ملک کی صورت حال پر ایسٹرولوجیکل تجزیہ اکثر ہوتا رہتا ہے، نومبر اور دسمبر اس حوالے سے خاصے اہم مہینے ہیں، خاص طور پر سندھ میں کسی بڑی تبدیلی کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے بعد نئے سال 2018 ء کا آغاز ہوگا،نومبر دسمبر کی ایسٹرولوجیکل صورت حال سندھ اور کراچی کے حوالے سے غیر معمولی حالات و واقعات کی طرف اشارہ کر رہی ہے خصوصاً 20 نومبر سے ایک ایسے وقت کا آغاز ہورہا ہے جو سندھ کے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے لیے موافق و مددگار نہیں ہوگا،انہیں بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہوگا جس کے نتیجے میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں آسکتی ہے۔
کراچی کی سیاست میں بھی ایک بھونچالی کیفیت موجود ہے،ایم کیو ایم شدید انتشار اور ابتری سے دوچار ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایم کیو ایم پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہو، بعض سیاسی تجزیہ کار موجودہ ایم کیو ایم کے خاتمے اور ایک نئی جماعت کے وجود میں آنے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں، اس امکان پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے لیکن یہ ضرور کہیں گے کہ ایم کیو ایم کے حوالے سے 2013 ء میں انقلابی تبدیلی کی جس لہر کی ہم نے نشان دہی کی تھی وہ اب آخری مرحلے میں ہے اور بقول شاعر
جان لیوا ہے محبت کا سماں آج کی رات
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
آج کی نشست میں خوابوں کی دنیا کے کچھ اسرار و رموز پر بات ہوگی، اس حوالے سے پہلے ایک خط پیش خدمت ہے۔
ایس، آر لکھتی ہیں ’’ پہلی بار آپ کو خط لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں، جواب دے کر ممنون فرمائیے گا، میں نے رات ایک عجیب اور حیرت انگیز خواب دیکھا جس نے مجھے آپ کو خط لکھنے پر مجبور کردیا لیکن اپنا خواب لکھنے سے پہلے کچھ اپنے بارے میں واضح کرنا چاہتی ہوں، میری عمر 35 سال ہے، چودہ سال کی عمر میں مجھے نفسیاتی بیماری ہوگئی تھی، وہ اس طرح کہ میں امتحان کا بہت ٹینشن لیتی تھی، بیماری کے باعث بی اے کا امتحان بھی پاس نہ کرسکی پھر میں ایک مشہور کھلاڑی کی بے حد فین ہوں اس لیے بھی ایک الگ خیالی دنیا میں رہنے لگی تھی، ڈاکٹروں کے مطابق مجھے شیزوفرینیا ہوگیا ، میرا کافی علاج ہوا ہے، کئی مرتبہ شاک بھی لگائے گئے، اب خدا کے فضل سے میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں، امی نے تین ماہ قبل علاج کے لیے تعویذ کروایا تھا جو کہ میں ہر وقت گلے میں ڈالے رکھتی ہوں۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چھوٹا سا گھر ہے، ساٹھ گز کا ڈبل منزلہ، میں اوپر کی منزل میں گئی، دیکھا کہ وہاں کمرے کے ایک کونے میں زیورات کا ڈبا رکھا ہوا تھا جس میں کئی ناک کی لونگیں اور کانوں کے بندے رکھے ہوئے تھے، میں نے زیور دیکھتے ہی پانچ چھ لونگیں اٹھالیں، بندے بھی دو سیٹ اٹھالیے لیکن باقی چیزیں مجھے زیادہ نہیں بھائیں، پھر میں نے دیکھا کہ ایک خاتون نیچے باورچی خانے میں کھانا پکارہی تھیں، انہوں نے کھانے کے لیے بلایا، میں باورچی خانے ہی میں بیٹھ گئی، ایک پتیلی کا ڈھکنا کھولا تو دیکھا، اس میں مچھلیاں پکی ہوئی تھیں، میں نے جوں ہی چمچہ چلایا، معلوم ہوا کہ مچھلیاں زندہ ہیں،پھر میں نے گھبرا کر دوستی پتیلی کا ڈھکنا کھول کر دیکھا تو مرغی کا گوشت بھنا ہوا پکا تھا، جب چمچہ چلایا تو پتا چلا کہ کھال اتری ہوئی ثابت مرغیاں تھیں۔
پھر میں نے دیکھا کہ ہم نے گھر بدل لیا ہے، وہ ہمارے گھر سے بھی بڑا اور صاف ستھرا گھر تھا اور اس گھر میں کمرے بہت سارے تھے، اچانک منظر پھر بدل جاتا ہے، میں نے پھر وہی پرانا گھر دیکھا، بتایا گیا کہ یہ انہی صاحب کا گھر تھا جنہوں نے تمہیں تعویذ دیا تھا اور وہ خاتون جو باورچی خانے میں تھیں، مولوی صاحب کی بیوی تھیں، جب میں گھر سے باہر نکلنے کے لیے باہر کے دروازے سے قدم باہر نکالتی ہوں تو تین سیڑھیوں کی اترائی پر ایک چھ ماہ کی بچی پڑی ہوئی رو رہی ہوتی ہے، ایک آواز آتی ہے کہ یہ تیری چوتھی اولاد ہے، تین ضائع ہونے کے بعد، اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی ہے‘‘۔
جواب: خوابوں کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہے، ماہرین نفسیات اس حوالے سے مستقل تحقیقات میں مصروف عمل ہیں، اس حوالے سے علم نفسیات کے باوا آدم سگمنڈ فرائڈ سے لے کر آج تک بے شمار ماہرین نفسیات اس پراسرار دنیا کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہے ہیں اور ان کے درمیان اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے۔
فرائڈ نے کہا تھا ’’انسانی خواہشات خوابوں میں نت نئے روپ دھار کر سامنے آتی ہیں‘‘ مگر وہ یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ خواب بہر حال معنی رکھتے ہیں، ان کے ذریعے امراض کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔
اس کے مخالفین نے فرائڈ کے نظریات کو غیر سائنٹیفک قرار دیا، اس اختلاف رائے کے باوجود علم نفسیات کے ماہرین فرائڈ کے نظریات کو یک لخت مسترد نہیں کرتے، فرائڈ کے نظریے کے مطابق انسان کا دماغ دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک شعور اور دوسرا لاشعور، ہمارے شعوری تجربات و مشاہدات ہمارے لاشعور میں ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں لہٰذا ہمارا لاشعور ایک ایسا ریکارڈ روم ہے جس میں ہماری زندگی سے متعلق یادوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود رہتا ہے، بقول فرائڈ یہی لاشعور ہمارے شعور کی بے خبری میں ہم پر حکم چلاتا ہے اور ہم اپنی لاشعوری حالت میں خیالات، تہذیب اور تمدن کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں، فرائڈ کی تحقیق کے مطابق ہماری تشنہ خواہشات اور بچپن کی ناآسودہ خواہشیں ہمارے لاشعور میں مسلسل سرگرم عمل رہتی ہیں اور وہ ہر اس موقع کی تلاش میں رہتی ہیں جب خود کو سیراب کرسکیں لہٰذا لاشعور میں رہائش پذیر یہ تشنگیاں اور نا آسودہ خواہشیں نیند کی حالت میں شعور کی سطح پر آجاتی ہیں۔
اس وضاحت کی روشنی میں ضروری ہوجاتا ہے کہ خواب کی تعبیر بیان کرنے والے کے سامنے خواب دیکھنے والے کا کردار واضح ہو۔
مابعد النفسیات
علم نفسیات کے بعد ماہرین مابعد النفسیات کی تحقیق کے حوالے سے بھی مختصراً عرض کرتے چلیں۔
وہ خوابوں کو کئی اقسام میں بانٹ دیتے ہیں اور یہ تقسیم بھی خواب دیکھنے والے کے ظاہری و باطنی کردار و کیفیات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان دو رخوں سے مرکب ہے، ایک رخ اس کے ظاہری حواس ہیں اور دوسرا رخ اس کے باطنی حواس کا ہے۔( علم نفسیات کی اصطلاح میں ظاہری حواس کو شعور اور باطنی حواس کو لاشعور ہی کہا جائے گا) نیند کی حالت میں ظاہری حواس معطل ہوجاتے ہیں اور باطنی حواس حرکت میں آجاتے ہیں، باطنی حواس کی حرکت ہی خوابوں کا سبب بنتی ہے، اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ کون سا انسان کس قسم کے خواب دیکھے گا اور اس کے خوابوں کو کیا تعبیر دی جائے گی، ایک جنرل اصول یہ ہے کہ ہمارا لاشعور، پیراسائیکولوجی کی زبان میں جسم مثالی یا ہمزاد جس قدر عمدہ حالت میں ہوگا، ہمارے خواب بھی اتنے ہی روشن اور صاف ستھرے ہوں گے جب کہ اس کے برعکس جسم مثالی یا ہمزاد کی حالت جس قدر تباہ وگمراہ ہوگی، خواب بھی اسی قدر پے چیدہ اور بے ربط و عجیب و غریب ہوں گے۔
ہمارے خیال سے اس طویل وضاحت کے بعد آپ اور بہت سی دوسری خواتین خوابوں کے مسئلے سے کسی حد تک آگاہ ہوگئی ہوں گی۔
علم نجوم اور خواب
اس مسئلے میں علم نجوم کا حوالہ انتہائی اہم اور ضروری ہے کیوں کہ یہی وہ واحد علم ہے جو ہمارے شعور و لاشعور یا ظاہری و باطنی حواس پر مستند اور حقیقی روشنی ڈالتا ہے۔
دائرۂ بروج کے 12 برج (Sign) اپنی ایک علیحدہ کیمسٹری رکھتے ہیں، بارہ برجوں کو ماہیت اور عناصر کی بنیادی پر تقسیم کیا گیا ہے، چار برج (حمل، سرطان، میزان اور جدی) منقلب (cardnial) ہیں، چار ثابت (Fixed) ہیں اور چار ذوجسدین (Moovable)، اسی طرح عنصری تقسیم جس میں تین آتشی (Fire sign) تین خاکی (Earth sign) ، تین آبی (water sign) اور تین ہوائی (air sign) کہلاتے ہیں۔
شعوری مشاہدے کا سب سے بڑا لاشعوری ذخیرہ آبی اور ہوائی برجوں کے حامل افراد کرتے ہیں، دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ آبی برج (سرطان، عقرب اور حوت) کا مشاہدہ بہت گہرا اور پائیدار ہوتا ہے،وہ بہت چھوٹی عمر کے مشاہدات و تجربات بھی طویل عرصے تک اپنے لاشعوری ریکارڈ میں جمع رکھتے ہیں اور یہ ریکارڈ وقتاً فوقتاً عمر کے مختلف حصوں میں خوابوں کے ذریعے ڈسپلے ہوتا رہتا ہے،ہوائی بروج جوزا ، میزان اور دلو کا مشاہدہ اور تجربہ زیادہ گہرا اور پائیدار نہیں ہوتا لہٰذا ان کا لاشعوری ریکارڈ دوسرے برجوں کے مقابلے میں اگرچہ سب سے زیادہ وسیع ہوتا ہے مگر اپنی وسعت کے سبب اس قدر گڈمڈ ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ نہایت بے ترتیب، الجھے ہوئے اور بے معنی یا فضول خوابوں کی ایک لمبی سیریل دیکھتے رہتے ہیں۔سب سے کم خواب ثابت بروج دیکھتے ہیں یا یوں کہیں کہ انہیں اپنے خواب یاد ہی نہیں رہتے، البتہ ثابت بروج میں برج عقرب کے خواب بڑے اہم اور معنی خیز ہوتے ہیں، دیگر دو بروج ثور اور اسد کا معاملہ مختلف ہے، یہ لوگ کسی مخصوص صورت حال کے باعث ہی خواب دیکھتے ہیں ورنہ نہیں۔
اب آئیے اپنے خواب کی تعبیر کی طرف۔
آپ نے اپنی جس بیماری اور علاج کا تذکرہ کیا ہے، وہ اس خواب میں نمایاں ہے،آپ تیزی سے صحت مندی کی طرف جارہی ہیں مگر ابھی مکمل طور پر صحت مند نہیں ہیں، البتہ آپ کے خواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مایوسی کے گڑھے سے نکل آئی ہیں، خوش امیدی جیسی شفا بخش قوت آپ کو حاصل ہوچکی ہے اور آپ بہت جلد مکمل طور پر شفایاب ہوجائیں گی، انشاء اللہ لیکن اس بات کا اندیشہ بھی موجود ہے کہ آپ علاج معالجے میں کوئی دھوکا کھاسکتی ہیں لہٰذا محتاط رہیں اور اس علاج کو ہر گز نہ چھوڑیں جس سے آپ کو حقیقی معنوں میں فائدہ ہوا ہے، اس سلسلے میں خواہ کوئی کتنا ہی سبز باغ دکھا کر اپنی طرف بلائے، اس کی باتوں میں نہ آئیں۔
خوابوں کی دنیا
دوسرا خط ایک اور کرم فرما کا ہے، لکھتے ہیں ’’میرا ایک مسئلہ ہے وہ یہ کہ میری والدہ محترمہ کو وفات پائے عرصہ گزر گیا، میری خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ وہ مجھے خواب میں نظر آئیں مگر وہ خواب میں نظر نہیں آتیں بلکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی دو سال سے مجھے کوئی خواب ہی نظر نہیں آیا، کوئی طریقہ ایسا ہو کہ والدہ صاحبہ کا دیدار ہوجائے تو میں آپ کے لیے دعا گو رہوں گا‘‘
برادرم! کالم کی پسندیدگی کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں، آپ نے اپنا جو مسئلہ بیان فرمایا ہے اس کے حوالے سے پہلے تو اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ آپ خواب کیوں نہیں دیکھتے، یقیناًآپ نہایت گہری نیند سوتے ہیں یا پھر سونے کے لیے مسکن ادویات کا استعمال کرتے ہیں، گہری اور نہایت پرسکون نیند بہترین ذہنی یکسوئی اور بے فکری کی علامت ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ روزانہ ضرورت کے مطابق نیند نہ لیتے ہوں یعنی دیر سے سونا اور پھر جلدی اٹھنا، اس صورت میں بھی نیند کی شکل میں انسان پر گہری مدہوشی طاری ہوجاتی ہے۔
جدید نفسیاتی اور سائنسی تحقیق کے مطابق ہر ذی شعور انسان روزانہ کم از کم تین خواب ایک رات میں ضرور دیکھتا ہے ، پہلا خواب وہ نیند کے ابتدائی غلبے کے فوراً بعد دیکھتا ہے اور دوسرا خواب اس وقت دیکھتا ہے جب آدھی نیند لے چکا ہوتا ہے یعنی بہت گہری نیند سورہا ہوتا ہے، یہ دونوں خواب انسان کو یاد نہیں رہتے یا ان لوگوں کو یاد رہتے ہیں جو گہری نیند نہیں سوتے، ذہنی انتشار کی زیادتی کی وجہ سے نیند کی حالت میں بھی بے چین اور ہوشیار رہتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی بھی وجہ سے ان کی آنکھ کھلتی رہتی ہے اور وہ اپنے خوابوں پر خصوصی توجہ دیتے، انہیں یاد رکھنے کی پریکٹس کرتے ہیں یعنی آنکھ کھلتے ہی جو کچھ خواب میں دیکھا اسے ذہن میں تازہ کرنا شروع کردیا، خواب کی جزئیات پر غوروفکر شروع کردیا، خواب غیر معمولی نوعیت کا ہو تو انسان ایسا ضرور کرتا ہے اور پھر وہ خواب اسے صبح بھی یاد ہوتا ہے۔
تیسرا خواب انسان اپنی نیند کے آخری مرحلے میں یعنی صبح کے قریب دیکھتا ہے، اس مرحلے میں تھکے ہوئے اعصاب بھرپور نیند کے سبب تازہ دم ہوچکے ہوتے ہیں اور شعور کی بیداری شروع ہوچکی ہوتی ہے یعنی گہری نیند نہیں ہوتی، لاشعور کی دنیا سے واپسی کا سفر شروع ہوچکا ہوتا ہے لہٰذا یہ خواب عموماً یاد رہ جاتا ہے،آنکھ کھلتے ہی انسان بستر پر کسمسانے کے دوران میں اس پر نظرثانی کرتا، خواب کی باتوں کو ذہن میں شعوری طور پر دہراتا اور پھر ذہن میں نقش کرتا ہے لیکن اس کے برعکس بھی ہوتا ہے، وہ لوگ جو بہت زیادہ مصروفیت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور آنکھ کھلتے ہی فوراً ان کا ذہن کسی اور طرف متوجہ ہوکر مصروف عمل ہوجاتا ہے، یہ آخری مرحلے کا خواب بھی بھول جاتے ہیں، مثلاً دیر سے سونے کے بعد نامکمل نیند میں انہیں زبردستی اٹھنا اور فوراً کسی ضروری کام یا ڈیوٹی کے لیے بھاگنا پڑے، ایسی صورت میں دیکھے ہوئے خواب کو ذہن میں تازہ کرنے کی مہلت ہی نہیں ملتی لہٰذا وہ یاد بھی نہیں رہتا۔
اس تمام تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ انسان خواب ضرور دیکھتا ہے، تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ صرف پاگل خواب نہیں دیکھتے یعنی ذہنی خرابیوں کا شکار اور دماغی امراض میں مبتلا افراد، باقی ہر شخص جو اپنی شعوری دنیا کے ساتھ لاشعوری دنیا بھی رکھتا ہے، خواب دیکھتا ہے، خواہ بے داری کے بعد اسے وہ یاد نہ رہیں، یاد نہ رہنے کی کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے، کچھ وجوہات پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں۔
اب آپ کا یہ سوال کہ والدہ محترمہ کبھی خواب میں نہیں آتیں تو اس کی بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن پر روشنی ڈالنے کے لیے آپ کے بعض حالات زندگی سے واقف ہونا ضروری ہے،والدہ کو خواب میں نہ دیکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ کی خواہش ناپختہ ہو یعنی جس لگن اور بے قراری کی اس خواہش کے لیے ضرورت ہے، وہ ناپید ہو، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنی والدہ کو خواب میں دیکھیں تو سب سے پہلے ان کی کوئی اچھی سی تصویر اپنے کمرے میں اس طرح لگائیں کہ مستقل آپ کی نظر اس تصویر پر پڑھتی رہے،اس کے بعد تقریباً ہر جمعرات کو خصوصی اہتمام کے ساتھ عصر و مغرب کے درمیان کلمے شریف کا ختم اس طرح کرائیں کہ ایک مہینے یعنی چار یا پانچ جمعراتوں میں سوا لاکھ کی تعداد مکمل ہوجائے جمعرات کو والدہ کی پسندیدہ کوئی ڈش تیار کرائیں اور غریبوں میں تقسیم کردیا کریں، یقین کرلیں کہ آپ اپنی والدہ کو خواب میں دیکھ سکیں گے۔
شکوہ اﷲ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
میرپور خاص سے “ش” کا شکوہ “آپ کا کالم بہت شوق سے پڑھتی ہوں، آپ کو خط بھی لکھ چکی ہوں، آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ کچھ لوگ اتنے خوش قسمت کیوں ہوتے ہیں کہ اﷲ پاک انھیں بن مانگے سب کچھ دے دیتا ہے، اور کچھ لوگ میرے جیسے کیوں ہوتے ہیں جو کئی سالوں سے دعا مانگتے آ رہے ہیں مگر اﷲ پاک سنتا ہی نہیں ہے، اگر اﷲ پاک ہم جیسے لوگوں سے ناراض ہے تو پھر ہماری دعا کون سنے گا، ہم کس سے دعا کریں کہ جو ہماری مشکل آسان کر دے یا جو بہت شدید خواہش ہے وہ پوری ہو، جس کے لیے ہم دن رات دعا کرتے ہیں مگر پھر بھی نہیں سنی جاتی، اﷲ تو سب کا ایک ہی ہے پھر کیوں کچھ لوگوں کو جلدی وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو وہ چاہتے ہیں؟ یا کچھ لوگ جو کچھ نہیں بھی چاہتے تب بھی ان کو بہت اچھا مل جاتا ہے، بہت سی باتیں ہیں جناب جن کی وجہ سے دل مایوس اور نا امید ہو چکا ہے، اب نہ نماز پڑھنے کو دل چاہتا ہے اور نہ قران پاک پڑھنے کو، میرا بھی ہزاروں لڑکیوں کی طرح شادی کا مسئلہ ہے جہاں کوئی بات نہیں بنتی اور نہ ہی کوئی رشتہ آتا ہے، جس سے رشتے کے لیے کہتے ہیں وہ انسان یا تو اچانک کہیں چلا جاتا ہے یا پھر بغیر کسی وجہ سے ناراض ہو جاتا ہے، میں اکثر سوچتی رہتی ہوں کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کہیں کسی نے کوئی جادو یا بندش وغیرہ تو نہیں کروا دی، سوچتی ہوں کاش میں پیدا ہی نہیں ہوئی ہوتی تو آج والدین پریشان نہیں ہوتے۔”
جواب: آپ کا شمسی برج جدی اور قمری برج دلو ہے، پیدائش کا وقت آپ نے نہیں لکھا لہذا پیدائشی برج خدا معلوم کیا ہے۔
آپ کی سوچ بہت انتہا پسندانہ ہے، آپ کو اﷲ سے جو شکوہ ہے وہ بھی درست نہیں ہے، وہ سب کی سنتا ہے مگر کرتا وہی ہے جو وہ خود بہتر سمجھتا ہے، اس کے اپنے اصول و قواعد ہیں اور وہ ہمارے حال کو بھی جانتا ہے اور مستقبل سے بھی با خبر ہے، وہ ہرگز کسی کو نظر انداز نہیں کرتا اور سب کو ان کی صلاحیت اور کوشش کے مطابق صلہ دیتا ہے لیکن انسان فطری طور پر بڑا بے صبر اور جلد باز واقع ہوا ہے، وہ اپنی خواہشوں کی شدت کا غلام ہے، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ نہایت شدت کے ساتھ جس چیز کی خواہش کر رہا ہے وہ اس کے لیے اچھی ہے یا بری، مثال کے طور پر آپ کا مسئلہ شادی ہے اور آج آپ کی شادی ہو جائے تو ممکن ہے کل آپ کا مسئلہ ازدواجی زندگی کی ایسی پریشانیاں ہوں جنھیں دیکھتے ہوئے آپ یہ سوچیں کہ اگر آپ کی شادی نہ ہوتی تو اچھا تھا، کہنے کے مقصد یہ ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا اور ہر حال میں اﷲ سے شکوہ کرتا رہتا ہے، ساتھ ہی دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ بھی کرتا رہتا ہے کہ ان کے پاس فلاں فلاں چیزیں ہیں اور میرے پاس نہیں ہیں اگر وہ قریب سے ان لوگوں کو دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ وہ لوگ بھی خوش نہیں ہیں جن کے پاس اس کے خیال میں سب کچھ ہے، ان کے کچھ اور مسائل ہیں جو شاید اس کے مسائل سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔
عزیزم! یہی کاروبارِ جہاں ہے، آپ کو اتنا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیا آپ نماز اور قرآن صرف اس لیے پڑھتی تھیں کہ اﷲ آپ کی دنیاوی خواہشات پوری کرے، نماز تو آپ پر فرض ہے اور قرآن کا مطالعہ آپ کے علم میں اضافہ کرے گا۔ نماز اور قرآن کے مطالعہ کو آپ اپنی ضروریاتِ زندگی اور خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ کیوں سمجھتیں ہیں؟ اگر آپ نماز نہیں پڑھیں گی تو اﷲ کا کوئی نقصان نہیں کریں گی۔
آپ کا برج جدی ایک مزاحمتی برج ہے۔ یہ لوگ اپنے کاموں میں بھی رکاوٹ ڈالتے رہتے ہیں اور شدید حاکمانہ مزاج رکھتے ہیں لہذا جب ان کا کوئی کام نہیں ہوتا یا کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو سخت مایوسی کا شکار ہو کر دنیا اور دین دونوں سے بیزاری کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ صرف ایک شادی میں تاخیر کو مسئلہ بنانے کے بجائے زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی توجہ دینا چاہیے کہ جب تک شادی نہیں ہو رہی مزید تعلیم حاصل کریں، اپنا کرئیر بنائی، دنیا میں ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ایسی ہوں گی جن کی شادی میں تاخیر ہوتی ہے لیکن وہ زندگی کے کسی دوسرے شعبے میں ترقی کا سفر جاری رکھتی ہیں۔ آپ جس ماحول اور حالات میں زندگی گزار رہی ہیں، اس سے نکلنے کی کوشش کریں اور یہ کوشش اسی طرح ممکن ہے کہ آپ بے کار بیٹھنے کے بجائے اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں۔
آپ کے زائچے میں شادی کا ستارہ زہرہ نہایت کمزور ہے، آپ کو سفید پکھراج یا اوپل نوچندے جمعہ کے دن دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں پہننا چاہیے اور اپنا صدقہ جمعہ کے دن کسی سفید چیز کا ساٹھ جمعہ تک دینا چاہیے، آپ کی شادی میں رکاوٹ دور ہو جائے گی۔ شادی کا امکان 2020ء میں نظر آتا ہے، آپ کے لیے اسم اعظم یہ ہے یا اﷲ المعطی اللطیف۔ نوچندے بدھ سے شروع کریں اور روزانہ اول آخر درود شریف کے ساتھ 300 مرتبہ پڑھ کر دعا کریں۔