عظیم پیش گو ناسٹرا ڈیمس کی پش گوئیوں کا تذکرہ جاری ہے،گزشتہ کالموں میں ہم نے اس کے اندازِ پیش گوئی پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی تھی اور اس کے مترجمین اور شارحین کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی تھی،اب اُس کی نمایاں پیش گوئیاں دی جارہی ہیں،اس کے بعد بعض دیگر متنازع مسائل پر بھی بات ہوگی۔
وارسا پیکٹ
ایک بہت دلچسپ اور قابل غور پیش گوئی مشرقی یورپ کے سات ملکوں کے بارے میں ہے جن کے اتحاد کو دنیا ” وار سا پیکٹ “ کے نام سے جانتی اور مانتی رہی ہے‘ ناسٹرا ڈیمس لکھتا ہے‘ ” انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مغرب حکومت کرے ‘ حکمران پوری دنیا کا نظام سنبھالیں گے جب تک سات ممالک متحد ہیں“
یہاں ناسٹرا ڈیمس کے شارحین کا کہنا ہے کہ سات ممالک سے مراد سوویت یونین‘ مشرقی جرمنی‘ پولینڈ‘ رومانیہ‘ ہنگری اور چیکو سلواکیہ اور یوگوسلاویہ ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ناسٹرا ڈیمس کے اس قطعے کی اب از سر نو تشریح ضروری ہے‘ اس میں بہت زیادہ ابہام موجود ہے‘ مغرب کی حکومت کو انصاف کا تقاضا کہنا قابل غور و فکر ہے‘ مغرب سے اس کی مراد صرف یورپی ممالک نہیں ہو سکتے‘ تمام مغربی ممالک ہوں گے جن میں امریکہ بھی ہے اور یہ درست ہے کہ جب تک مغربی یورپی ممالک کو امریکہ کی مدد اور حمایت نہیں حاصل ہوئی ‘ وہ مشرقی دنیا کے برابر کھڑے نہیں ہو سکے‘ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں دو بلاک بن گئے‘ ایک امریکی یا مغربی بلاک کہلایا اور دوسرا روسی یا مشرقی بلاک‘ جب تک سوویت یونین مضبوط و توانا رہا‘ مشرقی بلاک نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دنیا پر حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعمیر نہیں ہونے دیا۔ سوویت یونین کے کمزور ہوتے اور ٹوٹ کر بکھرتے ہی وار ساپیکٹ کے اتحادی بھی بکھر گئے اور مغرب کی پوری دنیا پر حکمرانی (نیور ورلڈ آرڈر) کا خواب تعبیر کے قریب پہنچ گیا لیکن عالم اسلام اور چین اب بھی مغرب کی راہ میں رکاوٹ ہےں‘ ہر چند کہ اکثر مسلم ممالک امریکہ کے زیر اثر آتے چلے گئے ہیں مگر ان میں بھی امریکہ مخالف تحریکیں ہمیشہ رہی ہیں اور آج بھی ہیں۔
اگر سات ممالک سے مراد مندرجہ بالا وار سا پیکٹ کے ممالک ہی ہیں تو اب ان کی حیثیت ہی بدل چکی یعنی اب اس اتحاد کی کوئی اہمیت نہ رہی‘ تو کیا ناسٹرا ڈیمس کے اس قطعے کا مفہوم یہ ہے کہ سات ممالک کے باقوت اتحاد تک مغرب کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہو سکا لیکن اس کے بعد مغرب حکومت کرے گا اور یہ انصاف کا تقاضا ہوگا‘ تو پھر یہ پیش گوئی بھی تقریباً پوری ہو چکی ہے‘ نیو ورلڈ آرڈر عملاً نافذ ہو چکا ہے اور امریکہ یا مغربی ممالک دنیا بھر میںاپنی من مانی کے لیے آزاد ہیں‘ ایسی کوئی عظیم قوت نظر نہیں آتی جو تن تنہا اس چیلنج کا مقابلہ کرسکے جو امریکہ کی ڈکٹیٹر شپ کی صورت میں پوری دنیا کو درپیش ہے کہ وہ جسے چاہیں نواز دیں اور جس کا چاہیں روٹی پانی بند کردیں۔
تیسری عالمی جنگ
اب آئیے اس پیش گوئی کی طرف جس میں ناسٹرا ڈیمس نے تیسری عالمی جنگ کی طرف اشارہ کیا ہے اور جسے اس کے شارحین 1999ءسے منسوب کرتے رہے ہیں‘ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں انہیں سن کے تعین میں مغالطہ ہوا ہو اور وہ 1999ءکے بجائے کوئی اور سال ہو‘ کیوں کہ اصل قطعات فرانسیسی زبان میں ہیں‘ ہم تک اس کے مترجمین کا انگریزی ترجمہ ہی پہنچا ہے‘ برطانوی فلم ” دی مین ہُو سا ٹومارو“ بھی ان ہی ترجموں کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی جس میں ایک عرب حکمران کو امریکا پر حملہ کرتے دکھایا گیا تھا، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پیش گوئی کے مضامین پر از سر نو غور و فکر کیا جائے جو یقیناً بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی سے متعلق ہیں۔ اس میں جواشارے دیے گئے ہیں وہ ممکن ہے ابھی ناقابل فہم ہوں مگر انہیں احمقانہ اور بے معنی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ کیوں کہ ماضی کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے کہ ناسٹرا ڈیمس کی ایسی ہی عجیب و غریب باتوں نے کس طرح حقیقت کا روپ دھار لیا تھا‘ وہ لکھتا ہے۔
”1999ئ(یا کوئی اور سال ) میں ہماری دنیا عالمی طاقتوں کی کشمکش کے سبب تباہ ہوجائے گی اور ایک ایسی جنگ ہوگی جو تمام جنگوں کا خاتمہ کردے گی‘ ساتویں مہینے میں آسمان سے دہشت کا شہنشاہ اترے گا۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد دنیا پر صرف جنگ کی حکمرانی ہوگی“
”ایک دوسرا قطعہ بھی اس پیش گوئی سے جوڑا جاتا ہے،وہ مزید کہتا ہے ”اسکاٹ لینڈ جب برف سے ڈھک جائے گا تو برطانوی حکومت کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہوگی‘ اس زمانے میں سرخ لوگوں کا سربراہ ایک ایسا عیسائیت دشمن شخص ہوگا جو سب کو جنگ کے جہنم میںدھکیل دے گا“
اس قطعے کو دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ برطانیہ کو امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہوئی اور اسٹالن سخت مذہب دشمن روسی حکمران تھا‘ آگے چل کر وہ کہتا ہے” یہ عیسائیت دشمن شخص تین ملکوں کو ہڑپ کر جائے گا اور جس جنگ کا وہ آغاز کرے گا‘ وہ ستائیس برس جاری رہے گی‘ دشمن مار دیے جائیں گے اور قیدی ملک بدرکردیے جائیں گے‘انسانی خون دریاﺅں کا پانی سرخ کردے گا اور زمین چھلنی ہوجائے گی“
اسی تناظر میں وہ دیگر قطعات بھی ہیں جن کا ہم پہلے ذکرکر چکے ہیں جن میں مسلمانوں اور زرد اقوام کے اتحاد اور مسلمان رہنما وغیرہ کا تذکرہ ہے۔
ناسٹرا ڈیمس کے شارحین ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ مسلمان رہنما کون ہوگا اورکس ملک سے اس کا تعلق ہوگا‘ ان کی نظریں عام طور پر عرب ممالک کے بعض سربراہوںکی طرف اٹھتی رہی ہیں مثلاً صدام حسین وغیرہ لیکن ایسا سربراہ جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ مسلمان اور زرد اقوام متحد ہوجائیںگے اور ساری دنیا مسلمانوں سے خوف کھائے گی اور ان کی دہشت سے لرزاں ہوگی اور وہ عرب کی دولت مند سر زمین سے اٹھے گا‘ اسپین پر حملہ کرے گا ‘ غرناطہ فتح کرے گا اور اٹلی کے کچھ علاقے بھی اس کے قبضے میں چلے جائیں گے‘ اس جنگ میں دو طاقتیں متحد ہو کر مشرق کے خلاف لڑیں گی‘ چالیس برس تک قوس قزح آسمان پرقائم رہے گی‘ تڑخی ہوئی زمین بالکل ہی سوکھ جائے گی‘ اس کے بعد ایک مہیب سیلاب نمودار ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ہمارا خیال ہے کہ ناسٹرا ڈیمس کی یہ پیش گوئی ابھی تک پوری نہیں ہوئی‘ ممکن ہے اس کی ابتداءہو چکی ہو‘ مغرب میں مسلم جہادیوں کا خوف نائن الیون کے بعد سے پیدا ہوا ہے اور اہل مغرب مسلسل اس حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں لیکن ابھی تک کسی ایسے مسلم رہنما کا ظہور نہیں ہوا ہے جو اسپین پر حملہ کرے یا اٹلی کے علاقوں پر قبضہ کرلے‘حالیہ دنوں میں داعش نامی تنظیم سامنے آئی ہے جس نے خلافت اسلامیہ کے قیام کا اعلان کیا ہے اور امریکہ اس کے خلاف سرگرم عمل ہو چکا ہے‘ بہر حال داعش کے سربراہ کو بھی ناسٹرا ڈیمس کا مسلمان رہنما قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ یقیناً ایسا کوئی رہنما مستقبل میں شاید سامنے آجائے۔
جس نوعیت کی طویل جنگ کی طرف اشارہ ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان لڑی جائے گی‘ ممکن ہے ایسی جنگ قرب قیامت سے پہلے حضرت امام مہدیؑ کی قیادت میں لڑی جائے کیوں کہ فی الحال تو دور دور تک ایسی کسی جنگ کے آثار نظر نہیں آتے۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ناسٹرا ڈیمس اپنی پیش گوئیوں میں یہودیوں کے بارے میںکچھ نہیں کہتا حالانکہ یہودی بھی پوری دنیا میں اپنی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھتے ہیں‘ وہ جس زمانے میں پیدا ہوا‘ یہودیوں کو اسپین سے نکالا جا چکا تھا اور وہ ترکی میں پناہ لے رہے تھے‘ اس کی زندگی میں ترک سلطنت یورپی ممالک کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن گئی تھی‘ ترک سلطان سلیمان ذیشان نے اس کی زندگی ہی میں عروج حاصل کیا‘ ہنگری کو فتح کیا اور جرمنی پر اس کے حملے جاری رہے‘ فرانس اور اسپین کے بادشاہوں سے بحری اور بری جنگیں اس کی زندگی ہی میں لڑی گئیں لیکن اس کی پیش گوئیوں میں سلطان سلیمان کی فتوحات اور عیسائی حکمرانوں کی مسلسل شکست کے بارے میں کچھ نہیں ملتا‘ ہمارے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص اپنے عہد اور بعد کے عہد حتیٰ کہ بیسوی صدی تک کے بارے میں پیش گوئیاں کرے لیکن اس حکومت یا بادشاہ کا ذکر تک نہ کرے جو اس کے دور میں تین براعظموں پرحکمران تھا‘ یقیناً اس کے عیسائی مترجمین اور شارحین نے مسلمان سلطان کے بارے میں اس کی پیش گوئیوں کو نظر انداز کیا ہوگا۔
ترک سلطانوں یعنی آل عثمان سے عیسائی مورخین ہمیشہ نالاں رہے ہیں‘ ان کے کارناموں کو بیان کرتے ہوئے خاصی ناک بھوں چڑھاتے ہیں‘ وہ اس زخم کو بھی نہیںبھولتے جو سلطان محمدفاتح نے قسطنطنیہ (موجودہ استنبول)کو فتح کر کے عیسائی دنیا کو لگایا تھا، رومن امپائر کا خاتمہ کیا اور در حقیقت یورپ کو روند ڈالا تھا۔
سلطان سلیمان خلافت عثمانیہ کا آخری طاقت ور حکمران تھا‘ اس کے بعد ترک سلطنت کا زوال شروع ہوگیا مگر ناسٹرا ڈیمس کی دستیاب پیش گوئیوں میں اس کے اپنے دورکے اس عظیم حکمران اور ترکوں کی عظیم الشان فتوحات کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیںملتی۔
1550ءمیں جب اس نے اپنی پیش گوئیوں کی پہلی جنتری شائع کی تو تمام یورپی ممالک ترک سلطان کی یلغار سے خوف زدہ تھے اور عیسائی دنیا اس کے سامنے سر نگوں تھی‘ اسی طرح اس زمانے میں عیسائی دنیا مارٹن لوتھر کی قیادت میں ایک بڑے انقلاب سے دو چار ہوئی‘ مارٹن لوتھر نے کیتھولک چرچ کے خلاف آواز اٹھائی جس کے نتیجے میں عیسائیوں کا ایک نیا فرقہ وجود میںآیا‘ یہ اس کی زندگی میںپیش آنے والے واقعات ہیں جن کے بعد ازاں دورس نتائج سامنے آئے‘ اس حوالے سے بھی ہمارا قیاس یہی ہے کہ پیش گوئیوں کے اصل مسودے کے بعض حصے متعصب عیسائی شارحین یا مترجمین نے چھوڑ دیے یا ضائع کر دیے‘ و للہ اعلم بالصواب۔
برتھ چارٹ ناسٹرا ڈیمس
ہم یہاں اپنے قارئین اور دیگر علم نجوم سے دلچسپی رکھنے والے افرادکی خاطر ناسٹرا ڈیمس کا برتھ چارٹ پیش کر رہے ہیں جو ویدک سسٹم کے مطابق تیارکیا گیا ہے‘ عام طور پر ناسٹرا ڈیمس کی تاریخ پیدائش 14دسمبر 1503ءمستند سمجھتی جاتی ہے بعض لوگوں نے24دسمبر بھی لکھی ہے‘ ہمارے خیال میں بھی14دسمبر ہی درست ہے‘ اس کے مطابق ناسٹرا ڈیمس کی شخصیت‘ خوبیاں‘خامیاں اور حالات زندگی درست ظاہر ہوتے ہیں۔
برتھ چارٹ میں برج حوت کے 16درجے 32دقیقے طلوع ہیں ‘پُراسرار راہو طالع کے درجات سے حالت قران میں ہے‘ چوتھے گھر میں سعد مشتری اور نحس زحل کاقران ہو رہا ہے جو پیشہ ورانہ دل چسپیاں علوم خفیہ سے ظاہر کرتا ہے،چوتھے گھر میں اس قران کی موجودگی موروثی اور خاندانی طور پر پیدائشی صلاحیتوں کی نشان دہی کر رہی ہے۔
سیارہ مریخ پانچویںگھر میں اپنے برج ہبوط میں ہے‘ کیتو ساتویں گھر میں ہے اور گیارھویں گھر میں موجود زہرہ سے تثلیث کی نظر بنا رہا ہے‘ پانچویں گھر کا حاکم قمر آٹھویں گھر میں کمزور ہے‘ شمس اور عطارد دسویں گھر میں حالت قران میں ہےں‘ گویا عطارد غروب ہے‘ اس قران کا اثر زائچے میں نحس اثر رکھتا ہے‘ عطارد چوتھے اور ساتویں گھر کا حاکم ہے‘ مریخ بھی کمزور ہے جو فیملی اور حیثیت کے گھر کا حکمران ہے‘ لہٰذاخاندانی حالات پیدائش کے بعد اطمینان بخش نہ تھے جس کی وجہ سے تعلیمی ذمہ داریاں نانا اور دادا کو اٹھانا پڑیں‘ راہو کیتو محور پہلے اور ساتویں گھر کے درجات سے قران کر رہا ہے‘ ازدواجی خوشیوں کا نمائندہ زہرہ بھی کیتو کی منحوس نظر کا شکار ہے چنانچہ پہلی بیوی کی جلد ہی موت واقع ہوگئی‘زہرہ زائچے کے آٹھویں موت کے گھر کا حاکم ہے اور پانچویں ‘ گیارھویں گھر کے درجات سے کامل قران رکھتاہے جو خوشیوں اور اولاد کا گھر ہے‘ بیوی کے ساتھ بچے بھی طاعون کی وبا کا شکار ہو کر مر گئے‘پھر ایک طویل عرصے تک اس نے شادی نہیں کی‘ دوسری شادی تقریباً 44سال کی عمر میں ایک مالدار بیوہ سے ہوئی۔
طالع برج حوت اور راہو سے متاثر ہونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پُراسرار علوم کی جانب راغب ہوا‘برج حوت ایک روحانی برج ہے اور راہو کا اثر غیب دانی کی صلاحیت پیدائشی طور پر دے رہا ہے‘ یہ لوگ غیر معمولی تخلیقی اور وجدانی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں‘ اکثر انہیں خود اپنی وجدانی قوت کا علم ہی نہیں ہوتا‘ راہو کا تعلق بھی دھوکے اور فراڈ کے علاوہ سحر و جادو اور ماورائی اثرات سے ہے‘ راہو زائچے میں طالع کے درجات‘ نویں گھر کے درجات اور پانچویں گھر کے درجات سے قران کرے یا ان گھروں کے حاکموں سے حالت قران میں ہو تو مستقبل بینی کی صلاحیت سے نوازتا ہے لیکن یہ صورت حال مشروط ہے اگر خاکی برجوں میں یہ صورت حال ہو تو ایسا شخص فراڈیہ یا جرائم پیشہ بھی ہو سکتا ہے‘ کیوں کہ یہ برج مادّیت کا رحجان رکھتے ہیں‘ سرطان‘ عقرب اور حوت روحانی بروج ہےں‘وجدانی صلاحیتوں کے حامل ہیں ۔
ابتدا ہی سے ناسٹرا ڈیمس علوم خفیہ میں دلچسپی لینے لگا تھا‘ میڈیکل کے شعبے میں بھی اس کا رحجان روایات کے خلاف نئی تحقیق و تفتیش کی جانب رہا‘ علوم خفیہ سے دلچسپی کے باعث وہ فرانس کے علاوہ دیگر ممالک کے کتب خانوں کی خاک بھی چھانتا رہا اور 1547ءمیں جب دوبارہ فرانس آکر اس نے سالون میں رہائش اختیار کی تو پیش گوئیاں شروع کردیں اور لوگوں میں مقبول ہوتا چلا گیا۔
زائچے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مشتری جو عقل و دانش اور علم کا ستارہ ہے زائچے میں بارھویں گھر کے حاکم زحل کے ساتھ قران کر رہا ہے‘ عام طور پر یہ صورت حال اکیڈمک تعلیم میں مروجہ طور طریقوں سے بغاوت کا اظہار ہے‘ ایسے بچے بہت اچھے اسٹوڈنٹ نہیں ہوتے‘بعض کا تعلیمی سلسلہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر منقطع ہوجاتا ہے‘ ذہانت کا نمائندہ عطارد غروب ہے اور چھٹے گھر کے حاکم شمس کے ساتھ قران کی وجہ سے کسی حد تک بد مزاجی اور اختلاف رائے کا رحجان پیدا کر رہا ہے ‘ ایسے افراد دوسروں سے اختلافات اور تنازعات کی وجہ سے اپنی دنیا الگ بناتے ہیں اور عام طور پر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پانچواں گھر زندگی کی خوشیوں ‘ اولاد ‘ شعورسے متعلق ہے‘ اس کا حاکم آٹھویں گھر میں وشاکھا نچھتر میں ہے جس کا حاکم مشتری ہے جو علم و دانش کا ستارہ ہے اور بارھویں گھر کے حاکم زحل سے حالاتِ قران میں ہے لہٰذا مروجہ علوم سے ہٹ کر نئے رحجانات کی جانب رغبت ظاہر ہوتی ہے خصوصاً باطنی علوم کی طرف۔
مجموعی طور پر زائچہ دنیاوی خوشیوں اور کامیابیوں کے لیے کمزور ہے لہٰذا ایک طویل عرصے تک اُسے سخت حالات میں زندگی بسر کرنا پڑی،بیوی بچوں کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا،نتیجے کے طور پر اُس نے دنیا سے فرار کا راستہ اختیار کیا اور فرانس اور دیگر ممالک میں آوارہ گردی کرتا رہا، اپنے فطری رجحان کے مطابق علوم خفیہ کی تحقیق و جستجو میں مگن رہا۔
1547 ءمیں جب اُس کی عمر 44 سال تھی ، وہ واپس آیا اور سالون میں قیام کرکے پیش گوئیاں شروع کیں،وہیں ایک دولت مند بیوہ سے شادی بھی کرلی ، اُس زمانے میں ناسٹرا ڈیمس کے برتھ چارٹ میں کیتو کا دور اکبر (Main Period) جاری تھا، کیتو کو ایک روحانی جسم کہا جاتا ہے اور یہ روحانی شعور بھی دیتا ہے”سنیاس یوگ“ میں بھی کیتو کی شرکت لازمی ہے،کیتو کے دور اکبر میں جب مشتری کا دور اصغر (Sub Period) شروع ہوا جو دسویں گھر کا حاکم ہے تو ناسٹرا ڈیمس کو غیر معمولی شہرت ملی اور فرانس کی ملکہ کیتھرین اُس کی طرف متوجہ ہوئی جس کی وجہ سے اسے بہتر طور پر سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور مالی اور معاشی حالات بھی بہتر ہوئے،وہ اپنی موت تک شہر سالون ہی میں مقیم رہا۔
اپنی موت کے سال کی نشان دہی اُس نے اپنے ایک قطعے میں پہلے ہی کردی تھی اُس نے لکھا”وہ یعنی ناسٹرا ڈیمس جب بادشاہ کے پاس سے واپس آئے گا تو وہ بادشاہ سے ملنے والے تحفے احتیاط سے رکھے گا اور اُس کے بعد وہ اپنے اہلِ خانہ ، افرادِ خاندان اور دوستوں کے درمیان ختم ہوجائے گا ، وہ اسے اس کے بستر پر مردہ پائیں گے“
اس پیش گوئی کا تذکرہ اُس نے اپنے بیٹے کے نام ایک خط میں بھی کیا ہے،اسے فرانس کے بادشاہ نے 300 اشرفیاں دی تھیں، وہ جب اس شاہی تحفے کو لے کر آیا تو انہیں اُس نے احتیاط سے رکھ دیا، بعد میں وہ سوگیا اور ختم ہوگیا،صبح بستر پر اس کی لاش ملی۔
مندرجہ بالا پیش گوئی لکھنے کے بعد اُُس نے ایک چھوٹی سی پیتل کی تختی بھی تیار کروائی تھی جس پر1700ءکندہ کیا گیا تھا،اس نے اپنے لواحقین کو یہ وصیت کی تھی کہ جب اسے دفنایا جائے تو یہ تختی اُس کے سینے پر رکھ دی جائے لہٰذا اُس کی وصیت پر عمل کیا گیا اور اُسے دفن کردیا گیا، وقت گزرتا رہا اور لوگ اس کو بھول بھال گئے ۔
اُس کی موت کے تقریباً 134 برس بعد 1700ءمیں سالون کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کا تابوت نکال کر کسی زیادہ نمایاں جگہ پر دفن کرنا چاہیے، اس عرصے میں اس کی شہرت دور دراز کے علاقوں میں پھیل گئی تھی،اُس کی بعض پیش گوئیاں دُرست ثابت ہوئی تھیں لہٰذا وہ لوگوں میں ایک پُراسرار اور ما فوق الفطرت شخص کی حیثیت اختیار کرچکا تھا،یہ طے کیا گیا کہ اُس کے شایان شان اس کا مقبرہ تعمیر ہونا چاہیے چناں چہ اس کا تابوت نکالا گیا، بعض لوگوں کو یہ خواہش ہوئی کہ تابوت کھول کر دیکھنا چاہیے،بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کوئی ولی اللہ یا پہنچا ہوا بزرگ تھا،اس لیے اُس کی لاش صحیح سلامت ہونی چاہیے۔
تابوت کھولا گیا تو اُس کی کرم خُوردہ اور خستہ ہڈیاں لوگوں کے سامنے تھیں اور ان ہڈیوں کے درمیان پیتل کی ایک چھوٹی سی تختی بھی تھی جو سیاہ پڑ چکی تھی، اسے صاف کیا گیا تو اس پر 1700 ءکے اعداد صاف پڑھے جانے لگے اور اس طرح اس کے معتقدین کو ایک اور جھٹکا لگا،ایک بار پھر اپنی موت کے 134 سال بعد اُس نے خود کو ایک عظیم پیش گو ثابت کردیا تھا اور یہ بھی ثابت کردیا تھا کہ وہ صرف اپنی موت کے سال سے ہی آگاہ نہ تھا بلکہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا تابوت کب کھودکر نکالا جائے گا۔
پیش گوئی کے میدان میں یقیناً وہ ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے لیکن جیسا کہ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ اُس کی پیش گویانہ صلاحیت ایسٹرولوجی یا کسی اور دنیاوی علم کی بدولت نہیں تھی بلکہ وہ ایک کاہن تھا، اُس کی باطنی صلاحیت اور وجدانی قوت اس کی مددگار تھی،اس کا برتھ چارٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔