تازہ امریکی انتخابات نے دنیا کو روسی صدر پیوٹن اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے بعد ایک اور میزانی صدر سے روشناس کرایا ہے، اس طرح دنیا میں 2 میزان صدر اور ایک میزان وزیراعظم سامنے آگئے ہیں، مسٹر پیوٹن کا طالع پیدائش (Birth sign) میزان جب کہ قمری برج ثور ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان اور مسٹر جیوبائیڈن دونوں کا طالع پیدائش میزان اور قمری برج حمل ہے، دونوں چاند کی منزل اشونی میں پیدا ہوئے ہیں لہٰذا دونوں کی فطری خصوصیات تقریباً ایک جیسی ہیں جو مجموعی زائچے کی سیاروی آراستگی کے سبب مختلف نت نئے رنگ ڈھنگ ظاہر کرتی ہیں، ان کا مطالعہ ایک الگ دلچسپ تفریح ہے،انسان اپنی فطری خصوصیات کی یکسانیت میں زائچے میں سیاروی پوزیشن کے سعد و نحس اثرات کے سبب نت نئے رجحانات اختیار کرتا ہے۔
عملی کردار
طالع برج میزان کا تعلق توازن اور ہم آہنگی سے ہے، اس برج کے تحت پیدا ہونے والے افراد مصلحت اور مصالحت کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں، یہ بہت اچھے سفارت کا رتو ہوسکتے ہیں لیکن اعلیٰ درجے کے سیاست داں نہیں ہوتے کیوں کہ ہمیشہ اہم فیصلے کرنے میں تاخیر کرتے ہیں، بہت زیادہ سوچ بچار اور مشاورت کے بعد بھی کوئی فیصلہ کرنے میں دیر لگاتے ہیں،برج میزان ایک ایسا برج ہے جس میں اقتدار کا سیارہ شمس نہایت کمزور یعنی ہبوط یافتہ ہوتا ہے، شاید یہی بات ان لوگوں کو زندگی کے اکثر معاملات میں تذبذب کا شکار بناتی ہے، حسن و خوبصورتی ان کی کمزوری ہے، ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی تصادم سے خود کو دور رکھیں اور امن و سکون سے زندگی گزاریں لیکن جو بات عمران خان سے جیوبائیڈن کو سیاسی سوجھ بوجھ کے حوالے سے ممتاز کرتی ہے،وہ ان کے زائچے میں سیارہ قمر پر راہو کی نظر ہے، راہو سیاست اور نئے داؤ پیچ کا بھرپور شعور دیتا ہے، مزید یہ کہ ان کا اپنا سیارہ زہرہ اقتدار کے سیارے شمس سے قریبی قربت رکھتا ہے۔
فطری خصوصیات
قمری برج حمل اور قمری منزل (اشونی نچھتر) فطری خصوصیات اور رجحانات کے آئینہ دار ہیں، برج حمل ایک کھلنڈرا بچہ ہے جو کبھی بوڑھا نہیں ہوتا لہٰذا اس سے کبھی بھی بردباری اور تدبر کی توقع نہیں کرنی چاہیے، حمل افراد کی ”میں“مشہور ہے، یہ چیلنج قبول کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، برج حمل کا نشان مینڈھا ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر مینڈھے کو چیلنج کے انداز میں صرف ہاتھ کا اشارہ ہی دیا جائے تو وہ حملے کی نیت سے تیار ہوکر پیچھے ہٹنا شروع کردیتا ہے تاکہ ایک بھرپور ٹکر مارکر چیلنج کرنے والے کو زمیں بوس کردے، حمل افراد دوسروں کے تجربات کی پیروی کرنے کے بجائے خود تجربات کرکے نتائج کو جانچتے پرکھتے ہیں، وہ دوسروں کی پیروی کرنا ضروری نہیں سمجھتے، یہ ان کی ایک بڑی خامی ہے۔
چاند کی قمری منزل اشونی ان لوگوں کو فطری طور پر نیکی اور بھلائی کی ترغیب دیتی ہے، یہ لوگ بہت جوشیلے، جذباتی اور جلد غصے میں آجانے والے ہوتے ہیں، دوسروں کو بہت جلد متاثر کرلیتے ہیں،پرکشش شخصیت کے مالک اور روشن دماغ ہوتے ہیں، دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کے بجائے خود تجربات کرکے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ایک غلطی ہے،برج حمل میں سیارہ شمس کو شرف کی قوت حاصل ہوتی ہے لہٰذا لیڈر شپ، عزت و وقار اور اختیارات کے حصول کا رجحان ان میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے، یہ اچھے لیڈر ہوتے ہیں اور زندگی میں ہمیشہ پہلی پوزیشن پر رہنا پسند کرتے ہیں ِ، ان کی منفی خصوصیات میں ہوائی قلعے بنانا سرفہرست ہے، حالاں کہ ان کے خیالات ہمیشہ صاف اور صحت مند ہوتے ہیں، ان کے اندر زبردست قسم کی قوت مدافعت پائی جاتی ہے، چناں چہ زندگی میں اپنی بیماریوں سے جلد نجات پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
مشہور شخصیات
قمر کی برج حمل میں اس پوزیشن پر پیدا ہونے والی دنیا کی مشہور شخصیات میں خاصے عجیب و غریب، غیر معمولی،منفی یا مثبت خصوصیات کے حامل افراد ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں، مثلاً رسوائے زمانہ،رومن شہنشاہ کیلی گولا، چنگیز خان، جھانسی کی رانی، بھارتی صدر ذاکر حسین، جسٹس افتخار چوہدری، پرنس چالس، جیکی اناسیس،جیری لوئس، اداکارہ انگرڈ برگمن اور جینا ڈیوس وغیرہ۔
زائچے کی روشنی میں کسی بھی شخصیت کے انفرادی زائچے کی عمومی خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر مخصوص خوبیاں اور خامیاں اسے دنیا میں دیگر اسی جیسے بہت سے افراد سے مختلف بناتی ہیں، چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ صدرامریکا مسٹر جیوبائیڈن بہت سی مشترکہ عمومی خوبیوں اور خامیوں کے باوجود صدر پیوٹن اور جناب عمران خان سے خاصے مختلف نظر آتے ہیں۔
زائچہ جیوبائیڈن
جیوبائیڈن 20 نومبر 1942 کو پنسلوانیا کے شہر اسکرٹن میں صبح 07:30 am پر پیدا ہوئے، خیال رہے کہ ان کی پیدائش کے وقت میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، چند ماہ قبل جب وہ الیکشن لڑ رہے تھے تو بین الاقوامی منجمین کے مختلف حلقوں میں ان کے دو زائچے زیر بحث رہے، ایک 08:30 am پر بنایا گیا تھا اور دوسرا 07:30 am پر، جب کہ اکثریت 08:30 am کو اولیت دے رہی تھی، اس وقت کے مطابق ان کا طالع پیدائش برج عقرب ہوگا لیکن عقربی خصوصیات اور ان کی زندگی کے بعض اہم حالات و واقعات برج عقرب سے میل نہیں کھاتے، پہلی بات تو یہی ہے کہ وہ اپنے قد و قامت میں ایک بھرپور میزانی ہیں، عقرب افراد کا قد عام طور سے زیادہ نہیں ہوتا، دوسری بات یہ کہ ان کی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ بھی صرف طالع میزان سے ہی واضح ہوتا ہے، بہر حال اور بھی دیگر عوامل ثابت کرتے ہیں کہ وہ ایک میزانی ہیں۔
ان کے زائچے میں برج میزان کے 28 درجہ 24 دقیقہ طلوع ہیں، سیارہ عطارد جو بارھویں گھر کا حاکم اور زائچے کا سب سے زیادہ منحوس اثر رکھنے والا سیارہ ہے، وہ برج میزان میں 28 درجہ 18 دقیقہ پر موجود ہے اور زائچے کے پہلے گھر اور ساتویں گھر کو بری طرح متاثر کر رہا ہے، اس خرابی سے مسٹر بائیڈن کے دماغی اور ذہنی رجحانات اور صدمات کی نشان دہی ہوتی ہے اور کسی حد تک بعض منفی رجحانات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، الیکشن کے دوران میں ان کے صاحب زادے کے حوالے سے بعض کرپشن کے اسکینڈل بھی سامنے آئے ہیں، ان پر اور ان کے صاحب زادے پر کاروباری معاملات میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
ضرر رساں مرکری ساتویں گھر کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی پہلی ازدواجی زندگی میں بہت بڑے صدمات سے دوچار ہوئے جب 1972ء میں ان کی پہلی بیوی کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئیں، بیوی کے ساتھ ایک بیٹی بھی اپنی جان سے گئی جب کہ دو بیٹے بری طرح زخمی ہوئے، بعد میں بھی انھیں ایک جوان بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
زائچے کی دیگر سیاروی نشست کے مطابق عطارد اور مریخ برج میزان میں ہیں جب کہ شمس اور زہرہ زائچے کے دوسرے گھر برج عقرب میں اور زہرہ و مریخ غروب ہیں، کیتو برج دلو میں، قمر حمل میں راہو کی نظر کا شکار ہے،واضح رہے کہ قمر کا تعلق دماغ سے ہے اور راہو کی نظر دماغی طور پر انھیں زیادہ ہوشیار اور چالاک بناتی ہے، فطری طور پر سیاست کی طرف راغب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے، سیارہ زحل زائچے کے آٹھویں گھر میں جب کہ سیارہ مشتری دسویں گھر برج سرطان میں شرف یافتہ اور شمس و زہرہ سے ناظر ہے، اگرچہ ابتدائی درجات پر ہے گویا اپنے زمانہ ء طفولیت میں ہے لیکن دسویں شرف کے گھر میں اس کی موجودگی کرئر میں ان کی کارکردگی کوشش اور طویل جدوجہد میں معاون و مددگار ہے۔
بہ ظاہر صدر امریکا جیو بائیڈن کا زائچہ ہر گز اتنا طاقت ور نہیں ہے کہ وہ کسی اہم مقابلے میں کامیاب ہوسکیں، اس سے پہلے بھی اس مرحلے پر وہ صدارتی امیدواری سے دست بردار ہوچکے ہیں، نائب صدارت قبول کرلی تھی، ہم نے الیکشن سے پہلے مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ان کے زائچے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ٹرمپ کا زائچہ زیادہ طاقت ور ہے، ان کے مقابلے میں مسٹر بائیڈن کا زائچہ کمزور ہے لہٰذا مسٹر بائیڈن کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ کو ہرانا آسان نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ آسانی سے اپنی شکست تسلیم کریں گے، مسٹر ٹرمپ کی بدقسمتی یہ تھی کہ 2020 ء میں ان کے ساتویں گھر کا حاکم سیارہ زحل زائچے کے چھٹے گھر میں تھا جو برتھ چارٹ میں بارھویں گھر میں اور سب پیریڈ بھی سیارہ زحل ہی کا جاری تھا، اگر مسٹر بائیڈن کے علاوہ کوئی دوسرا زیادہ بہتر زائچے کا حامل امیدوار ہوتا تو مسٹر ٹرمپ کو زیادہ آسانی سے اور غیر معمولی شکست سے دوچار کرتا، مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ نے بہت سے الزامات لگائے ہیں، انھوں نے اس الیکشن کو فراڈ قرار دیا، ممکن ہے مستقبل میں اس الیکشن کے حوالے سے ایسی باتیں سامنے آئیں جن سے ثابت ہو کہ ڈونالڈ ٹرمپ کو ہرانے کے لیے کچھ خصوصی کوششیں کی گئی تھیں۔
مسٹر بائیڈن کے زائچے میں الیکشن کے دوران میں مشتری کے مین پیریڈ میں راہو کا سب پیریڈ 7 اگست 2020 ء سے شروع ہوا، راہو ہماری نظر میں سیاست کا ستارہ ہے، چال بازیاں، مکاریاں، غیر قانونی طریقے اس کے اثرات میں اہمیت رکھتے ہیں، مسٹر بائیڈن کے زائچے میں دسویں گھر کے حاکم قمر پر اس کی بھرپور نظر ہے، قمر دسویں گھر کا حاکم ہے جہاں سیارہ مشتری بحالت شرف براجمان ہے، بے شک انھیں اپنی پارٹی کی بھرپور سپورٹ رہی ہوگی، وہ ماضی میں بھی نائب صدر جیسے اہم عہدے پر فائز رہے ہیں، ایک طویل عرصہ سیاست کے صحرا کی خاک چھانی ہے،ممکن ہے اس الیکشن کو جیتنے کے لیے انھوں نے بعض ایسے فیصلے کیے ہوں جو ان کی کامیابی کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوئے ہوں، اس کے برعکس اپنے خراب وقت کی وجہ سے مسٹر ٹرمپ نے اس کے برعکس غلط فیصلے کیے ہوں، بہر حال پس پردہ کیا ہوا ہے اس کا فیصلہ تو مستقبل ہی کرے گا کیوں کہ امریکا جیسے ملک میں بہر حال کچھ بھی راز میں نہیں رہتا، ہر راز سے آخر ایک نہ ایک دن پردہ اٹھ ہی جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر جیو بائیڈن اپنی جملہ خوبیوں اور خصوصیات میں بہت سے دیگر میزانی افراد کی بہ نسبت زیادہ دانش مند اور ہوشیار ہیں، اس کی پہلی وجہ بارھویں گھر کے حاکم عطارد کی برج میزان میں نہایت حساس پوائنٹ پر موجودگی اور راہو کی سیارہ قمر پر نظر، مزید دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ ان کا اپنا سیارہ زہرہ زائچے میں غروب ہے، ذاتی سیارہ غروب ہو یا کسی ناقص پوزیشن میں ہو تو بے شک زندگی میں بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی قدرت ایسے لوگوں کو بعض خفیہ صلاحیتوں سے بھی نوازتی ہے جن کی مدد سے وہ اپنے لیے کامیابی کے راستے ڈھونڈ لیتے ہیں، ساتویں گھر کا حاکم سیارہ مریخ بھی اگرچہ غروب ہے لیکن شمس سے فاصلہ خاصا زیادہ ہے، گویا ان کے مشیر اور دیگر قریبی افراد بھی یقیناً زیادہ ہوشیار اور چالاک ہوسکتے ہیں۔
ان کے زائچے کا سب سے اہم پوائنٹ سیارہ مشتری کی زائچے کے دسویں گھر برج سرطان میں موجودگی ہے، گویا ان کے پورے کرئر پر مشتری کی سعادت اپنا اثر دکھارہی ہے، پہلی بار جب وہ نائب صدر بنیں تو مشتری ہی کا دور اکبر اور اصغر جاری تھا جو تاحال جاری ہے، مشتری کی نظر اسٹیٹس اور فوائد کے سیارے شمس پر بھی ہے اور ان کے اپنے سیارے زہرہ پر بھی گویا شمس اور زہرہ کی کمزوری کو تقویت حاصل ہے، سیارہ مشتری زائچے میں ہمسا یوگ بنارہا ہے، اس یوگ کے حامل افراد زندگی کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی کارنامے انجام دینے کے اہل ہوتے ہیں، دوسری طرف قمر سے ساتویں گھر میں مقیم سیارہ مریخ زائچے میں چندر منگل یوگ ترتیب دے رہا ہے،یہ یوگ بہر حال ایسی صلاحیتوں سے نوازتا ہے جس میں انسان نہ صرف یہ کہ زیادہ پیسا کمانے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے بلکہ جائز و ناجائز کی تمیز بھی ختم ہوجاتی ہے۔
قمر و مشتری باہمی طور پر ایک اور یوگ ترتیب دے رہے ہیں جسے ”گج کیسری یوگ“ کہا جاتا ہے جو کسی راج یوگ سے کم نہیں ہے، ایسے لوگ دنیا میں اعلیٰ عہدہ و مراتب ضرور حاصل کرتے ہیں،خانہ ہائے اوتاد (1,4,7,10) کے مالکان اگر اوتاد میں ہوں تو یہ بھی اعلیٰ درجے کا راج یوگ ہے، زائچے میں صرف سیارہ زحل جو زائچے کا یوگ کارک سیارہ ہے یعنی چوتھے پانچویں گھر کا حاکم ہے، آٹھویں گھر میں مصیبت زدہ ہے، چناں چہ گھریلو سکون اور اولاد کی تکالیف و صدمے مقدر ہیں۔
مستقبل
صدر امریکا مسٹر جیو بائیڈن کے زائچے میں الیکشن کے وقت سیاروی بیٹھک نہایت مناسب تھی، سیارہ مشتری اپنے برج میں تیسرے گھر میں حرکت کر رہا تھا، البتہ 20 نومبر کے بعد سے اپنے برج ہبوط جدی میں چلا گیا اور مارچ تک یہاں رہے گا، اس کے بعد پانچویں گھر برج دلو میں داخل ہوگا اور مئی جون میں پیدائشی کیتو سے قران کرے گا، اس وقت امکان ہے کہ مسٹر بائیڈن بعض معاملات میں نہایت جارحانہ فیصلے کریں اور امریکا کا جارحانہ کردار دنیا کے سامنے آئے جس کے نتیجے میں امریکا کی پالیسیوں کے مخالفین مزید برہم ہوسکتے ہیں، امریکا کسی نئے ایڈونچر میں مصروف ہوسکتا ہے، خود امریکی زائچہ اسے دنیا کے ”پولیس مین“ کا کردار دیتا ہے، فطری طور پر بھی امریکی ایک جنگ جو قوم ہے۔
جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی ہے کہ زائچے میں سیارہ مشتری کا دور اکبر جاری ہے جو یکم جنوری 2023 ء تک جاری رہے گا لہٰذا مین پیریڈ کی سعادت مسٹر بائیڈن کوحاصل رہے گی ساتھ ہی راہو کا سب پیریڈ بھی جاری رہے گا اور مسٹر بائیڈن سیاسی میدان میں شاید بہت سے اصول و قواعد کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کریں گے یقیناً وہ سابق صدر مسٹر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف اقدام کریں گے جس کی ابتدا وہ کرچکے ہیں۔
امریکا میں دو جماعتیں عموماً اقتدار میں آتی ہیں، مسٹر بائیڈن کی پارٹی ڈیموکریٹک اور مسٹر ٹرمپ کی پارٹی ریپبلیکن، چناں چہ ایک امریکی صدر کو اپنی پارٹی پالیسیوں کی بھی پیروی کرنا پڑتی ہے، عام طور سے ڈیموکریٹک صدور دنیا بھر میں جمہوری اقدار اور رویوں کو اہمیت دیتے ہیں، اس کے برعکس ریپبلیکن صدر اکثر انھیں نظرانداز بھی کرتے رہتے ہیں لہٰذا مسٹر بائیڈن کو بھی پارٹی کی پالیسیوں کو آگے بڑھانا ہوگا اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔
صدر بائیڈن کی زندگی میں ایک نیا موڑ یکم جنوری 2023 ء کے بعد آئے گا، جب وہ سیارہ زحل کے دور اکبر و اصغر میں داخل ہوں گے،بے شک سیارہ زحل ان کے زائچے کا ”یوگ کارک“ سیارہ ہے لیکن زائچے میں آٹھویں گھر میں مصیبت زدہ ہے، نوامسا چارٹ میں اس کی پوزیشن اچھی ہے لیکن کرئر سے متعلق D-10 میں یہ خراب پوزیشن رکھتا ہے، واضح رہے کہ سیارہ زحل عمر کا بھی کارک (نمائندہ) ہے، مسٹر بائیڈن تقریباً 76 سال کے ہوچکے ہیں، اس اندیشے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ آٹھویں گھر کے قابض زحل کے دور میں ان کی صحت کے معاملات تشویش ناک ہوجائیں اور کوئی ایسی صورت سامنے آجائے کہ ملکی نائب صدر کمالہ ہیرس پر تمام صدارتی ذمے داریوں کا بوجھ آجائے، یہ خاتون اپنی ماں کی طرف سے انڈین ہیں اور ان کے شوہر ایک یہودی ہیں۔
امریکا کے مستقبل کے حوالے سے صرف مسٹر بائیڈن کے زائچے پر انحصار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس حوالے سے امریکی زائچہ زیادہ اہم ہے،تقریباً ہر ملک کا معاملہ ایسا ہی ہے، صدر و وزیراعظم آتے جاتے رہتے ہیں لیکن ملک اور قوم کا زائچہ تبدیل نہیں ہوتا، مستقبل میں دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے تین اہم ممالک میں موجود تین منفرد و مختلف میزانی افراد کی کارکردگی کیا ہوگی؟