بنیادی اثرات اور سیاروی گردش سے پیدا شدہ حالات و واقعات

کسی بھی زائچے کی درستی کے لیے ضروری ہے کہ اسے آزمایا جائے، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے، امریکا کے جس زائچے پر ماہرین نجوم بھروسا کرتے ہیں، اس پر تقریباً دس سال ٹیسٹنگ ورک ہوتا رہا اور خیال رہے کہ یہ زائچہ 2 فروری 1781 ءسہ پہر 5 بجے بمقام اناپولس بنایا گیا ہے۔
پاکستان کے موجودہ زائچے کو بھی ہم گزشتہ دس سال سے ٹیسٹ کر رہے ہیں، یہ حالات و واقعات پر نہ صرف یہ کہ پورا اترتا ہے بلکہ اپنے بنیادی اثرات سے پاکستان کے دسمبر 1970 ءسے اب تک کے حالات و واقعات اور پاکستانی قوم کے مزاج کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔
زائچے کا پہلا گھر برج ثور ہے، سیارہ زہرہ اس کا حاکم ہے جو زائچے کے چھٹے گھر کا اصل حاکم ہے اور زائچے میں نویں گھر میں عین اس ڈگری پر ہے جو زائچے کا حساس پوائنٹ ہے یعنی تین ڈگری، برج ثور ایک ثابت (Fixed) برج ہے، اس کی مضبوطی اور استقامت اپنی جگہ مسلّم ہیں، چھٹے گھر کا حاکم ہونے کی وجہ سے جو سول و ملٹری سروسز کا ہے اور نویں گھر میں ہونے کی وجہ سے جو آئین و قانون سے متعلق ہے، اس ملک پر سول اور ملٹری بیوروکریسی کا اثرورسوخ اور غلبہ ابتدا ہی سے نظر آتا ہے، زہرہ نویں گھر میں تقریباً تین ڈگری پر ہے اور تیسرے گھر (پہل کاری، روز مرہ امور، اہم فیصلے اور اقدام) کا حاکم قمر نویں گھر میں تقریباً پانچ ڈگری پر ہے، گویا زہرہ اور قمر کے درمیان قریبی قران ہے، دو سیارے اگر ایک دوسرے سے پانچ ڈگری کے فاصلے پر ہوں تو وہ ایک دوسرے کو متاثر کریں گے،چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک پر سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ تقریباً ہر معاملے میں اپنا غالب اثرورسوخ رکھتی ہے،کسی بھی زائچے کا چھٹا گھر اختلاف، تنازعات سے بھی متعلق ہوتا ہے، زہرہ اور قمر کا قران نویں گھر میں مختلف نوعیت کے اختلافات اور تنازعات کو جنم دیتا رہتا ہے اور اس کی ابتدا نئے آئین کی تیاری اور نفاذ کے فوری بعد ہوگئی تھی، پہلا بڑا اختلاف قومی زبان کے حوالے سے سامنے آیا،ملک کے تین صوبوں نے اردو کو قومی زبان کے طور پر قبول کیا لیکن سندھ میں اس کے برخلاف فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک بہت بڑے تنازع نے جنم لیا جو آج تک جاری ہے،آج تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ اس ملک کی قومی زبان درحقیقت کیا ہے؟اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی ماضی کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں، حد یہ کہ ایک مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جرنل ضیاءالحق بھی یہ کام نہیں کرسکا، اس حوالے سے مقتدرہ قومی زبان کے سابق سربراہ میجر آفتاب حسن کا واقعہ نہایت چشم کشا ہے،جنرل ضیاءالحق ان کے بہت مداح تھے مگر انھوں نے بھی میجر صاحب سے معذرت کرلی تھی اور کہا تھا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ کام ہوجائے لیکن اسمبلی میں موجود ممبران نہیں چاہتے۔
گویا زائچے کا تیسرا گھر اور اس کا حاکم سیارہ قمر ایسی پوزیشن میں ہے جو اس قوم کو کسی ایک مثبت راستے پر متفق نہیں ہونے دیتا، اختلافات و تنازعات کا ایک لامتنازعی سلسلہ ہے جو جاری ہے اور جاری رہے گا۔
زائچے کا چوتھا گھر جس کا حاکم سیارہ شمس ہے، نہایت اہمیت کا حامل ہے،دنیاوی علم نجوم(ملکی اور قومی) میں زائچے کے گھروں کی منسوبات کسی عام شخص کے زائچے کی منسوبات سے مختلف ہوتی ہےں، پانچواں گھر داخلی معاملات، اپوزیشن جماعتیں اور عوامی دلچسپی کے امور سے متعلق ہے،سیارہ شمس زائچے کے آٹھویں گھر میں کمزور حالات میں ہے، زائچے کے انتہائی ناقص اثرات دینے والے گھروں میں آٹھویں گھر کا شمار ہوتا ہے، چناں چہ پاکستان کے داخلی معاملات ابتدا ہی سے بہتر نہیں رہے،یہی صورت حال ہمیشہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی رہی اور یہی ابتری عوام کی رہی جو تاحال جاری ہے۔
زائچے کا پانچواں گھر ، اس کا حاکم سیارہ عطارد ساتویں گھر میں طاقت ور اور مضبوط پوزیشن رکھتا ہے،پاکستان میں موجود اعلیٰ درجے کے ٹیلنٹ کی نشان دہی کرتا ہے لیکن یہ ٹیلنٹ خود پاکستان کے لیے فائدہ مند نہیں ہے کیوں کہ عطارد ساتویں گھر میں ہے جس کا تعلق لوگوں کے بیرون ملک قیام سے ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدا ہی سے لوگ روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر جانے لگے اور ملک کا نہایت باصلاحیت طبقہ بیرون ملک مقیم ہونے لگا، پانچواں گھر شعور ، آرٹسٹک صلاحیتوں اور دیگر علمی صلاحیتوں کا ہے، اعلیٰ تعلیم سے متعلق ہے، چناں چہ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا اضافہ نہیں ہوا،گزشتہ پچاس سال میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا بھی اضافہ ہوا مگر افسوس کے اعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں کے حامل افراد ملک سے باہر قیام پر مجبور ہوئے۔
زائچے کا چھٹا گھر بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے،سول اور ملٹری سروسز ، عدالتی فیصلے اور کارروائی، الیکشن کا انعقاد، الیکشن کمیشن کی عملی کارکردگی، ساتھ ہی اختلافات و تنازعات بھی اسی گھر سے متعلق ہےں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اس کا حاکم زہرہ ہے، اگرچہ زائچے میں کمزور ہے لیکن نویں گھر میں اچھی جگہ مقیم ہے اور تیسرے گھر کے حاکم سے قران رکھتا ہے، یہ صورت حال حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کی نشان دہی کرتی ہے، مزید یہ کہ اس گٹھ جوڑ میں دیگر اہم ادارے بھی شریک ہونے پر مجبورہیں، مثلاً الیکشن کمیشن اور عدلیہ۔
زہرہ عین تین ڈگری پر نویں گھر میں موجود ہے، نواں گھر آئین و قانون ، مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق ہے،زائچے میں زہرہ چھٹے گھر کا حاکم ہونے کی وجہ سے فعلی طور پر نحس اثرات کا حامل ہے اور آئین سازی میں اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو اولیت دے گا، چناں چہ 73 کا آئین نافذ ہونے کے فوری بعد ترامیم کا سلسلہ شروع ہوا، آئین کے خالق جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے آئین کو تقریباً معطل کردیا تھا، تمام اہم ادارے (فوج کے علاوہ) اپنے کنٹرول میں لے لیے تھے، چناں چہ پہلا بڑا تنازع 77 ءکے انتخابات کے بعد شروع ہوا اور نتیجے کے طور پر ملک میں 5 جولائی کو مارشل لاءلگادیا گیا، خیال رہے کہ 6 نومبر 1976 ءسے زائچے کے مطابق سیارہ قمر کے دور اکبر میں سیارہ مشتری کا دور اصغر جاری تھا جو 8 مارچ 1978 ءتک جاری رہا، یہ ایک انتہائی ناقص اور نقصان دہ دور تھا۔
گزشتہ پچاس سال کی تاریخ کی تشریح زائچے کے مطابق ایک طولانی کام ہے، اسی طرح زائچے کی خوبیوں اور خامیوں کا مکمل تجزیہ بھی یہاں ممکن نہیں، البتہ ایک اہم سیاروی پوزیشن کا تذکرہ ضروری ہے، زائچے کا دسواں گھر تقریباً ہر زائچے میں نہایت اہم حیثیت کا حامل ہوتا ہے، ملکی علم نجوم میں دسواں گھر ایگزیکٹوز، پارلیمنٹ، انتظامیہ، غیر ملکی تجارت اور امن و امان سے متعلق ہے، گویا اس میں سربراہ مملکت اور اس کی کابینہ بھی شامل ہے اور بزنس مین بھی اس زمرے میں آتے ہیں، موجودہ زائچہ پاکستان میں دسواں گھر برج دلو ہے، اس کا حاکم سیارہ زحل زائچے میں مثبت اثر کا حامل اور پہلے گھر میں قابض ہے، چناں چہ اچھی جگہ ہے اور درجات کے اعتبار سے بھی طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے، خرابی یہ ہوئی ہے کہ راہو جو نویں گھر میں قابض ہے سیارہ زحل سے قریبی نظر رکھتا ہے، راہو کا تعلق ملکی ایسٹرولوجی میں سیاست سے ہے، راہو کو فریبی اور دھوکے باز کہا گیا ہے، عام طور پر غیر قانونی سرگرمیاں بھی راہو کے دائرئہ اثر میں ہےں، چناں چہ راہو کی سیارہ زحل پر نظر بڑی معنی خیز ہے، چناں چہ مشاہدہ یہ ہے کہ بڑے بڑے جمہوریت پسند بھی جب ایک بار وزیراعظم ہاو¿س میں داخل ہوگئے تو ان کے رنگ ڈھنگ میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی اور بعد ازاں جو تِری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا۔
یہ صورت حال راہو کی نظر کے سبب کابینہ اور پارلیمنٹ کی بھی مشاہدے میں آتی ہے، ہمارے خیال سے اس صورت حال سے بچنے کے لیے پارلیمانی نظام حکومت مناسب نہیں ہے، ہماری بین الاقوامی تجارت بھی راہو کی اس نظر کا شکار رہی ہے،ہمارے بزنس مین بین الاقوامی معیار کو برقرار نہیں رکھ سکے۔
جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا تھا کہ طالع برج ثور کے لیے سیارہ مریخ ، زہرہ اور مشتری فعلی ناموافق ہیں، اس کے علاوہ راہو کیتو تقریباً ہر زائچے کے لیے ناموافق اثرات کے حامل ہوتے ہیں، جب جب ان ناموافق سیارگان کے ادوار آئے ہیں، ملک کو مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، گزشتہ پچاس سالہ دور کا جائزہ یہاں ممکن نہیں ہے،ہم صرف حال پر توجہ دیں گے۔
ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ زائچہ ءپاکستان کے مطابق 19 نومبر 2007 سے شروع ہوا، اس وقت راہو کی مہادشا جاری تھی اور انتردشا (سب پیریڈ) سیارہ مریخ کی شروع ہوئی تھی، 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا سانحہ پیش آیا اور اس کے بعد 2008 ءمیں انتخابات ہوئے، اسی راہو مریخ کے پیریڈ میں جنرل مشرف کی رخصتی ہوئی اور 6 دسمبر 2008 سے سیارہ مشتری کی مہادشا شروع ہوئی جب کہ انتردشا بھی مشتری کی تھی، مشتری زائچے کا سب سے زیادہ منفی اثر ڈالنے والا سیارہ ہے کیوں کہ آٹھویں گھر کا حاکم ہے،چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج پاکستان جس مقام تک آگیا ہے، اس کی ابتدا 6 دسمبر 2008 سے ہی ہوئی تھی،دسمبر 2008 ہی میں این آر او کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا اور پھر پیپلز پارٹی کا پورا دور حکومت اسی این آر او کے عذاب کو بھگتتے گزرا، حد یہ کہ ایک وزیراعظم کی قربانی بھی دینا پڑی۔
مشتری کے دور اکبر میں 7 اگست 2013 سے سیارہ عطارد کا دور اصغر شروع ہوا، خیال رہے کہ دور اکبر ایک مجموعی اچھے یا برے اثر کا حامل ہوتا ہے لیکن دور اصغر کی اچھی یا بری عملی صورت نمایاں طور پر نظر آتی ہے،سیارہ عطارد زائچے کا طاقت ور سیارہ ہے اور اچھی پوزیشن رکھتا ہے، چناں چہ مرکزی خراب دور کے باوجود عطارد کے دور میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے، ہم نے اس وقت زائچے کی سالانہ ریڈنگ میں لکھا تھا کہ نواز شریف صاحب کا ہنی مون پیریڈ جاری ہے چناں چہ عمران خان کے دھرنے کے باوجود حکومت کا کچھ نہیں بگڑا بلکہ بہت سے مثبت منصوبے شروع ہوئے جن میں سی پیک بھی تھا۔
خیال رہے کہ ملکی زائچہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی سربراہ مملکت کا زائچہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے،13 نومبر 2015 سے مشتری کے دور اکبر میں کیتو کا دور اصغر شروع ہوا جو 19 اکتوبر 2016 تک جاری رہا، اسی دوران میں جناب نواز شریف کا ذاتی زائچہ اور ان کا زائچہ حلف دونوں کی پوزیشن مزید خراب ہوئی جس کے نتیجے میں وہ پانامہ کیس کا شکار ہوکر اقتدار سے محروم ہوئے۔
16 اکتوبر 2016 سے دوسرے فعلی ناموافق سیارے زہرہ کا دور شروع ہوا جو 20 جون 2019 تک جاری رہا، زہرہ چوں کہ چھٹے گھر کا حاکم ہے، اختلافات و تنازعات کے علاوہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی کارروائی بھی اس کے دور کا ثمرہ ہے، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس تمام عرصے میں اختلافات و تنازعات کا ایک طوفان بدتمیزی برپا رہا، الیکشن بھی ہوئے اور عدلیہ کی فعالیت بھی نمایاں رہی۔
ادوار کے ساتھ ساتھ سیاروی گردش بھی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے بلکہ ادوار کے اثر پر غالب رہتی ہے،ایک بدترین صورت حال اس وقت نمایاں ہوئی جب دسویں گھر کے مالک سیارہ زحل نے دسمبر 2017 ءمیں زائچے کے آٹھویں گھر میں قدم رکھا،آٹھواں گھر مصیبت کا گھر ہے، سیارہ زحل سست رفتار ہے، کسی ایک برج میں تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ گزارتا ہے، پاکستان کے زائچے میں زحل دسویں اہم ترین گھر کا حاکم ہے،چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمام عرصہ یعنی 25 جنوری 2020 تک کا عرصہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کے لحاظ سے نہ صرف یہ کہ انتہائی ناقص رہا بلکہ تجارتی اعتبار سے بھی بدترین رہا، گویا مہادشا، انتردشا مشتری و زہرہ کی نہایت ناقص، دسویں گھر کا حاکم آٹھویں گھر میں اور اس پر طرفہ تماشا اسی گھر میں کیتو کی آمد اور گزشتہ سال 2019 میں سارا سال کیتو اور زحل کے درمیان قران کی کیفیت۔
20 جون 2019 سے مشتری کے دور اکبر میں شمس کا دور اصغر شروع ہوا، شمس کی پوزیشن کے بارے میں پہلے ہی وضاحت کی جاچکی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں جو کہ 7 اپریل 2020 تک رہا، عوام کی چیخیں نکل گئیں۔
زائچہ ءپاکستان کی یہ ساری کتھا کہانی ہماری ایک پوسٹ کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی، ہم نے لکھا تھا کہ پاکستان کے آنے والے سال بہتر ہوں گے، اسی پر آفتاب اقبال نے فرمائش کی تھی کہ اس حوالے سے تفصیلی تجزیہ پیش کیا جائے چناں چہ ہماری نظر میں نہایت مثبت بات یہ ہے کہ اس سال 25 جنوری سے سیارہ زحل زائچے کے نویں گھر میں داخل ہوچکا ہے یہ اس کا اپنا گھر ہے یعنی برج جدی، زائچے کا نواں گھر عدالتی نظام، اخلاقیات، مذہب، آئین و قانون، سفارت کاری ، غیر ملکی مشن، تعمیر اور ترقیاتی امور سے متعلق ہے،یہاں زحل کی آئندہ ڈھائی سال تک موجودگی بلاشبہ ملک میں بہتر نتائج کا باعث ہوگی، 7 اپریل 2020 سے 7 اگست 2021 تک مشتری کی مہادشا میں قمر کی انتردشا جاری ہے،قمر تیسرے گھر کا حاکم ہے جو ایکشن کا ، نئے فیصلوں اور اقدام کا گھر ہے، پہل کاری کا گھر ہے،بے شک زائچے میں چھٹے گھر کے حاکم زہرہ سے متاثر ہے لیکن اس کا سعد اثر بعض تنازعات کے ساتھ نظر آئے گا، مزید یہ کہ 2023 میں یہ اگلے برج دلو میں داخل ہوگا یعنی دسویں گھر میں اور یہاں بھی تقریباً ڈھائی سال قیام کرے گا اور اس کے بعد اس سے اگلے برج حوت میں ڈھائی سال قیام کرے گا جو گیارھواں گھر ہے گویا آنے والے ساڑھے سات سال زائچہ پاکستان میں ترقی ، تعمیر اور حکومتی استحکام کے سال ہوں گے، مزید خوش خبری یہ ہے کہ 6 دسمبر 2024 سے زائچے میں سیارہ زحل کا دور اکبر شروع ہوگا(مہادشا) جو 19 سال کی ہوتی ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2025 سے پاکستان ایک نئے ترقی کے سفر پر گامزن ہوجائے گا، ان شاءاللہ۔

جو راہ ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے

زائچہ پاکستان پر جاری تجزیاتی گفتگو آخری مرحلے میں ہے، ضروری ہے کہ موجودہ سال کے حوالے سے بھی تھوڑا سا جائزہ لے لیا جائے، ہم پہلے نشان دہی کرچکے ہیں کہ اپریل تا مئی زائچے کے سب سے زیادہ ضرر رساں سیارہ مشتری کی پوزیشن ملک و قوم کے لیے نہایت صبر آزما اور مشکلات سے بھرپور رہیِ،جون سے ایک اور خرابی بھی شروع ہوئی جس کا تعلق راہو کیتو کی پوزیشن سے ہے،یہ دونوں پرچھائیں سیارے جب کسی ایک ہی درجے پر مستقیم پوزیشن میں آجائیں اور وہ درجہ زائچے کا حساس پوائنٹ بھی ہو تو جو کچھ نہ ہوجائے کم ہے۔
راہو کیتو تقریباً چار ڈگری جون سے اگست کے پہلے ہفتے تک مستقیم رہے جس کی وجہ سے زائچے کا دوسرا (معاشیات) چوتھا (داخلی امور) چھٹا (انتظامی امور) آٹھواں (حادثات و اموات) نواں (تعمیروترقی، آئین و مذہب) اور دسواں گھر (حکومت) بارھواں گھر(نقصانات اور خوف) بری طرح متاثر ہوئے، خیال رہے کہ تقریباً یہی صورت حال انڈیا کے زائچے کی بھی رہی کیوں کہ پاکستان کا طالع برج ثور اگر تین ڈگری ہے تو انڈیا کا 7 ڈگری اور 5 ڈگری سے کم فرق بہر حال متاثر کرتا ہے۔
راہو کیتو اس وقت تقریباً ایک ڈگری پر ہےں، اگرچہ اب مستقیم پوزیشن میں نہیں ہےں لہٰذا پہلے جیسے سخت اثرات بھی نہیں ہیں، 21 ستمبر کو یہ اپنے برج تبدیل کریں گے اور بالترتیب اپنے شرفی برج ثور اور عقرب میں آئندہ تقریباً ڈیڑھ سال کے لیے داخل ہوجائیں گے،چناں چہ گزشتہ مہینوں سے جاری مندرجہ بالا تمام امور میں جو دباو¿ موجود تھا، وہ ختم ہوجائے گا، ان شاءاللہ۔
ایک نہایت ہی ناموافق نظر 17 اگست سے سیارہ مریخ اور کیتو کے درمیان قائم ہے،یہ نظر بھی حادثات و سانحات لاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پورے ملک میں اور خاص طور پر کراچی میں بارش سے جو تباہی و بربادی پھیلی ہے یہ اسی نظر کا شاخسانہ ہے، اس نظر کا خاتمہ بھی 22 ستمبر کو ہوگا لیکن دوسری طرف سیارہ مریخ کی پوزیشن زائچے میں بہت عجیب ہے ، مریخ اس زائچے کا ایسا سیارہ ہے جو نقصانات اور خوف کی فضا پیدا کرتا ہے، یہ اپنے ذاتی برج حمل میں ، بارھویں گھر میں تین ڈگری مستقیم پوزیشن پر ہے اور 22 ستمبر تک اس کی پوزیشن یہی رہے گی، یہاں موجودگی کے دوران یہ زائچے کے تیسرے گھر (فیصلے و اقدام) چھٹے گھر(انتظامی مشینری) اور ساتویں گھر (تعلقات) کو متاثر کر رہا ہے،اس نظر کے تحت تیسرے گھر کی منسوبات نئے فیصلے اور اقدام بھی نظر آرہے ہیں اور چھٹے گھر کی منسوبات میں بھی غیر معمولی تحریک کا مشاہدہ ہورہا ہے، کراچی کے معاملے میں مقتدر و غیر مقتدر سب ہی ایک پلیٹ فارم پر نظر آئے، سندھ حکومت نے خاصے تدبر کا مظاہرہ کیا، بہ صورت دیگر کوئی ناخوش گوار صورت بھی سامنے آسکتی تھی، البتہ ساتویں گھر سے متعلق صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے،اندرونی اور بیرونی تعلقات کشیدہ ہیں، پڑوسی ملک بھارت سے جنگ کا خطرہ موجود ہے،سرحدی سیکٹرز میں ہلکی پھلکی موسیقی تو مسلسل جاری ہے لیکن کسی بڑے تصادم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یہی صورت حال داخلی باہمی تعلقات کی بھی ہے،اپوزیشن اور حکومت کے درمیان 17 اگست کے بعد ایک بار پھر شدید نوعیت کی کشیدگی اور محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوئی جو تاحال جاری ہے۔
بہر حال 22 ستمبر کے بعد موجودہ صورت حال میں شدید تناو¿ کی کیفیت ختم ہوگئی اور اکتوبر تک حالات خاصی حد تک نارمل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے (واللہ اعلم بالصواب)