دماغ کی برقی لہریں اور تنویمی عمل
اپنے لاشعور کو ہدایت دینے کا طریق کار اور خوش امیدی
کچھ ایسی نادیدہ قوتیں بھی ہوتی ہیں جو ہمارے لاشعور پر اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ ہمارا شعور ان سے واقف نہیں ہوتا، ان کا ادراک نہیں رکھتا۔
ایسی نادیدہ قوتوں کے بارے میں ٹھوس ثبوت جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے حاصل کرلیے گئے ہیں اور ان ثبوت و شواہد نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا لاشعور ہمارے شعور سے برتر ہے۔ ہمارا شعور اس قدر تیزی، پھرتی، تنوع اور حساسیت نہیں رکھتا جتنا لاشعور۔ یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ جو کچھ لوگوں کا شعور دیکھ اور سن نہ سکا اسے ان کے لاشعور نے محسوس کرکے اپنے اندر اتار لیا۔لاشعور کی اس پھرتی اور حساسیت کو منفی اور مثبت دونوں قسم کے مقاصد کے حصول کے لیے کام میں لایا جاسکتا ہے، یعنی اسے عوام الناس کی ذہنی پریشانیوں، مایوسیوں اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور دوسری طرف اس کے ذریعے خطرناک قسم کی برین واشنگ بھی ممکن ہے۔
فی زمانہ جن بھوت، آسیب اور سحرو جادو کا شکار جو افراد سامنے آتے ہیں وہ اپنے لاشعور کی اس بڑھی ہوئی کارکردگی کی وجہ سے وہ کچھ محسوس کر رہے ہوتے ہیں جو ان کا شعور محسوس نہیں کرسکتا یا اسے سمجھ نہیں سکتا۔ وہ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ میں نے اس طرح کی آوازیں سنیں یا اپنے گھر میں، کمرے میں کوئی عجیب سی چیز یا سایہ دیکھا یا وہ یہ محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی نادیدہ وجود ان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے ان سے باتیں کرتا ہے، وہ کسی ماورائی رابطے میں آگئے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی لاشعور کی قوت میں اضافے کی دیگر شکلیں سامنے آتی ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے خواب سچے ہوتے ہیں، وہ جو کچھ خواب میں دیکھتے ہیں، ایسا ہی ان کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ ایسا ہوجائے تو ایسا ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ منفی اور بری باتیں ہی زیادہ سوچتے ہیں اور پھر وہ پوری بھی ہوجاتی ہیں، خصوصاً اس صورت میں جب وہ ان کا زبان سے اظہار بھی کرتے رہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ بھئی بڑی کالی زبان ہے اس کی۔
اکثر بیماریوں، ناکامیوں اور محرومیوں کا شکار افراد اس قدر مایوس گفتگو کرتے نظر آتے ہیں کہ ان پر رحم آنے لگے۔ دنیا کی ہر مثبت شے سے ان کا اعتبار اٹھ چکا ہوتا ہے۔ اب تو کوئی معجزہ ہی سامنے آئے تو بات بنے، اپنی ساری زندگی کی محرومیوں اور ناکامیوں کو قسمت کے یا کسی جن بھوت یا سحری اثر کے کھاتے میں ڈال کر بیٹھے رہتے ہیں۔ اگر وہ صرف اپنی سوچ کا انداز بدل لیں تو ٹھورے ہی عرصے میں ان کی زندگی ایک خوش گوار انقلاب سے دوچار ہوجائے۔ مثبت طرز فکر کے ساتھ خوش امیدی کا دامن تھام لیں اور اپنی لاشعوری تحریکات کو مثبت رخ دینے کی کوشش کریں۔ اس طرح نہ سوچیں کہ میں پیدائشی طور پر بدقسمت ہوں، میں کچھ نہیں کرسکتا، میں کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا، مجھ پر سحری اثرات ہیں یا مجھ پر کسی جن، آسیب کا قبضہ ہے جو مجھے کامیاب نہیں ہونے دیتا، فلاں عالم بھی اس کی تصدیق کرچکا ہے، فلاں فلاں میرا مخالف ہے اور مجھ پر بندش کرادی ہے لہٰذا جب تک بندش نہیں کھلے گی، میں کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ اور ایسی ہی دیگر سوچیں نہایت خطرناک ہیں اور منفی طرز فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس آپ کی سوچ کا یہ انداز ہونا چاہیے۔ اللہ عادل و منصف ہے، وہ کسی انسان کو بدقسمت پیدا نہیں کرتا۔ ہم اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور معاشرتی نا انصافیوں کے سبب ناکامیوں، محرومیوں اور بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ہمیں جدوجہد کرنی چاہیے اور میں یہ جدوجہد کروں گا، آخر دم تک، یہاں تک کہ میں کامیاب ہوجاو¿ں گا، ہر رکاوٹ دور ہوجائے گی، وقت بدلے گا، میں وقت کو بدل دوں گا، میں سب کچھ کرسکتا ہوں، کوئی مجھے نہیں روک سکتا، کوئی بیماری میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کوئی جادو مجھ پر اثر انداز نہیں ہوسکتا، وغیرہ وغیرہ۔
اپنے لاشعور کو ا س انداز میں ہدایت دیتے رہنا چاہیے اور پھر اس خوش امیدی کو بھی اپنانا چاہیے کہ ” میں روز بروز بہتر ہورہا ہوں، میرے کل سے میرا آج بہتر ہے اور آنے والا کل مزید بہتر ہوگا۔ یاد رکھیں! مثبت طرز فکر رکھنے والوں کے لیے ہر مشکل ایک بہت بڑے فائدے کا پیغام لاتی ہے۔
اب آئیے، اس نادیدہ قوت کی سائنسی حقیقت کی طرف جو ہمارے لاشعور کی مثبت اور منفی کارکردگی کا ٹھوس ثبوت ہے۔
14 فروری1956کو ریڈیو اسٹاک ہوم نے ایک خبر دی کہ ایس ایس اینڈرا ڈوریا اور ایس ایس ہوم سمندر میں سفر کے دوران آپس میں ٹکرا گئے۔ پچاس ملاح ہلاک ہوئے، سخت تباہی پھیلی، جہاز اینڈراڈوریا کے ریڈار آپریٹر کا بیان تھا کہ اس نے اس خوف ناک تصادم سے چند منٹ قبل ہی دونوں جہازوں کا درمیانی فاصلہ دس میل نوٹ کیا تھا مگر اس کے باوجود جہاز چند منٹ بعد آپس میں ٹکرا گئے۔ کون سی نادیدہ قوت انھیں چند منٹوں میں اتنا قریب لے آئی؟
26 مارچ 1959 کو ریڈیو نیو یارک نے یہ خبر نشر کی” ایس ایس سانتا روز اور ٹینکر و الک ہام آپس میں ٹکرا گئے۔ چار ملاح ہلاک ہوئے، سانتا روز کے ریڈار آپریٹر کا کہنا تھا کہ اس نے ٹینکر و الک ہام کو بیک وقت دو جگہ اپنے ریڈار پر دیکھا تھا، ایک ہی جہاز ریڈار پر دو جگہ کیسے نظر آسکتا ہے۔ یہ ایک معمول تھا اور تحقیق طلب تھا۔ پچاس کی دہائی میں پیش آنے والے یہ دو واقعات ایک چھوٹا سا نمونہ تھا۔ دونوںحاد ثات عجیب و غریب حالات میں پیش آئے تھے اور ان کے تصادم کے بارے میں کوئی تسلی بخش رائے قائم نہیں کی جاسکتی تھی۔ سائنس دان ریڈار کے دھوکا دینے پر حیران تھے، ان کی سمجھ سے یہ بات باہر تھی کہ ریڈار پر دس میل دور نظر آنے والی چیز یک دم کیسے آگے بڑھ کر ٹکرا گئی یا ایک ہی جہاز ریڈار کی اسکرین پر دو جگہ کیسے نظر آیا؟ دونوں ریڈار آپریٹر بہت تجربہ کار اور فرض شناس قسم کے افراد تھے اور ان کے بارے میں یہ اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ انھوں نے نا تجربہ کاری کے باعث غلط ریڈنگ لی ہوگی یا وہ نشے میں ہوں گے۔
دونوں حادثات پر خوب خیال آرائیاں ہوئیں اور بڑی تحقیق کی گئی لیکن کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ آخر اس مسئلے کو ایک نوجوان ماہر ہپناٹزم، ریڈیو آپریٹر اور ماہر برقیات نے حل کیا۔ اس کا نام سڈنی شنائڈوتھا۔ سڈنی دوسری جنگ عظیم کے دوران میں امریکی فوج میں شامل تھا اور اس ڈیوٹی کے دوران سڈنی نے محسوس کیا کہ اس کے ساتھی ریڈار آپریٹر بعض اوقات ایک مخصوص قسم کے ٹرانس میں آجاتے تھے۔ اس وقت ان کا تعلق باقی دنیا سے کٹ جاتا تھا اور خود انھیں بھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان کا رابطہ دنیا سے کٹ چکا ہے یا وہ ایک نادیدہ تنویمی عمل کا شکار ہوچکے ہیں۔
اپنی اس دریافت پر سڈنی ابتدا میں خود حیران رہ گیا۔ یہ بات اس کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ آپریٹرز کو ریڈار کس طرح ہپناٹائز کرسکتا ہے ؟ لیکن یہ مشکل بھی حل ہوگئی اور دنیا کے سامنے ریڈیائی لہروں کے استعمال کا ایک اچھوتا پہلو سامنے آیا۔ سڈنی کی تحقیق و جستجو سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ریڈار آپریٹر کو ریڈار کی اسکرین پر مستقل نگاہیں جمانی پڑتی ہیں( بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص شمع بینی یا دائرہ بینی وغیرہ میں نگاہیں جماتا ہے) ان کی توجہ متواتر ایک ہی چھوٹی سی اسکرین کی طرف مبذول رہتی ہے۔ ریڈار سے خارج ہونے والی لہریں ریڈار آپریٹر کی دماغی لہروں سے ہم آہنگ ہوجاتی ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپریٹر کا ذہن ریڈار کا غلام ہوجاتا ہے، دوسرے الفاظ میں ہم اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہپناٹائز ہوجاتا ہے۔
یہ بات ایسی ہی ہے جیسا کہ موجودہ زمانے میں نشریات کو جام کرنے کے لیے طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک ملک کے ریڈیو یا ٹی وی کی نشریات کو اپنے ملک میں آنے سے روکنا ہو تو اس کے لیے اپنے ملک سے دوسرے ملک کی طرف ٹرانس میٹر کا رخ کرکے، اسی فرکوئنسی پر نشریات کی جاتی ہیں، کسی ایک مقام پر دونوں ٹرانس میٹر کی لہریں آپس میں ٹکرا تی ہیں اور نتیجتاً وہیں رک جاتی ہیں۔
سڈنی نے اپنی اس دریافت کو ثابت کرنے کے لیے ریڈار کی فریکوئنسی تبدیل کی تو ہپناٹائزڈ آپریٹر کا ذہن فوراً ہی ٹرانس سے آزاد ہوگیا۔ ان تجربات نے سڈنی کو ایک اچھوتی مشین تخلیق کرنے کا خیال دیا۔ جنگ عظیم دوم ختم ہونے کے بعد اس نے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا اور اپنی ایجاد کو برین ویو سائنکرونائزر (Brain wave Synchronizer)کا نام دیا۔
اس مشین کے ذریعے کسی بھی شخص کو مختلف درجوں تک ہپناٹائز کیا جاسکتا تھا۔ سڈنی کا کہنا تھا کہ اس مشین اور دماغ کے تعلق کو ہم ٹیلی ویژن اور ٹرانس میٹر کے درمیان رابطے سے سمجھ سکتے ہیں جس طرح ٹرانس میٹر لہریں نشر کرتا ہے اور ٹیلی ویژن انھیں وصول کرکے اسکرین پر تصویر لے آتا ہے اسی طرح اس کی مشین بھی لہریں پھینک کر انسانی دماغ کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے پر مجبور کردیتی ہے۔ مشین سے مختلف فریکوئنسی کی لہریں نکلتی ہیں جنھیں روشنی کے امتزاج سے معمول کے دماغ کی طرف پھینکا جاتا ہے۔ جونہی معمول کا دماغ پھینکی جانے والی کسی فریکوئنسی سے میل کھاتا ہے، وہیں تنویمی عمل واقع ہوجاتا ہے اور معمول کا دماغ بند ہوجاتا ہے۔
سڈنی نے اپنی تحقیق اور تجربے میں سب سے زیادہ اہمیت جس نکتے کو دی وہ دماغی لہروں کی موجودی تھی۔ اس کے مطابق دماغی برقی لہریں پیدا کرتا ہے اور ان لہروں کی قوت کو گھٹایا بڑھایا جاسکتا ہے۔ دماغ کی اس نشریاتی قوت کو 1929 میں پہلے ہی ایک مشین میں استعمال کیا جارہا تھا جسے ” الیکٹروسینی فالو گراف“ کہا جاتا ہے۔ اس مشین کے ذریعے دماغ میں ابھرنے والی لہریں ریکارڈ کی جاتی ہیں اور کوما میں موجود مریضوں میں زندگی کی علامتوں کا پتا لگایا جاتا ہے۔دماغ کی یہ برقی لہریں شعور سے زیادہ لاشعور میں طاقت ور ہوتی ہیں اور سڈنی بھی اپنی مشین کے ذریعے انسان کے لاشعور کو ہی نشانہ بناتا ہے۔ آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دماغی لہریں کس طرح ماورائے عقل تصورات کو حقیقت میں تبدیل کرتی ہیں۔
لاشعور کی عظیم سلطنت آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ مستحکم و باقوت اور انتہا درجے کی زرخیزی لیے ہوئے ہے۔ ہم نے اب تک لاشعور کے حوالے سے ایسے عناصر کے اثرات کا ذکر کیا ہے جو محسوس کیے جاسکتے ہیں یا جو طبعی طور پر موجود ہیں۔ لاشعوری تحریک یا پیغام رسانی اور مشینی تنویم وہ تمام بیرونی عوامل ہیں جو آپ کے لاشعور کو متاثر کرتے ہیں۔