگی، ملک میں علیحدگی پسندانہ نظریات کو فروغ ملے گا جس کا نتیجہ بھارت کی مزید تقسیم کی صورت میں سامنے آسکتا ہے، کشمیر اور دیگر ریاستوں کے معاملات کنٹرول سے باہر ہوسکتے ہیں، مزید آئینی ترامیم آسکتی ہیں جو ملک کو ایک مکمل ہندو ریاست کی جانب لے جائیں جس کے باعث تمام اقلیتی حلقے تشویش اور بے چینی کا شکار ہوں لیکن یہ صورت حال بہر حال ملک کے لیے کسی طور بھی بہتر نہیں ہوگی اور اس کے خلاف عوامی احتجاج روز بہ روز بڑھتا ہی رہے گا۔
جنوری 2021 ءمیں ایک بڑا سیاروی اجتماع زائچے کے نویں گھر میں ہوگا جس کے اثرات طویل المدت ہوں گے اور شدت سے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندانہ لہر کو روکنے میں معاون ثابت ہوں گے، اس کے نتیجے میں 2021 ءکا سال بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کے نظریات کی شکست کا سال ہوگا، عوامی سطح پر اس بات کا احساس بڑھ جائے گا کہ ملک کو واپس سیکولر نظریات کی طرف لایا جائے، اس سال کوئی ایسی صورت حال بھی سامنے آسکتی ہے جس میں مودی حکومت خطرے میں پڑجائے یا اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کے لیے مجبور ہوجائے (واللہ اعلم بالصواب)

ضروری اطلاع

قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں موجودہ دور ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے، لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ طویل مضامین کے مطالع کے لیے وقت نکال سکیں، اسی مقصد کے پیش نظر ہم نے گزشتہ مہینوں میں ایسٹرولوجی اور کچھ دوسرے موضوعات پر مختصر انداز میں ویڈیوز ریکارڈ کرائی ہیں، جنھیں آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں، اس کے لیے اے کیو ٹی سید انور فراز لکھ کر سرچ کریں تو ہماری تمام ویڈیوز سامنے آجائیں گی،خاص طور پر اس حوالے سے بارہ برجوں کی بنیادی خصوصیات اور ان کے لو اسٹائل پر ویڈیوز قابل ذکر ہیں۔