سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے بیوی کے سوا‘ شیخ رشید علمِ نجوم کی روشنی میں

چاند سورج گہن کے اثرات اور عملیات و نقوش کے حوالے سے بعض لوگ اپنی الجھنوں کا اظہار کرتے ہیں اور مختلف سوالات کے ذریعے وضاحت طلب کرتے ہیں چناں چہ ہم نے ضروری سمجھا کہ ایسے تمام سوالات کے جوابات ضرور دیے جائیں تاکہ ہمارے قارئین کی الجھن بھی دور ہوسکے اور عملیات کے حوالے سے جو غلط فہمیاں یا گمراہ کن نظریات نام نہاد عاملوں نے پھیلا رکھے ہیں،ان پر بھی کھل کر بات ہوسکے۔

گہن اور حاملہ خواتین

پہلا سوال گہن کے اثرات سے متعلق ہے یعنی اُس وقت میں حاملہ خواتین کو احتیاط کا مشورہ دیا جاتا ہے، کسی موثر گہن کی لپیٹ میں آکر بچہ ماں کے پیٹ میں کسی نقصان کا شکار ہوسکتا ہے،اس کی گروتھ رک سکتی ہے یا ہاتھ پاوں وغیرہ مُڑ سکتے ہیں ، جسم پر کوئی نشان وغیرہ آسکتے ہیں۔
جدید میڈیکل سائنس اس بات کو تسلیم نہیں کرتی،اُس کی وجہ یہ ہے کہ جن سائنس دانوں نے یا میڈیکل کے ماہرین نے علم نجوم کے بنیادی اصولوں کو سمجھے بغیر اپنے جرنل مشاہدے اور تجربے کو سامنے رکھا وہ یقینا گہن کے وقت کی مخصوص تاثیر کا انکار کریں گے لیکن دنیا میں ایسے ڈاکٹر یا سائنس داں بھی موجود ہیں جو میڈیکل کے ساتھ ایسٹرولوجی کا بھی علم رکھتے تھے اور بنیادی اصولوں کو سمجھتے تھے،انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات سے ثابت کیا ہے کہ گہن کے وقت سورج یا چاند کی روشنی ایک مخصوص کثافت رکھتی ہے لہٰذا جنین پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن بنیادی اصول یہ ہے کہ صرف ایسے چاند یا سورج گہن کسی علاقے پر اپنا بھرپور اثر ظاہر کرتے ہیں جہاں وہ نظر بھی آرہے ہوں، اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوگا کہ گہن کس قدر مکمل اور بھرپور ہے یا نامکمل اور جزوی ہے ، اسی حساب سے گہن کے اثرات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر 19 اکتوبر کو لگنے والا چاند گہن شمالی اور جنوبی امریکہ میں نظر نہیں آئے گا لیکن ایشیائی ممالک میں دکھائی دے گا اور ایک بھرپور گہن ہوگا لہٰذا ایشیائی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی۔
اسی طرح 3 نومبر کا سورج گہن پاکستان میں نظر نہیں آئے گا لیکن عرب ممالک اور یورپی ممالک میں دیکھا جاسکے گا گویا اس کے براہِ راست اثرات ان ممالک پر پڑیں گے اور ان علاقوں میں رہنے والی حاملہ خواتین کو یقینا احتیاط کی ضرورت ہوگی۔
قصہ مختصر یہ کہ میڈیکل سے وابستہ جو ڈاکٹر صاحبان اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہیں وہ ایسٹرولوجی سے مکمل واقفیت کے بغیر اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں اور ایسٹرولوجی سے خدا واسطے کا بیر بھی رکھتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے اکثر ایلوپیتھ ڈاکٹر ہومیو پیتھی جیسی عظیم سائنس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک بڑی دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایسٹرولوجی ہو یا ہومیو پیتھی یا کوئی اور علم یا سائنس ، مخالفت برائے مخالفت کرنے والے اکثر افراد خود مذکورہ بالا علوم سے قطعی طور پر ناواقف ہوتے ہیں،وہ صرف اپنے محدود علم کی روشنی میں کسی بھی علم کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں، یہی صورت حال ہمارے ہاں مذہبی معاملات میں بھی ہے،الا ماشاءاللہ۔
امید ہے مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں ہمارے قارئین اس حقیقت کو جان گئے ہوں گے کہ گہن کے اوقات میں حاملہ خواتین کو کس صورت میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

عملیات میں زکات کی ضرورت

ایک اہم مسئلہ حروف صوامت یا کسی بھی عمل کی زکات کا ہے،بعض نام نہاد اور پیشہ ور قسم کے لوگ یا بعض ”علامہ“ بننے کے شوقین حضرات لوگوں میں اس حوالے سے بڑا خوف و ہراس پھیلاتے ہیں اور عجیب عجیب باتیں یا نظریات پیش کرتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا مثلا یہ کہ کوئی بھی عمل بغیر زکات ادا کیے نہیں کرنا چاہیے ورنہ اس کا اثر نہیں ہوگا یا بغیر زکات عمل کرنے سے رجعت ہوجائے گی اور عمل کرنے والے کو کوئی نقصان پہنچ جائے گا اور بھی بہت سی ایسی ہی باتیں اکثر سننے میں آتی ہیں ، لوگ ہم سے ان حوالوں سے مختلف سوالات پوچھتے رہتے ہیں ۔
ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اہم مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کریں تاکہ ہر قسم کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے،اس سلسلے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ جو لوگ خلق خدا کی خدمت کے لیے عملیات کے میدان میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے کسی بھی عمل کی زکات ادا کریں لیکن عام لوگ جو صرف اپنی کسی ضرورت کے لیے کوئی عمل یا وظیفہ کرتے ہیں ان پر اس قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے،انتہائی جائز کاموں مثلاً رزق و روزگار میں برکت، میاں بیوی میں محبت، دشمنوں سے تحفظ، بیماریوں اور دیگر تکالیف سے نجات، خوش حالی اور مالی فراوانی الغرض اسی نوعیت کی بنیادی انسانی ضروریات کے حصول کے لیے آپ اگر کوئی بھی عمل یا وظیفہ کریں یا نقش و تعویذ لکھیں تو اس کی اجازت اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے ہر انسان کو ہے اور ایسے جائز کاموں میں کسی نقصان یا رجعت وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن اس کے برعکس جب ہم اپنی ناجائز خواہشات یا حد سے بڑھی ہوئی خواہشات کے غلام ہوکر ایسے عملیات و وظائف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جن کا مقصد کچھ خصوصی قوتیں حاصل کرنا ، دوسروں کو نقصان پہنچانا یا کسی ماورائی قوت جنات ، ہمزاد یا مو¿کلات وغیرہ کی تسخیر کرنا ہو تو یقینا بڑے بھیانک قسم کے خطرات موجود ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں عمل کرنے والے کا دماغ الٹ سکتا ہے ، وہ پاگل ہوسکتا ہے یا ہلاکت کا شکار ہوسکتا ہے،ایسے ہی عملیات کے لیے کہا گیا ہے کہ کسی کامل اُستاد اور رہنما کی نگرانی میں کیے جائیں اور اُستاد بھی اس بات پر نظر رکھے کہ شاگرد ایسے کسی عمل کا متحمل بھی ہوسکتا ہے یا نہیں جب کہ ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ اول تو آج کل چند روز کسی کی صحبت میں رہ کر یا چند کتابیں پڑھ کر ہر شخص خود کو اُستادِ زمانہ سمجھنے لگتا ہے اور بلا جھجک شاگردوںکو ایسے ایسے عملیات کی ترغیبدیتا ہے جن کی وہ کوئی اہلیت ہی نہیں رکھتے یا جنہیں انجام دینے کے لیے ان کی ضروری ابتدائی تربیت بھی نہیں ہوتی، ہمارے پاس ایسے بے شمار افراد آتے رہے ہیں جو کسی کے بتائے ہوئے عمل کی رجعت کا شکار ہوگئے اور بعد میں ان کے استاد نے بھی ان سے اپنی جان چھڑالی،ایسے عملیات میں معقول رہنمائی اور اجازت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے بھی زیادہ ابتدائی روحانی تربیت درکار ہوتی ہے،یہ طریقہ غلط ہے کہ کسی کتاب میں یا کسی رسالے میں کوئی عمل پڑھا اور شروع کردیا، ایسی صورت میں عام طور پر نتیجہ بہتر نہیں نکلتا بلکہ کسی نقصان کا خطرہ رہتا ہے،یہی صورت حروفِ صوامت یا دیگر حروف کی زکات کے سلسلے میں ہے۔
ابتدائی تربیت سے مراد یہ ہے کہ انسان نہ صرف یہ کہ اپنے جسمانی، جذباتی اور روحانی نقائص پر کنٹرول کرے بلکہ متعلقہ علوم کے بارے میں اس کی معلومات بھی مستند اور قابل بھروسا ہوں۔

علم جفر

علم جفر ، علم الحروف پر انحصار کرتا ہے کیوں کہ اس علم میں حروف اور اعداد کی باطنی قوتوں کو اجاگر کرکے ان سے کام لیا جاتا ہے،عام طور پر علم جفر کی دو اقسام مشہور ہیں ، پہلی ”اخبار“ اور دوسری ”آثار“
اخبار سے مراد علم الحروف کا وہ جفری طریقہ ءکار ہے جس کے ذریعے ”خبر“ حاصل کی جاتی ہے یعنی کسی کے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے،اس کے لیے پہلے ایک سوال لکھ لیا جاتا ہے اور پھر اس سوال کی عبارت کے تمام حروف علیحدہ علیحدہ لکھے جاتے ہیں، بعد ازاں مخصوص اصول و قواعد کے تحت ان حروف کو گردش دی جاتی ہے اور سوال کا جواب برآمد کیا جاتا ہے،اس طریقہ ءکار کو اصطلاحاً ”مستحصلہ“کہا جاتا ہے۔
علم جفر کی دوسری شاخ ”آثار“ اثر پذیری کے لیے استعمال ہوتی ہے یعنی حروف کی باطنی قوتوں کا ادراک حاصل کرکے مخصوص مقاصد کے لیے ، مخصوص طریقہ ءکار اختیار کیا جاتا ہے،اس اعتبار سے علم جفر کے حصہ ءآثار کی مزید کئی اقسام سامنے آتی ہیں جن میں نقوش اور طلسم کے ساتھ وظائف بھی نمایاں ہیں لیکن بنیادی طور پر اس میں بھی حروف اور اعداد کی کرشمہ سازی ہوتی ہے۔
حروف کی بہت سی اقسام علم جفر میں موجود ہیں لہٰذا اس راستے پر باقاعدہ طور پر قدم رکھنے کے لیے علمائے جفر تمام حروف کی زکات ادا کرنے کو افضل سمجھتے ہیں اور اس زکات کی ادائیگی کا بھی مخصوص طریقہءکار ہے لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ زکات کی ضرورت انہی لوگوں کو پیش آتی ہے جو خلق خدا کے درمیان کام کرنا چاہتے ہیں،عام آدمی کو اپنی جائز ضروریات کے لیے اور ذاتی طور پر کسی عمل کے لیے باقاعدہ کسی زکات کی ضرورت نہیں ہوتی،البتہ جب کوئی عمل یا نقش خلق خدا کی جائز ضروریات کے لیے شائع کیا جاتا ہے یا کسی کو بتایا جاتا ہے تو صاحب عمل(جس نے عمل کی زکات دی ہو) کی اجازت ضروری ہوتی ہے،اس طرح عمل کی تاثیر میں زور پیدا ہوتا ہے۔

جفر و نجوم

علم جفر اور علم نجوم کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے،دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا لہٰذا جفری اعمال و نقوش یا طلسمات علم نجوم کی مددوتعاون کے محتاج ہیں اور علم جفر سے کام لینے والے عاملین پر لازم ہے کہ وہ علم نجوم سے بنیادی واقفیت ضرور رکھتے ہوں تاکہ عمل کے لیے مناسب اور دُرست وقت کا انتخاب کرسکیں، یاد رکھیں کوئی بھی جفری عمل خواہ کتنا ہی تیر بہ ہدف کیوں نہ ہو اگر مناسب اور درست وقت پر نہیں کیا جائے گا تو ہر گز موثر نہیں ہوگا،ہمارے ہاں اکثر علم جفر میں مہارت اور کاملیت کا دعویٰ کرنے والے علم نجوم سے بے بہرا ہوتے ہیں،زیادہ سے زیادہ علم الساعات کا سہارا لیتے ہیں،ہم ایسے لوگوں سے بھی ملے ہیں جنہیں سیارگان کے شرف و ہبوط یا دیگر نظراتِ کواکب کے بارے میں بھی کوئی علم نہیں ہوتا لیکن وہ خود کو عملیات و نقوش کے میدان کا چیمپئن سمجھتے ہیں۔
وقت کی سعادت و نحوست کو جاننے اور سمجھنے کے لیے علم نجوم سے واقفیت ضروری ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اس میدان میں کوئی کارکردگی دکھانا چاہتے ہوں،یہ بھی جان لینا چاہیے کہ صرف اعمال جفر ہی وقت کی سعادت و نحوست کے محتاج نہیں ہیں بلکہ دیگر عملیات بھی اگر مناسب وقت پر نہ کیے جائیں تو مو¿ثر نہیں ہوتے بلکہ کسی خرابی کا باعث بھی بن سکتے ہیں مثلاً سیارہ عطارد یا مریخ کی رجعت کے اوقات کسی عمل کو یا چلّے کو شروع کرنے کے لیے کبھی موزوں تصور نہیں کیے جاتے،ایسے عمل یا چلّے ناکامی کا شکار ہوتے ہیں یا دوران عمل عامل کو کسی نہ کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
عزیزان من! امید ہے کہ اس قدر وضاحت کے بعد آپ کی بہت سی الجھنیں دور ہوگئی ہوں گی اور ہمارے مندرجہ بالا بیان کی روشنی میں بہت سی گمراہ کن باتوں کا جواب بھی مل گیا ہوگا ، اس کے علاوہ بھی اگر کسی مسئلے میں کوئی ابہام یا الجھن موجود ہو تو آپ مزید سوالات کرسکتے ہیں۔