لوگوں کے مسائل و امراض اور کچھ ذاتی مشاہدات
اتوار سے حیدرآباد میں کلینک کا آغاز کردیا گیا ہے ۔اوراب انشاءاﷲ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمیشہ سے ہمارے پاس آنے والوںیا خط اورٹیلی فون پررابطہ کرنے والوں میں مختلف قسم کے لوگ شامل ہیں ۔ کوئی جسمانی امراض سے پریشان توکوئی روحانی یا نفسیاتی مسائل کا شکار یا پھر وقت اورحالات کی سختی سے پریشان الغرض سب ہی طرح کے افراد سے رابطہ ہوتا ہے۔ اور اس حوالے سے بہت سے دلچسپ تجربات بھی ہوتے ہیں۔اکثرلوگوں سے مل کران کے مسائل پرغور کرنے کا موقع ملتا ہے اورانسانی نفسیات کی بوالعجبی کا حیرت ناک مشاہدہ ہوتاہے۔ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی شخصیت وکردار نہایت توجہ طلب ہوتے ہیں۔ اور اکثر ا ن کے بنیادی مسائل ان کے اپنے شخصیت وکردار کی پیچیدگی کے باعث ہی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی شخصیت وکردار کی خامیوں سے ناواقف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے طرز عمل ‘اپنے رویوںاوراپنی سوچ کودرست سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ایسے لوگ کسی ڈاکٹر حکیم یا روحانی معالج سے عجیب عجیب توقعات وابستہ کرکے ان کے پاس جاتے ہیں اورپھران کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ معالج ان تمام باتوں کو تسلیم کرلے۔جووہ کہ رہے ہیں۔اوران کی بیماری یا مسئلے کوان ہی کے زاویہ نظر کے مطابق دیکھے ۔ اور پھر علاج بھی اسی طرح کرے جس طرح وہ چاہتے ہیں ظاہر ہے ایک مخلص اوردیانت دار معالج ایسانہیں کرسکتا ۔ وہ تووہی کچھ کرے گا جس کی ضرورت ہو اور خود وہ مناسب سمجھے۔بصورت دیگر معالج کوبڑی دشواری پیش آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثرمریضوں کے ساتھ آنے والے ان کے لواحقین کا بھی یہی حال ہوتاہے کہ وہ اپنے طورپرجوکچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہی معالج کوباور کرانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
ایک اورصورت مزید تکلیف دہ یہ ہوتی ہے کہ جب کسی غلط اورجاہلانہ سنی سنائی بات پر بعض لوگ اصرار شروع کردیتے ہیں اورسند کے طورپرکسی جعلی پیرفقیر ‘عامل کامل کی بات پیش کرتے ہیں ۔مثلاً ہمارے پاس ایک صاحبزادے آئے اورنہایت اطمینان سے بیٹھ گئے۔ ہم نے پوچھا فرمائیے۔کیا مسئلہ ہے؟توبڑی چھبتی ہوئی نظروں سے ہماری طرف دیکھا اوربولے”یہ توآپ بتائیے کہ میراکیامسئلہ ہے؟“
ہم چونکہ اب ایسی باتوں کے عادی ہوچکے ہیں لہٰذا نہایت تحمل سے کہاکہ بھائی ہمیں کوئی علم غیب نہیں ہے کہ آپ کے بتائے بغیر آپ کا مسئلہ جان لیں۔اس پرفرمانے لگے کہ آپ توبہت سے خفیہ علوم جانتے ہیں۔ ان کی مدد سے بتائیں۔ہم نے انہیں سمجھایا کہ بھائی آپ نہ کوئی راجہ مہاراجا ہیں اورنہ ہم راج جوتشی ہیں کہ کسی وقت بھی راجاجی کوئی بھی سوال کربیٹھیں اورجوتشی جی سوال کے جواب کے لئے حساب کتاب میں مصروف ہوجائیں ۔ یہ چٹکلے بازیاں راجامہاراجاﺅں اوربادشاہوں کے درباروں کیلئے ہی موزوں ہیں۔آپ اپنے اورہمارے قیمتی وقت کا خیال کریں اورجوپوچھنا ہے پوچھ لیں۔ اگرکوئی جسمانی بیماری کا مسئلہ ہے توبتائیں۔ یا کوئی اور (پراسرار) معاملات ہیں توان پربھی بات ہوسکتی ہے۔ کہنے لگے میںیہ معلوم کرناچاہتاہوں کہ مجھے نوکری کب ملے گی ؟ہم نے ان سے نام اورتاریخ پیدائش پوچھی‘اس کے بعد انہیں بتادیاکہ فلاں مہینے تک ملازمت مل جائے گی۔ اب انہوں نے ایک نیا سوال داغا‘کہ جہاں میں چاہتا ہوں وہاں مل جائے گی؟اورجس شخص نے مجھ سے نوکری دلانے کا وعدہ کیا ہے کیا وہی مجھے نوکری دلائے گا؟۔ ہم نے کہاکہ وعدہ کرنے والا سچا ہے ۔وہ آپ کے لئے ایمانداری سے کوشش کررہا ہے۔ مگریہ ضروری نہیں ہے کہ جہاں آپ چاہیں وہیںنوکری ملے۔اس پرنہایت احمقانہ بحث شروع کردی کہ جناب فلاں صاحب نے تویہ کہاہے اورمیں فلاں بزرگ کے پاس گیاتھا۔ انہوں نے یہ کہاہے وغیرہ وغیرہ درحقیقت موصوف کا مسئلہ کچھ بھی نہیں تھا۔گھرسے کھاتے پیتے اورخوشحال ۔نوجوانی کی ترنگ میں بدمست ‘خوداپنے والدین کے لئے ایک مسئلہ بنے ہوئے تھے۔فکرمعاش سے آزاد ‘کسی نے ہمارے بارے میں بتادیا توتفریحاً چلے آئے۔اوربھی نامعلوم کہاںکہاں جاتے رہے ہوں گے۔
اسی طرح جسمانی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی بعض اقسام ایسی مشاہدے میں آئی ہیں۔جن کا علاج نا ممکن نہیں تومشکل ترین ضرور ہے۔ان میں سرفہرست وہ مریض ہیں جن کی بیماریاں مہینوں یا برسوں میں بے احتیاطی یاغلط علاج کے سبب نہایت پیچیدہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ لیکن وہ ان سے جلد ازجلد مکمل طورپرچھٹکارا پاناچاہتے ہیں اوراس سلسلے میںکسی جادوئی اثررکھنے والی دوایا تعویز یاعمل ووظیفے کی تلاش میں رہتے ہیں اس تلاش میں وہ وقتاً فوقتاً لٹتے بھی رہتے ہیں اورغلط سلط دواﺅں کے استعمال سے اپنے مرض کومزید بگاڑتے رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک خاتون تشریف لائیں۔ان کے پاس کئی اسپتالوں اورڈاکٹروں کے نسخہ جات اورمختلف ٹیسٹوں کی رپورٹیں تھیں عرصہ 10سال سے بہت سے علاج کرانے کے بعد تھک بھی گئیں۔تمام صورت حال کا جائزہ لینے کے بعدہم نے انہیں سمجھایا کہ اب تک وہ کتنا نقصان اٹھاچکی ہیں۔اورآئندہ ان کی بیماریاں انہیں کس راستے پرلے جارہی ہیں۔اب بھی اگرانہوں نے صبروسکون اور معقولیت کے ساتھ اپنا علاج نہیں کروایا توان کا ٹھیک ہونامشکل ہوگا جواباً انہوں نے اپنی بعض مجبوریوں کا ذکر کیا کہ جن کے سبب وہ علاج کے سلسلے میں پابندی سے ہمارے پاس نہیں آسکتی تھیں۔اورفرمائش کی کہ بس آپ کوئی ایسی دوا لکھ دیں جووہ بازار سے خریدلیا کریں تب ہی یہ ممکن ہے کہ وہ پابندی سے اپنا علاج کرسکیں۔ہم نے انہیں سمجھایا کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں یہ ممکن نہیں ہے اورخصوصاً ایسی حالت میں جوآپ کی ہے۔
یہ صورت حال اکثرخواتین کے ساتھ پیش آتی ہے ۔بعض توکسی ڈاکٹرکے پاس جانے سے بھی معذورومجبور ہوتی ہیں۔ان کے گھریلوحالات انہیں اس کی اجازت نہیں دیتے۔نتیجتاً بیماریاں اندرہی اندراپنی جڑیں گہری کرتی رہتی ہیں۔یہاں تک کے مریضہ کسی خطرناک حالت میں پہنچ جاتی ہے۔تب گھروالے کچھ ہوش میں آتے ہیں۔اوراسے لے کرکسی اسپتال کے ایمرجنسی سینٹر تک پہنچتے ہیں جہاںظاہر ہے کہ صرف ایمرجنسی ہی کے تقاضے پورے کئے جاسکتے ہیں۔شافی وکافی علاج نہیں ہوسکتا۔جب مریضہ کی حالت خطرے سے باہر ہوجاتی ہے توچنددوائیں لکھ کراسے واپس گھرلایاجاتاہے اورپھروہ دوائیں اکثرمہینے چلتی رہتی ہیں۔قصہ مختصر ڈھنگ سے علاج نہیں ہوپاتا مگر مریض اوران کے لواحقین یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ علاج ہورہا ہے ہم ذاتی طورپرایسے مریضوں سے مل چکے ہیں۔اورملتے رہتے ہیں جومہینوں کیا سالوں عارضی آرام دینے والی دواﺅں پرگزارا کررہے ہوتے ہیں۔
مریضوں کی ایک قسم بڑی دلچسپ ہے یہ وہ قسم ہے جس میں مریض خودمعالج بن چکا ہوتا ہے۔اسے بہت سی ایلوپیتھک ‘یونانی اورہومیوپیتھک دواﺅں کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات ہوتی ہیں اوروہ اپنی اکثرتکالیف میں ضرورت کے مطابق دوائیں خرید کر استعمال کرتارہتاہے۔مثلاً نزلے نے شدت اختیار کی توکوئی تیربہ ہدف ٹیبلٹ خریدکرکھالی۔نزلہ رک گیا ۔سرمیں دردہوا توکوئی پین کلرکھالی ‘ہاتھ پاﺅں ‘کمر ‘پیٹ الغرض کہیں بھی درد ہوا توپین کلر کھانا شروع کردیں۔ایسے ہی ایک صاحب سے جب ہم نے علامتیں لینے کی کوشش کی توبڑی دلچسپ صورت حال سامنے آئی۔وہ ہمارے پاس بھی اس لئے آگئے تھے کہ جومسئلہ انہیں درپیش تھا اسے حل کرنے میں انہیں سخت ناکامی کاسامنا کرناپڑاتھا۔یعنی اپنے طورپرانہوں نے جودوائیں بھی ممکن ہوسکی تھیں استعمال کرڈالی تھیں۔مگرمسئلہ حل نہ ہوا تھا اصل مسئلے کی تفصیل بیان کرنا نامناسب ہوگا ہم یہاں صرف وہ گفتگو بیان کریں گے جوان کے اورہمارے درمیان ہوئی۔
ہم نے ان سے پوچھا کہ انہیں ماضی میں خصوصی طورپر کون کون سی بیماریاں پریشان کرتی رہی ہیں ۔توانہوں نے جواباً کہاکہ کوئی خاص بیماری جوبہت پریشان ہوکبھی نہیں ہوئی ہم نے پوچھا آپ کے ہاضمے کا کیاحال ہے؟بولے ٹھیک ہے!بس کبھی کبھی گیس کی شکایت ہوجاتی ہے‘توفلاں گولی کھالیتاہوں ۔ہم نے پوچھا کہ قبض کی شکایت تونہیں رہتی؟بولے نہیں ‘اگرکبھی کھانے میں کچھ بدپرہیزی ہوجائے توقبض ہوجاتی ہے میں فلاں دوااستعمال کرلیتا ہوں۔ہم نے پوچھا کہ نزلہ توزیادہ نہیں رہتا؟توجواباً فرمایا ہاں اکثر ہوجاتا ہے مگرمیں فلاں گولی کھالیتاہوں توٹھیک ہوجاتا ہے۔مگراس کے بعد میرے سرمیں درد ہوجاتاہے اس کے لئے پھرمجھے ڈسپرین کھانی پڑتی ہے۔الغرض ہرسوال کے جواب میں کچھ ایسی ہی صورت حال سامنے آرہی تھی۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنا کیا حال بنارکھا ہوگا۔
عزیزان من اگرمریضوں کی اقسام پربات جاری رکھی جائے توگفتگو کبھی ختم نہ ہوگی اورایسے ایسے روپ سامنے آئیں گے جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہو۔ہم نے ایسے مریض بھی دیکھے ہیں جنہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی لیکن وہ مستقل بیمار رہتے ہیں اور بیماری کے مزے لوٹتے ہیں ۔ایسے مریض عموماً گھرمیںماں باپ یا بہن بھائیوں کے بہت زیادہ لاڈلے اورچہیتے ہوتے ہیں۔یاپھرپڑھائی سے بیزاریاکام دھندے کی مشقت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے خودکوعجیب عجیب پراسرارقسم کی بیماریوں میں مبتلا کرلیتے ہیں۔بظاہرجسمانی طورپر توانااورطاقتور ‘کھانے پینے ‘سونے جاگنے اوردیگرتمام اپنی مرضی کے کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں مگر جہاں انہیں ان کی مرضی کے خلاف کسی کام کے لئے کہاگیا اوران کی طبیعت خراب ہوئی اوریہ طبیعت عجیب وغریب طریقے سے خراب ہوتی ہے مثلاً ایک صاحب زادے خوف کی بیماری میں مبتلا تھے۔اوریہ خوف بھی عجیب وغریب قسم کا تھا۔کبھی ہوتاتھا‘کبھی نہیں ہوتاتھا۔کسی وقت توان کے لئے گھرسے باہرنکلنا بھی مشکل ہوجاتا۔اوروہ کئی کئی روز تک گھرسے باہرنہیں نکلتے پھرخود ہی ٹھیک ہوجاتے ۔اورجہاں مرضی آئےچلے جاتے جس سے چاہے ملتے جلتے مگرجیسے ہی ان پرکوئی ذمہ داری ڈالی جاتی یاکوئی کام ایساان کے سپردکیاجاتاجوان کی پسنداورمرضی کے خلاف ہو۔تواچانک ان کی طبیعت بگڑجاتی ۔اوران کا خوف دوبارہ بیدار ہوجاتا مثلاً بازار میں دکان دار سے بات کرتے ہوئے ڈرلگنے لگتا بس میں سفر کرتے ہوئے برابر میں بیٹھے ہوئے آدمی سے خوف آنے لگتا وغیرہ وغیرہ ۔درحقیقت یہ سارے خوف ان کی کاہلی ‘آرام طلبی اور ایک خیالی دنیا میں رہنے کی وجہ سے تھے۔بہت اچھے اورکھاتے پیتے بھرے پرے گھرانے سے تعلق تھا۔اماں بہنیں ہروقت صدقے واری رہتی تھیں۔لیکن والد خاصے سخت مزاج تھے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا محنتی ‘جفاکش ہواوریہی کام وہ نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا ایسی بیماری ایجاد کرلی تھی جس کا کوئی توڑکسی کے پاس نہیں تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کسی قسم کی دوائیں کھانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے تھے۔گھروالے انہیں ماہر نفسیات کے پاس بھی لے گئے اوروہ چند روز ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں کھاتے رہے۔مگرپھران ہی دواﺅں سے انہیں خوف آنے لگا اورطبیعت بہت زیادہ بگڑنے لگی۔بلکہ کچھ اورعجیب وغریب حرکتیں انہوں نے شروع کردیں ۔نتیجے کے طورپر کسی سیانے کے مشورے پرروحانی علاج کے لئے لے جایا گیا۔اس علاج سے وہ بہت مطمئن ہوئے کیونکہ اس میں دوائیں نہیں تھیں۔بلکہ پڑھا ہوا پانی اور نقش وتعویز وغیرہ سے کام لیاجارہاتھا۔اب صورت حال یہ تھی کہ جب وہ پانی پی لیتے توٹھیک رہتے مگرجب پانی یا تعویذ پلانا بند کردئیےجاتے اوروہ بھلے چنگے نظرآنے لگتے توعلاج روک دیاجاتامگرپھر انہیں کام دھندے کی مصروفیات میں ڈالا جاتایا تعلیمی سلسلے کی طرف راغب کیاجاتاتوتھوڑے ہی عرصے کے بعدپھر طبیعت خراب ہونا شروع ہوجاتی۔ الغرض یہ سلسلہ کئی سال تک دراز رہا۔جب وہ ہمارے پاس لائے گئے توابتدا میں انہوںنے ہمیں بھی چکردینے کی کوشش کی اوراس میں ہم نے محسوس کیاکہ ان کی والدہ محترمہ ان کی بہت بڑی مددگار ہیں۔ان کاحال یہ تھاکہ اگر صاحبزادے کوچھینک بھی آجائے تو پریشان ہوجاتی تھیں۔اوربقول شخصے بھاگیو ‘ دوڑیو‘ پکڑیو کا گھرمیں شور مچ جاتافوراً ہی ہمیں ٹیلی فون کھڑکھڑایاجاتاکہ جناب ابھی صبح دوا کھانے کے بعد صاحبزادے اپنے کمرے میں آرام فرمارہے تھے کہ اچانک انہیں گھبراہٹ شروع ہوگئی جی متلانے لگا اورپھرالٹیاں شروع ہوگئیں۔یایہ کہ شام کومسجد سے عصرکی نماز پڑھ کرگھرواپس آئے توشدید طبیعت خراب ہوگئی ۔کیونکہ مسجد میں ایک عجیب وغریب قسم کا نمازی صف میں ان کے برابر میں کھڑا تھا۔اوران کی طرف باربار گھورتی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہاتھا۔جس کی وجہ سے انہیں خوف محسوس ہونے لگا۔گھرپہنچے توسخت گھبرائے ہوئے تھے۔جسم پرلرزہ طاری تھا اوراب ہلکا پھلکا بخاربھی محسوس ہورہا ہے ۔بتائیے اب کیا کیاجائے؟بالآخرہم نے موصوف کا زائچہ بنایاتوساری بات سمجھ میں آگئی ۔اس کے بعدان کے والد صاحب کوبلایا اورانہیں بتادیاکہ آپ کے بیٹے کوآپ کی بیوی مکمل طورپرصحت یاب نہیں ہونے دیں گی۔بہترہوگا کہ پہلے ان پرکنٹرول کریں۔اگرہم ایسے مریضوں کی مزید تفصیلات لکھتے رہے توکچھ ضروری خطوط تشنہ جواب رہ جائیں گے لہٰذایہ قصہ پھرکبھی سہی۔دراصل بہت دنوں سے یہ سوچ رہے تھے کہ کچھ اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات بھی بیان کریں۔ممکن ہے کہ ان کے ذریعے بہت سے لوگ اپنی غلطیوں یا غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے اپنے مسائل کا حل نکال سکیں۔انشاءاﷲ اس سلسلے کومزید آگے بڑھائیں گے اور اسے صرف جسمانی یاروحانی مسائل تک ہی محدودنہیں رکھاجائے گا بلکہ دنیاوی ‘معاشی ‘ازدواجی نوعیت کے معاملات تک پھیلایاجائے گا کیونکہ ان میں بھی ہماری بعض غلطیاں اورغلط فہمیاں یاکہیں کہیں خوش فہمیاں ہمارے لئے مسائل پیدا کررہی ہوتی ہیں۔