آخر زندگی کا مقصد کیا ہے؟

مادّی اور روحانی کشا کش میں علم نجوم سے رہنمائی

عزیزان من! زیر نظر تحریر کو پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے‘ ہمیں روزانہ بہت سے خطوط ‘ ای میلز اور فون موصول ہوتے ہیں‘ ہر شخص کسی نہ کسی مصیبت یاپریشانی کا شکار نظر آتا ہے اور ہم سے مدد و مشورے کا طالب ہوتا ہے لیکن اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ زندگی کے مقصد اور فطرت کے حقیقی تقاضوں سے غافل ‘ اپنی خواہشات کی غلام نظر آتی ہے‘ امید ہے کہ اس تحریر کا مطالعہ شاید بعض لوگوں کو ان کے مسائل اور مصیبتوں سے نجات کا کوئی راستہ دکھا سکے۔
زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر انسان اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرتا ہے کہ آخر زندگی کا مقصد کیا ہے؟
ایک غریب آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ زندگی کے سارے دکھ جھیلنے اور مصائب اٹھانے کے لیے ایک وہی رہ گیا ہے جب کہ ایک امیر آدمی یہ سوچ سکتا ہے کہ زندگی کے سارے عیش و آرام سے لطف اندوز ہونے کا حق صرف اسی کو ہے‘ اگرچہ سارے انسان اپنی اپنی تقدیر کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جس کا انحصار ان کے اپنے ذاتی اعمال پر ہے‘ ان کی زندگی کا سفر مادّی آسائشات کے حصول یا روحانی سکون کے لیے جاری رہتا ہے لیکن یہ دو متضاد راستے ہیں‘ مادّی آسائشات کا حصول روحانی سکون سے محروم کردیتا ہے اور روحانی سکون کا حصول مادّی آسائشات سے دور ہونے پر مجبور کرتا ہے‘ ان دونوں راستوں میں توازن پیدا کرنا ایک بڑی آزمائش ہے جس میں قدم قدم پر انسان لڑ کھڑاتا ہے لیکن گرتا پڑتا اپنی منزل کی جانب بڑھتا رہتا ہے‘ وہ منزل جو فنا کی منزل ہے جس کے بعد سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔
دین اسلام کے علاوہ کوئی دین ایسا نہیں ہے جس نے ان دو راستوں میں توازن پیدا کرنے کے درست طریقے تعلیم کیے ہوں لیکن بد قسمتی سے ان طریقوں کو سمجھنے میں اکثر ہمیں دشواری پیش آتی ہے‘ شاید ہم ایسے موقعوں پر انسان کی بنیادی فطری کمزوریوں کا شکار ہوجاتے ہیں‘ خواہشات غالب آجاتی ہیں اور ہم وہی کچھ کرتے ہیں جس کی ترغیب ہمیں اپنی خواہشات کی جانب سے ملتی ہے‘ ایسی صورت میں زندگی کے اونچے نیچے راستے ہمارے لیے مزید مشکل اور کٹھن ہوجاتے ہیں اور پھر ہم اپنی قسمت کو الزام دینا شروع کرتے ہیں یا دیگر لوگوں سے متنفر ہوتے ہیں اور انہیں اپنی پریشانیوں یا ناکامیوں کا سبب سمجھتے ہیں۔

مسائل و مصائب

زندگی میں عوارض‘ حادثات‘ مالی وسائل کی کمی‘ جذباتی دھچکوں‘ شہوانی لذتوں میںزیادتی‘غصہ‘ حرص و ہوس‘ وابستگی وغیرہ کی شکل میں رکاوٹیں موجود ہیں ۔
روحانی آزادی اور سکون حاصل کرنے کے لیے کیا کِیا جائے اور اس کا ادراک کیسے کیا جائے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہی سب سے اہم سوال ہے جس کا سامنا امیرو غریب دونوں کو کرنا پڑتا ہے‘ ایک شخص کو رکاوٹوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنا راستہ بنانا پڑتا ہے‘ مقصد کے ادراک کا یقینی راستہ آفاقی اصولوں اور فطری تقاضوں سے ہو کرگزرتا ہے‘ زندگی میں ہمیں جو حاصل ہے‘اس پر قناعت کرنا اور انسانیت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا ہی اصل شارٹ کٹ ہے۔

آفاقی اصول و قواعد

آفاقی اصولوں میں رحم دلی‘ مہربانی‘ سخاوت‘ فیض رسانی‘ حرص و ہوس سے پاک ہونا‘ حسد‘ غبن‘ فراڈ‘ منافقت‘ دھوکہ دہی اور شہوانی لذتوں‘ غصہ‘ گھمنڈ اور رعونت سے اجتناب کر نا شامل ہے جب بھی ممکن ہو کسی شخص کے گناہوں کو کم کرنے میں مدد کرنا‘ اچھے اوصاف میںگنا جاتا ہے‘ علم انسان کو وابستگیوں سے آزاد کردیتا ہے اور قناعت انسان کو حرص‘ طمع‘ شہوت اور غصہ پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔

علم نجوم کی رہنمائی

سیارے شمس‘ قمر‘ مریخ‘ مشتری‘ زہر ہ اور زحل آفاقی خوبیوں اور ممنوعات پر حکومت کرتے ہیں جس میں صلاحیتیں‘ وجدانی قوتیں‘مسائل‘ رکاوٹیں وغیرہ نمایاں ہیں‘ ان کا انحصار کسی کے برتھ چارٹ میں سیارگان کی حاکمیت پر ہے۔
کسی کے پیدائش کے زائچے میںمضبوط شمس کا مثبت کردار‘ اچھی صحت‘ اچھی قسمت اور مضبوط قوت ارادی کے ذریعہ روح کا ارتقا ہے‘ کمزور یا متاثرہ شمس لالچ‘ قوت ارادی کے فقدان‘ حسد اور گھمنڈ کے ذریعے روح کے ارتقا کو روکتا ہے۔
ایک مضبوط قمر کا مثبت کردار ضروریات زندگی کے آسانی سے حصول‘ ایک فروغ پائے ہوئے دماغ اور قناعت کے ذریعے زندگی کے مقصد کے ادراک میںبہت ہی اہم ہے‘ اس صورت میںانسان زندگی کے سفر میں اپنا مشن جاری رکھ سکتا ہے‘ کمزور اور یا متاثرہ قمر کسی کو اس کی ماں کی مناسب دیکھ بھال سے محروم کر کے اس کی ذہنی نشوونما پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے سست کردیتا ہے‘ ازدواجی تعلقات اور ذہنی سکون کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔
ایک مضبوط مریخ کسی شخص کو اپنے ہدف کے حصول میںقدم اٹھانے اور جدوجہد کرنے کا زبردست جوش و جذبہ عطا کرتا ہے‘ جبکہ ایک کمزور یا متاثرہ مریخ کسی شخص کے لیے غصہ اور حد سے بڑھی ہوئی ہوس کے ذریعہ زندگی میںرکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔
مضبوط عطارد سوجھ بوجھ اور رابطہ کی صلاحیت عطا کرتا ہے جبکہ کمزور یا متاثرہ عطارد کسی شخص کو الجھن میں ڈال دیتا ہے اور رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے‘ یہ رکاوٹیں گھمنڈ سے پیدا ہوتی ہےں۔
ایک مضبوط مشتری کسی شخص کو شفیق‘ مہربان‘مخیّر‘ فیض رساں اور قانع بناتا ہے جبکہ ایک کمزور یا متاثرہ مشتری کسی کو خود غرض اور ظالم بناتا ہے۔
ایک مضبوط زہرہ مادی عیش و آرام فراہم کرتا ہے جب کہ ایک کمزوریا متاثرہ زہرہ مادّہ پرستی کے ذریعہ زندگی کے سفر میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔
ایک مضبوط زحل کسی کو لمبی محفوظ اور صحت مند زندگی عطا کرتا ہے جب کہ ایک کمزور یا متاثرہ زحل کسی کو فطری طور پر شکی مزاج بناتا ہے اور وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔
راہو اورکیتو بندشوں اور پابندیوں پر حکومت کرتے ہیں۔
راہو مادہ پرستی پر حکومت کرتا ہے‘ اگر یہ چارٹ میں اچھی جگہ واقع ہو اور دوسرے سیاروں یا گھروں سے قریبی قران تشکیل نہ دے رہا ہو تو اس کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی قوت میں کمی واقع ہوجاتی ہے‘ کسی دوسرے سیارے یا گھر سے اس کا قریبی قران مذکورہ سیارے یاگھر کے مثبت کردار میں بگاڑپیدا کرتا ہے‘ اگر مذکورہ سیارہ کمزور ہو تو متاثرہ سیارے یا گھر کے بگاڑ میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔
کیتو آلام و مصائب اور رکاوٹوں کی علامت ہے‘ کمزوریا متاثرہ سیاروں سے اس کا قریبی تعلق ہمیشہ سنگین مسائل کی نشاندہی کرتا ہے‘ کیتو کاقریبی اثر انسان کو اتنا بے بس کردیتا ہے کہ وہ اپنے مادّی مسائل‘ اپنی رکاوٹوں کو دور کرنے میں ناکام رہتا ہے‘ یہ حادثات اور سانحات کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ایسٹرولوجی میںکسی خاص شخص کے بارے میں اس کی پیدائش کے وقت کے لیے نوٹ کی جانے والی سیاروں کی پوزیشن کے ذریعے پیشگی علم ہوجاتا ہے کہ اس شخص کے دامن میں کیا ہے؟ مضبوطی‘ تعیناتی‘ سیاروں کے باہمی تعلقات ‘سیاروں کے فعال ادوار اورسیاروں کی پیدائشی پوزیشن پر سیاروں کی موجودہ پوزیشن کا مسلسل اثر‘ روحانی ارتقا اور زندگی کے مقصد کے حصول سمیت ہمیں زندگی کے راستے کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے‘ یہ ایک فلکیاتی سائنس ہے‘ غیب کا علم نہیں جیسا کہ عام لوگ خیال کرتے ہیں۔

مسائل کا حل

اوپر کے بیان کے پس منظر میں ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں امیروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ حرص و ہوس کی تکمیل میں خوا مخواہ کس طرح اپنے آپ کو ہلکان کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے اس مقصد سے ہٹ جاتے ہیں جو آفاقی اصولوں اور فطری تقاضوں کے مطابق ہے جبکہ نیک اور راست باز لوگ کبھی حرص و ہوس ‘ تکبر‘ گھمنڈ ‘ حسد اور جلن کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے اور ان کے آگے سر نہیں جھکاتے ‘ خدا کے نیک بندے انسان کو سیدھا اور سچا راستہ دکھانے کے لیے آتے جاتے رہتے ہیں‘ ان کا درس انسان کو اپنی حرص وہوس‘ غصہ‘ تکبر اور حسد جیسے خود پیدا کردہ مسائل سے بچانے کا اہل ہے۔

گہر ہائے دانش

خدا ان کے دلوں میںرہتا ہے جن کے دل حرص و ہوس‘ تکبر‘ گھمنڈ‘ غصہ‘ منافقت‘ دھوکہ ‘فریب‘ فراڈ سے پاک ہوں۔
خدا ان کے دلوں میںرہتا ہے جو خدا کو ہمیشہ اپنا خالق حقیقی‘آقا‘ دوست‘ معلم اور سب کچھ سمجھتے ہیں۔
سکون اور رحمت کے لیے ہم درج ذیل گہر ہائے دانش کی پیروی کر سکتے ہیں۔
-1زندگی میں ہمیشہ صابر وشاکر رہنا بے حد اہم ہے اگر چہ یہ بہت مشکل ترین بھی ہے ۔
-2اگر کسی سے کوئی غلطی یا غلط فہمی ہوجائے تو اسے تسلیم کرنے میں ہچکچانا نہیں چاہیے‘ اپنی جھوٹی انا سے جنگ کرنا چاہیے۔
-3 سیکھنے کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے۔
-4 عقل مند لوگ بے وقوفوں کی حرکتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
-5غصہ‘ لالچ‘ تجاوز کرنے کے رحجانات‘تکبّر‘ گھمنڈاور ہوس انسان کو اندھا کردیتے ہیں۔
-6 دانش ورانہ سوجھ بوجھ یا تخلیق کاری کے لیے انسان کو ذہانت‘تصور‘کھوجی ذہن‘ارتکاز‘صبر‘اعتماد اور مقصدیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
-7 سوجھ بوجھ‘ توازن و ہم آہنگی‘ اتحاد کا شعور اور برداشت‘ تعلق کے تسلسل کے لیے اہم ہیں۔

مزید گہر ہائے دانش

-1خدا ترس بندے دوسروں کو خوشیاں عطا کرتے ہیں جب کہ ہوس کے غلام دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے لیے زندہ رہتے ہیں لہٰذا جو لوگ علم نجوم سیکھ رہے ہیں یا پریکٹس کرتے ہیں‘ خدا ترس لوگوں کے طور طریقوں کو اپنائیں اور ان کی پیروی کریں۔
-2انسان کو اپنے والدین اور اساتذہ کی نصیحتوں پر عمل کرنا چاہیے‘ اس طرح وہ ہمیشہ خوش اور امن سے رہیںگے۔
-3 جو لوگ اپنے والدین اور خدا کا احترام نہیں کرتے اور بزرگوں سے خدمت لیتے ہیں‘ خبیث ہوتے ہیں‘ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے لیے پریشانیاں پیدا کرتے ہیں اور خود پریشانیوں اورآلام و مصائب کا شکار ہو کر تباہ ہوجاتے ہیں۔
-4اگر چہ صبر و شکر‘ تحمل اور برد باری ایک کامیاب اورپرسکون زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہےں لیکن فیاضی اور سخاوت سب سے اعلیٰ وصف ہے۔
انسان کا سب سے طاقتور اور سرکش دشمن”رغبت دنیا“ ہے۔ شمس‘ قمر‘ مریخ‘ عطارد‘ زہرہ اور زحل رغبت کی پرورش کرتے ہیں جب کہ راہو اسے حرص میںبدل دیتا ہے‘ حرص یالالچ انسان کو اندھاکردیتی ہے اور اس کی عقل پر پٹی باندھ دیتی ہے‘ وہ اپنی حرص میںبھلے برے کی تمیز کھو دیتا ہے۔
رغبت پر فتح پا کر ہر صورت حال میں فتح یاب ہو نے کے لیے ذیل کی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے۔
شجاعت اور استقلال‘راست بازی اور اچھا رویہ ‘مضبوطی‘ تمیز‘ ضبط و تحمل اور فیض رسانی ‘عفوودرگزر‘مروّت‘ ذہن کی ہمواری ‘ اللہ کی عبادت
غیر جانبداری ‘قناعت ‘فلاح وبہبود‘توجیہ ‘اعلیٰ دانش ‘خالص اور مستقل مزاج ‘توکّل‘اعتدال کی مختلف شکلیں ‘مذہبی مشاہدہ ‘خدا اور اپنے معلم کا احترام ‘خدا ترسی ۔

روحانی رہنمائی

روحانی ترقی ان لوگوں کے لیے زندگی کا نصب العین بن جاتی ہے جو روحانیت کا فروغ چاہتے ہیں‘ اس کا حصول علم اور اپنے آپ کو وقف کردینے سے ممکن ہے‘ علم کا راستہ مشکل اور کٹھن ہے جبکہ اپنے آپ کو وقف کردینے کا راستہ سادہ اور آسان ہے جس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
اعلیٰ ترین دانائی ان نقائص سے پاک ہوتی ہے جو ذیل میں درج ہیں۔
-1 گھمنڈ یا تکبر سے بے نیازی-2 منافقت سے آزادی-3 عدم تشدد-4عُفو و درگزر -5بے لوسی-6اپنی سوچ سے مخلص-7 جسم اور ذہن کا خالص پن -8مستقل مزاجی -9ذہنی یکسوئی-10شہوانیت پر قابو-11 اناپرستی سے پرہیز-12 پیدائش‘ موت‘ بڑھاپے اور عوارض میںپیدائشی یا باطنی برائیوں اور درد ناک کردار پر بار بار غور -13 اپنے خاندان‘ گھر وغیرہ کے معاملے میں ملکیت کے احساس اوروابستگی سے پرہیز -14 موافق اور ناموافق دونوں حالات میں مستقل ذہنی توازن -15 خدا پر غیر متزلزل یقین اور دین داری‘خراب لوگوں کی صحبت سے بے زاری-16 اپنے علم پر پختہ یقین اور خدا کو سچے علم کا مرکز و منبع سمجھنا۔

ظاہری و باطنی فریب

”میں‘ میرا‘ تُو اور تیرا “کا احساس ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی ایک فریب ہے‘ ہمارے حواس خمسہ سے جس چیز کابھی ادراک ہو اور جو ذہن کی رسائی کے اندر واقع ہو‘ فریب ہو سکتا ہے‘صرف دینی تعلیمات جو آفاقی ہیں‘ ہمیں اس فریب سے نجات دلا سکتی ہیں۔
جس نے تمام مافوق الفطرت عناصراور دنیاوی لذّتوںکو حقارت سے ٹھکرایا ہو اور جو تمام ایسی چیزوںکو حقیر سمجھتا ہو وہ انتہائی راست بازکہلاتا ہے اور یہ وہی ہے جو ظاہری وباطنی فریب سے آزاد ہوجاتا ہے۔
اس رہنمائی کو پیدائش کے سیاروں سے جوڑ کر مزید مشورے بھی دیے جا سکتے ہیں‘ باقاعدگی سے عبادت اور مراقبے کے ذریعے اپنی باطنی آفاقی قوت کو پہچاننے اور تقویت پہنچانے کی ضرورت کا احساس کرنا ‘ اعتماد کو فروغ دینے‘ خوف‘ ذہنی پریشانی اور پراگندہ خیالات کو کنٹرول کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے‘ مراقبہ دنیوی رغبت سے بے نیاز کردیتا ہے۔

روحانی سفر کے اہم سنگ میل

مختلف طالع برجوں میںپیدا ہونے والے افراد کے لیے روحانی سیاروں کی شناخت ضروری ہے تاکہ بہتر نتائج کے لیے ان کو تقویت پہنچائی جائے جو حسب ذیل ہیں۔
-1طالع حمل : مشتری اور شمس اس طالع کے لیے روحانی سیارے ہیں۔
-2طالع ثور: شمس روحانی سیارہ ہے۔
-3طالع جوزا : مشتری‘ شمس اور زحل روحانی امور پر حکمران ہیں
-4 طالع سرطان : شمس
-5طالع اسد:مشتری‘ شمس اور مریخ
-6 طالع سنبلہ : مشتری
-7 طالع میزان:مشتری اورشمس -8
طالع عقرب: مشتری‘ شمس اور قمر
-9طالع قوس: مشتری اور شمس
-10 طالع جدی: عطارد
-11 طالع دلو: مشتری‘ شمس اور زہرہ
-12 طالع حوت:مشتری روحانی سیارے کا کردار ادا کرتا ہے۔

روحانی راستے

خدا پر بھروسہ‘صبر وتحمل‘جب بھی ممکن ہوضرورت مندوں کی مدد‘اچھے لوگوں کی صحبت ‘قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ مطالعہ ‘قناعت کی مشق ‘خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا ‘ ہر حال میں اللہ کا شکر گزار رہنا ‘روحانی سیاروں کو تقویت پہنچانا ‘آفاقی و فطری طورطریقوں پر عمل کرنا۔

فیض رسانی

دوسروںیا ضرورت مندوں کے کام آنے ( نیک عمل) کو فیض رسانی کہتے ہیں اور یہ عمل خدا کے قرب کا ذریعہ ہے‘ آفاقی طورطریقہ میںیہ باتیں شامل ہیں۔
(الف)حرص و طمع‘ رغبت‘ حسد‘ فراڈ‘ منافقت اور دھوکے فریب سے پاک
(ب) مہربانی‘ شفقت‘ فیاضی اور فیض رسانی
(ج)مادّی آسائشوں ‘شہوانی لذتوں ‘ (شہوت) غصہ‘ تکبر اور گھمنڈ میں زیادتی سے پرہیز ۔
خدا ترس لوگوں کی دعائیں لینا‘ لوگوں کو گناہ سے بچنے میں مدد کرنا‘ آفاقی طورطریقے یا روحانی پریکٹس قناعت اور سکون عطا کرتی ہے‘ یہ لوگوں کو چاہتوں اور الفتوں سے بچاتی ہے‘ اس کے عوض قناعت انسان کو حرص و طمع‘ شہوت اور غصہ پر قابو پانے میں مدد گار ہوتی ہے۔