شادی اور رشتوں کے حوالے سے فراڈ اور جرم کا سبق آموز ماجرا

شادی اور رشتوں کے حوالے سے فراڈ اور جرم کا سبق آموز ماجرا

عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

زندگی کی کہانیاں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں، جب ہم ناولوں، افسانوں، فلموں یا ڈراموں میں یہ کہانیاں پڑھتے اور دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ سچی بھی ہوسکتی ہیں لیکن واقع یہ ہے کہ انسانی زندگی کی ہر کہانی سچی ہی ہوتی ہے کیوں کہ کہانیاں لکھنے والے بھی تو وہی کچھ لکھتے ہیں جو انہوں نے دنیا میں دیکھا اور سنا ہوتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ وہ اصل کہانی میں کچھ اپنی مرضی کے کردار اور واقعات ڈال کر ایک عام سی کہانی کو زیادہ دلچسپ بنادیتے ہیں لیکن ہمیں بغیر ناول یا افسانہ پڑھے اور بغیر کوئی فلم یا ڈرامہ دیکھے ایسی ایسی سنسنی خیز کہانیوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جو کبھی کسی ڈرامے میں بھی نظر نہیں آتیں۔

ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم ہر کہانی بیان نہیں کرسکتے مگر جب بھی کوئی ایسی کہانی سامنے آتی ہے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو اور وہ سبق حاصل کرسکیں، ایسی کہانی اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کے لئے ہمیں بھی کہانی کے مرکزی کردار کی اجازت درکار ہوتی ہے، اگر وہ اپنے خط میں لکھ دیں کہ خط کو صیغہءراز میں رکھا جائے تو ہم ان کی خواہش کا پوری طرح احترام کرتے ہیں۔

آج ایک نہایت دلچسپ لیکن افسوسناک اور عبرت اثر کہانی پیش خدمت ہے۔

ف،خ نامعلوم مقام سے لکھتی ہیں ”آپ کا کالم مستقل پڑھتی ہوں لیکن پہلی مرتبہ خط لکھ رہی ہوں، اپنا دکھ بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں لیکن اتنی بڑی دنیا میں صرف آپ کو ہی وہ سب کچھ لکھ کر بھیج رہی ہوں جو مجھ پر گزری ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک زندگی محرومیوں، ناکامیوں اور جدوجہد میں ہی گزری ہے جس طرح میں نے تعلیم حاصل کی اور دیگر کورسز کیے یہ تو ایک الگ داستان ہے کیوں کہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کی نفرتیں، جھگڑے مستقل رہے۔

میرے والدین انتہائی سادہ اور شریف النفس ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ محبت نام کی کوئی چیز کم از کم میرے حصے میں نہیں آئی، چچا، تایا، پھوپیاں الغرض سب نے میرے والد کی محنت کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور اب وہ ہم سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے، میری خالہ نے بہت سال پہلے میرا رشتہ مانگا تھا، لڑکا کیریکٹر کا اچھا نہیں تھا اس لئے انکار کردیا گیا اور وہ ہمارے دشمن ہوگئے، میرے خالو جو کہ عامل ہیں۔ انہوں نے میرے اوپر بندش کر رکھی ہے بلکہ پورے گھر پر، ہمارے گھر میں عزت ، محبت، توجہ اور رزق کی تنگی ہے، ہر طرف سے مالی نقصان ہورہا ہے، ہم بالکل تنہا ہیں۔

میرے ماں باپ نے مجھے ہمیشہ گھر میں رکھا، رشتہ داروں یا دیگر لوگوں سے ملنے نہ دیا جس کی وجہ سے میرے اندر خود اعتمادی کا زبردست فقدان ہے، میری تمام سہیلیاں مجھ سے مطلب نکال کر منہ پھیر لیتی ہیں، میں کسی سے اپنا دکھ بیان نہیں کرسکتی، ایک آس تھی کہ جب شادی ہوگی تو سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن وہ بھی پوری نہ ہوئی، ایک جگہ میری منگنی ہوئی مگر مہینہ بھر بعد ہی ختم ہوگئی، پھر دوسری جگہ بات بنی مگر وہ عین رسم والے دن ختم ہوگئی پھر بے حد و حساب کوششیں کی گئیں، رشتے کرانے والوں کو بہت پیسہ دیا گیا، پیروں، فقیروں اور نجومیوں سے رجوع کیا گیا، کافی پیسہ دیا، وظائف، صدقے، سب کچھ کیا مگر کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔

پھر میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو ہاتھ دیکھتی تھی اور روحانی مسائل بتاتی تھی، اس نے مجھے کہا کہ میری شادی اس سال ہونا ضروری ہے یعنی نہ کی تو پھر کبھی نہ ہوگی اور یہ شادی خود کرنا ہوگی، خود بخود نہ ہوگی، اس بات سے میں شدید خوف زدہ ہوگئی، ہر ملاقات میں وہ یہی کہتی تھی کہ شادی اسی سال کرنا ہوگی۔اس نے مجھے وظائف بھی بتائے اور یہ تاکید کی کہ رشتے سے انکار نہیں کرنا ہے۔ بہر حال انہی وظائف کے درمیان ایک رشتہ آیا، لڑکے نے خود ابو جی سے بات کی اور کہا کہ مجھے آپ کا نمبر فلاں رشتہ کروانے والی نے دیا تھا، لڑکے نے خود کو اسکول کا پرنسپل بتایا اور یہ بھی کہا کہ اس کی زمینیں وغیرہ بھی ہیں اور اپنا ذاتی اسکول ہے۔

اپنی تعلیم کے سلسلے میں بھی بہت اعلیٰ کورسز بتائے جو وہ کرچکا تھا، یہ بھی بتایا کہ پہلے شادی ہوئی تھی اور چوں کہ بیوی اپنے کزن کو پسند کرتی تھی اس لئے دو تین ماہ شادی رہی اور پھر پوری کوشش کے باوجود وہ چھوڑ کر چلی گئی اور طلاق ہوگئی اس لیے گھر والوں سے بھی اختلافات ہوگئے کہ انہوں نے مجھے ایک غلط جگہ کیوں پھنسا دیا؟ اب گھر والوں کا کہنا ہے کہ تم خود لڑکی پسند کرو اور شادی کرلو۔ بہر حال وہ خود گھر آیا اور کہا کہ بیوی کو الگ گھر لے کر رکھوں گا، نوکر چاکر ہوں گے، کسی چیز کی میرے پاس کمی نہیں ہے۔

ابو،امی بہت خوش ہوئے کہ بیٹی راج کرے گی، اس کے گھر کا کوئی فرد ہمارے گھر نہیں آیا کیوں کہ اس کا کہنا تھا کہ گھر والے اپنی برادری ہی میں اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں، اس نے ابو کو اپنا اسکول بھی دکھایا اور اپنے والد اور دوستوں سے بھی ملایا، اس نے کہا کہ جہیز وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے، اس کے پاس سب کچھ ہے اور شادی جلدی اور سادگی سے ہوگی، پھر اگلے ہی دن اس کا فون آیا کہ آپ جہیز کی بجائے 2 لاکھ روپے کیش دے دیں۔ میرا ایک پلاٹ ہے، وہ بیوی کے نام کرکے اس پر تعمیر کا کام شروع کرادوں گا۔

والد نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آج کل شادیاں ایسی ہی ہوتی ہیں، آپ رقم دے دو، اچھا رشتہ ہے، ہاتھ سے نہ نکل جائے، ادھر اس روحانی مسائل والی عورت نے حساب کرکے بتایا کہ بہت اچھا رشتہ ہے، آئندہ زندگی میں تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی، اس نے کہا کہ میں تمہاری شادی ہوتے دیکھ رہی ہوں اور میں نے اپنے مرشد سے بھی پوچھ لیا ہے ، غرض اس نے مجھے بہت زیادہ زور دیا کہ میں ہر گز انکار نہ کروں، میں نے اسے بتایا کہ یہ رشتہ میں آپ کی وجہ سے قبول کر رہی ہوں ورنہ میری کوئی مرضی نہیں ہے۔

چند روز بعد ہی لڑکے نے فون کیا اور خود ہی نکاح اور رخصتی کی تاریخ مقرر کردی اور حق مہر ایک لاکھ روپے کا وعدہ کیا جس سے وہ نکاح کے وقت مکر گیا اور صرف 50 ہزار لکھوایا، ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ میں اس کی تمام جائیداد میں آدھی حصہ دار رہوں گی۔ نکاح کے لیے وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ آیا اور بہت ہی جلدی میں تمام کاغذات پر دستخط وغیرہ کرائے گئے ، مجھ سے نہ تو مولوی نے کچھ پوچھا اور نہ ہی گواہوں نے، میرے پاس صرف والد صاحب آئے اور مجھے کاغذات پڑھنے کا موقع دیئے بغیر دستخط کروالیے گئے۔

والد صاحب نے وعدے کے مطابق دو لاکھ روپے کا چیک دیا تو وہ سخت ناراض ہوا، اسے چیک دینے پر شک تھا، بہر حال اگلے روز اس کا فون آیا کہ چیک تو بینک والے کئی دن بعد کیش کریں گے، مجھے نقد رقم چاہیے اور بہر حال وہ دوسرے دن آکر والد سے نقد رقم لے گیا۔

نکاح والے دن چیک کے مسئلے پر میرے بھائی سے اس کا رویہ بہت خراب تھا لہٰذا بھائی کچھ مشکوک ہوگیا تھا، اس نے اپنے دوستوں سے ذکر کیا اور ان کی کوششوں سے لڑکے کی اصلیت کا پتا چلا کہ وہ جو کچھ کہتا رہا، وہ سب جھوٹ تھا، دراصل وہ بلیک میلنگ اور نوسر بازی کا کام کرتا تھا، نہ تو زیادہ پڑھا لکھا تھا اور نہ ہی وہ پرنسپل تھا، اسکول ضرور اس نے کھول رکھا تھا لیکن اس کی آڑ میں دوسرے جرائم کے دھندے کرتا تھا، بہر حال اس کے کالے کرتوتوں کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئیں وہ بیان نہیں کی جاسکتیں۔

اس سلسلے میں پولیس سے رابطہ کیا گیا تو وہاں بھی اس کا اثرورسوخ موجود تھا، ہماری کوئی بات نہیں مانی گئی، بلکہ ایک انسپکٹر نے میرے والد کو بہت ذلیل کیا اور کہا کہ نکاح کیا ہے تو لڑکی کو رخصت بھی کرو۔ وہ طلاق دینے پر تیار نہیں تھا، نہ رقم واپس دینے پر تیار تھا بلکہ رخصتی کے لیے بضد تھا، اس نے علاقے کے لوگوں کی پنچائت جمع کرلی اور ہم پر زور ڈالا جانے لگا کہ رخصتی دیں، قصہ مختصر یہ کہ بڑی جدوجہد اور پریشانی کے بعد معاملہ ختم ہوا، اس نے رقم دینے سے انکار کردیا اور نکاح نامے میں لکھی گئی شرائط بھی ختم کرائیں، اس کے لئے علیحدہ سے والد صاحب سے تحریر لکھوائی، تب یہ معاملہ ختم ہوا۔

روحانی مسائل والی عورت اپنی باتوں سے کافی حد تک مکر چکی ہے اور مجھ سے واسطہ بھی ختم کردیا ہے۔ میری دنیا اندھیر ہوچکی ہے اور دعاوں اور وظیفوں پر سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ آپ کوئی ایسا حل بتایئے کہ مجھے سکون آجائے اور زندگی بہتر طور پر گزر سکے۔ مجھے تو اب شادی کے نام سے بھی خوف آتا ہے، بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اس فراڈیے شخص کی ایک نہیں بلکہ 2 شادیاں ہوچکی تھیں اور بچے بھی تھے۔ پلیز میرے مسئلے کو سنجیدگی سے لیجئے گا، میں آپ کے جواب کا شدت سے انتظار کروں گی

جواب:عزیزم! ایسے فراڈیے اور نوسر باز لوگوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے لیکن یہ لوگ انہی لوگوں کو لوٹ سکتے ہیں جو ان کی چال میں آجاتے ہیں اور بہر حال آپ کے والد، بھائی قصور وار ہیں جو اس فراڈیے کی باتوں میں آکر سب کچھ کرتے رہے، ایک انجان شخص پر اتنی جلدی اتنا زیادہ بھروسہ کرلیا اور آپ ایک فراڈ عورت کی باتوں میں آگئیں، اس شخص نے آپ کے والد کو اپنے اسکول میں بلا کر مطمئن کردیا، اصولاً تو انہیں اس کے گھر جانا چاہیے تھا۔

دوسری نہایت اہم بات یہ ہے کہ آپ نے اور آپ کے گھر والوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ جس لڑکے کے گھر والے راضی نہیں ہیں اس کے ساتھ زندگی پرسکون کیسے گزر سکتی ہے، کیا وہ ہمیشہ کے لئے اپنے خون کے رشتوں کو چھوڑ سکتا ہے۔

بہر حال اس ساری صورت حال پر مزید تبصرہ کرنا ہم بے کار ہی سمجھتے ہیں، اب جو ہوگیا سو ہوگیا مگر اتنی مایوسی بھی ٹھیک نہیں ہے اور آپ کا کون سی دعاوں اور وظیفوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے؟وہ جو اس فراڈی عورت نے آپ سے کرائے تھے؟

کم از کم اللہ پر تو بھروسہ کرنا چاہیے، یہاں ہم آپ کے زائچے کے بارے میں بھی زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے، بس مختصراً اتنا سمجھ لیں کہ آپ کا خراب وقت ختم ہوگیا ہے اور آنے والا وقت بہتر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کیا ہے لیکن ہم لوگ نہایت بے صبرے اور جلد باز ہیں ، یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ لڑکی 15, 20سال کی ہوتی ہے تو ماں باپ کو اس کی شادی کی فکر شروع ہوجاتی ہے۔

اگر 25سال کی ہوجائے تو شدید پریشانی کا شکار ہونے لگتے ہیں ۔ مختلف قسم کے وہم انھیں گھیر لیتے ہیں ، بندش ہے ، اثرات ہیں اور فوراً ہی پیروں فقیروں سے رابطہ شروع ہوجتا ہے جو اس صورت حال کو مزید گمبھیر بنادیتے ہیں حالاں کہ حقیقت یہی ہوتی ہے کہ ابھی شادی کا وقت قدرتی طور پر آیا ہی نہیں ہوتا۔

ہماری زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر اللہ ہی کا اختیار ہے ، ہماری پیدائش ، ہماری شادی، ہماری موت وغیرہ۔یہ سارے کام اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتے لیکن ہم اپنی مرضی کرنے کے لیے باﺅلے ہورہے ہوتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ اسی باﺅلے پن میں آنے والے رشتوں کے بارے میں مناسب دیکھ بھال بھی نہیں کرتے۔ کوئی رشتہ آتے ہی سمجھتے ہیں کہ گویا لاٹری لگ گئی ہے اور اب یہ رشتہ ہاتھ سے جانے نہ پائے، ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

خصوصاً آج کے دور میں کہ شادی کسی صورت میں بھی جلد بازی میں نہیں کرنا چاہیے اور یاد رکھیں دوسری پارٹی اگر جلد بازی کر رہی ہو تو یہ ایک مشکوک بات ہے ۔ بہتر بات یہی ہوتی ہے کہ بات چیت طے ہوجائے تو چھ آٹھ مہینے ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے میں گزارنے چاہئیں ۔ آج ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہاں پڑوسی کو پڑوسی کی خبر نہیں ہے ۔

 آپ کی شادی آئندہ سال جون کے بعد ہوسکتی ہے اور بہتر جگہ ہوگی، کامیاب رہے گی، آپ نے جو ذہنی اذیت اور دکھ جھیلا ہے، انشاءاللہ اس کا ازالہ ہوجائے گا، مرجان کا نگینہ منگل کے روز صبح سورج نکلنے کے بعد پہن لیں اور نیا چاند ہونے کے بعد نوچندی جمعرات سے اپنا اسم اعظم 990 مرتبہ روزانہ پابندی سے پڑھیں، اول آخر گیارہ بار درود شریف، آپ کا اسم اعظم یہ ہے یَا فَتَّاحُ القَیُومُ العَلیُ الوَلیُ النَجیبُ

جب تک تعداد سوا لاکھ نہ ہوجائے ، پڑھتی رہیں، انشاءاللہ سارے مسائل حل ہوجائیں گے، اپنے ایمان کو تازہ کریں اور اللہ پر یقین رکھیں۔