سانس کی اہمیت اور سانس کی مشقوں کی ضرورت

روحانیت کی تلاش میں سرگرداں، طالب علموں کے لیے اہم تحریر

متبادل طرز تنفس کی مشق کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں۔ یہ سانس کی بہت سی مشقوں میں سے ایک اور نہایت اہم و بنیادی نوعیت کی مشق ہے، روحیت یا روحانیت سے متعلق تمام مکاتب فکر اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہم کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ سانس کی مشقوں کو روحیت یا روحانیت سے متعلق تمام شعبوں میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مشقیں اس گلشن ہزار رنگ میں داخلے کے لیے دروازے کی حیثیت بھی رکھتی ہیں اور انسان کو منزل مقصود تک پہنچانے میں بھی بے حد معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
صوفیا میں سانس کی مشقوں کے لیے” حبس دم“ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور وہ شاگردوں یا مریدین کو ابتدائی تربیت کے زمانے میں اس طرف مختلف طریقوں سے متوجہ کرتے رہتے ہیں۔ ہندو یوگی اور سادھو بھی اس کی افادیت اور اہمیت کے قائل رہے ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں میں تو ” حبس دم“ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ مغرب میں اسپریچول ازم کی تحریک نے زور پکڑا اور پیراسائیکولوجی کے حوالے سے تحقیقات شروع ہوئیں تو ” علم النفس“ کی اہمیت تسلیم کی گئی اور سانس کی مشقوں پر زور دیا جانے لگا۔
اس تمہید کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ یہ سمجھ لیں کہ ہم سانس کی مشقوں پر اس قدر اصرار کیوں کر رہے ہیں اور انھیں روحیت اور روحانیت کے حوالے علاوہ بھی اکثر مسائل کے حل میں کیوں تجویز کرتے ہیں۔ وہ مسائل ذہنی و روحانی ہوں یا جسمانی۔ ہمارے نزدیک یہ مشقیں ہر صورت میں مفید و صحت بخش ثابت ہوتی ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ انھیں کسی تجربہ کار اور ماہر استاد کے مشورے سے اس کی نگرانی میں کیا جائے۔
متبادل طرز تنفس کی مشق چوں کہ ابتدائی نوعیت کی مشق نہیں ہے لہٰذا اسے بلا مشورہ ہر گز شروع نہ کرنا چاہیے۔ جو لوگ دیگر مشقوں کے مرحلوں سے کامیابی سے گزر چکے ہوں انھیں اپنے استاد یا نگران سے مشورہ و اجازت کے بعد شروع کرنا چاہیے۔
سانس کی مشقوں سے حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں ہم اکثر لکھتے رہتے ہیں لیکن اس حوالے سے حضرت رئیس امروہوی مرحوم کی تحریریں نہایت قابل قدر ہیں، ایک بلند پایہ شاعر اور ادیب ہونے کے ناتے موصوف کا انداز بیان بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں، فرماتے ہیں کہ جو مشقیں” نفس انسانی“ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو بے دار کرنے، ذہنی، دماغی ترقی اور نفسیاتی صحت مندی کے لیے کی جاتی ہوں، ان میں سانس کی مشقوں کو درجہ اول کی اہمیت حاصل ہے۔
ان کا واحد مقصد اور نصب العین انسان کی قوت ارادی کو اجاگر کرنا ہے۔ انسانیت کی عظمت صرف اس کی قوت ارادی میں پوشیدہ ہے۔ انسانی ارادہ فاتح کائنات بھی ہے، معمار حیات بھی، ہماری تمام ذہنی الجھنوں، تمام دماغی پریشانیوں اور تمام روحانی گتھیوں کی تہ میں صرف ارادے کی کمزوری کارفرما ہوتی ہے۔ ہم اپنے وحشی، بے روک اور پرشور جذبات پر صرف قوت ارادی کی بدولت قابو پاسکتے ہیں۔ انسانی جبلتوں( مثلاً بھوک، جنس، تشدد وغیرہ) اور انسانی جبلت کے سرچشمے سے پھوٹنے والے جذبات کا تعلق ہمارے اعصاب اور غدود کے عمل سے ہے اور سانس کا زیر و بم بھی اسی نظام اعصاب سے تعلق رکھتا ہے۔ گویا جذبات کا اتار چڑھاو¿ اور سانس کی آمد ورفت ایک ہی مرکز سے وابستہ ہے، اس مرکز کو خود مختار اعصابی نظام کہتے ہیں۔ فعلیات اور نفسیات کے ابتدائی طالب علم بھی جانتے ہیں کہ جسمانی ڈھانچے میں نمایاں اہمیت رکھنے والے اعصابی نظام صرف دو ہیں۔ اعصاب کا ایک نظام وہ ہے جسے دماغی تمامی نظام (Cerbro Spinal) کہتے ہیں۔ (یہ بھی کئی حصوں میں منقسم ہے) دوسرا تائیدی اعصابی نظام کہلاتا ہے (Sympathetic system) پہلا دماغی تمامی نظام انسانی ارادے کے تحت ہے اور دوسرا تائیدی عصبی نظام خود مختار اور ارادے کی گرفت سے آزاد ہے۔ میں نے ان سطور کی تحریر کے وقت جتنے کام کیے مثلاً کاغذ سامنے رکھنا، قلم انگلیوں میں پکڑنا، دماغ کو مضمون کی طرف متوجہ کرنا، عبارت کی گنجائش کا لحاظ اور صرف ایک موضوع سے بحث کو پیش نظر رکھنا، الفاظ کو صاف صاف سیدھی سطروں میں لکھنا، ناپسندیدہ فقروں کو کاٹنا، مضمون سے تعلق نہ رکھنے والی بحثوں کو حذف کردینا، قلم میں روشنائی بھرنا، ورق الٹنا، غرض اس عبارت کی ترتیب و تحریر کے سلسلے میں جتنے کام کیے گئے ان سب کا تعلق دماغ اور اعصاب کے اس سلسلے سے ہے جو قوت ارادہ کے تحت ہے اور جسے میں جان بوجھ کراور سوچ سمجھ کر حرکت میں لاتا ہوں لیکن اس کام، یعنی تحریک مضامین کے ساتھ ساتھ میرے دماغ اور اعصاب کا دوسرا نظام( تائیدی عصبی سسٹم) بھی خود بخود کام کرتا رہا اور مجھے اس کی سرگرمیوں کی خبر تک نہ ہوئی مثلاً سانس چلتا رہا، دل دھڑکتا رہا، رگوں میں خون گردش کرتا رہا، نبض جاری رہی، بار بار پہلو بدلا جاتا رہا، گرے ہوئے بالوں کو سلجھاتا رہا، سر کھجاتا رہا، غرض تحریر عبارت کے دوران میں بہت سی غیر شعوری حرکتیں اور غیر ارادی فعالیتیں سر زد ہوتی رہیں اور یہ سارا کام دماغ اور اعصاب کے خود مختار سسٹم نے انجام دیا۔
نظام جذبات بھی بہت حد تک اسی سسٹم سے تعلق رکھتا ہے جس طرح ہم عام حالات میں سانس کی رفتار اور عام قدرتی حرکات(مثال کے طور پر پلک جھپکنا) کو کنٹرول نہیں کرسکتے، اسی طرح ہیجان جذبات اور طوفان احساسات کے وقت بھی دل اور دماغ کو معتدل و متوازن رکھنا قریب قریب ہمارے امکان سے باہر ہوجاتا ہے۔ انسان جذبات کی رو میں وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جس کا بحالت شعور تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جذباتی کیفیت کی ذرا سی تبدیلی کے ساتھ سانس کی رفتار بھی بدل جاتی ہے۔ غم کی شدت میں گہرے گہرے سانس لینا، مایوسی اور بے بسی کے عالم میں دم گھٹنا، خوف میں نیچے کا سانس نیچے اور اوپر کا سانس اوپر رہ جانا، غصے میں ہانپنا، جنسی ہیجان میں تنفس کی تیزی،حملہ کرتے وقت سانس روک لینا، شدت حیرت میں سانس کا اٹک اٹک کر چلنا، اطمینا ن و سکون کا گہرا سانس، رنج و غم کا ٹھنڈا سانس، چوٹ کھا کر کراہنا، مایوسی میں آہ آہ، ہنسنے میں قاہ قاہ اور مسرت میں واہ واہ! یہ سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ جذبات کی رفتار ناپنے کے لیے سانس کے اتار چڑھاو¿ کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ سانس، نفس کے آلہ ءجذبات پیما کی حیثیت رکھتا ہے پھر یہ توبنیادی اور بد یہی حقیقت ہے کہ نفس( جان) کا دارومدار ہی تنفس پر ہے۔
شیخ سعدی ؒ نے اپنی نادرِ روزگار کتاب ”گلستان“ کا آغاز ایسے فقرے سے کیا ہے جو صدیوں سے ضرب المثل کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ فرماتے ہیں” ہر سانس جو اندر جاتاہے، زندگی کا سہارا ہے اور جب باہر آتا ہے تو ذات کو فرحت بخشتا ہے“ درحقیقت شیخ سعدی نے کہ ہر فقرہ ان کا حکمت و اخلاق کی ہزار کتابوں پر بھاری ہوتا ہے، ان چند لفظوں میں یوگ، تصوف، فعلیات اور حیاتیات کے بھاری بھر کم علوم و فنون کا نچوڑہے۔
زندگی کیا ہے؟ سانس کا تسلسل، عمر شماری درحقیقت نفس شماری کا نام ہے، طول حیات کو دن مہینے اور سال سے ناپنے کے بجائے سانسوں کی تعداد سے ناپنا چاہیے۔ سانس بند ہو ااور روح و جسم کی مشترکہ مشین چلتے چلتے رک گئی۔
سانس کی مشقوں سے دل و دماغ، حافظہ، یادداشت، جذباتی کیفیت، ذہنی حالت اور دماغی صحت پر جو اثرات پڑتے ہیں ان کا اندازہ مندرجہ بالا بیان کی روشنی میں لگایا جاسکتا ہے جو مشقیں انسانی وجود کے حکمران یعنی دماغ کے لیے اس قدر فائدہ مند ہوسکتی ہےں، ان مفید اثر مشقوں کا دماغ کے ماتحت اعضائے جسمانی معدہ، جگر، گردے، پھیپھڑے، جنسی غدود اور اعصاب و عضلات پر کتنا گہرا ،دیرپا اور اہمیت کا حامل اثر ہوتا ہوگا۔
اس حقیت سے انکار ممکن نہیں کہ کوئی مرض سو فیصدی جسمانی ہوتا ہے نہ سو فیصدی نفسیاتی یا روحانی۔ ہر مرض کی نشوو نما میں(اتفاقی حادثات کو چھوڑ کر مثلاً کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ) انسانی ذہن اہم ترین حصہ لیتا ہے، خواہ اس کی شکایت کی نوعیت بظاہر جسمانی ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر معدے اور نظام ہضم سے متعلق جتنے امراض جگر و معدے کے کینسر تک نمودار ہوتے ہیں ، ان سب کے پیچھے دماغ (یعنی انداز فکر) کی کار فرمائی ہوتی ہے۔ اگر آپ کی سوچ بیمار ہے تو ممکن ہی نہیں کہ جسم صحت مند رہ سکے، تن درستی درحقیقت” من درستی“ کا نام ہے۔ مریض بڑے بڑے حادثہ ءمرض کو سکون سے جھیل جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ذہن شدت مرض سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جذبات اور جسمانی کیفیات میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ ہم سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں، ایک معمولی مثال لیجیے۔ بھوک میں غصہ آجاتا ہے اور غصے میں بھوک مرجاتی ہے، رعب و دبدے کے سبب آدمی ہکلانے لگتا ہے، شدید رنج و غم سے سر میں درد شروع ہوسکتا ہے، الغرض اس ضمن میں بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ کسی بھی علم کے حصول اور اس پر کامل دسترس کا انحصار آپ کی نیک نیتی اور لگن پر ہے۔ا گر آپ جائز مقاصد کے لیے مکمل ذوق و شوق سے کسی بھی راستے پر آگے بڑھیں گے تو ایک روز منزل ضرور آپ کے قدموں تلے ہوگی۔ وہ لوگ جو منفی ارادوں کے تحت یا محض تفریح کی خاطر ان علوم و فنون کے تجربات کرنے بیٹھ جاتے ہیں انھیں اکثر ناکام ہی ہوتے دیکھا گیا ہے۔
دوسرا نہایت اہم معاملہ یقین کا ہے۔ آپ جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں اگر اس کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مشکوک ہیں تو یقینا کسی نہ کسی مرحلے میں آپ کی کوشش اور جدوجہد ضرور کم زور پڑسکتی ہے یا پھر آپ ابتدائی ناکامیوں سے بد دل ہوکر اپنی کوششوں کو ہی ترک کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ کو یہ یقین کامل ہو کہ فلاں پہاڑ کے عقب میں آپ کا مقصد حیات پوشیدہ ہے تو آپ کی جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آپ پہاڑ کو اپنے راستے ہٹا نہیں دیتے، خواہ اس کے لیے آپ کو کچھ بھی کرنا پڑے۔
یقین کامل حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی منزل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مستند معلومات حاصل کریں، لہٰذا وہ افراد جو پیراسائیکولوجی کی کسی بھی شاخ کی جانب دست شوق بڑھانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اس کے بارے میں پہلے مکمل مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں اردو یا انگریزی زبان میں کتابوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس مطالعے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جب آپ عمل کے میدان میں قدم رکھیں تو اس علم کے کسی ماہر سے ضرور رابطے میں رہیں کیوں کہ درمیان میں کچھ ایسے بھی مقام آجاتے ہیں جن کے بارے میں کتابیں بھی اکثر کوئی رہنمائی نہیں کرپاتیں۔