علم نجوم ساری دنیا میں ایک مفید علم کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے،عام افراد سے لے کر خاص لوگوں تک اس کی رسائی ہے، یہ الگ بات ہے کہ عام لوگ جو اعلیٰ درجے کے مستند ماہرین نجوم تک رسائی حاصل کرنے کی گنجائش نہیں رکھتے، وہ عطائی نجومیوں کے ہتھے چڑھ کر گمراہ ہوتے ہیں، اس علم سے ان کا اعتماد اٹھ جاتا ہے اور خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں یہ صورت حال بہت نمایاں ہے لیکن صاحب حیثیت لوگ جو واقعی ماہرین سے رجوع کرتے ہیں اور ان کے مشوروں سے استفادہ کرتے ہیں، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے،یہ الگ بات ہے کہ ایسے لوگ اپنے رابطوں کو خفیہ رکھتے ہیں۔
یہ تصور یا نظریہ جو ہمارے ملک میں عام ہوگیا ہے کہ علم نجوم ایک طرح کی غیب دانی ہے،مکمل طور پر غلط ہے، حقیقت میں علم نجوم ایک سائنسی علم ہے جو سیاروی گردش کا مشاہدہ علم ریاضی کی مدد سے کرتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اس علم کا دنیا بھر میں اعلیٰ درجے کے ایسٹرولوجیکل سافٹ ویئرز تیار ہوچکے ہیں، کسی غیبی یا ماورائی علم پر کوئی سافٹ ویئر تیار نہیں ہوسکتا، جہاں تک ایسٹرولوجیکل نظریات کا تعلق ہے تو یہ تقریباً سات ہزار سال کی تحقیق و تجربے اور مشاہدے کا نتیجہ ہے جیسے میڈیکل سائنس کی موجودہ شکل کئی صدیوں کی تحقیق و تجربے کا نچوڑ ہے،فلکیاتی سائنس ’’ایسٹرونومی‘‘ بھی اسی طرح صدیوں کے مشاہدے اور تحقیق کے بعد موجودہ شکل میں ہمارے سامنے ہے، ایسٹرونومی ہمیں ہماری کہکشاں میں گردش کرتے ہوئے اور ساکت سیاروں اور ستاروں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے جب کہ ایسٹرولوجی ان سیاروں اور ستاروں کی گردش سے پید اہونے والے ارتعاش کے اثرات پر روشنی ڈالتی ہے،امید ہے کہ اس مختصر وضاحت سے بہت سے لوگوں کو یہ سمجھنے میں مد دملے گی کہ ایسٹرولوجی درحقیقت کیا ہے؟
اس موضوع پر ہماری چار کتابیں دستیاب ہیں اول ’’آپ شناسی‘‘ جس میں بارہ برجوں سے پیدا ہونے والے اثرات کی نشان دہی کی گئی ہے، دوم ’’اک جہان حیرت‘‘ جس میں منازل قمری کے اثرات زیر بحث آئے ہیں، سوم ’’پیش گوئی کا فن حصہ اول اور دوم‘‘ یہ دونوں کتابیں علم نجوم کی تکنیکی ساخت و پرداخت سے بحث کرتی ہیں کہ کس طرح کسی واقع یا پیدائش کی بنیاد پر حسابی فارمولوں کے ذریعے پیش گوئی کی جاسکتی ہے، ہمارا دعوی ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے ان موضوعات پر سنجیدہ نوعیت کا کام نہیں ہوا بلکہ جو بھی کام ہوا وہ مزید لوگوں کو گمراہ کرنے والا اور الجھن میں مبتلا کرنے والا نظر آتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس نہایت اعلیٰ درجے کے سائنٹیفک علم کے ذریعے ہمیں نہ صرف یہ کہ خود کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ہم دوسروں کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں، وہ کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے، ان کی خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں؟یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس مادّی دنیا میں انسان کی خوبیاں اور خامیاں ہی اس کی خوش قسمتی اور بدقسمتی کا راز ہیں، ہمارے ہاں خوش قسمتی اور بدقسمتی کے حوالے سے بھی گمراہ کن نظریات عام ہیں۔
ہم نے ہمیشہ اسی ضرورت کے پیش نظر مشہور شخصیات کے زائچے پیش کیے تاکہ ان کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی حاصل ہو اور خاص و عام جان لیں کہ درحقیقت کون کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے؟ 2013 ء کی ابتدا میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے زائچے بھی بڑی تحقیق کے بعد پیش کیے تھے کیوں کہ کسی پارٹی کا زائچہ بھی اس کی کارکردگی اور اس سے متعلق افراد کی خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہے،یہ سلسلہ ایک بار پھر شروع کیا جارہا ہے، گزشتہ سال اور اس سال میں بھی ہم نے بعض مشہور شخصیات کے زائچوں کی روشنی میں ان کی خوبیوں ، خامیوں اور مستقبل کے حوالے سے تجزیہ پیش کیا، مثلاً شہباز شریف، ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفیٰ کمال اور ملالہ یوسف زئی وغیرہ کے حوالے سے یقیناً ہمارے قارئین کو آگاہی ملی ہوگی،اس بار چیئرمین نیب جناب جسٹس جاوید اقبال ہمارا موضوع ہیں، جب سے انہوں نے یہ عہدہ سنبھالا ہے، نیب کی کارکردگی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے،کہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو چیئرمین تھے ، انہوں نے اپنے عہدے کے ساتھ انصاف نہیں کیا یا وہ حکومت کے دباؤ میں رہے مگر جسٹس جاوید اقبال نیب کو ایک فعال ادارہ بنانے میں خاصے کامیاب نظر آتے ہیں، وہ بلا امتیاز کارروائی کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہماری سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی نہایت پریشان ہے،انہی کے دور میں بعض فوجی جرنل بھی عدالت کے روبرو پہنچ چکے ہیں اور تازہ صورت حال یہ ہے کہ نیب پر پابندی لگانے یا اسے ختم کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔
دبنگ چیئرمین نیب
جسٹس جاوید اقبال کی تاریخ پیدائش یکم اگست 1945 کوئٹہ ہے اور پیدائش کا وقت صبح 08:37 am ہے لہٰذا پیدائشی برج اسد کے صفر درجہ 44 دقیقہ طلوع ہیں، سیارہ قمر کے علاوہ راہو کیتو اس زائچے کے لیے فعلی منحوس ہیں، باقی تمام سیارگان سعد اثر رکھتے ہیں، زائچے کے پہلے گھر میں سیارہ عطارد دوسرے گھر میں، مشتری پانچویں گھر میں ، کیتو نویں گھر میں، قمر دسویں گھر میں، سیارہ مریخ اور گیارھویں گھر میں زہرہ ، راہو اور زحل موجود ہیں، طالع کا حاکم سیارہ شمس بارھویں گھر میں مقیم ہے۔
اسدی مزاج و صفات
برج اسد کو شاہانہ مزاج کہا جاتا ہے،اس کا حاکم سیارہ شمس ہے جس کا تعلق اقتدار اور حکمرانی سے ہے لیکن شمس بارھویں گھر میں ہونے کی وجہ سے کمزور ہے جو اسدی صفات میں کمی بیشی کا باعث ہوسکتا ہے ، بنیادی طور پر اسدی افراد فیاض ، پر اعتماد، گرم جوش اور روشن خیال ہوتے ہیں،زندہ دل ، وفادار، محبت کرنے والے پرعزم، حاکمیت اور تعریف پسند، مہربان، مضبوط ارادے کے مالک ، آزاد، قائدانہ صلاحیتوں کے حامل، ڈرامائی صورت حال کو پسند کرنے والے، صاف گو اور جرأت مند ہوتے ہیں، ان کی منفی خصوصیات میں شاہانہ مزاجی، شان و شوکت سے رغبت، فضول خرچی، گھمنڈ، خود غرضی، دوسروں کو کمتر سمجھنا اور خود کو آقا ٹائپ خیال کرنا، اپنے طابع رکھنے کی کوشش کرنا، بے دلیل بات کرنا، ضدی، حاسد، خود پسند اور شدت پسند ہونا شامل ہے۔
’’جو شے سچ مچ کسی آدمی کو خوشامد پسند بناتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اسے اس قابل سمجھتے ہیں کہ اس کی خوشامد کی جائے‘‘جارج برناڈ شاہ (ادیب) پیدائش 26 جولائی 1856 ء ۔
کسی بھی زائچے میں شمسی اور پیدائشی برج کے علاوہ دوسری اہم علامت قمری برج (Moon sign) ہے، یہ کسی بھی شخص کی فطری صلاحیتوں، خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے اور یاد رہے کہ فطرت کبھی نہیں بدلتی، یہ بچپن سے جوانی اور بوڑھاپے تک یکساں رہتی ہے۔
جسٹس صاحب کا قمری برج حمل ہے،اس کا حاکم سیارہ توانائی کا نمائندہ ڈائنامک مریخ ہے،حمل افراد اپنی فطری خوبیوں میں انتھک کام کرنے والے، شکست تسلیم نہ کرنے والے، چیلنج قبول کرنے والے، نڈر اور باہمت ہوتے ہیں، اسی فطری خوبی کی وجہ سے جسٹس صاحب نے تقریباً 71 سال کی عمر میں بھی نیب کی سربراہی کا چیلنج خوشی خوشی قبول کرلیا، حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں حالات کیا ہیں اور ان سے پہلے نیب کے چیئرمین، نیب کو اس مقام تک پہنچاگئے ہیں جہاں سپریم کورٹ بھی اسے مردہ قرار دے رہی تھی۔
جسٹس صاحب کی پیدائشی منزل قمری جو برج حمل میں واقع ہے،بھرنی ہے،اس منزل پر سیارہ زہرہ حکمران ہے،اس طرح مریخ اور زہرہ کا مشترکہ امتزاج سامنے آتا ہے،گویا مریخ کی جارحیت کو زہرہ کی توازن پسندی کنٹرول کرتی ہے،اس منزل میں پیدا ہونے والے افراد مذہبی مزاج کے حامل ، عمدہ تحریری صلاحیت رکھنے والے، اپنے کام میں طاق، خوش باش اور فرض شناس ہوتے ہیں، یہ لوگ پرکشش اور کرشماتی شخصیت کے مالک، لیڈر شپ کی صلاحیت رکھنے والے اور عوامی زندگی میں اچھی مقبولیت حاصل کرتے ہیں، جس کام کا بھی ذمہ لیں اسے مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان سے ایسے کارناموں کی توقع کی جاسکتی ہے جن کی نوعیت دوسرے لوگوں کے لیے مشکل یا ناممکن قسم کی ہو، یہ ایسے کام کرجاتے ہیں جو پہلے کبھی نہ کیے گئے ہوں، ایسے کاموں کے نتیجے میں انہیں شہرت اور دولت حاصل ہوتی ہے،ایمانداری ، مضبوط قوت ارادی اور سیدھے راستے پر چلنے کی خوبی بھی ان لوگوں میں موجود ہوتی ہے لیکن تھوڑے سے مغرور بھی ہوتے ہیں، ان کا حلقہ ء احباب محدود ہوتا ہے کیوں کہ یہ بہت دیکھ بھال کر دوست بناتے ہیں، یہ لوگ جان بوجھ کر کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے، اسی طرح آسانیاں اور سہولت پسندی بھی ان کا مقصد نہیں ہوتا لیکن جب اپنی رائے کا اظہار کریں گے تو کسی کے بھی جذبات کا پاس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کریں گے، اس وجہ سے لوگوں میں ان کے لیے مخالفانہ جذبات پیدا ہوسکتے ہیں، یہ لوگ اپنے ضمیر کے خلاف کوئی کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے، اس رویے کے باعث ان کو بہت سی مزاحمتوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،اپنے مزاج اور فطرت کی وجہ سے دوسروں کی ہمدردیاں اور مکمل حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوسکتے ہیں، ان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آنے کا امکان رہتا ہے، انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ غیر ضروری بحث مباحثے میں نہ الجھیں یا خوامخواہ کی دشمنی مول نہ لیں، اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر غیر ضروری جنگ نہ کریں۔
زائچے کی ساخت
زائچے کے پہلے گھر کا حاکم یعنی جسٹس صاحب کا ذاتی سیارہ شمس بارھویں گھر میں مقیم ہے،ایسے لوگ ابتدا ہی سے مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا رہتے ہیں، انہیں لاشعوری طور پر مستقبل کے خوف پریشان کرتے رہتے ہیں لہٰذا وہ زیادہ محنت اور کوشش سے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مصروف عمل ہوجاتے ہیں، شمس کی یہ پوزیشن غیر ممالک میں قیام کی نشان دہی بھی کرتی ہے،زائچے کے دوسرے گھر کا حاکم عطارد پہلے گھر میں ہے، ایسے لوگ سیلف میڈ ہوتے ہیں، بے شک وہ اپنے ذرائع آمدن میں اضافے کے لیے مسلسل کوشش اور جدوجہد کرتے رہتے ہیں اور اگر اس حوالے سے کوئی رکاوٹ پیدا ہو تو وہ متبادل ذریعہ ء روزگار اختیار کرنے میں بھی کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتے جس کا ثبوت ہمیں ماضی میں نظر آتا ہے کہ جب وکلا تحریک کے زمانے میں تمام ججز فارغ ہوگئے تھے اور ان کی بحالی فوری طور پر نظر نہیں آرہی تھی ، جاوید اقبال صاحب نے ایک دوسری جاب شروع کردی تھی۔
تیسرے گھر کا حاکم زہرہ گیارھویں گھر میں موجود ہے،یہ بھی اپنے کرئر کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل کوشش اور جدوجہد کی نشان دہی کرتا ہے،چناں چہ اپنے تعلیمی کرئر میں انہوں نے غیر معمولی کوشش کی اور بیرون ملک بھی جاکر تعلیم حاصل کی، پانچویں گھر کا حاکم مشتری دوسرے گھر میں کمزور ہے کیوں کہ نوامسا چارٹ میں ہبوط یافتہ ہے،یہ صورت حال ایک مکینیکل سوچ اور اپروچ کی نشان دہی کرتی ہے،مزید یہ کہ اولاد کے حوالے سے بھی مسائل پیدا کرتی ہے،ساتویں گھر کا حاکم سیارہ زحل گیارھویں گھر میں نہایت طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک قابل اعتماد اور معاون و مددگار شریک حیات کی رفاقت انہیں حاصل ہوئی، مزید یہ کہ لوگوں سے بہتر تعلقات اور تعاون کا حصول ممکن ہوسکا، نواں گھر جسے بھاگیہ استھان بھی کہا گیا ہے اس کا حاکم سیارہ مریخ زائچے کے دوسرے گھر میں طاقت ور پوزیشن رکھتا ہے،گویا کرئر کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ انہیں خوش بختی حاصل ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے بھی ان کے لیے کھلے رہے۔
ادوار زندگی
بے شک زندگی کا ابتدائی حصہ مشکلات اور جدوجہد کی نشان دہی کرتا ہے لیکن 30 سال کی عمر سے سیارہ مریخ کا دور اکبر سات سال کے لیے شروع ہوا تو انہیں اپنی پوزیشن کو استحکام دینے کا موقع ملا ہوگا، بعد ازاں راہو کا طویل دور زندگی میں آیا جو 18 جولائی 2000 ء تک جاری رہا، راہو اگرچہ زائچے میں اچھی جگہ ہے لیکن راہو کا دور زندگی میں دھوپ چھاؤں کی کیفیت رکھتا ہے، بعد ازاں مشتری کا 16 سالہ دور شروع ہوا، اسی دور میں جب عطارد کا دور اصغر جاری تھا تو وہ عارضی طور پر چیف جسٹس آف پاکستان بنے کیوں کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی کے بعد سینئر ترین جسٹس رانا بھگوان داس چھٹیوں پر بھارت گئے ہوئے تھے اور ان کے بعد سینئر ترین جسٹس جاوید صاحب تھے لہٰذا انہوں نے قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا، بھگوان داس کی واپسی کے بعد وہ اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔
3 نومبر 2007 ء کی ایمرجنسی میں دیگر جج صاحبان کے ساتھ انہیں بھی برطرف کردیا گیا تھا، اس وقت مشتری کے دور اکبر میں کیتو کا دور اصغر جاری تھا، اول تو مشتری کی کمزوری ، دوم کیتو کا دور لہٰذا مشکلات اور پریشانیاں اس تمام عرصے میں سامنے رہیں اور بالآخر وہ ریٹائر ہوگئے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا طویل دور ان کے چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ بننے میں حارج رہا۔
مشتری کے دور اکبر میں 30 جنوری 2011 ء سے سیارہ شمس کا دور اصغر جاری تھا، جب انہیں ایک اہم ذمے داری سونپی گئی، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے آپریشن کی تحقیقات انہوں نے نہایت ذمے داری اور فرض شناسی کے ساتھ کی لیکن یہ رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آسکی، قصہ مختصر یہ کہ جب تک ہبوط یافتہ مشتری کا دور جاری رہا، ان کا نام اور کام کبھی نمایاں نہ ہوسکا لیکن 19 جولائی 2016 ء سے زائچے میں سیارہ زحل کا دور اکبر اور دور اصغر شروع ہوا،سیارہ زحل نہ صرف یہ کہ ساتویں گھر کا طاقت ور حاکم ہے بلکہ گیارھویں گھر میں اچھی پوزیشن رکھتا ہے،چناں چہ اس سعد وقت میں اور بہتر سیاروی ٹرانزٹ پوزیشن میں انہیں چیئرمین نیب منتخب کرلیا گیا اور ان کا یہ انتخاب خود ان کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا، اب تک کی صورت حال سے ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے نیب کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی ہے، سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کی چیخیں ظاہر کر رہی ہیں کہ نیب کے چیئرمین کی کرسی پر ایک شیر دل ، نڈر اور لائق چیئرمین آچکا ہے،ن لیگ اور خاص طور سے سابق وزیراعظم نواز شریف نیب کی کارروائیوں کے سخت خلاف ہیں، اس پر پابندی لگانے اور نیب کے قوانین میں ترامیم لانے کی باتیں کر رہے ہیں، کیا وہ ایسا کرسکیں گے؟ ہمارے خیال میں یہ آسان نظر نہیں آتا،نواز شریف صاحب اور ان کی پارٹی مسلم لیگ ن وقت کی جس گردش کا شکار ہے ، اس سے نکلنا آسان نہیں ہے اور خصوصاً جو طریقے وہ اختیار کر رہے ہیں ، وہ بھی مناسب نہیں ہیں، جہاں تک جسٹس جاوید اقبال صاحب کے مستقبل کا سوال ہے تو وہ بدستور بہتری کی جانب گامزن ہیں اور اپنے عہدے کی مدت پوری کرتے نظر آتے ہیں۔