ہم رات و دن لوگوں کے مسائل اور مشکلات سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں اور ان پر غوروفکر بھی جاری رہتا ہے، ظاہر ہے جو لوگ ہمارے آرٹیکلز پڑھتے ہیں،وہ اپنے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں ہم سے رجوع کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم ان کی کوئی مدد کریں لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے،اکثر خواتین و حضرات شاید اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ ایک ای میل یا فون کال کریں اور ہم فوری طور پر ان کے مسئلے کا حل بتادیں جب کہ یہ ممکن نہیں ہوتا، بعض لوگوں کے مسائل تو یقیناًنہایت معمولی قسم کے ہوتے ہیں اور وہ ان کے اپنے پیدا کردہ بھی ہوتے ہیں لیکن بعض معاملات جو طویل عرصے سے چلے آرہے ہوں اور کرانک شکل اختیار کرچکے ہوں، آسانی سے حل بھی نہیں ہوتے اور ان کے علاج کے لیے بہت غوروفکر کے علاوہ سخت محنت اور توجہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
زندگی میں اکثر ایسا وقت آسکتا ہے کہ ہر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے
وقت کیا شے ہے ‘ پتا آپ کو چل جائے گا
ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھوگے تو جل جائے گا
ایسی مردنی اور مایوسی اُس وقت چھاسکتی ہے جب صحت اچھی نہ ہو ، مالی حالت خراب ہو ، تعلقات میں گرم جوشی مفقود ہو یا جب ہم کوئی تازہ ترین خبر سن کر سخت بدمزہ ہوجائیں تو یہ بھی ایک مایوس کُن وقت ہوسکتا ہے،اس صورت حال میں بچوں کے جھگڑے یا نا اتفاقیاں ، والدین کے مسائل ، پڑوسیوں کی چھوتی موٹی ناراضگیاں وغیرہ ، آفس سے متعلق مسائل ، اعلیٰ افسران یا ساتھ کام کرنے والوں کے رویّے،بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، ہمارے منصوبوں کی ناکامی ،ازدواجی زندگی میں ناہمواریاں یا محرومیاں ، الغرض مسائل کی کوئی ایک قسم نہیں ہے جو انسانی زندگی کے لیے عذاب بنتی ہے ، ہمیں زندگی میں یہ تمام چیزیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور یہ سب کچھ جی کا جنجال نہیں تو کم از کم حوصلہ شکن ضرور ہوتا ہے، ایسی صورت میں ہم کیا کرتے ہیں ؟ کیا ایسٹرولوجی ہماری کوئی مدد کرسکتی ہے؟
آپ شناسی اور وقت شناسی
کسی روحانی یا مابعد الطبیعاتی شعبے کی طرح ایسٹرولوجی کے پاس بھی جادو کی کوئی ایسی چھڑی نہیں ہے کہ جسے گھما دیا جائے اور سارے مسائل حل ہوجائیں لیکن ایسٹرولوجی ہمیں اپنے آپ کو ، اپنے حالات کو اور ہم جس دور میں رہ رہے ہیں ، اس دور کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے،مسائل زدہ زندگی میں ہمیں صرف یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم کدھر دیکھیں؟ اور کیسے کوئی آغاز کریں اور پھر ہماری دُرست رہنمائی خود بہ خود شروع ہوجائے گی،ہم پر ظاہر ہوجائے گا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔
آپ یہ بات ذہن سے نکال دیجیے کہ ہم کوئی روایتی ، فرسودہ یا گھسی پٹی بات کر رہے ہیں ، ہمیں اپنے ذہن کو کھولنے کی ضرورت ہے اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے،وقت کیا ہے ؟کائنات میں گردش کرنے والے سیاروں کی گردش ہے اور یہ سیارے اپنی گردش کے دوران میں ہمیں کیا عطا کر رہے ہیں اور ہماری زندگی کے مخصوص حالات میں ہم سے کیا کہہ رہے ہیں؟اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے ،اکثر ہم ایسی حقیقتوں سے نظر چراکر گزرنے کی عادت میں مبتلا رہتے ہیں اور سہل پسندی کا شکار ہوکر ہمیشہ کوئی شارٹ کٹ ڈھونڈنے پر دھیان دیتے ہیں ، نتیجے کے طور کوئی نئی ناکامی ، کوئی نیا ڈپریشن ہمارا مقدر بنتا ہے۔
یاد رکھیں ہم اگر ڈپریشن یا کسی خراب ذہنی حالت میں مبتلا ہیں تو دنیا بھر کے مثبت یا خوش قسمت عوامل بھی ہماری کوئی مدد نہیں کریں گے یا یوں کہہ لیں کہ سیارگان کے مثبت اثرات سے بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ماجرائے مسائل
ایک خاتون اپنے نوجوان صاحب زادے کے ہمراہ ہمارے پاس آئیں ، صاحب زادے چند سال پہلے گریجویشن سے فارغ ہوکر تاحال بے روز گار تھے اور چاہتے تھے کہ ملک سے باہر چلے جائیں تاکہ خوب دولت کمائیں، خاتون نے بتایا کہ دنیا کے تمام مسائل اور پریشانیاں ان کے گھر اور خاندان میں موجود ہیں،ان کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے لہٰذا گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے وہ اپنا مکان بیچنا چاہتی ہیں جس کے کئی حصہ دار ہیں لیکن وہ بک نہیں رہا ، اُن کا ایک فلیٹ بھی ہے وہ بھی نہیں بک رہا،اگر دونوں میں سے کوئی فروخت ہوجائے تو لڑکے کو بیرون ملک بھیجنے کا انتظام ہوسکے، لڑکیوں کی شادی نہیں ہورہی،گھر میں بیماریوں کا ڈیرہ ہے،لڑکا بھی بیمار رہتا ہے اور لڑکیاں بھی ، خود ان کی صحت بھی خراب رہتی ہے، وہ اپنا زائچہ بنوانا چاہتی تھیں تاکہ ہم ان کے مسائل کا حل بتاسکیں۔
ہم نے عرض کیا کہ آپ کو زائچہ بنوانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،آپ کا واحد مسئلہ صرف ایک ہے کہ گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے ،باقی تمام مسائل اسی مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں،مکان یا فلیٹ کل بک جائے گا، اگر آپ اپنی پسندیدہ قیمت پر بیچنے کی شرط ختم کردیں، گھر میں بیماریوں کا ڈیرہ اس لیے ہے کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے معقول خوراک نہیں ہوگی اور معقول علاج بھی آپ کی دسترس میں نہیں ہے،آپ کا فلیٹ اس لیے بھی مناسب قیمت پر نہیں بک رہا کہ اُس کے کاغذات مکمل نہیں ہیں،آپ کا بیٹا کئی سال سے بیکار بیٹھا ہے اور اُس نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ملک سے باہر جاکر ہی کام کرے گا تو یہ کون سی دانش مندی کی بات ہے ؟جب تک باہر جانے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا یہاں کوئی بھی جاب کرلینی چاہیے تاکہ گھر میں آمدن کا کوئی سلسلہ تو شروع ہو۔
ہماری باتیں انہیں بہت عجیب لگیں اُن کا خیال تھا (جو بعض دیگر مولوی یا عامل حضرات نے ان کے ذہن میں بٹھادیا تھا) کہ کسی نے اُن پر تعویذ وغیرہ کرائے ہیں تاکہ گھر میں فتنہ و فساد اور بیماریاں رہیں ، بیٹا باہر نہ جاسکے، مکان یا فلیٹ بک نہ سکے، لڑکیوں کی شادی نہ ہوسکے، حالاں کہ ایسی کوئی بھی بات نہیں تھی،صرف دُرست راستے کا تعین کرنے کی ضرورت تھی جو یہ تھا کہ لڑکا کسی طرح بھی ، کوئی بھی جاب شروع کرے، اس کے بعد آگے کے راستے خود بہ خود کھلنے لگیں گے، ہم نے لڑکے کا زائچہ دیکھا جو بہت اچھا تھا لیکن وہ مزاجاً آرام طلب اور سہل پسند تھا لہٰذا اپنی پسندیدہ جاب اور وہ بھی بیرون ملک چاہتا تھا ، بہر حال ہم جتنا سمجھا سکتے تھے انہیں سمجھا دیا ہے، جہاں تک تعویذ گنڈوں کا تعلق ہے تو کوئی ایسی فیملی کے خلاف تعویذ گنڈے کیوں کرائے گا جو پہلے ہی شدید بدحالی کا شکار ہے۔
ایمان کی کمزوری
عام نوعیت کے دنیاوی مسائل اور جسمانی یا ذہنی بیماریوں کو سحر جادو ، آسیب و جنات یا کسی بھی قسم کے بد اثرات سے جوڑنا ایک بہت بڑی غلطی ہے،اچھے بھلے نمازی پرہیزگار افراد جو ڈھیروں ورد و وظائف بھی کرتے رہتے ہیں ، یہ یقین رکھتے ہیں کہ اُن پر کسی نے کچھ کرادیا ہے اور ایسا کرادیا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا، یہ ہمارے ایمان کی بہت بڑی کمزوری ہے گویا ہمیں اللہ کے اُس کلام پر بھروسا نہیں ہے جو ہم روزانہ پڑھتے ہیں اور جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اگر ہم پہاڑوں پر نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے،ہم پانچوں نمازوں میں ، اپنے ورد و وظائف میں اللہ کا کلام پڑھتے ہیں لیکن گھر سے کوئی گھٹیا درجے کا تعویذ برآمد ہوجائے یا کوئی یہ بتادے کہ جس مکان میں آپ رہتے ہیں یہاں پچاس سال پہلے قبرستان تھا یا یہ مکان کئی سال خالی پڑا رہا یا آپ کی فلاں نند یا ساس نے شادی کے فوراً بعد جو مٹھائی کھلائی تھی یا دودھ پلایا تھا وہ پڑھا ہوا تھا،گھر کے آنگن میں یا چھت پر گوشت کا لوتھڑا، کوئی ہڈی یا کسی جانور کی کھال کا ٹکڑا وغیرہ پڑا ہوا مل جائے تو فوراً نادیدہ دشمنوں یا پڑوسیوں کی طرف دھیان جاتا ہے، بس جناب اب یہ بات ذہن سے نہیں نکلے گی اور ایمان کا حصہ بن جائے گی، اس کے توڑ کے لیے بڑے بڑے پیروں فقیروں ، مولویوں ، عاملوں، کاملوں کی خدمت میں حاضری کا سلسلہ شروع رہے گاجس کا خواہ کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے، اسی دوران میں اگر وقت کی خرابی بھی اپنا اثر ڈال دے جس کی وجہ سے روزگار کے مسائل یا اور دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں تو پھر ایسی خرافات پر اور بھی یقین کامل حاصل ہوجاتا ہے ، ہم نے ایسے بہت سے تماشے اکثر دیکھے ہیں۔
عزیزان من! مندرجہ بالا چند مثال کافی ہے جن میں بہت سے لوگ اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں اور ٹھندے دل و دماغ سے غور کرسکتے ہیں کہ ہم کہاں غلط ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ جب کہ حقیقت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
وقت کی دھوپ چھاؤں
جیسا کہ ہم نے ابتداء میں عرض کیا کہ وقت سیارگان کی گردش کا نام ہے، اللہ نے شمس و قمر کو مقرر کیا ہے کہ وہ صبح و شام ، دن و رات پیدا کرنے کا سبب ہیں،ہماری گھڑیاں بھی شمس و قمر کی روزانہ گردش کی پابند ہیں،اسی طرح دیگر سیارگان بھی زمانوں کی تبدیلی اور دنیا کے حالات کا کوئی نیا رُخ متعین کرنے پر مامور ہیں،ان کی گردش کے دوران میں باہمی طور پر قائم ہونے والے جیومیٹریکل زاویے بھی اپنے اندر مخصوص اثرات و خصوصیات رکھتے ہیں اور یہ وہی اثرات و خصوصیات ہیں جو ہمیں وقت کی خوشی و غمی ، سختی و آرام، کامیابی و ناکامی کے تجربات سے گزارتے ہیں۔
آیئے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ سیارگان کے منفی اثرات میں کون سے سیارے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ اور مثبت اثرات کس طرح اپنا رنگ دکھاتے ہیں اور ایسے مواقعے پر ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ دنیا بھر کی طرح ایسٹرولوجی میں بھی وقت ہی سب کچھ ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اچھے وقت کو تھام لیں اور اسے مثبت طور پر استعمال کریں تاکہ برے وقت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوسکیں کیوں کہ وقت کی دھوپ چھاؤں اپنی جگہ ایک مسلم الثبوت حقیقت ہے، اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا، اگر ہم نے ماضی میں اپنے اچھے وقت کو کھودیا تھا تو اُس پر ہم صرف ماتم ہی کرسکتے ہیں اور آگے بڑھ سکتے ہیں، ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے کیوں کہ بہت سے اچھے وقت ابھی اور ہماری راہ میں آنے والے ہیں، ہمیں اُن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے برے وقت ہی سے تیاری شروع کردینی چاہیے۔
ذہنی صحت اور ستارے
جب ڈپریشن کے مسائل موجود ہوں تو سمجھ لیں کہ زحل اپنا کردار ادا کر رہا ہے،مریخ اور یورینس بے چینی اور گھبراہٹ کا شکار بناتے ہیں اور نیپچون کے نحس اثرات فراریت کا رجحان لاتے ہیں، اکثر نیپچونی افراد یا نیپچون کی پکڑ میں آئے ہوئے افراد کام نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں،شراب یا دیگر منشیات کے استعمال کی طرف نیپچونی اثرات ہی راغب کرتے ہیں تاکہ فراریت کے رجحان سے پیدا ہونے والی ضمیر کی خلش اور اندرونی اضطراب کو دبایا جاسکے۔
زحل، مریخ، یورینس ، نیپچون اور پلوٹو کے ناموافق اثرات اگر پیدائشی زائچے میں ہوں تو مندرجہ بالا مسائل زندگی بھر پریشان کریں گے لیکن اگر عارضی طور پر یہ سیارگان اپنے ٹرانزٹ کے دوران اثر انداز ہورہے ہوں تو مندرجہ بالا مسائل بھی عارضی نوعیت کے ہوں گے،مثلاً سورج،چاند، عطارد وغیرہ یا طالع اور اس کا حاکم ان سیارگان سے ٹرانزٹ میں متاثر ہورہے ہوں تو یہ عارضی خرابیاں ہوں گی،ان سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے تو ہمیں اصل خرابی کا علم ہونا چاہیے اور اس کے بعد ہی ہمارا شعور اور لاشعور اس جنگ کے لیے تیار ہوسکے گا،ساتھ ہی ضروری صدقات اور نفلی روزے اس جنگ میں ہمارے سب سے مؤثر اور کامیاب ہتھیار ہوسکتے ہیں۔
مثبت سوچ اور صبروبرداشت
اکثر ایسے اوقات کافی طویل بھی ہوجاتے ہیں لیکن بہر صورت ان کا مقابلہ تو کرنا ہی ہے جو صرف مثبت سوچ ، مثبت طرزِ عمل اور صبروبرداشت سے ہی کیا جاسکتا ہے کیوں کہ یہی سنت انبیاء ہے ، دائیں بائیں سے نکلنے کی یا کسی شارٹ کٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی،ایسی صورتوں میں غلط طریقہ ء کار اختیار کرکے ہم مزید سنگین نوعیت کے مسائل کو دعوت دیتے ہیں جو خرابی کا وقفہ مزید بڑھادیتے ہیں،اس کی مثال بالکل اُس شخص کی سی ہے جو کسی چھوٹی موٹی غلطی کے سبب تین چار ماہ کے لیے جیل چلا گیا ہو اور سزا ختم ہونے سے پہلے ہی جیل میں کسی سے جھگڑا کرکے ایک اور مقدمے میں پھنس جائے، نتیجے کے طور پر سزا کی میعاد مزید بڑھ جائے اور ابھی وہ دوسری سزا بھی ادھوری ہی تھی تو اس نے کوئی اور خطرناک نوعیت کا جرم کردیا ، مثلاً کسی دوسرے قیدی یا سپاہی وغیرہ کو قتل کردیا تو اب زندگی بھر کے لیے جیل ہی اُس کا مقدر ہوگی۔
ذہنی خلفشار
یہ ایک تجربہ شدہ حقیقت ہے کہ سیارگان کے نحس اثرات ڈپریشن ، بے چینی اور گھبراہٹ یا جلد بازی کے علاوہ ذہنی خلفشار کا باعث بھی ہوتے ہیں اور اس پر قابو پانا بہت ضروری ہوتا ہے،بعض لوگ جن کا پیدائشی زائچہ مضبوط ہو وہ با آسانی اپنے ذہنی خلفشار پر قابو پالیتے ہیں لیکن اس کے برعکس صورت حال میں اکثر لوگ ذہنی خلفشار کا شکارہوکر خود اپنے لیے مزید مصیبتیں مول لیتے ہیں، یہ ذہنی خلفشار دوسرے لوگوں کی طرف سے ہو یا حالات کا پیدا کردہ،آپ کو ہر صورت میں اس پر قابو پانا ہوگا،آپ اس سے کس طرح نجات پاتے ہیں اس کا انحصار آپ پر ہے ، پیراسائیکولوجی کے طریقوں میں سانس کی مشقیں (Breathing Exercise) مراقبہ (Meditation) اس حوالے سے نہایت مفید ہیں،اعصاب و دماغ کو توانائی بخشتی ہیں اور ہمیں ہر طرح کے ذہنی انتشار سے نجات دیتی ہیں،کچھ عرصہ پہلے ہم سانس کی مشقوں کے بارے میں لکھ چکے ہیں،اس کے علاوہ مخصوص پتھروں کا استعمال یا الواح و نقوش کا استعمال بھی اس معاملے میں معاون ہوتا ہے، اگر ہم نماز کی پابندی کریں اور کثرت سے استغفار کو اپنے ورد میں رکھیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے ذہنی خلفشار پر قابو نہ پاسکیں۔
اپنے دلچسپ اور پسندیدہ موضوعات کا مطالعہ یا پسندیدہ میوزک سے لُطف اندوز ہونا بھی ذہنی انتشار سے نجات دیتا ہے،یاد رکھیں ایک منتشر ذہن کبھی بھی دُرست فیصلے نہیں کرسکتا، اُس کی کارکردگی بھی کبھی معیاری نہیں ہوگی،وہ اپنی اندرونی بے چینی اور اضطراب کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہمیشہ جلد بازی کا مظاہرہ کرے گا اور نقصان اُٹھائے گا جس کا الزام قسمت کو دے گا یا اپنے قریبی دوست احباب یا رشتہ داروں کو۔