ماورائے ذہن حسیات، ٹیلی پیتھی، مستقبل بینی وغیرہ

ہمارے دماغ کی پوشیدہ قوتوں کا ماجرائے حیرت

ہمارے لاشعور کی نادیدہ صلاحتیں” ماورائے ذہن حسیات“ کہلاتی ہیں، یعنی ایسی خصوصیات اور صلاحیتیں جن کا ہمارے شعور سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ لاشعور کی حدود میں آتی ہیں۔ مثلاً
۔ ٹیلی پیتھی، خیالات منتقل کرنے کی صلاحیت۔
۔ روشن ضمیری یا کشف کی صلاحیت، یعنی ایسی چیزیں دیکھنا یا محسوس کرنا جنہیں ہماری عام حسیات دیکھ اور محسوس نہیں کرسکتیں۔ اس صلاحیت کا ظہور ہمارے معاشرے میں اکثر مخصوص حالات و امراض کے سبب جب غیر تربیت یافتہ طور پر بغیر کسی نظم و ضبط کے ہوتا ہے تو ایسے افراد پر جن بھوت، آسیب، دیو، پری، حاضری، سواری کا فتویٰ لگ جاتا ہے۔
۔ مستقبل بینی یعنی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت، مستقبل میں دیکھنے کی قوت یا ماضی میں جھانکنے کی صلاحیت۔ ماضی میں اس صلاحیت کے مالک بہت سے مشہور لوگ گزرے ہیں۔
۔ تصرف و رائے مادہ (Psycho Kinesis) مغرب میں اس کا مخفف PK ہے۔ تصرف و رائے مادہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مادی شے پر اپنے ذہن کے اثرات ڈالنے کی صلاحیت۔ اس صلاحیت سے کام لے کر انسان جسمانی اور اعصابی طور پر متحرک ہوئے بغیر صرف اپنے لاشعور کی مخفی قوت سے ہر مادی شے پر اثر انداز ہوکر کوئی بھی تبدیلی عمل میں لاسکتا ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات کے بعد اب یہ بات پایہ ءثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انسانی ذہن میں یہ تمام خوبیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ انسان چاہے تو اپنے لاشعور کی قوتوں سے کام لے کر ایسے کارنامے انجام دے سکتا ہے جن کے سامنے جدید سائنسی ایجادات کی کارکردگی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
ٹیلی پیتھی کو ہی لے لیجیے۔ کیا یہ عقلی طور پر ممکن ہے کہ کوئی شخص بغیر ہونٹ ہلائے، بغیر آواز نکالے، کسی بیرونی ذریعے کو استعمال کیے بغیر اپنا خیال، اپنا پیغام دوسرے شخص کو پہنچادے اور پھر اس سے جواب بھی وصول کرے۔ یہی صورت مستقبل بینی کی ہے۔ اس صلاحیت کے بارے میں ہمارا شعور کیا کہے گا؟ یہی کہ سب جھوٹ، دھوکا اور بکواس ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھٹلانے والوں کے مستقبل میں بھی جھانک لیتے ہیں۔ انہیں آئندہ کے بارے میں بہت کچھ بتاجاتے ہیں۔ فرانس کا پیش گو ناسٹرا ڈیمس چار سو سال قبل آنے والے حالات و واقعات کے بارے میں کیا کچھ نہ بتا گیا تھا، بیسویں صدی کی ابتدا میں روس کے راسپوٹین کا بڑا شہرہ ہوا تھا۔ یہ شخص بلاکا ہپناٹسٹ اور PK صلاحیت کا حامل تھا۔ روسی شہزادے، شہزادیاں اور خود زار روس تک اس کے ذہنی اثرات کے طابع تھے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ماسکو پر عملاً اسی کی حکومت تھی۔ اس کی مرضی کے خلاف بادشاہ کوئی کام نہیں کرتا تھا۔
مغرب کے ماہرین روحیت ہوں یا مشرق میں روحانیت کے علم بردار صوفیائے کرام، لاشعور کی کرشمہ سازیوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ مشرق بلاشبہ اس میدان کا پرانا شہسوار ہے، مغرب نے اس وادی پر خار میں تقریباً دو سو سال قبل ہی باقاعدہ قدم رکھا ہے۔ آج بھی مغرب میں ان حوالوں سے تحقیق و تجربات ہورہے ہیں۔” ریکی“ کے اصطلاحی نام سے آج کل ایک نئی صنفِ روحیت کا بڑا چرچا ہے۔ یہ صلاحیت بھی لاشعور کی مخفی قوت کا مخصوص اظہار ہے۔
غرض لاشعور کے ذریعے یہ سب کچھ ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ اس کے ابھی بہت سے گوشے نامعلوم ہیں، آنے والے زمانے میں ان پوشیدہ گوشوں پر سے بھی پردہ اٹھ جائے گا اور پھر دنیا دیکھے گی کہ انسانی دماغ کتنا طاقت ور ہے، کیا کچھ کرسکتا ہے اور کس طرح وہاں تک رسائی حاصل کرلیتا ہے جہاں کسی دوسرے کی پہنچ نہیں۔
درحقیقت دماغ کی پر اسرار صلاحیتوں اور قوتوں کے بارے میں لوگوں کو اس قدر دھوکے اور فریب میں مبتلا رکھا گیا ہے کہ اب ہمارے بیشتر افراد ان کے وجود کے بارے میں ہی شک و شبہے میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ ایسی باتوں کو جھوٹ اور مکروفریب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ سائنس کے مادی نظریات نے انھیں اس اصول پر کاربند کردیا ہے کہ بس جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہی درست ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جعلی پیروں، فقیروں اور شعبدہ بازوں نے لوگوں کو ان مثبت اور انتہائی تعمیری قوتوں کی طرف سے اتنا مایوس اور خوف زدہ کردیا ہے کہ اب وہ سرے سے ان کی موجودی کو ہی تسلیم نہیں کرتے یا پھر ایک دوسرا گروہ ایسے افراد کا ہے جنھیں روحانیت کے نام پر جاہل عاملوں، کاملوں، جعلی پروفیسروں اور نام نہاد بزرگوں، اللہ والوں نے احمقانہ و گمراہ کن نظریات میں مبتلا کر رکھا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ دماغ کی پر اسرار قوتوں سے انکار ممکن نہیں۔ ان کے ذریعے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اسے مثبت اور تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کی مخفی صلاحیتوں کو نوع انسانی کی خدمت کے لیے حاصل کیا جائے۔ اگر آپ کی نیت اچھی ہے اور آپ اس کے ذریعے دوسروں کی زندگیوں کو سہل بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کا دماغ بھی مثبت صلاحیتوں کو ابھارے گا اور جواب میں ان نتائج سے بڑھ کر آپ کو نوازے گا جو آپ نے سوچ رکھے تھے۔ اس کے برعکس اگر آپ کی نیت میں فتور ہے اور خود غرضی حد سے بڑھ کر مزاج میں شامل ہے تو پھر آپ کا لاشعور آپ کو ہمیشہ منفی سوچ کے تحت غلط راستوں کی طرف ہی لے جائے گا جہاں شیطان آپ کے استقبال کے لیے موجود ہوگا اور اس کی ہم راہی میں آپ خواہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ اڑیں، بالآخر انجام بھیانک ہی ہوگا جیسا کہ روس کے راسپوتین کا ہوا تھا۔
دنیا کے ہر علم کے مانند دماغ کو قبضے میں کرنے اور اس سے پر اسرار صلاحیتیں کشید کرنے کے عمل کا بھی ایک باقاعدہ طریقہ کار ہے۔ اس کے لیے بھی کسی کی شاگردی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ علم کے تمام رموز و نکات سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔ مشقوں اور ریاضتوں سے کام لینا پڑتا ہے، اپنے آپ کو سخت محنت و مشقت سے گزارنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جاکر اس بحر بے کراں سے گوہر مراد برآمد ہوتا ہے۔ تاہم دیکھا یہ گیا ہے کہ اکثر افراد بغیر کسی استاد یا رہنما کے خود ہی اس سمندر میں غوطے مارنا شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں نقصان ہوتا ہے اور عمر بھر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہم سے ملنے والوں میں ایسے لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی جو یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ عمر عزیز کا ایک طویل حصہ چلوں، وظیفوں اور مختلف اعمال کی نذر کردیا مگر آج بھی وہیں زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ایسے تمام افراد کے معاملات میں قدر مشترک یہ مشاہدے میں آئی کہ وہ سہل پسندی کا شکار اور عجلت میں ہوتے ہیں۔ پہلی جماعت کا قاعدہ یاد نہیں ہوتا اور ایم اے کی کتابوں میں سر کھپارہے ہوتے ہیں۔ ابتدائی نوعیت کی ریاضت سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بڑے بڑے بھاری بھر کم اور خطرناک قسم کے عملیات پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ مقصد اصل میں یہ ہوتا ہے کہ ان زبردست قسم کے عملیات کے ذریعے راتوں رات کوئی زبردست قسم کی روحانی طاقت حاصل کرلیں اور لوگوں کو اپنے سامنے جھکالیں، اپنی عزت و تکریم پر مجبور کردیں، ان کے درمیان ایک ممتاز مقام کے مالک بن جائیں تاکہ ہماری ہر خواہش آسانی سے پوری ہوتی رہے۔ یہی نیتوں کا وہ فتور ہے جو کبھی کامیابیوں کا تاج سر پر نہیں سجنے دیتا۔
دماغ طاقت ور ہونے کے ساتھ انتہائی حساس بھی ہے۔ اگر بے احتیاطی اور غیر ذمے داری سے اسے برتا جائے تو اسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ دل چسپی رکھنے والے افراد مکمل معلومات حاصل کیے بغیر اس راستے پر قدم رکھتے ہیں۔ وہ پہلے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے اور نتیجتاً دماغ کی لامتناہی و طاقت ور ترین قوتوں کی غلط بے داری سے شدید نقصان اٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مخٹلف قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ مثلاً انسان کا تصور قابو سے باہر ہوجاتا ہے اور اس کی سوچ میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ غلط طریقہ کار کے باعث وہ پاگل بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے حقیقت اور تصور میں تمیز کرنا اور فرق سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خود اس کے خیالات اور تصورات و خواب اسے دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسی ہی حالتوں میں اکثر لوگ گم راہ ہوکر ولایت و نبوت کے دعوے بھی کر بیٹھتے ہیں۔
فقیروں، نا تجربہ کاروں اور دھوکے بازوں کے ہاتھ اس کے ذہن کو غلط مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ خطرات ہیں جو کم معلومات، جذباتیت اور بغیر کسی رہنمائی کے اس راہ کے مسافر کو درپیش ہوسکتے ہیں لہٰذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ اگر آپ کو اپنے دماغ کی مخفی قوتوں کی بے داری کا خیال آئے اور ان پر قابو پانا چاہتے ہوں تو اس کے لیے باقاعدہ و منظم طریقہ کار اختیار کیجیے۔ اس کے نصاب بغیر کسی استاد سے پڑھے بغیر، سمجھے بغیر ہر گز آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ باقاعدہ طریقے کی پیروی کے علاوہ ان قوتوں کے حصول کے لیے دوسری اہم ضرورت مستقل مزاجی اور صبر و برداشت ہے۔ اگر آپ اپنے کام پر ڈٹے رہے، اپنی منزل کی طرف قدم بہ قدم آگے بڑھتے رہے اور ایک چھلانگ میں منزل تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی تو یقین جانیے ! آپ ضرور کامیاب ہوجائیں گے اور وہ پراسرار قوتیں حاصل کرلیں گے جو زندگی کی جنگ میں آپ کی سب سے بڑی معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔ ہر ناممکن کام آپ کے لیے ممکن ہوجائے گا۔