خوف اور یقین کے موضوع پر اب تک خاصی تفصیل کے ساتھ لکھا گیا ہے،یہ اس سلسلے کا آخری حصہ ہے،جس میں خوف سے نجات کے لیے مختلف تجاویز اور علاج پر گفتگو ہوگی۔
ہم پہلے یہ بات لکھ چکے ہیں کہ خوف کسی بھی قسم کا ہو، یقین کی قوت اور خود شناسی کا ہتھیار، اس کے مقابلے میں بے حد موثر اور معاون ثابت ہوتا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آپ جس شے سے خوف زدہ ہوں، جب ایک بار اس کا سامنا کرلیں یا دوسرے معنوں میں اس سے ٹکرا جائیں (خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے) تو پھر اس شے کا خوف خود ختم ہوجاتا ہے اور ایسا عموماً کسی اچانک پیش آنے والی صورت حال میں یا کسی ہنگامی حالت میں ہی ہوتا ہے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے، ہنگامی حالات میں آپ کی جسمانی، ذہنی اور روحانی کارکردگی کیوں بڑھ جاتی ہے؟ آپ وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو عام حالت میں نہیں کر پاتے، ایسے ایمرجنسی کے مواقع پر آپ کی ذہنی صلاحیتیں اور زائد دباو برداشت کرنے کی خصوصیات میں ایک دم اضافہ ہوجاتا ہے، ایک پاگل جنونی شخص کوئی خطرناک ہتھیار لیے آپ کے سامنے آتا ہے تو آپ کے دوڑنے کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے یا بھاگنے کا کوئی راستہ نطر نہ آئے تو آپ فوراً اپنے بچاو کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا غیر معمولی قدم اٹھالیتے ہیں کہ جو عام حالات میں ممکن ہی نہ تھا، بعد میں اکثر اپنے ایسے ہی کسی عمل پر حیرت بھی ہوتی ہے کہ یہ کام میں نے کیسے انجام دے لیا۔
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ہنگامی حالات میں انسان کی اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کر گزرنے کی صلاحیت جسم میں موجود ایک ننھے سے غدود سے وابستہ ہوتی ہے، اس غدود کا نام ”ایڈرنالین“ ہے، ایڈر نالین غدود کا کام یہی ہے کہ انسان کو ہنگامی صورت حال میں مدد فراہم کرے۔ ممکن ہے زندگی میں آپ کو بھی اس غدود کی معجزاتی قوت سے کبھی واسطہ پڑا ہو اور اس کے زیر اثر آپ نے جوش و جذبے، غم و غصے، اشتعال و خوف کے تحت ایسے کام کیے ہوں جن پر بعد میں سوچا جائے تو وہ ناممکن نظر آئیں، حالاں کہ وہ کام آپ ہی نے انجام دیے ہوئے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسم میں ایڈرنالین غدود کی موجودگی کی کیا وجہ ہے؟آخر کیوں قدرت نے انسانی بدن کا ایک حصہ اس چھوٹی سی شے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جس کا روز مرہ زندگی میں استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
ایڈرنالین سے متعلق ان تمام سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں انسان کی روز مرہ کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور اس کے معمولات کو سمجھنا پڑے گا۔
عام طور پر اگر آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں کی زندگیوں پر غور کریں تو ایک بات یقینی طور پر سامنے آتی ہے کہ درحقیقت وہ اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے نظر آتے ہیں، روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی بیماریاں، تلخیاں، مایوسیاں اور نقصانات کسی بڑی پریشانی یا مصیبت کے زمرے میں نہیں آتے، اس لیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان ان کا کوئی حل تلاش کرلیتا ہے اور کسی نہ کسی طور ان کا خاتمہ کرتا جاتا ہے، ان پریشانیوں، تکالیف، مصیبتوں کی آمد اور ان کے تدارک ، انسداد، حل کے لیے اسے کسی اضافی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی اور معمول کے مطابق وہ غیر ارادی طور پر سانس لینے کے عمل کی طرح خود بخود ساری زندگی جدوجہد کرتا رہتا ہے، اس جدوجہد کے لیے اس کے بدن میں موجود توانائی ہی کافی رہتی ہے جو فطرت نے اسے بخشی ہے ، یہ توانائی روز مرہ معمول کے لیے ہے، آدمی کی زندگی میں چند مواقع ایسے بھی آتے ہیں جو عام زندگی میں شامل نہیں کیے جاسکتے، چند ایسے واقعات جب اس کے جسم میں موجود قدرتی توانائی کے ذخیرے کم پڑجاتے ہیں اور اس کو اپنی گنجائش سے زیادہ توانائی کی ضرورت پرتی ہے، جب اسے گنجائش سے زیادہ ہمت، طاقت اور قوت کی ضرورت پرتی ہے ، تب ہی ایڈرنالین غدود کرشمے دکھاتا ہے۔
ایڈرنالین غدود کو ہم توانائی کے ایک ایسے ذخیرے کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں جو ویسے تو خاموش پڑا رہتا ہے لیکن وقت ضرورت اضافی توانائی مہیا کرکے کام کی انجام دہی میں مدد دیتا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک اضافی ریلوے انجن ہے جو میدانی اور ہموار راستوں پر تو چپ چاپ ریل گاڑی کے پیچھے گھسٹتا رہتا ہے لیکن جوں ہی پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے اس کی قوت کو آواز دی جاتی ہے اور یہ ایک دم جاگ کر سفر میں آگے برھنے کے لیے اضافی قوت فراہم کرتا ہے۔ آپ کی زندگی میں بھی جب کہیں کوئی پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے، دشوار بلندیاں سامنے آتی ہیں تو پھر اس ایڈرنالین کے انجن کا کام شروع ہوجاتا ہے اور اس کے جاگتے ہی انسان وہ کام کر گزرتا ہے جن کے کرنے کا وہ عام حالت میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔
جوں ہی انسان کسی ایسے موقع سے دوچار ہوتا ہے جہاں اس کی گنجائش اور استعداد سے بالاتر کام اس کے لیے ناگزیر ہوتا ہے تو پھر ایڈرنالین غدود متحرک ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی رطوبت خارج کرتا ہے جو فوراً ہی خون میں شامل ہوکر بدن میں کئی بنیادی تبدیلیاں لاتی ہے اور انسان ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے، یہ تبدیلیاں دوران خون میں اضافہ، اعصاب کی مضبوطی، دماغی کھنچاو میں کمی اور عضلات کی تیزی سے حرکت وغیرہ سے متعلق ہوتی ہیں، یہ اتنی تیزی سے انسان میں رونما ہوتی ہیں کہ پہلی نظر میں تو ان کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
ایڈرنالین غدود کی اثر انگیزی اور معجزاتی قوت کا اندازہ آپ کو اس مثال سے ہوسکتا ہے،آپ نے دیکھا یا سنایا پڑھا ہوگا کہ کوئی عام سا شخص چند پیشہ ور غنڈوں، بدمعاشوں کے گھیرے میں آکر ان سے بھڑ گیا مگر وہ کئی افراد مل کر بھی اسے اپنے قابو میں نہ کرسکے، وہ دو چار کو زخمی کرکے نکل بھاگا یا کسی گھر میں ڈکیتی کی واردات نہتے اہل خانہ میں سے کسی ایک شخص کی جرات و ہمت نے ناکام بنادی، اگر غور کیا جائے تو واضح طور پر یہ بات سامنے آئے گی کہ انسانی ذہن خوف کی مقرر کردہ حدود کے اندر مقید ہوتا ہے اور عام طور پر ان حدود سے باہر آنے کی کوشش نہیں کرتا یعنی ایڈرنالین غدود کو کام کرنے کا موقع نہیں دیتا مگر جوں ہی کوئی ایسی صورت اچانک پیش آجائے جب خوف زندگی کی بقاءیا کسی خاص جذباتی وابستگی کے لیے خطرہ بن رہا ہو تو پھر قدرتی طور پر ایک چمک لہراتی ہے اور ذہن خوف سے آزاد ہوکر بے دھڑک ہر کام کر گزرتا ہے۔
آپ نے سنا ہوگا کہ اپنے کسی ڈوبتے ہوئے عزیز رشتے دار کو بچانے کے لیے کسی شخص نے خطرناک سمندر میں چھلانگ لگادی حالاں کہ وہ خود بھی تیرنا نہیں جانتا تھا، ایک خاص جذبے کے تحت وہ اس وقت ہر خوف سے آزاد ہوگیا تھا، یہ کیفیت جب انسانی ذہن ہر خوف و خطر سے آزاد ہوجاتا ہے، انسان پر شاذو نادر ہی طاری ہوتی ہے لیکن کیا اس کیفیت کو طاری نہیں کیا جاسکتا؟ یقیناً کیا جاسکتا ہے، ذہن ہر طرح کے خوف سے آزاد ہوکر کام کرسکتا ہے، اس کی وہ صلاحیتیں جو ہنگامی مواقع پر ہی کام آتی ہیں، زندگی کے ہر فعل میں استعمال ہوسکتی ہیں، اس کا واحد طریقہ صرف اور صرف یقین ہے، آپ اپنے ذہن پر یقین رکھیں، اسے اس بات پر مجبور کریں کہ وہ ہر موقع پر بھرپور توانائی فراہم کرے، آپ اپنے یقین کے ذریعے اپنے ذہن کو خوف سے آزاد کرسکتے ہیں، ہر روز یقین و اعتماد کی تھوڑی تھوڑی مشق آپ کو رفتہ رفتہ اس کا عادی بنادے گی اور پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔
یقین و اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اور اس کی قوت میں اضافے کے لیے خوف کے مریضوں کو دیگر علاج معالجے کے علاوہ پیراسائیکولوجی کے ماہرین مراقبہ مرگ تجویز کرتے ہیں جس میں عموماً مریض سے موت کا تصور کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن یہ اس صورت میں جب مریض مرنے سے ڈرتا ہو یا اسے یہ خوف لاحق ہوجائے کہ وہ مرجائے گا۔
ہمارے خیال سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے مریضوں کا علاج سانس کی مشقوں سے شروع کرنا چاہیے اور بعد میں انہیں مراقبے کی طرف لانا چاہیے، سانس کی مشقیں ایسے حساس اور ذہنی و اعصابی انتشار کا شکار افراد کو اس قابل بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں کہ وہ یکسوئی سے مراقبہ کرسکیں یا مراقبے کے لیے تیار ہوسکیں، بے شک یہ علاج ابتدا میں خاصا مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے اور اس کے مفید اثرات چند روز میں ظاہر نہیں ہوتے، مسلسل کوشش ضروری ہوتی ہے جب کہ انسانی نفس برابر مزاحمت کرتا رہتا ہے،طرح طرح کی لاشعوری رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب اس کے فوائد شروع ہوجاتے ہیں تو ناممکن، ممکن ہوجاتا ہے، لاعلاج مریض بھی صحت کلی حاصل کرلیتے ہیں۔
مراقبہ ءمرگ
مراقبہ ءمرگ کا طریقہ یہ ہے کہ شمال کی طرف رُخ کرکے آرام سے بستر پر لیٹ جائیے مگر اس سے پہلے چند منٹ سانس کی کوئی مشق ضرور کرلی جائے تاکہ ذہن و اعصاب پر سکون ہوجائیں، آنکھیں بند کرکے اب یہ تصور کیجیے کہ آپ کا وقت آخر آچکا ہے اور آپ پر نزع کا عالم طاری ہے، (خوف کے مریض کے لیے اس تصور میں قائم کرنا کہ میں مر رہا ہوں، (بے حد مشکل سہی مگر ناممکن نہیں) پاوں سے جان نکل چکی، اب ٹانگیں بے جان ہورہی ہیں، نچلا دھڑ شل ہوگیا ہے اور اب روح سینے میں اٹکی ہوئی ہے، دل ڈوبتا چلا جارہا ہے، موت کے ٹھنڈے پسینے آرہے ہیں، عزیزواقارب چاروں طرف حلقہ کیے بیٹھے ہیں، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، سرہانے کوئی بیٹھا سورئہ یاسین پڑھ رہا ہے اور آپ کی روح قبض کی جارہی ہے، جان کنی کے ہر مرحلے کا تصور ٹھہر ٹھہر کر اور پوری توجہ کے ساتھ کریں، کوئی شبہ نہیں کہ خوف ہی کے مریض کے لیے نہیں، عام انسان کے لیے بھی اپنی موت اور جان کنی کے مراحل کا تصور بے حد مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے، مہلک اور جان لیوا امراض سے نجات کے لیے خطرناک جسمانی آپریشن بھی تو کروانا ہی پڑتا ہے، مثلاً دل کا آپریشن لوگ بہر حال کراتے ہی ہیں۔
مراقبہ ءمرگ بھی روحانی عمل جراحی ہے، ایک مرتبہ آپ اس عمل سے گزر گئے تو عمر بھر کے لیے خوف کی مہلک بیماری سے نجات مل جائے گی، کم از کم چالیس روز تک مسلسل یہ مراقبہ کرنا چاہیے، خوف ، احساس کمتری، وہم ، مایوسی، بے زاری، بے خوابی، جنسی ہیجان، زبان میں لکنت، غصہ، شدید محبت یا نفرت، انتقام، اعصابی خلل اور جذباتی الجھاو کے مریضوں کے لیے سانس کی مشق کے بعد مراقبہ مرگ بے حد مفید ہے لیکن ایک بار پھر ہم اپنی پرانی ہدایت کو دہرائیں گے کہ یہ تمام علاج کسی ماہر کی نگرانی میں ہی ہونا چاہیے، اس سلسلے میں ہم عموماً خوف کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تصور کی نوعیت میں تبدیلی کرنا جائز اور مناسب سمجھتے ہیں مثلاً اگر کسی شخص کو اندھیرے سے خوف آتا ہے تو مراقبے کے وقت اندھیرے کی تلقین کرتے ہیں ، آنکھوں پر مضبوطی سے سیاہ کپڑے کی پٹی باندھ دی جاتی ہے، یا وہ بادل و بجلی کی کڑک سے ڈرتا ہے تو اس کے تصور کو بھی شامل کرنا ضروری ہوگا،بلندی سے گرنے کا خوف ہو تو کسی اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے کا تصور کیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ امید ہے کہ ہمارا اشارہ سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مزید وضاحت کی اب گنجائش نہیں ہے۔
پیراسائیکولوجی کے علاوہ دیگر طریقہءعلاج بھی موجود ہیں،ایلوپیتھک میں اینٹی ڈپریشن دوائیں طویل عرصے تک استعمال کرائی جاتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان دواوں کے لمبا عرصہ استعمال سے مختلف سائیڈ افیکٹس شروع ہوجاتے ہیں لہٰذا ہومیوپیتھک طریقہ ءعلاج کو اولیت دینی چاہیے، ہومیوپیتھی میں اس حوالے سے بڑی جادو اثر دوائیں موجود ہیں، خوف یا دیگر ذہنی و روحانی بیماریوں میں ان دواوں کا استعمال ہائی پوٹینسی میں کیا جاتا ہے اور اکثر تو صرف ایک خوراک ہی کافی ہوتی ہے۔