ہمزاد، قرین نسمہ جسے انگریزی میں اورا (Aura) کہا جاتا ہے، یہ انسان کے ساتھ پیدا ہونے والا شیطان یا جن ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ صرف قرآن و حدیث سے ثابت ہے بلکہ موجودہ دور میں سائنسی ذرائع سے بھی اس کا وجود ثابت ہوچکا ہے، یہ الگ بات ہے کہ غیر مسلم ماہر روحیات اسے انسانی روح ہی قرار دیتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے، وہ روح جسے اللہ نے آدم اور اولاد آدم میں پھونک دیا ہے کچھ اور ہی شے ہے اور قرآنی الفاظ میں امر ربی ہے جس کے بارے میں جاننا ہَما شُما کا کام نہیں، بس اللہ جسے توفیق دے۔
روح تمام جان داروں میں زندگی کی علامت اور سبب ہے، علماءاور مفسرین اس سلسلے میں آیات و احادیث کی جو تشریحات کرتے ہیں، اس میں خاصا اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ انسان روح، نفس اور جسد خاکی سے مرکب ہے ، بعض کا خیال ہے کہ روح اور نفس ایک ہی ہیں، بعض انسانی جسم میں دو روحوں کی بات کرتے ہیں اور ایک کو نہایت لطیف قرار دیتے ہیں جو تمام بدن میں جاری و ساری ہے جب کہ دوسری انسانی جسم کے گرد حصار کیے ہوئے ایک ہالے (پیکر نور) کی شکل میں ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو روح شکم مادر کے اندر بچہ میں فرشتہ پھونکتا ہے وہ جسم سے ملتے ہی نفس بن جاتی ہے اور جسم سے متصل روح کو اعلیٰ روح نہیں کہا جاسکتا، اسی طرح نفس بھی نہیں کہا جاسکتا۔
قصہ مختصر یہ کہ روح نفس اور مادے کی اصل ہے اور نفس اس کے بدن کے ساتھ اتصال سے مرکب ہے، پس روح ایک وجہ سے نفس ہے نہ کہ تمام وجوہ سے، یہ تو تھے نظریات و اقوال مفسرین۔
ہمارا موقف وہی ہے جو مستند صوفیاءو اولیاءکا ہے یعنی روح چوں کہ امر ربی ہے، ہمارے رب کا حکم ہے لہٰذا دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے ، اس سلسلے میں حضرت بابا تاج الدین اولیائ، قلندر بابا اولیاؒ کے ارشادات و تحقیق زیادہ معتبر اور قابل قبول ہیں، ماضی میں اس حوالے سے شیخ اکبر ابن عربی اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ارشادات قابل توجہ ہیں۔
یہاں کتب احادیث سنن اور داود، جامع ترمذی، موطا امام مالک اور مشکوٰة میں یہ حدیث بھی ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ میدان عرفات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی پشت پر ہاتھ پھیرا تو قیامت تک پیدا ہونے والی تمام روحیں چیونٹیوں کی شکل میں زرد و سفید اور سیاہ نمودار ہوگئیں اور مسند احمد اور مشکوٰة میں ہے کہ ان کی الگ الگ جماعتیں نبیوں اور ولیوں کی قائم کیں، اسی طرح مسلمانوں اور کافروں ، نیکوں اور بدکاروں کی الگ الگ جماعتیں کرکے سب کی وہی صورتیں بنائیں جو دنیا میں ہوں گی، اس سے ثابت ہوا کہ روح ایک جداگانہ مخلوق ہے جو پیدا شدہ ہے۔
اسلام میں ایک عقیدہ معاد ہے، معاد کے معنی ہیں جائے باز گشت یعنی لوٹنے اور واپس جانے کی جگہ،اس عقیدے سے مراد یہی ہے کہ جو روح اس مادی دنیا میں آئی ہے وہ پھر واپس چلی جائے گی اور مادی جسم جو اس دنیا سے منسوب ہے اسی دنیا میں رہ جائے گا، روح سے ہی ”عہد الست“ لیا گیا ہے یعنی اللہ نے تمام روحوں کو تخلیق کرنے کے بعد پوچھا”الست بربکم؟“ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب روحوں نے بیک زبان جواب دیا ”قالو بلیٰ شھدنا“ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے لہٰذا اسی بنیاد پر روح سے ہی اعمال کی باز پرس بھی ہوگی۔
اب آئیے دوبارہ ہمزاد کی طرف جسے ہمارا ساتھی جن یا شیطان بھی کہا گیا ہے اور ہم ابتدا میں عرض کرچکے ہیں کہ اس کا وجود حضور اکرم ﷺ کے ارشادات سے بھی ثابت ہے اور قرآن حکیم کے فرمودات سے بھی، اسے شیطان یا جن اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ بخاری شریف میں یہ حدیث موجود ہے” شیطان انسان میں خون کی جگہ دوڑتا ہے “ مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ”اے عائشہ! تجھ پر تیرا شیطان غالب آگیا“
میں نے کہا ”یا رسول اللہ ﷺ کیا میرے ساتھ شیطان ہے؟“
فرمایا ” ہاں“
میں نے کہا کہ کیا ہرآدمی کے ساتھ شیطان ہے؟ فرمایا ”ہاں، میرے ساتھ بھی مگر میرے پروردگار نے مجھ کو اس پر غالب کردیا یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے“۔
ان احادیث میں اکثر شیطان اور قرین کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جہاں انسان کے ساتھی ہمزاد کا ذکر آیا ہے، مسلمان صوفیائے کرام نے اسے نسمہ، پیکر نور، پیکر مثالی وغیرہ کا نام دیا، مغرب یا غیر مسلم ماہرینِ روحیات اسے اورا ،اسٹرل باڈی، ہالہ نورانی، جسم لطیف وغیرہ کا نام بھی دیتے ہیں، انسان کی موت کے بعد روح اپنے مقررہ مقام کی طرف واپس چلی جاتی ہے جہاں اس کے لیے مخصوص احکام ہیں، دنیا کا اس سے کوئی رابطہ نہیں رہتا، نہ ہوسکتا ہے، نہ ہی دوبارہ دنیا اور دنیا والوں سے رابطے کی اسے ضرورت رہتی ہے، البتہ یہ ساتھی جن یا ہمزاد انسان کی موت کے بعد آزاد ہوجاتا ہے، ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اگر مرنے والے کی تجہیز و تکفین اسلامی طریقے پر کی جائے اور دفن کرتے وقت تین مٹھی مٹی پر مخصوص دعا پڑھ کر قبر میں ڈال دی جائے، جیسا کہ طریقہ ہے تو مرنے والے کا ہمزاد بھی قبر میں محصور ہوجاتا ہے اور بھٹکنے سے بچ جاتا ہے، بہ صورت دیگر وہ غول بیابانی یا اپنے ہی جیسے آوارہ شیاطین کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے، بعض اوقات انسان یا جنات عاملین بھی ایسے ہمزاد کو اپنے تابع کرلیتے ہیں، خصوصاً ہندوں کے ہمزاد کو، خیال رہے کہ ہندو مذہب میں چوں کہ مردے کو جلانے کی رسم ہے لہٰذا اس عمل سے مردے کا ہمزاد بھی غسل آتشی کرلیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ جنات سے قریب ہوجاتا ہے، یہی صورت دریا میں بہانے یا لاش کو بے گوروکفن گدھوں کی خوراک بننے کے لیے چھوڑ دینے سے پیدا ہوتی ہے، ہمزاد آزاد ہوکر اپنی من مانی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
عملِ ہمزاد
اس سلسلے میں ایک عمل بہت مشہور ہے جو ماہرین سفلیات کا پسندیدہ ہے، کسی نابالغ ہندو لڑکے کی لاش کو مٹی کے کونڈے میں غسل دے کر مخصوص عمل پڑھا جاتا ہے اور بعد ازاں وہ تیل کسی بوتل میں محفوظ کرلیتے ہیں، اب جب بھی لڑکے کے ہمزاد کو طلب کرنا ہو تو تیل چراغ میں ڈال کر چراغ روشن کیا جاتا ہے تو اس لڑکے کا ہمزاد حاضر ہوجاتا ہے پھر اس سے مخصوص کام لیے جاتے ہیں، خیر یہ بات تو برسبیل تذکرہ درمیان میں آگئی۔
قرین یا ہمزاد اپنی آزادی کے بعد سخت عذاب ناک حالت میں رہتا ہے اور خلق خدا میں شروفساد پھیلانے پر آمادہ ہوتا ہے ، البتہ اس سلسلے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ لوگ جو اپنی زندگی میں نیک اور صالح تھے جنہوں نے اپنے تقویٰ، اطاعت الٰہی اور اتباع رسول ﷺ سے اپنے ہمزاد پر غلبہ حاصل کرلیا تھا ان کا ہمزاد ان کی موت کے بعد کسی فتنہ و فساد اور شر میں ملوث نہیں ہوتا اور اپنی قبر تک ہی محدود رہتا ہے، شیاطین کے گروہ سے بھی دور رہتا ہے لیکن اس کے برعکس صورت میں وہ موقع ملنے پر کسی شرارت سے باز نہیں آتا، خلق خدا کو نقصان پہنچانا، گمراہ کرنا اس کا مشغلہ بن جاتا ہے، خواتین خصوصاً اس کا ہدف بنتی ہیں، ایسے مرد اور عورتیں جو قرین کا شکار یا آلہ کار بنتے ہیں ”مقرون“ کہلاتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں حاضری سواری کے کیسوں میں یہ صورت دیکھنے میں آتی ہے۔
دوسری قسم کا جن
ایک دس بارہ سالہ لڑکا آسیب زدہ تھا، اس پر بے ہوشی کی کیفیت طاری تھی ، اسی عالم میں جب اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا گیا تو اس نے بتایا کہ میں جن ہوں، پوچھا گیا کہ کس قبیلے سے تعلق ہے؟ تیرے خاندان والے کہاں ہیں تو جواب میں اس نے کہا کہ میرا کوئی قبیلہ اور خاندان نہیں ہے، میں دوسری قسم کا جن ہوں، پھر دوسری قسم کی تفصیل یہ بتائی کہ پہلی قسم کے جنات وہ ہوتے ہیں جو ایک خاص طرز بودوباش رکھتے ہیں، آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں اور ان کے ہاں اولاد بھی ہوتی ہے، ان کا خاندان بھی ہوتا ہے لیکن دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو کسی انسان سے تعلق رکھتی ہے یعنی انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے لہٰذا میں دوسری قسم سے ہوں، میرا باقاعدہ کوئی خاندان نہیں ہے، جیسا کہ پہلی قسم کے جنوں کا ہوتا ہے، قرین کی ایک قسم جو خواتین کے لیے مسئلہ بنتی ہے، وہ ”مسان“ کہلاتی ہے، اس کی وجہ سے بے اولادی یا بچوں کا پیدا ہونے سے قبل یا بعد میں مرجانا ہوتا ہے ، غیر تسلی بخش صحت کے معاملات اگر زمانہ ءحمل میں بھی جاری رہیں اور نوماہ کی مدت سے پہلے بھی اسقاط حمل یا وضع حمل ہوجائے تو مردہ بچے کا قرین اس وقت تک تنگ کرتا رہتا ہے جب تک معقول علاج معالجہ نہ کرالیا جائے، یہ قرین بچوں کی پیدائش عمل کو بھی روکتا ہے اور عورت کی صحت تباہ کرنے کا سبب بھی بنتا ہے، ایسے قرین عامل کی کوششوں سے بھی نہیں بولتے کیوں کہ بولنا ، بات کرنا تو اسے آتا ہی نہ تھا۔
قرین کے پریشان کرنے کی ایک صورت اور بہت عام ہے جس میں کسی شخص کا قرین اس کی زندگی میں اس کے لیے عذاب بن جاتا ہے، اسے بگڑا ہوا قرین کہتے ہیں، ایسا کسی ذہنی و نفسیاتی بیماری یا کسی چلے وظیفے میں رجعت کے سبب ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں انسان کا ذہنی توازن درست نہیں رہتا، وہ مجنون اور فاتر العقل ہوکر رہ جاتا ہے یا مجذوب کہلاتا ہے، آپ نے اکثر ایسے لوگوں کو کچرا چنتے یا سڑکوں پر چیختے چلاتے عجیب عجیب حرکتیں کرتے دیکھا ہوگا، ان میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی جسمانی قوت اور برداشت غیر معمولی حد تک بڑھی ہوئی ہوتی ہے مثلاً شدید سردی میں برہنہ یا شدید گرمی میں نہایت گرم لباس میں ملبوس نظر آئیں گے ، نہ کسی سے کچھ لینا، نہ کھانا پینا یا اگر کھانے پر آجائیں تو کئی افراد کی خوراک اکیلے کھا جائیں، ان کی زبان سے نکلی ہوئی مہمل اور بے معنی باتیں اکثر پوری ہوجاتی ہیں اور لوگ ان سے عقیدتیں بھی وابستہ کرلیتے ہیں، الغرض یہ بھی بگڑے ہوئے قرین کی ایک شکل ہے مگر ان کا علاج بہت مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ ان کی تیمار داری ایک فل ٹائم جاب ہے۔
دنیا بھر میں ہمزاد یا اورا کے بارے میں تحقیق و تفتیش صرف ماہر روحیات نے ہی نہیں کی بلکہ سائنس دانوں نے بھی اس موضوع پر داد تحقیق دی ہے، سب سے پہلے سابقہ سویت یونین میں اس حوالے سے اورا کی تصویر لینے کا اہتمام کیا گیا، اس مقصد کے لیے مخصوص کیمیکلز استعمال کیے گئے اور مخصوص کیمرا تیار کیا گیا، چناں چہ پہلی مرتبہ ہمزاد کی ہفت رنگ تصویر سامنے آئی بعد ازاں بہت زیادہ جدید کیمرے سامنے آگئے اور ایسی کمپیوٹرائزڈ مشینیں تیار ہوگئیں جو باآسانی آپ کے ہمزاد کی خرابیوں پر روشنی ڈالتی ہے،دنیا کے بے شمار ممالک میں ان مشینوں سے کام لیا جاتا ہے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ہمزاد کو قابو کرنے کے عمل ڈھونڈتے پھرتے ہیں، کتابوں اور رسالوں میں ایسے عملیات کی بھرمار ہے لیکن ایک بھی ایسا دعوے دار سامنے نہیں آتا جو اپنا دعوی ثابت کرسکے، ہمارے ایک شاگرد نے بتایا کہ آپ کے پاس آنے سے پہلے میں بہت سے ایسے افراد سے ملا جو بڑے بڑے زبردست قسم کے ہمزاد اور جنات کو قابو میں کرنے کے عملیات رسالوں میں یا اپنی کتابوں میں دیتے ہیں،انہی میں سے ایک عامل سے میں نے رابطہ کیا اور فرمائش کی کہ آپ کا عمل ہمزاد کی تعلیم دینے کا ہدیہ نذرانہ میں اُس وقت پیش کروں گا جب آپ اپنے قابو کیے ہوئے ہمزاد سے میری ملاقات کرادیں، انہوں نے انکار کردیا، واضح رہے کہ عمل ہمزاد کی تعلیم اور تربیت کے لیے انہوں نے اپنی فیس کے پچاس ہزار روپے طلب کیے تھے۔
ہماری نئی نسل کے ناکام و نامراد افراد جو بنیادی طور پر سہل پسندی کا شکار ہیں اور راتوں رات دولت مند بننا چاہتے ہیں یا اپنے دشمنوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں، عملیات ، چلّے، وظائف کی طرف اسی ہمزاد کے چکر میں متوجہ ہوتے ہیں،ایسے بہت سے نوجوانوں سے ہمارا رابطہ ہوا ہے،انہوں نے جعلی نام نہاد عاملوں اور کاملوں کے چکر میں پڑکر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے لٹائے اور تباہ و برباد ہوگئے، اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں جنہوں نے تسخیر ہمزاد کے چکر میں ادھر اُدھر سے سنے سنائے یا کسی کے بتائے ہوئے عمل پڑھے اور پھر اپنا حال اور مستقبل دونوں برباد کرلیے،حدیہ کہ نفسیاتی مریض بن گئے، اللہ بس باقی ہوس۔