احساس کمتری کا شکار افراد عموماً کم علم ہوتے ہیں
سیارگان کی گردش سے جو فلکی زوایے بنتے ہیں ان کی تاثیرات اپنی جگہ اٹل سہی مگر انسان اتنا بے بس نہیں کہ ناقص اثرات کا مقابلہ نہ کر سکے اور سعد اوقات سے فائدہ نہ اٹھا سکے‘ ہم زندگی کو بہتر طور پر گزارنے کا ہنر سیکھ سکتے ہیں ‘ در حقیقت معاملہ یہ ہے کہ نظام کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ پروردگار کے مقرر کردہ اصول و قواعد کے مطابق ہو رہا ہے‘ انسان شاید دنیا کی واحد مخلوق ہے جو ان اصول و قواعد کو نظر انداز کرنے یا انہیں توڑنے کی جرات کرتا ہے‘ بس اصل خرابی یہیں سے شروع ہوتی ہے ورنہ نظام کائنات میں کوئی خرابی نہیں ہے‘ کوئی سیارہ خراب نہیں ہے‘ کوئی برج خراب نہیں ہے‘ سب اپنے اپنے مقررہ اصولوں پر کار بند ہیں اور اللہ کی طرف سے تفویض کردہ اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔
جس طرح ہمیں ایک معقول و محفوظ اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے دیگر علوم سے آگاہی کی ضرورت رہتی ہے مثلاً میڈیکل سائنس‘ پیشہ وارانہ صلاحیتیں‘ تاریخ‘ جغرافیہ وغیرہ وغیرہ اسی طرح فلکیاتی علوم کا مطالعہ بھی ہمارے لیے اعلیٰ درجے کی ذاتی اور کائناتی معلومات فراہم کرتا ہے‘ کچھ لوگ علم فلکیاتی و نجوم سے ناواقفیت کی بنیاد پر اسے قسمت کا حال یا غیب وغیرہ کا علم قرار دے کر ان علوم کی فہرست میں شامل کردیتے ہیں جن کے بارے میں مذہباً ممانعت کی گئی ہے‘ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ زمانہ حال میں ہندووں اور زمانہ ماضی میں دیگر اقوام عالم میں علم نجوم کوقسمت یا غیب کا حال جاننے کا علم کہا جاتا تھا اور اس کی کم ترقی یافتہ شکل رائج تھی‘ فلکیاتی سائنس میں انسان نے وہ ترقی نہیں کی تھی جو آج اسے نصیب ہے چنانچہ آج بھی اکثر مذہبی حلقے اس علم کی سائنسی حقیقت سے واقف ہوئے بغیر ہی اس کے خلاف فتوے دیتے نظر آتے ہیں‘ ہماری نظر میں یہ ایک غیر علمی رویہ ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں غیر علمی رویہ بہت عام ہے‘ ہر شعبہ زندگی میں اس کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے‘ ہیومیوپیتھی جیسی عظیم سائنس کے ساتھ بھی اکثر ایلوپیتھک حلقے اسی غیر علمی رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں اور روحانی سائنس کے شعبے کا حال تو سب سے زیادہ تباہ و برباد ہے‘ اس شعبے کے حوالے سے کسی سنجیدہ و علمی گفتگو کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی اور غالباً اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس شعبے کے چیمپئن ہونے کے دعوے دار ایسی کسی گفتگو کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے‘ اس موضوع پر کھلا مکالمہ نہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھ گیا ہے اور بزعم خود اپنی ولایت کا دعوے دار ہے‘ اس صورت حال میں ان علوم کی ترقی اور درست انداز میں ترویج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘ نئی ریسرچ اور نئے تجربات کا تو ذکر ہی کیا۔
آج عالم اسلام کو بین الاقوامی سطح پر جو چیلنج در پیش ہیں ان کا مقابہ اسلحہ بارود‘ توپ تفنگ یا کسی ایٹم بم سے نہیں کیا جا سکتا‘ صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ مسلمان گزشتہ پانچ سو سال میں علمی ا ور سائنسی طور پر باقی دنیا سے جتنا پیچھے رہ گئے ہیں ‘ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں ‘ قوم کو ایک بار پھر کسی سر سید جیسے رہنما کی ضرورت ہے جو اسے جہالت کے تاریک غاروں سے نکال کر ترقی یافتہ قوموں کے مقابل کھڑا کر سکے اور یہ کام تعلیمی میدان میں کھلے دل و دماغ کے ساتھ پیش قدمی کے بغیر کبھی ممکن نہیں ہو گا۔
اس تمہیدی گفتگو کے بعد آئیے اپنے خطوط کی جانب۔
احساس کمتری کا شکار
این، اے لکھتے ہیں ” جناب آپ کا کالم میرے ایک دوست نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا تھا‘ وہ آپ کا پرانا قاری ہے اور آپ کی بہت تعریف کرتا ہے‘ اسی کے مشورے پر آپ کو لکھ رہا ہوں‘ میں اپنی پڑھائی پر کافی توجہ دیتا ہوں مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ کلاس میں استاد کے سامنے مجھ پر گھبراہٹ سوار ہوجاتی ہے اور میرے منہ سے درست الفاظ نہیں ادا ہوتے‘ اگر چہ سوال کا جواب میرے ذہن میں ہوتا ہے لیکن اسے بیان کرنا مشکل ہوجاتا ہے‘ کبھی کبھی تو مجھ سے بولا ہی نہیں جاتا اور پھر ٹیچر اور لڑکے لڑکیاں ایسی نظروں سے مجھے دیکھتے ہیں جن میں حقارت اور طنزیہ انداز ہوتا ہے حالانکہ میں اسکول کا کام بھی پابندی سے کرلیتا ہوں‘ بس جب مجھ سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو پتا نہیں کیا گڑ بڑ ہوجاتی ہے‘ میں ہر وقت اپنی اس خامی کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور خواب میں بھی یہ خوف میرا پیچھا نہیں چھوڑتا کیوں کہ اپنے خوابوں میں بھی میں عموماً ایسے لوگوں سے بچ رہا ہوتا ہوں جو مجھ سے کوئی سوال کر سکتے ہیں،گھر میں والد صاحب کے سامنے آنے سے گھبراتا ہوں کہ وہ اچانک مجھ سے کوئی سوال نہ کرلیں جس کا میں جواب نہ دے سکوں‘ والد صاحب خاصے غصے کے تیز ہیں‘ بہن بھائیوں سے بھی زیادہ بے تکلفی نہیں ہے ان کے بارے میں بھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے کیوں کہ اکثر معاملات میں ان کا رویہ جارحانہ اور سخت ہوتا ہے‘ مہربانی کرکے آپ میرے مسئلے کا کوئی حل بتائیں‘ کیا میں واقع نالائق ہوں جیسا کہ دوسرے سمجھتے ہیں؟“
اس خط کے ساتھ ساتھ ایک اور خط بھی ملاحظہ کیجیے کیوں کہ یہاں بھی مسئلہ احساس کمتری کا ہی ہے۔
ایم، ایس لکھتی ہیں” میں ہمیشہ احساس کمتری میںمبتلا رہتی ہوں اور اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میری بہنیں مجھ سے صورت شکل میں زیادہ بہتر ہیں اور جسمانی طور پر بھی میں ان سے کمزور ہوں حالانکہ میری والدہ ہمیشہ سے مجھے اچھی خوراک کھانے کی ہدایت کرتی رہی ہیں لیکن باوجود اچھا کھانے کے جسم کمزور اور دبلا پتلا ہے‘ البتہ اللہ کے فضل و کرم سے میرا رنگ بہت صاف ہے جس سے میرا حوصلہ بندھا رہتا ہے‘ شاید اسی وجہ سے میری شادی میں بھی کافی تاخیر ہوئی ہے جب کہ مجھ سے بڑی بہنوں کے علاوہ ایک چھوٹی بہن کی بھی شادی ہو چکی ہے‘ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ اب میری منگنی ہو چکی ہے لیکن منگنی کے بعد میری پریشانی اوربڑھ گئی ہے‘ یہ خیال ہر وقت پریشان کرتا رہتا ہے کہ سسرال جانے کے بعد کیا ہوگا ؟ میرا احساس کمتری مزید شدت سے ابھر آیا ہے‘ ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ وہاں لوگ مجھے کس نظر سے دیکھیں گے اور میرے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے خصوصاً شوہر کا رویہ کیسا ہوگا؟ وہ مجھے محبت اور پسندیدگی کی نظروں سے دیکھیں گے یا نہیں ؟ حالاں کہ وہ تصویر تو دیکھ چکے ہیں ‘ اسی طرح ساس اور نندیں بھی مجھے دیکھ کر میری تعریف کرتی رہتی ہیں مگر یہ سوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ تعریف محض رسماً کی ہوگی‘ بعد میں خدا معلوم کس قسم کی باتیں بنائی جائیں‘ آپ کہیں گے کہ میں بہت وہمی اور مایوسی کا شکار ہوں‘ اسی لیے آئندہ کے بارے میں ایسی باتیں سوچ رہی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری ان باتوں کے حوالے سے پریشانی کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ تقریباً دو سال پہلے میری تھوڑی اور ہونٹوں کے اوپر بال نکلنے شروع ہوگئے تھے‘ میری ایک شادی شدہ بہن نے ایک بیوٹی پارلر سے اس مسئلے کا حل کرادیا مگر یہ مسئلہ مستقل طور پر ختم نہیں ہوا بلکہ اب زیادہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے، جسم کے بعض دیگر حصوں مثلا پنڈلیوں وغیرہ پر بھی زیادہ بال نکلنے لگے ہیں‘ اسی دوران جب میں نے ایک ڈاکٹر سے مشورہ کیا تو انہوں نے کچھ ٹیسٹ کرائے اور کچھ دوائیں بھی تجویز کیں مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا ، اس مسئلے کی وجہ سے میں مزید پریشان ہوں‘ سسرال جانے کے بعد اس صورت حال کا کیا نتیجہ نکلے گا؟“
جواب : احساس کمتری علم نفسیات کے اہم موضوعات میں سے ایک ہے‘ اس پر بہت لکھا جا چکا ہے‘ ماہرین نفسیات نے بھی اس موضوع سے پورا پورا انصاف کیا ہے اور مختلف زاویوں سے اس مسئلے کی تشریح و وضاحت کی ہے‘ مذکورہ بالا دونوں افراد کا مسئلہ احساس کمتری ہے۔ ایک ذہین اور محنتی لڑکا صرف اس احساس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے قدم قدم پر ناکامی کا شکار ہو رہا ہے اور ایک لڑکی کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہ ڈپریشن میں مبتلا ہے ۔
احساس کمتری درحقیقت ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے‘ اس ذہنی کیفیت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ ہم اپنے کسی جسمانی یااعصابی نقص کو مبالغہ آمیز انداز سے دیکھنے لگتے ہیں‘ وہ نقص یا خرابی حقیقی ہو یا غیر حقیقی‘ اس سے بحث نہیں مثلاً دوسر ے مسئلے میں اپنی دیگر بہنوں کے مقابلے میں خود کو صورت شکل میں کمتر سمجھنا‘ بعض لوگ اپنے چھوٹے قد کو بھی اپنے لیے مسئلہ بنا لیتے ہیں‘ اسی طرح کچھ لوگ جسمانی طور پر بہت زیادہ کمزور یا جسمانی طور پر بہت زیادہ فربہ ہونے کو اپنے لیے مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اپنا موازنہ دوسرے لوگوں سے کر کے احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ‘ لڑکیوں میں اکثر کالا یا سانولا رنگ بھی احساس کمتری کا باعث بنتا ہے اور وہ اپنے سے زیادہ صاف اور گورے رنگ کی لڑکیوں کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہوجاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ہماری سوچ کا کرشمہ ہے‘ ایک سائنسی حقیقت یہ ہے کہ ہم وہی کچھ بن جاتے ہیں جو کچھ اپنے بارے میں سوچتے ہیں‘ انسان کا طرز فکر اور اس کے سوچنے کا ڈھنگ انسانی کردار‘ انسانی اعضا کی حرکات پر اس شدت سے اثر انداز ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ‘ مذکورہ بالا دونوں افراد میں سوچ کے حوالے سے یہ شدت موجود ہے‘ دونوں کردار اپنی خامیوں کے بارے میں ہی منفی انداز سے سوچتے رہتے ہیں ‘ نتیجے کے طور پر ویسے ہی ہو کر رہ گئے ہیں جیسا اپنے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
سوچ کی یہ بنیادی خامی کہیں ابتدائی تربیت یعنی بچپن کے ماحول اور تعلیمات سے تعلق رکھتی ہے تو کہیں اس کی وجوہات کا سبب بعض پیدائشی خرابیاں بھی ہوتی ہیں‘ دونوں کرداروں کے بھائی بہن موجود ہیں یقیناً بہت چھوٹی عمر میں ہی ان کے ہاں یہ احساس پیدا ہوگیا ہوگا کہ ہمارے ساتھ گھر والوں کاسلوک نامناسب ہے اور یہ کہ ہمیں نظر انداز کیا جا رہا ہے، دونوں کی تحریر میں یہ اعتراف موجود ہے کہ وہ اپنے گھر میں اور اپنے بہن بھائیوں میں کمتر درجے کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ در حقیقت یہی اعتراف، یہی تصور اور یہی احساس ان کی موجودہ دماغی الجھنوں کا محرک ہے۔ اگر (ایم ایس) کو یہ اندازہ ہوتا کہ صورت شکل کا حسن آنی جانی اور عارضی چیز ہے‘ حقیقی اور دائمی حسن تو سیرت کا کہلاتا ہے جسے کبھی زوال نہیں ہے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو لوگ اپنی سیرت اور صلاحیتوں کے بارے میں پر اعتماد ہوتے ہیں‘ وہ اپنے معمولی شکل و صورت‘ قدوقامت، حلیے اور حیثیت کی زیادہ پروا نہیں کرتے اور معاشرے میںاپنا بھرپور کردار نہایت خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہتے ہیں ‘ انہیں کبھی یہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ کسی حسین ترین یا قد آور‘ جسمانی طور پر اسمارٹ شخصیت کے سامنے کیسے لگ رہے ہیں‘ وہ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں پر فخر کرتے ہیں اور ان کے بل بوتے پر دنیا میں بلند مقام حاصل کرتے ہیں‘ اول ( این ایف) کو چاہیے کہ وہ اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں‘ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ وہ نالائق ہیں یا ان میں جسمانی یا ذہنی طور پر کسی نوعیت کی کوئی کمی ہے‘ ان کا برج سنبلہ ہے جس کا تعلق ذہانت ‘ تربیت و سلیقے سے ہے‘ دوسروں سے اپنا موزانہ کرنا چھوڑدیں اور نہ ہی اس بات پر توجہ دیں کہ دوسرے انہیں کس نظر سے دیکھتے ہےں‘ ساتھ ہی اس بات کو اپنی اہلیت کا معیار نہ بنائیں کہ وہ دوسروں سے بات نہیں کر سکتے‘ بے شمار ذہین اور قابل لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جو تقریر کے میدان میں نہایت پھسڈی تھے لیکن تحریر کے میدان میں غازی ٹھہرے، مشہور کلاسیکل گائیک استاد حامد علی خاں بچپن ہی سے ہکلاہٹ کا شکار تھے اور اب بھی انہیں رک رک کر گفتگو کرنا پڑتی ہے لیکن اپنی گائیکی کے دوران میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ہکلاہٹ کے مرض میں مبتلا ہیں۔
اپنی سوچ کو بدلنے کے لیے مستقلاً اس فقرے کو اپنے ذہن میںدہراتے رہا کریں کہ ”میں کسی سے کمتر نہیں ہوں‘ نہ ہی مجھے کسی کا کوئی خوف ہے‘ میں وہ سب کچھ کر سکتا ہوں جو دوسرے کر سکتے ہیں“ فارغ اوقات میں اپنے بہن بھائیوں یا کسی دوست سے دیر تک مختلف موضوعات پر بات چیت کیا کریں اور اس بات کی فکر نہ کیا کریں کہ وہ بات چیت کس نوعیت کی ہوگی‘ بہتر ہو گا کہ اسی موضوع پر بات کریں جس پر دوسرا فریق بھی بات کرنا چاہتا ہو‘ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ آپ اپنی نصابی معلومات کے علاوہ دیگر دنیاوی اور تفریحی موضوعات سے بھی واقفیت حاصل کریں‘ ٹی وی کے دلچسپ اور معلوماتی پروگرام دیکھا کریں یا جو پروگرام آپ کے بہن بھائی دیکھتے ہوں‘ آپ بھی دیکھا کریں تاکہ ان سے گفتگوکا راستہ نکل سکے‘ ساتھ ہی آپ کو سانس کی مشق بھی کرنا چاہیے‘ ہماری کتاب ”مظاہرِ نفس“ کا مطالعہ کریں ۔
عزیزم ایم ایس! آپ کا احساس کمتری کا مسئلہ تو آسانی سے حل ہوجائے گا اور اس کے لیے اوپر دی گئی ہدایات پر عمل کریں اور آپ بھی یہ فقرہ بار بار ذہن میں دہراتی رہا کریں کہ میں کمتر درجے کی لڑکی نہیں ہوں‘ ہر وہ کام کرسکتی ہوں جو دوسری لڑکیاں کر سکتی ہیں‘ میں بدصورت بھی نہیں ہوں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ میری خوبصورتی میںاضافہ ہو رہا ہے‘ میرے چہرے کے بال ایک عارضی بیماری ہیں جو بہت جلد ختم ہوجائے گی‘ اسی طرح آنے والے وقت کے حوالے سے بھی اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کریں ‘ اپنے شوہر اور سسرال والوں کے بارے میں ابھی سے بدظن نہ ہوں بلکہ خوش امید رہیں کہ وہ اچھے اور معقول لوگ ہیں‘ انہوں نے آپ کو پسند کیا ہے اور آپ ان کے درمیان اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے اپنی حیثیت کو منوالیںگی‘ انہیں اپنی ضرورت کا احساس دلا کر ان کے دل میں اپنا مقام بنا لیں گی‘ یاد رکھیں ‘ صورت شکل کی پسندیدگی ایک عارضی چیز ہے، حسن سیرت کا تعلق ہمارے اعمال سے ہے‘ ایک خوش گفتار‘ ذمے دار‘ شوہر کے دکھ درد کا احساس رکھنے والی خدمت گزار بیوی اگر خوبصورت نہ بھی ہو تو شوہر کے لیے ناگزیر بن جاتی ہے بلکہ اکثر اس کی مجبوری بن جاتی ہے‘ آپ کے لیے شوہر کی نظروں میں یہ مقام حاصل کرنا مشکل نہ ہوگا کیوں کہ سنبلہ ہونے کی وجہ سے آپ مسلسل کام کرنے کا رجحان رکھتی ہیں، اپنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے آپ کو زمرد یا جیڈ کا نگینہ پہننا چاہیے، برج سنبلہ کا حاکم سیارہ عطارد ہے اور زائچے میں اگر عطارد کمزور ہو تو کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
دوسرا مسئلہ جو زیادہ اہم ہے، وہ بالوں سے متعلق ہے، آج کل ایسے بالوں کو ختم کرنے کے لیے جدید لیزر ٹریٹمنٹ موجود ہے‘ آپ اس سے استفادہ کر سکتی ہیں تاکہ فوری طور پر اس سے نجات پا کر اپنا اعتماد بحال کر سکیں اور آپ کے ذہن پر اس پریشانی کی وجہ سے جو خوف مسلط ہوگیا ہے وہ بھی دور ہو سکے لیکن اصل مسئلہ اس بیماری کے جڑ سے خاتمے کا ہے کیوں کہ ظاہری صورت میں تو یہ آپ کے لیے ایک نفسیاتی مسئلہ بن گئی ہے لیکن باطنی طور پر یہ مرض بانجھ پن کی علامت ہے‘ اس کا تعلق ”ہارمونل ڈسٹربینس“ سے ہے‘ سادہ الفاظ میں اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ آپ کے جسم میںفی میل (زنانہ) ہارمون کے مقابلے میں میل (مردانہ) ہارمون کی افزائش زیادہ ہو رہی ہے ‘ یہ بیماری بسا اوقات جب خطرناک صورت اختیار کرتی ہے تو شادی یا مخالف جنس سے بے زاری اورکبھی کبھی تبدیلیءجنس تک لے جاتی ہے اور اکثر بے اولادی کے کیسوں میں یہ صورت حال موجود ہوتی ہے لہٰذا اس کے باقاعدہ علاج پر توجہ دیں ‘ ہمارے نزدیک تو اس کا ہومیو پیتھک علاج ہی بہتر ہے‘ ایلو پیتھک طریقہ علاج میں شاید ہارمونز سے متعلق انجیکشن وغیرہ دیے جاتے ہیں‘ ہمیں اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں‘ بہتر ہوگا کہ شادی سے پہلے ہی اس بیماری کا علاج کرالیا جائے۔