گ،م،حیدرآباد سے لکھتی ہیں”اپنے خط کے جواب کے لئے آپ کی بے حد شکر گزار ہوں لیکن مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ میرا انتخاب غلط ہے۔ بہر حال جو صحیح تھا وہی آپ نے کہا کہ ہمارے درمیان کشش کا عنصر موجود ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ میرا انتخاب کیوں غلط ہے۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں، مجھے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے اور میں کوشش کروں گی کہ ایسا ہی کروں کیوں کہ میں جانتی ہوں وہ ابھی شادی نہیں کرسکتا لیکن پریشانی یہ ہے کہ میرے والدین چاہتے ہیں کہ میری شادی جلد از جلد ہوجائے،کسی اچھی جگہ۔آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ وہ مجھے نظر انداز کرسکتا ہے ۔ یہ بات مجھے اب سمجھ آرہی ہے لیکن وہ کسی دوسری لڑکی کے بارے نہیں سوچے گا جب تک اس کی زندگی میں میں ہوں اور میں اس سے کبھی لاتعلق نہیں ہوسکتی۔ میری دعا ہے ،غلط انتخاب صحیح ضرور ہوگا اور وہی ہوگا جو میرے لئے بہتر ہے اور جس میں خدا کی رضا شامل ہے۔بہر حال ہم نے اپنے مقدر کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیا ہے اور جب تک ہماری زندگی کا فیصلہ خدا نہیں کرتا ہم اچھے دوستوں کی طرح ہمیشہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہی فیصلہ ہمارے لئے ٹھیک اور بہتر ہے۔کیا یہ فیصلہ ٹھیک ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ آپ پلیز ہمیں استخارے کی روشنی میں بتائیں کہ آئندہ سالوں میں ہماری شادی ممکن ہے۔ کیا اس میں خدا کی رضا ہے؟ آپ کے جواب کے بعد آنے والے وقت میں ہم اور اچھا فیصلہ کرسکیں گے“۔
جواب:عزیزم !آپ کی مثال وہی ہے کہ پنچوں کی بات سر آنکھوں پر مگر پرنالہ وہیں گرے گا۔آپ کو ہماری رائے سے اتفاق بھی ہے اور آپ اپنا فیصلہ اللہ پر بھی چھوڑ رہی ہیں مگر ساتھ ہی خود ہی ایک فیصلہ کرکے اُس پر قائم بھی ہیں ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟آپ نے پوچھا ہے کہ میرا انتخاب کیوں غلط ہے تو بات یہ ہے کہ آپ کا برج جوزا اور اُس کا برج جدی ہے، برج جوزا ہوائی برج ہے اور جدی خاکی۔ہوا اور مٹی میں کوئی میل نہیں ہے۔ ہوا مٹی کو اڑا دیتی ہے اور مٹی ہوا کو آلودہ کردےتی ہے، دھندلا کردیتی ہے۔ اس بنیادی اصول کی وجہ سے جوزا اور جدی کے درمیان مزاجی ہم آہنگی نہیں ہوتی اگر دونوں کی شادی ہوجائے تو دونوں ہی ہمیشہ تکلیف میں رہیں گے اور ایک دوسرے کے لئے مشکل شریک حیات ثابت ہوں گے۔ سب سے پہلے آپ کو اپنی سوچ کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور آپ کی سوچ میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ آپ پہلے سے ایک فیصلہ کرنے کے بعد اُس فیصلے کی سب سے تائید چاہتی ہیں۔ حد یہ کہ اللہ سے بھی اُس کی تائید چاہتی ہیں اور دعا کرتی ہیں کہ آپ جو کچھ چاہتی ہیں اللہ وہی کرے لیکن دوسری طرف آپ کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ جو اللہ کی مرضی! پھر آپ استخارے کی فرمائش بھی کر رہی ہیں۔ دراصل اپنی خواہشوں کے غلام افراد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سو یہی حال آپ کا ہے۔آپ اُس سے تعلق برقرار رکھنے اور دوستی نبھانے اور اُس کا انتظار کرنے پر توسختی سے عمل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں لیکن تعلیم پر توجہ دینے کے معاملے میں آپ کا جواب یہ ہے کہ ”میں ایسا کرنے کی کوشش کروں گی“۔حالانکہ اب آپ کو سب کچھ بھول کر اپنی تعلیم پر توجہ دینا چاہیے اور اپنے والدین کی اطاعت و فرماں برداری کرنا چاہیے کیوں کہ اللہ کے بعد آپ کا اُن سے بڑا ہمدرد اور کوئی نہیں ہے اور اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بھی والدین کی فرماں برداری ضروری ہے۔ آپ جس کی اطاعت اور وفاداری کا دم بھر رہی ہیں اُس کو تو آپ کی کوئی پروا نہیں ہے۔اُسے تو اپنے کریئر کی زیادہ پروا ہے، اپنی نوکری سے زیادہ دلچسپی ہے۔ صرف اس دلیل سے ہی آپ کی آنکھیں کھل جانی چاہیے اور یہ احمقانہ خیال بھی دل سے نکال دیں کہ جب تک آپ اُس کی زندگی میں موجود ہیں وہ کسی اور لڑکی کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ فی الحال اُسے مفت کی ذہنی تفریح ملی ہوئی ہے جسے وہ انجوائے کر رہا ہے اور آپ اُسے یہ تفریح مہیا کرنے کے چکر میں اپنا قیمتی وقت برباد کر رہی ہیں ۔ صرف تین مہینے کے لئے سختی سے اُس کا بائیکاٹ کردیں،اُس کی کوئی کال ریسیو کریں اور نہ اُسے کال کریں تو خود بخود آپ کو اُس کی محبت کا اندازہ ہوجائے گا۔ بہر حال ہمارا کام سمجھانا تھا اور آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
حال ہی میں انگلینڈ سے ہمیں ایک ای میل موصول ہوئی ہے جسے پڑھ کر سخت تشویش ہوئی،موجودہ دور اشتہار بازی کا دور ہے اور الیکٹرونک میڈیا کی ترقی نے اشتہاری مہم جوئی کو ہر گھر تک پہنچادیا ہے، اپنی پروڈکٹ کو زیادہ سے زیادہ فروخت کرنے کے لیے مختلف کمپنیاں جھوٹ کا سہارا لینے سے بھی نہیں ہچکچاتیںاور دیکھنے والوں کے سامنے ایسے انداز اور فوائد پیش کیے جاتے ہیں کہ وہ فوراً متاثر ہوجاتے ہیں، جہاں تک مادّی اشیاءکی اشتہار بازی کا معاملہ ہے تو وہ اس قدر خطرناک نہیں ہیں، ایک خراب چیز کی پبلسٹی سے متاثر ہوکر کوئی انسان ایک دفعہ ہی تھوڑا بہت مالی نقصان اٹھاتا ہے مگر پھر سمجھ لیتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور آئندہ وہ ایسے کسی فریب میں نہیں آتا لیکن یہ پبلسٹی ریکٹ جب علاج معالجے یا دیگر ایسے معاملات میں شروع ہوجائے جہاں انسان کا ایمان خطرے میں پڑجائے تو یہ ایک نہایت خطرناک صورت حال ہوگی کیوں کہ ٹی وی چینل دیکھنے والوں میں ہر شخص تو عاقل و بالغ نہیں ہوتا، کم علم یا ناپختہ سوچ کے مالک افراد بھی ہوتے ہیں اور خاص طور پر گھریلو خواتین تو دنیا کی اونچ نیچ سے زیادہ واقف نہیں ہوتیں، وہ ایسی پبلسٹی کے فریب میں جلد آجاتی ہیں یا ان کے ذہن گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں،آیئے پہلے اس ای میل کا مطالعہ کیجیے۔
ایس، اے لندن سے لکھتی ہیں ”آپ کو میرا مسئلہ تھوڑا سا عجیب تو لگے گا لیکن پلیز اس پر غور ضرور کیجیے گا، یہاں پر مختلف قوموں کے چینلز ہیں جن میں سے ایک کرسچن چینل ہے اس میں جس انداز سے بائبل کی آیات اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بارے میں تبلیغ کی جاتی ہے وہ الجھن کا باعث ہوتی ہے، ہر روز نئی نئی گواہیاں پیش کی جاتی ہیں کہ کیسے لا علاج مریضوں کو شفاءمل گئی، کیسے لوگوں کے سارے کام سنور گئے،مثال کے طور پر ایک خاتون جو کہ 45 دن تک کوما میں رہیں اور جب ان کے لیے ڈاکٹرز کے جواب کے بعد گھر والوں نے خداوندِ یسوع مسیح کے نام پر دُعا کی تو وہ بالکل ٹھیک ہوگئیں اور بعد میں انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی بیماری کی حالت میں خواب میں خداوند کی آواز سنی جس نے مجھے نئی زندگی کی نوید دی،میں آج بھی اس آواز کو محسوس کرسکتی ہوں،اسی طرح بلجیئم سے ایک مسلمان عورت نے گواہی دی کہ جب میں نے یسوع کے نام پر دعا کی اور چینل کے ذریعے سے براہِ راست دعا کروائی تو لارڈ جیسس نے گھر آکر مجھے تسلی دی، میرا گھر روشن ہوگیا، میں نے لارڈ جیسس کودیکھا اور میری پرابلمز حل ہوگئیں، اُس کا شوہر اسے ذہنی ٹارچر کرتا تھا۔
”میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ ان کو جو روحانی قوت ملتی ہے اور جو دعائیں قبول ہوتی ہیں اور خواب یا بشارت حضرت عیسیٰ ؑ کی کرامتیں کیسے حاصل ہوتی ہیں جب کہ یہ تو کھلا شرک کرتے ہیں، شاید سارا کھیل طاقت ور اعتقاد اور ایمان کا ہے، میرے ذہن میں یہ الجھن ہے کہ ایسی صورت میں کس دین کو سچا سمجھوں اور کسے جھوٹا کہوں؟ شرک کی حالت میں اس طرح کی کرامت کیسے ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ خود اس کے گھر میں آجائیں وغیرہ وغیرہ۔آخر یہ ماجرا کیا ہے ؟ شرک کے باوجود دنیا میں اس طرح ان کے مسائل حل ہورہے ہیں! تو اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں؟ میں اس مسئلے میں بہت کنفیوژ ہوگئی ہوں،ایک لمحے کے لیے تو میرا ایمان تک ڈگمگا جاتا ہے ، وہ کون سی ہستی ہے جو ان کی رہنمائی کرتی ہے ؟جب کہ ہم تو آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ کافروں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں لیکن اگر ان کو دنیا میں اتنی برکتیں حاصل ہوتی ہیں تو کیا آخر ت میں اس کے بالکل الٹ ہوجائے گا؟ آخر ہندووں اور باقی لوگوں کے مسائل کون حل کرتا ہے ؟پلیز میری کنفیوژن کو اپنی علمی رہنمائی اور دلیل سے دورکریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھوں،آپ کے جواب کا شدید انتظار رہے گا، شکریہ“
جواب: عزیزم! ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کب سے انگلینڈ میں مقیم ہیں، آپ کے دیگر کوائف سے اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ آپ کی پیدائش پاکستان کی ہے لیکن شاید آپ کی فیملی میں مذہبی تعلیم اور دین کی بہتر سمجھ بوجھ نہیں ہے، سنی سنائی ، سینہ بسینہ چلنے والی دین کی باتیں آپ کی درست رہنمائی نہیں کرسکتیں، آپ کو چاہیے کہ دین کے بارے میں اپنا مطالعہ بڑھائیں تاکہ اس قسم کی اشتہار بازی سے متاثر نہ ہوسکیں، آپ نے جس چینل کا حوالہ دیا ہے ایسے اور بھی بہت سے چینل ہوں گے ، دنیا بھرمیں اپنے اپنے نظریات اور مذہب کی تبلیغ ایک عام سی بات ہے اور ہماری جمہوری دنیا سب کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچاسکیں،البتہ جو صورت حال آپ نے بیان کی ہے، یہ ضرور دھوکا دہی کے ذیل میں آتی ہے تاکہ آپ جیسے سادہ لوح اور کم علم لوگ متاثر ہوکر ان کی طرف مائل ہوں، اپنے مسائل کے حل کے لیے روحانی امداد طلب کریں اور پھر انہیں کرسچن ہونے کی ترغیب دی جاسکے یا ممکن ہے ان کے کچھ اور مقاصد بھی ہوں، مثلاً روحانیت کے نام پر بعض لوگ دھندا بھی کرتے ہیں، خصوصی دعا کرانے کی کوئی فیس مقرر کر رکھی ہو وغیرہ وغیرہ۔
بہر حال پبلسٹی کے اس طوفانی دور میں ایسی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے، آج کل تو اس قسم کے فراڈ ہم مسلمانوں میں بھی عام ہیں، لوگ اپنے اشتہارات میں بڑے بڑے روحانی دعوے کرتے ہیں، علاج معالجے کے سلسلے میں شرطیہ گارنٹی دیتے ہیں ، اپنی گفتگو سے جاہل نظر آنے والے بعض حکیم و ڈاکٹر شوگر کو جڑسے ختم کرنے کی دوا ایجادکرنے کا دعویٰ کرتے نطر آتے ہیں ، کیا آپ ایسی ہرصورت حال سے متاثر ہوکر ان کے فریب میں آئیں گی؟
آپ کی تاریخ پیدائش کے مطابق آپ اتنی کم عمر بھی نہیں ہیں کہ آپ کو ناسمجھ بچی کہا جائے لیکن ایک بات ضرور ہے جس کے بارے میں ہم آخر میں اظہارِ خیال کریں گے۔
آپ کا ایک سوال بہت اہم ہے کہ آخر شرک اور کفرکے بعد غیر مسلموں کے مسائل کیسے حل ہوتے ہیں؟وہ کون سی ہستی ہے جو ان کی رہنمائی کرتی ہے؟تو اس کا جواب بہت سادہ اور سیدھا ہے، دنیا کی تمام مخلوقات کا خدا ایک ہی ہے اور وہ اپنے سارے بندوں سے محبت کرتا ہے، وہ نیک کام کرنے والوں کے مسائل بھی حل کرتا ہے اور گناہ گاروں کے بھی۔اس نے کائنات کی تخلیق کے بعد جو قوانین بنادیئے ہیں ان پر خود سختی سے قائم رہتا ہے اور ان قوانین میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ وہ اپنے منکروں یا نافرمانوں کو دنیا میں سزا نہیں دے گا بلکہ ان کا حساب کتاب یوم حشر میں ہوگا اور جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ یوم حشر تو سب کے لیے یوم حساب ہے، وہ نیک ہوں یا بد۔جہاں تک دنیا اور دنیا کے معاملات کا تعلق تو وہ یہاں اپنی حکمرانی اپنی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے نافذ کرتا ہے اور انسانوں کو اچھے اور برے راستوں کی تعلیم دے کر انہیں یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جس طرف چاہیں، جائیں۔کوئی روک ٹوک نہیں ہے، ہندو ہو یا مسلمان ، عیسائی ہو یا یہودی یا کسی مذہب سے بھی تعلق رکھنے والا انسان ہو ، اچھائی یا برائی کے راستے پر چلنے کا پورا اختیار رکھتا ہے، اللہ اسے جبراً شراب نوشی، زنا کاری،جھوٹ فریب،ظلم، چوری وغیرہ سے نہیں روکتا لیکن ان تمام گناہوں کے حوالے سے اس کی کتابوں اور رسولوں کے ذریعے سخت تنبیہات موجود ہیں کہ قیامت کے بعد ایسے لوگ اپنے گناہوں کی سزا پائیں گے جہاں تک دنیاوی سزاوں کا تعلق ہے تو ایک معاملہ ایسا ہے جس میں وہ دنیا میں بھی سزا دیتا ہے اور وہ معاملہ ہے ظلم کا یعنی اپنے حوالے سے تو وہ کسی کو سزا نہیں دیتا، فرعون کو بھی کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ زندگی میں کبھی بیمار تک نہیں ہوا لیکن اپنی مخلوق کے حوالے سے وہ بہت حساس ہے، ایک شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ ظالمانہ رویہ اور زیادتی اسے برداشت نہیں ہے، ایسی صورت میں اس کا قہر و غضب ظالم کے لیے سزا کا سبب ہوتا ہے، اسی لیے امیرالمومنین سیدنا حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفرو شرک پر قائم حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی بنیاد پر قائم حکومت نہیں چل سکتی ۔
شاید اب آپ کی سمجھ میں ساری بات آگئی ہوگی، مزید وضاحت یہ ہے کہ اس نے جسے بھی پیدا کیا ہے اس کا رزق بھی ساتھ اتارا ہے اور اس کے دنیاوی مسائل و مشکلات بھی وہی حل کرتا ہے، باقی آپ نے چینل پر جو کچھ دیکھا وہ تو محض ایک ڈرامہ ہے، لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی ٹیکنیک ہے ، اس سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنی درست مذہبی معلومات میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات یہ کہ آپ کا سن سائن حوت (PICSES) ہے جو ایک نہایت حساس اور روحانی سائن ہے، حوت افراد جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھتے ہیں، روحانیت سے متعلق ان کی دلچسپیاں کچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں یا پھر اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ پر اسراریت میں وہ زیادہ اٹریکشن محسوس کرتے ہیں ، شاید اسی لیے آپ اس قسم کے چینلز میں دلچسپی لیتی ہیں اور لاشعوری طور پر چاہتی ہیں کہ ایسے کسی روحانی تجربے سے گزریں اور آپ کے مسائل کرشماتی طورپر حل ہوجائیں ، اکثر لوگ زندگی کی سختیوں سے تنگ آکر مایوسی کی حالت میں ایسی ہی خواہش کرتے ہیں اور روحانیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، وہ ایسے لوگوں کی طرف خاص طورپر لپکتے ہیں جن کی کرامتیں اور غیر معمولی روحانیت کے چرچے زبان زدِ خاص و عام ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ آپ کو بہت پُرکشش محسوس ہوتا ہے، ہمارا مشورہ ہے کہ آپ اپنی خوراک میں گلوکوز کی مقدار بڑھائیں یعنی شہد اور پھلوں کا استعمال زیادہ کیا کریں، بے شک آپ کا سن سائن غیر معمولی وجدانی اور تخلیقی قوتیں رکھتا ہے مگر اس میں گمراہ ہونے اور راہِ راست سے بھٹکنے کی بھی بڑی گنجائش موجود ہے۔