اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی میں ہونے والی موجودہ بارش ماضی کے بہت سے ریکارڈ توڑگئی، کہا جارہا ہے کہ تقریباً 90 سال بعد کراچی میں ایسی بارش ہوئی ہے،اس بارش نے کراچی کے تقریباً ہر شخص کو بری طرح متاثر کیا ہے، ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، ہمارا کلینک اور آفس ڈیفنس فیز 2 میں ہے اور تقریباً گزشتہ ایک ہفتے سے بند ہے، سڑک پر نالے کی صورت اختیار کرنے والا پانی کلینک میں داخل ہوگیا، ایسی ہی صورت حال کا سامنا گھر کی نچلی منزل میں بھی کرنا پڑا، خیال رہے کہ کلینک اور گھر دونوں کنٹونمنٹ ایریاز میں ہیں، چناں چہ ہر قسم کی لکھنے پڑھنے کی مصروفیات ختم ہوکر رہ گئیں پھر بھی کوشش ہے کہ ویب سائٹ کا معمول جاری رہے، چناں چہ اختصار سے ستمبر کی فلکیاتی صورت حال کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
ستمبر کے ستارے
یکم ستمبر کو سیارہ شمس اپنے ذاتی برج اسد میں موجود ہے اور 17 ستمبر کو برج سنبلہ میں داخل ہوگا، سیارہ عطارد برج اسد میں ہے ، تین ستمبر کو اپنے شرف کے برج سنبلہ میں داخل ہوگا جب کہ 23 ستمبر کو نہایت تیز رفتاری کے ساتھ برج میزان میں داخل ہوجائے گا، سیارہ زہرہ یکم ستمبر کو برج جوزا میں ہے،2 ستمبر کو برج سرطان میں داخل ہوگا اور 29 ستمبر کو برج دلو میں داخل ہوجائے گا، سیارہ مریخ تقریباً تین درجہ اپنے ذاتی برج حمل میں مستقیم پوزیشن میں ہے، اس کی یہ پوزیشن 22 ستمبر تک رہے گی، اسی پوزیشن میں 11 ستمبر سے اسے رجعت ہوجائے گی، سیارہ مشتری اپنے ذاتی برج قوس میں بحالت رجعت مستقیم پوزیشن پر تقریباً 23 ڈگری پر ہے اور اسی درجے پر 5 اکتوبر تک رہے گا، سیارہ زحل بحالت رجعت برج جدی میں حرکت کر رہا ہے جب کہ راہو کیتو برج جوزا اور سنبلہ میں بالترتیب ہیں، اس مہینے کی ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ یہ دونوں 20 ستمبر کو اپنے اپنے شرفی بروج ثور اور عقرب میں داخل ہوں گے اور آئندہ ڈیڑھ سال تک اسی برج میں رہیں گے، ان کی یہ تبدیلی مختلف برج سے تعلق رکھنے والے افراد کوآئندہ ڈیڑھ سال تک کس نوعیت کے مسائل اور چیلنج لائے گی، اس پر ان شاءاللہ آئندہ کسی مضمون میں بات ہوگی، ستمبر کی یہ سیاروی پوزیشن ویدک سسٹم کے مطابق ہے۔
شرف قمر
قمر اس ماہ 8 ستمبر کو پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 02:40 am پر اپنے شرف کے برج ثور میں داخل ہوگا، خصوصی اعمال قمر کے لیے موافق اور مو¿ثر ٹائم 09 ستمبر کو 11:45 am سے 12:45 pm تک ہوگا، اس عرصے میں شرف قمر سے متعلق جو بھی عمل یا وظیفہ کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔
قمر در عقرب
قمر اپنے برج ہبوط میں پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق اس ماہ 21 ستمبر کو 04:48pm پر داخل ہوگا اور تقریباً 23 ستمبر کو 05:54 pm تک اپنے برج ہبوط میں رہے گا، یہ نحس ٹائم ہے، اس وقت نئے کاموں کی ابتدا نہ کریں، صرف معمول کی کار گزاری پر گزارا کریں، خصوصی اعمال کے لیے مقصد کے موافق سیاروی ساعات منتخب کرکے کام کریں۔
زائچہ ءپاکستان
علم نجوم سے متعلق ضروری معلومات کے بعد درحقیقت ہمارا اصل موضوع زائچہ ءپاکستان ہے اور یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پاکستان کے نامعلوم کتنے زائچے سامنے آتے رہے ہیں، ہمارے پاکستانی منجمین یا بھارتی اور مغربی منجمین وقت گزاری کے لیے مختلف زائچے بناتے رہے ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ کام کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں کیا گیا، کسی بھی زائچہ ءپیدائش کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ پیدائش کی درست تاریخ، وقت اور مقام کا پہلے تعین کیا جائے، ابتدا سے ہی اس معاملے میں اختلافات سامنے آئے، اس کی بنیادی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ دو ملک یعنی بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے، بھارت کا زائچہ ءپیدائش 15 اگست 1947 بمقام دہلی شب صفر بج کر صفر منٹ طے ہوا اور اسی کے مطابق زائچہ بنایا گیا جو آج تک بغیر کسی اختلاف کے مستند مانا جاتا ہے۔
پاکستان میں پہلا مسئلہ تو یہ ہوا کہ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کو 15 اگست کی صبح دہلی میں گورنر کے عہدے کا حلف لینا تھا لہٰذا وہ موصوف 14 اگست کو پاکستان آگئے اور صبح 9 بجے کراچی کی اسمبلی میں ایک تقریر فرمائی جس میں بتایا گیا تھا کہ دولت برطانیہ نے ایک نئے ملک پاکستان کی منظوری دے دی ہے اور کل 15 اگست سے آپ ایک آزاد قوم ہوں گے،جوابی تقریر میں قائد اعظم نے دولت برطانیہ کا شکریہ ادا کیا اور 15 اگست کی صبح گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا جب کہ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب رات 12 بجے آل انڈیا ریڈیو کی نشریات روک دی گئیں اور پاکستان کے قیام کا اعلان کردیا گیا، یہ اعلان لاہور ریڈیو ، پشاور ریڈیو اور ڈھاکا ریڈیو سے نشر ہوا، پاکستان کا دارالحکومت کراچی مقرر ہوا۔
اب بعض منجمین نے جن میں بھارتی منجم بھی شامل ہیں، پاکستان کا زائچہ 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات 00:00 am بمقام کراچی پر تیار کیا، بعض نے اعلان لاہور کے مطابق یہی وقت اور تاریخ لی اور مقام لاہور رکھا، پاکستان کے نہایت قابل منجم ڈاکٹر ایوب تاجی اسی پر قائم رہے اور ان کے شاگردان بھی۔
پاکستان کے ایک اور مایہ ناز منجم ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ آف راولپنڈی نے 14 اگست 1947 ءبمقام کراچی صبح 09:30 am کے مطابق زائچہ بنایا، ان کا مو¿قف یہ تھا کہ ٹرانسفر آف پاور 14 اگست کو صبح ہوئی لہٰذا یہی زائچہ درست ہے، چند سال پہلے ایک بین الاقوامی پرتگالی منجم جارج انجلینو کی ویب سائٹ پر ہم نے دیکھا کہ اس نے بھی پاکستان کا زائچہ ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ کے ٹائم اور تاریخ کے مطابق بنایا ہوا ہے، ہماری اس سے بات ہوئی اور ہم نے اسے بتایا کہ پاکستان کے ایک منجم بھی برسوں پہلے اسی زائچے پر زور دیتے تھے ، اس کا مو¿قف بھی یہی تھا کہ ٹرانسفر آف پاور کی تقریب 14 اگست صبح 9 بجے کراچی میں ہوئی۔
دی ورلڈ بک آف ہارسکوپ (The world book of horoscope) کے مطابق پاکستان کا زائچہ 15 اگست 1947 ءکے مطابق بنایا گیا ہے۔
ان تمام صورتوں میں پاکستان کے زائچے کا پیدائشی برج (Birth Sign) یا طالع پیدائش برج حمل ، برج ثور، برج سنبلہ اور پاکستان کے ایک اور نامور منجم حضرت کاش البرنیؒ کے مطابق طالع برج جوزا سامنے آیا ہے اور ہر منجم اپنے مو¿قف پر قائم رہا۔
یہ کوئی نئی یا عجیب صورت حال نہیں ہے کہ ایک ملک کے ایک سے زیادہ زائچے مختلف ماہرین نجوم اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بناتے ہیں اور پھر ان کے مطابق زائچے کا تجزیہ کرتے ہیں، امریکا کے ایک سے زائد زائچے موجود ہیں، یہی صورت حال دیگر ممالک کی بھی ہے،تحقیق اور تجربے کا دامن تنگ نہیں ہے، ایک سائنسی علم کی طرح اس میں بھی تحقیقی کام جاری رہتا ہے اور نتائج کے مطابق کسی زائچے پر کم یا زیادہ اتفاق رائے ہوتا ہے،ماضی میں پاکستان کے جو زائچے 14 یا 15 اگست 1947 ءکے مطابق بنائے گئے، بہت سے لوگ آج تک انہی پر کاربند ہیں لیکن ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمار ے پاکستانی منجمین پاکستان کے حالات پر ایسٹرولوجیکل تبصرہ کرتے ہوئے کسی بھی زائچے کا حوالہ دیں اور اس زائچے میں سیاروی گردش کی نشان دہی کرتے ہوئے اپنی پیش گوئی کے بارے میں دلیل پیش کریں ، اس انداز کی پیش گوئیوں کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے، اگر ایسٹرولوجی ایک سائنس ہے تو لازمی طور پر زائچے کی بنیادی نکات اور حال کی سیاروی گردش کی نشان دہی کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ بات ہونی چاہیے ۔
ہماری تحقیق
ہم نے جب اس وادی ءپرخار میں قدم رکھا تو پاکستان دولخت ہوچکا تھا، ہماری آنکھوں کے سامنے بنگلہ دیش وجود میں آیا اور پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، اس حوالے سے ہمارے پاکستانی منجم سابقہ زائچوں کی روشنی میں کبھی کوئی اطمینان بخش اور ٹیکنیکل طور پر ٹھوس بات کرتے نظر نہیں آئے، ڈاکٹر ایوب تاجی صاحب ویدک سسٹم کے اساتذہ میں سے تھے، ہمیں بھی ان سے شرف تلمذ بہت تھوڑے عرصے حاصل رہا لیکن کبھی ہمت نہ ہوئی کہ ان کے پاکستانی زائچے کے حوالے سے کوئی اختلافی سوال کرتے،ڈاکٹر اعجاز حسین بٹ سے ہماری کئی نشستیں رہیں لیکن ان کی عمر کا آخری حصہ تھا، ان دنوں وہ کسی بات کا معقول جواب نہیں دیتے تھے۔
بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان کا نیا زائچہ بننا چاہیے، 1947 ءمیں جو پاکستان وجود میں آیا تھا وہ موجودہ پاکستان نہیں ہے،ماضی کا کوئی بھی زائچہ موجودہ پاکستان کے حوالے سے کسی سوال کا بھی درست جواب نہیں دیتا، چناں چہ ہم نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ٹرانسفر آف پاور کی تاریخ اور وقت کے مطابق پاکستان کا زائچہ بنایا، اس حوالے سے عزیزی عقیل عباس جعفری اور ان کی مایہ ناز کتاب ”پاکستان کرونیکل“ نہایت معاون و مددگار ثابت ہوئے۔
دنیا بھر میں یہ اصول رائج ہے کہ جب کسی ملک کے ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں واقع ہوں تو اس کا نیا زائچہ بنایا جاتا ہے، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، ایران قدیم ترین ملک ہے ، خدا معلوم اس ملک کا باقاعدہ آغاز کب ہوا تھا، یہی صورت حال بیشتر ممالک کی ہے، بھارت کے حوالے سے بھی ایک قدیم نظریہ موجود ہے، کہ بھارت کا برج جدی ہے لیکن منجمین کی اکثریت اسے تسلیم نہیں کرتی، چناں چہ ایران کا موجودہ زائچہ انقلاب ایران کے بعد یکم اپریل 1979 بمقام تہران بنایا جاتا ہے، سویت یونین جب کئی حصوں میں تقسیم ہوا اور کئی ریاستیں وجود میں آئیں تو ہر ریاست کا ایک الگ زائچہ بنایا گیا اور دنیا میں رائج ہے،سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی تو ترکی کا نیا زائچہ وجود میں آیا اور وہ تمام عرب ممالک جو ترکی کے حلقہ ءاقتدار میں تھے ان کا بھی نیا زائچہ بنایا گیا، اس بنیادی اصول پر ساری دنیا میں ماہرین نجوم عمل کرتے ہیں، چناں چہ ہماری تحقیق کے مطابق پاکستان کا نیا زائچہ 20 دسمبر 1971 ءبمقام اسلام آباد دوپہر 02:55 pm ہماری نظر میں درست اور نتیجہ خیز ہے۔
اس زائچے پر ہم نے ملکی و غیر ملکی دیگر منجمین سے بھی تبادلہ خیال کیا، ڈاکٹر اعجاز حسین اس وقت تک حیات تھے ، انھوں نے ہماری بات کو رد تو نہیں کیا لیکن تسلیم بھی نہیں کیا اور اپنے پرانے مو¿قف پرقائم رہے،پاکستان کے ایک اور اہم منجم سید انتظار حسین شاہ زنجانی کافی بحث و مباحثے کے بعد ہماری بات کے قائل ہوگئے اور اب وہ بھی اس نئے زائچے کو اہمیت دیتے ہیں۔
غیر ملکی منجمین میں بھارت کے نامور منجم کے این راو¿ سے بھی ہم نے اس پر رائے لینے کی کوشش کی،وہ خاصے معقول آدمی ہیں اور ہم نے انھیں اتنا متعصب نہیں پایا جتنے دیگر ہندو منجمین ہیں لیکن وہ بھی اپنے قدیم نظریات پر قائم رہے، ان کی عمر اس وقت 80 سال ہوچکی تھی اور ان سے زیادہ گفت و شنید ممکن نہیں تھی،بھارت کا ایک اور بڑا نام بی وی رامن ہے، وہ بھارت ہی میں خاصے متنازع ہیں، اگرچہ انھوں نے کلاسیکل ایسٹرولوجی میں بہت کام کیا ہے اور برسوں ایک ایسٹرولوجیکل میگزین بھی بنگلور سے نکالتے رہے ہیں، انھیں ہم اس بحث سے خارج سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کے نظریات کو اب ان کے جانشین یعنی بیٹا اور بیٹی دونوں رد کرچکے ہیں۔
جارج انجلینو آف پرتگال واحد ایسے منجم تھے جنہوں نے ہمارے بات سے اتفاق کیا اور اس حوالے سے ہماری حوصلہ افزائی بھی کی کہ آپ پاکستان کے نئے زائچے پر کام جاری رکھیں اور نتائج سے آگاہ کرتے رہیں، اسی طرح بعض دوسرے جدید نظریات رکھنے والے بین الاقوامی منجمین نے بھی حوصلہ افزائی کی اور ہم اس زائچے پر مسلسل تحقیقی و تجرباتی کام کرتے رہے ہیں، اسی کو درست سمجھتے ہیں،یقیناً بہت سے دیگر اہل علم کو اختلاف ہوسکتا ہے،اس صورت میں انھیں اپنے زائچے کے لیے معقول دلائل پیش کرنا چاہئیں اور پاکستان کے حالات کی تشریح زائچے کے مطابق کرنا چاہیے، ہم اس حوالے سے تفصیلی مضامین کے ذریعے پاکستان کے موجودہ زائچے کی تشریح کرچکے ہیں اور ان شاءاللہ آئندہ بھی کریںگے (جاری ہے)