ڈاکٹر سیموئیل ہنی مین 10 اپریل 1755 ء میں ساؤتھ ایسٹ جرمنی کے ایک چھوٹے قصبہ سیکونی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم والدین سے حاصل کی، 20 جولائی 1767 میں قصبہ کے ایک اسکول میں داخل کروادیا گیا، بارہ سال کی عمر میں انہوں نے اسکول کے طلبا کو یونانی زبان سکھانا شروع کی۔ والد صاحب کے مالی حالات بہتر نہیں تھے اس لیے اسکول چھڑوانا پڑا اور ایک اسٹور میں تربیت کے لیے بھیج دیا گیا تاکہ کچھ آمدنی ہوسکے۔
اسکول کے اساتذہ نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ کا بچہ بہت ذہین ہے، اس کو دوبارہ اسکول میں بھیج دیں، ہم مفت تعلیم دیں گے، چناں چہ ہنی مین نے سیکونی(saxony) کے پرنس اسکول میں تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ، چار سال کے عرصے میں حساب، جیومیٹری اور باٹنی میں کافی قابلیت حاصل کرلی اور اپنے آپ کو ایک ہونہار طالب علم ثابت کیا۔
سیموئیل ہنی مین نے میڈیکل میں گریجویشنکرنے کے دوران کئی زبانوں پر عبور حاصل کرلیا تھا، ان میں جرمن، اٹالین، ہربیو، یونانی، انگلش، فرنچ، اسپینی اور عربی قابل ذکر ہیں، انہوں نے یونانی اور انگریزی کتب کا جرمنی زبان میں ترجمہ کرنا شروع کردیا۔
ڈاکٹر سیموئیل ہنی مین کوالیفائیڈ (ایم ڈی) اور اپنے دور کے ایلوپیتھک پریکٹیشنز تھے، پریکٹس کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ ایلوپیتھک دواؤں کے بداثرات بہت زیادہ ہیں اور یہ فائدہ سے زیادہ نقصان کرتی ہیں۔
ایک روایت کے مطابق ڈاکٹر ہنی مین کا اپنا بیٹا ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوگیا، انہوں نے اپنے بیٹے کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کی، اس کے علاج معالجے کے دوران چوٹی کے ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا اور انہوں نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ (you know the medicine) ، اس جملے سے مراد یہ ہے کہ مریض لاعلاج ہے اس کو زہر کا انجکشن لگاکر اذیت سے نجات دے دی جائے، چناں چہ ہنی مین کا بیٹا جاں بر نہ ہوسکا، یوں ان کے بیٹے کی موت ہومیو پیتھک طریقہ علاج کی دریافت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، اس کے بعد ہنی مین نے مروجہ ایلوپیتھک طریقہ علاج سے کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کردیا۔
جرمنی کے ایلوپیتھک دوا سازوں نے اسمبلی سے ایک قانون ہنی مین کے خلاف پاس کروادیا ، ان اداروں نے اسمبلی سے مطالبہ کیا تھا کہ اس شخص نے ایلوپیتھک کی مخالفت کرکے ہماری حق تلفی کی ہے لہٰذا اسے ملک بدر کردیا جائے، اسمبلی کے حکم کے مطابق ہنی مین کو ملک بدر کردیا گیا لیکن وہ اپنی اور ہومیو پیتھک کی حیثیت منواچکے تھے اس لیے وہ جہاں گئے ،ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
ڈاکٹر ہنی مین نے ایلوپیتھی کو خیرباد کہا اور پریکٹس چھوڑ کر ترجمے کا کام شروع کردیا، وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اس لیے انہوں نے طب کی کتب کے ترجمے کو ترجیح دی ، وہ طب کی عربی کتب کا جرمن میں ترجمہ کر رہے تھے کہ بابائے طب حکیم بقراط کے ایک بیان پر وہ آکر رک گئے اور غورو فکر کرتے رہے کہ حکیم بقراط نے جو نظریہ دیا ہے اس کو عملی جامہ پہننا چاہیے کیوں کہ حکیم بقراط کے اس نظریے پر اب تک کسی نے عمل نہیں کیا تھا، حکیم بقراط کا یہ نظریہ عطیہ الٰہی تھا اور اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے اپنے بندوں پر ایسے انکشافات کرتا رہتا ہے۔
حکیم بقراط کا نظریہ ملاحظہ ہو۔
’’قانون قدرت ہے کہ کوئی بھی شے جو انسان پر اثر کرتی ہے، بڑی مقدار میں دینے سے انسانی جسم اور دماغ میں جو تبدیلی اور علامات پیدا کرتی ہے وہی شے قلیل تعداد میں دینے سے ان علامات کو ختم کردیتی ہے‘‘
اتفاق سے ڈاکٹر ہنی مین کے قریب ہی ایک علاقے میں ملیریے کی وبا پھیل پھیل گئی اور اس علاقے کے تمام دیہاتوں سے، ہر گھر سے میتیں (لاشیں) اٹھنے لگیں، ڈاکٹر ہنی مین نے اس علاقے کا دورہ کیا اور دیکھا کہ علاقے کے تمام دیہاتوں کا رہن سہن ، کھانا پینا ایک جیسا تھا، کوئی فرق نہیں تھا، تمام دیہات ملیریا کی لپیٹ میں تھا، صرف ایک دیہات ملیریا سے محفوظ تھا، وہاں ملیریا نہ ہونے کے برابر تھا، وہ سوچتے رہے اور پتا لگانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس ایک دیہات میں ملیریا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ ( پنجاب اور سندھ کے نہری علاقوں میں بھی پہلے پینے کے پانی کے لیے تالاب ہوا کرتے تھے جن کو ڈگی کہتے تھے ، اب ٹیوب ویل لگ جانے کی وجہ سے یہ ڈگیاں ختم ہوگئی ہیں، ڈگی کے اطراف درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ پانی ٹھنڈا رہے اور تالاب محفوظ رہے)
ڈاکٹر ہنی مین نے آخر کار ملیریائی وبا کا کھوج لگالیا جو دیہات ملیریا کی وبا سے محفوظ تھا، وہاں کی ڈگی کے گرد سنکونا بارک کے درخت لگے ہوئے تھے،( سنکونا کا درخت شیشم کے درخت کی طرح بڑا درخت ہوتا ہے جس کے تنے کے چھلکے سے کونین حاصل کی جاتی ہے) ڈاکٹر ہنی مین نے دیکھا کہ سنکونا کے درخت کے پتے ڈگی کے پانی میں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے رہتے ہیں اور اس ڈگی کا پانی دیہات والے استعمال کرتے ہیں، پتوں کا معمولی اثر پانی میں شامل ہوتا رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ ملیریا کی وبا سے محفوظ ہیں، چناں چہ ڈاکٹر ہنی مین نے وہیں سے سنکونا کا چھلکا لیا اور گھر آکر پاؤڈر بنایا اور بڑی مقدار میں پھانک لیا، چند گھنٹوں بعد انہوں نے محسوس کیا کہ ان پر ملیریا کی کیفیت طاری ہورہی ہے،زور کی کپکپی شروع ہوئی اور بخار ہوگیا اور وہ خود ملیریا کی زد میں آگئے۔
ڈاکٹر ہنی مین نے سفوف پھانکنے سے پہلے ہی اس سفوف کی ایک چٹکی بالٹی بھر پانی میں ڈال کر خوب ہلاکر رکھا ہوا تھا، جب ان پر ملیریا کی پوری کیفیت طاری ہوگئی تو انہوں نے اس بالٹی سے ایک ایک چمچ پانی پینا شروع کردیا، چند گھنٹوں بعد ملیریا کی یہ کیفیت جاتی رہی، ڈاکٹر ہنی مین کی یہ پہلی آزمائش تھی جو انہوں نے سنکونا پر کی، یہی دوا چائنا کے نام سے اب مشہور ہے اور زندگی بچانے والی ادویات میں شامل ہے۔
اس آزمائش کے بعد حکیم بقراط کے نظریے کی تائید بلکہ تصدیق ہوگئی، یہیں سے ہومیو پیتھی کی بنیاد بڑی،اس کے بعد ڈاکٹر ہنی مین نے اپنے گھر والوں اور رضا کاروں پر مزید دواؤں کی آزمائش شروع کردی اور اس آزمائش میں خود کئی بار مرتے مرتے بچے، ان کے گھر والے متاثر ہوتے رہے لیکن انہوں نے استقامت کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رکھا اور نکس و میکا، آرسنک البم، بیلا ڈونا کے علاوہ ایک سو کے قریب ادویات کی آزمائش کر ڈالی پھر انہوں نے ان دواؤں پر مشتمل مٹیریا میڈیکا چھپوایا جو ’’مٹیریا میڈیکا پیورا‘‘ کہلایا۔
ڈاکٹر ہنی مین پر قدرت بہت مہربان تھی، ان پر قدرت کی طرف سے ہومیو پیتھی کے اصول منکشف ہوتے رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو قدرتی قوانین سے آگاہی بخشی اور انہوں نے فطری قوانین اور اصولوں پر مبنی ہومیوپیتھی کی کتاب مرتب کی جو ہومیوپیتھک کے فلسفے کی مشہور کتاب آرگینین کہلائی۔
ڈاکٹر ہنی مین نے ہومیوپیتھی کی بنیاد رکھ دی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کام کو ادھورا چھوڑ کر جارہے ہیں، آنے والے ہومیوپیتھ اس کام کو مکمل کریں گے، یورپ میں تو ہومیو پیتھی کی شدید مخالف کی وجہ سے پذیرائی نہیں ہوئی لیکن ہنی مین کے بعد امریکا میں ہومیو پیتھی کو بہت فروغ حاصل ہوا، امریکا نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرلی تھی اور امریکن قوم میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کا بہت جذبہ تھا،جب ہومیو پیتھی وہاں پہنچی تو وہاں چوٹی کے ایلو پیتھک ڈاکٹروں نے ہومیو پیتھی کو اپنایا اور اس کو عروج دیا۔
امریکا میں ڈاکٹر کینٹ، ڈاکٹر ہیرنگ، ڈاکٹر ولیم یورک جیسے نامور ہومیو پیتھ مشہور ہوئے جنہوں نے بے شمار نئی ہومیو پیتھک دواؤں کی آزمائش کے بعد ہومیو پیتھک میٹریا میڈیکا میں اضافہ کیا۔ ڈاکٹر ہنی مین نے ہومیو پیتھی کا جو پودا لگایا تھا، امریکا کے ہومیو پیتھک ڈاکٹروں نے اس کو تناور درخت بنادیا، اس میں امریکن عوام کا بھی بہت بڑا حصہ ہے کہ انہوں نے ہومیو پیتھک دواؤں کی آزمائش کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا، ہومیو پیتھک دواؤں کی آزمائش سو ڈیڑھ سو اور بعض دوائیں ڈھائی سو رضا کاروں پر آزمائی گئیں، ان میں عورتیں، بچے ، جوان اور بوڑھے سب ہی شامل تھے۔
ڈاکٹر ہنی مین کی بیوی (Johanna) پھیپھڑوں کی تکلیف اور شدید بخار میں مبتلا ہوئی اور 3 مارچ 1830 میں ہنی مین کے ہاتھ میں دم توڑ دیا جس سے وہ بڑے دل برداشتہ ہوگئے اور جینے کی رمق باقی نہ رہی، اس وقت ان کی عمر 80 سال تھی، وہ سادے سے کلینک میں پریکٹس کرتے تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ بال بکھرے ہوئے ہیں، لباس بے ڈھنگا میلا سا ہے، بالکل سلفر بن کر رہ گئے تھے، انہی دنوں ایک خاتون کو جس کی عمر تقریباً 40-45 سال تھی، ڈاکٹر ہنی مین کے کلینک میں آتے جاتے دیکھا جانے لگا، خاتون کی شہرت اچھی نہ تھی لیکن اس خاتون کے آنے کی وجہ سے ڈاکٹر ہنی مین کی روز مرہ کی زندگی میں نکھار آنے لگا، بال سنور گئے، لباس ڈھنگ کا ہوگیا، سستی ، کاہلی ختم ہوگئی، سلفر سے فاسفورس بن گئے پھر اس فرنچ خاتون نے ڈاکٹر ہنی مین سے شادی کرلی جس کا نام مسز میری میلان تھا۔
انہی دنوں فرانس کے بادشاہ کی والدہ یعنی سابقہ ملکہ کی لاعلاج بیماری کا اشتہار اخباروں میں شائع ہوا کہ ہے کوئی علاج کرنے والا؟ ڈاکٹر ہنی مین نے بیوی کے زور دینے پر یہ چیلنج قبول کرلیا، ان کے علاج سے جب ملکہ صحت یاب ہوگئی تو بادشاہ نے ڈاکٹر ہنیمین کو کہا کہ مانگ کیا مانگتا ہے، ڈاکٹر ہنی مین نے کہا ’’کچھ نہیں چاہیے، بس یہ چاہتا ہوں کہ اس ملک سے نہ نکالا جاؤں‘‘ بادشاہ نے ضمانت دے دی کہ ان کو فرانس سے نہیں نکالا جائے گا۔
بس پھر کیا تھا، ڈاکٹر ہنی مین کی بیوی نے قصبہ سے نکل کر پیرس میں ایک اچھے بنگلے میں شاندار کلینک بنایا، ڈاکٹر ہنی مین کے ساتھ ان کی بیوی مریضوں سے علامات لیتی اور برابر میں بیٹھے ڈاکٹر ہنی مین علامات سنتے جاتے اور دوا تجویز کرتے جاتے، اس طرح ان کی پریکٹس کو چار چاند لگ گئے، ان کے کلینک میں یورپی ممالک سے امراء اور شہزادے علاج کروانے کے لیے آنے لگے۔
ڈاکٹر ہنی مین کی بیوی کی قربت نے ان کو شہرت دی اور مال دار بنادیا، ڈاکٹر ہنی مین کے ساتھ رہنے سے ان کی بیوی کو ہومیو پیتھی کے مطالعہ کا شوق ہوا اور وہ ہومیو پیتھی کے علاج معالجے میں ماہر ہوگئیں، دن کو وہ ڈاکٹر ہنی مین کے ساتھ بیٹھتی، شام کو صنعتی علاقے کے مزدوروں کے لیے کلینک چلی جاتی، وہ بغیر کسی معاوضے کے مریضوں کا کامیابی سے علاج کرتی، اس طرح ڈاکٹر ہنی مین کا آخری وقت اس بیوی کے ساتھ بہت خوش گوار گزرا۔
ڈاکٹر ہنی مین نے علاج معالجے کے حوالے سے حکیم بقراط کی بہت سی خوبیوں کو اپنایا تھا، حکیم بقراط اپنے شاگردوں کو علم طب سکھانے سے پہلے ان سے ایک عہد لیا کرتا تھا پھر علم سکھاتا تھا، یہ عہد نامہ تمام معالجین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا اور درج ذیل ہے۔
Physician’s Oath
معالج کا عہد
بابائے طب حکیم بقراط کا مرتب کردہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں علاج معالجے میں اپنی قابلیت کے مطابق اور انصاف کے ساتھ مریضوں کی مدد کروں گا بلکہ غلط طریقے اور رویے سے انہیں کبھی اذیت نہیں پہنچاؤں گا اور نہ ہی کسی کو زہر دوں گا، چاہے وہ کتنا ہی اصرار کرے، اسی طرح نہ کسی خاتون کو اسقاط حمل کے لیے دوا دوں گا، اپنی شخصیت اور اپنے فن کو صاف و شفاف رکھوں گا، میں دکھی لوگوں پر نہ چھری کا استعمال کروں گا اور نہ ہی کسی سنگ کا بلکہ میں ان کو ایک ہنر مند دوست کی حیثیت دوں گا اور جب کسی مریض کے گھر جاؤں گا تو صرف اس کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے اور میں بین الاقوامی غلط رویوں سے مردوں اور خواتین کو جسمانی تکالیف پہنچانے سے گریز کروں گا اور معالجاتی اعتبار سے میرے اور مریضوں کے مابین جو بھی خفیہ راز ہوں گے ان کو افشاں نہیں کروں گا۔
اگر میں نے اس حلف نامہ کو عملی جامہ پہنایا اور عہد شکنی نہیں کی تو لوگوں میں اپنے اس فن کا تقدس قائم رکھتے ہوئے شہرت اور ناموری حاصل کروں گا اور اس کے برعکس اس حلف نامہ سے میں نے انحراف کیا تو بخدا یہ مجھے پستی میں دھکیل دے گی۔
یورپ میں جب ہیضہ کی وبا پھیلی تو ہنی مین نے چار مقالے تحریر کیے اور ان کو چار مختلف پبلشرز کے ذریعے پوری دنیا میں شائع کروایا اور اس کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لیا، اس بیماری میں مریضوں کو جو ادویات استعمال کرائی گئیں، ان میں کیمفر مدر ٹنکچر، ویٹرم البم اور کیوپرم میٹ قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر ہنی مین نے اس طریقہ علاج کو دریافت کرنے میں جو ستم سہے، وہ شاید ہی کسی مؤجد نے اپنی ایجادات کے لیے سہے ہوں، انہوں نے ایک موقع پر فرمایا’’ لوگ میرے مقدس کام میں خلل انداز ہورہے ہیں اور مجھے تکلیف پہنچارہے ہیں لیکن جس کام کو میں پایہ ء تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہوں ، اس جذبے نے مجھ میں اپنی روح پھونک دی ہے کہ میں ہر وقت خوش حال و خرم رہتا ہوں اور غصہ میرے پاس نہیں آتا‘‘
ڈاکٹر ہنی مین نے 93 کتب تحریر کیں ، یہ کتب بھی دنیا میں سند کی حیثیت رکھتی ہیں، بانی ء ہومیو پیتھی پیرس میں آٹھ سال تک کامیابی اور مستعدی سے پریکٹس کرتے رہے،آخر یہ عظیم انسان 2 جولائی 1842 ء کو 88 سال کی عمر پاکے اپنے مالک حقیقی سے جاملا، ان کا انتقال سے قبل آخری جملہ یہ تھا ’’میں بے فائدہ زندہ نہیں رہا‘‘ یہ جملہ تمام طلبا کے لیے مشعل راہ ہے۔