جہالت جسے نرم الفاظ میں کم علمی بھی کہا جاسکتا ہے،تقریباً ہر مسئلے کی جڑ ہے،انسان اپنی کم علمی کے سبب غلط اندازے لگاتا ہے،غلط فیصلے کرتا ہے اور اکثر اپنے اُن فیصلوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتا، نتیجتاً زندگی مصائب اور مسائل کا جہنم بن جاتی ہے،کم علمی کے سبب وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اُسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے، بس جو سمجھ میں آیا، شروع کردیا یا جس کا مشورہ دل کو بھایا، اُسی پر عمل کرلیا، یہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے؟
اللہ کے آخری رسول کی ایک حدیث بہت مشہور ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ لوگوں علم حاصل کرو، چاہے تمہیں چین جانا پڑے جو اُس زمانے میں عرب سے بہت دور ایک مقام تھا، ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے مذہبی حضرات اس حدیث کو حصول علم دین تک محدود کرتے ہیں، حالاں کہ علم دین کے حصول کے لیے آپ اور آپ کے صحابہ کافی تھے، کسی کو چین یا جاپان جانے کی ضرورت نہیں تھی، بنیادی طور پر اس حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ کائنات سے متعلق ہر قسم کا علم جس کی زندگی گزارنے کے لیے ضرورت ہوسکتی ہے، حاصل کیا جائے تاکہ زندگی کو بہتر اور مناسب طریقے پر گزارا جاسکے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ بعض لوگ اپنی پوری زندگی ایک عالم جہالت میں گزاردیتے ہیں، وہ روزی کمانے کے لیے بھی کوئی علم یا ہنر حاصل نہیں کرپاتے اور پھر اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں، حالاں کہ ان کے پروردگار نے انہیں ایک مکمل انسان کے طور پر پیدا کیا تھا اور انہیں دل و دماغ ، آنکھیں، کان ، ناک، ہاتھ، پاو¿ں وغیرہ سب ہی کچھ دیا گیا تھا، وہ دماغ کے علاوہ اللہ کی دی ہوئی باقی تمام نعمتوں سے کام لیتے رہے جب کہ دماغ وہ نعمت ہے جو انسان کو اشرف المخلوق بناتی ہے ورنہ انسان اور جانور میں کیا فرق ہے۔
بہت سے لوگ ہم سے رات دن رابطہ کرتے ہیں اور اپنے مسائل اور مشکلات میں رہنمائی کے طلب گار ہوتے ہیں،اس حوالے سے ہمیں انسانی عقل و شعور ، علم و جہالت وغیرہ کے نت نئے تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں،انسانی نفسیات کی بوالعجبیاں مشاہدے میں آتی ہیں، لوگوں کے مسائل اور مشکلات کا حقیقی ادراک ہوتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ کم علمی اور بے عقلی کا شکار ہوں لیکن دنیا کے ہر علم و ہنر پر تو کوئی شخص بھی قادر نہیں ہوسکتا، کوئی نہ کوئی کمی کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے اور اُسی کمی کے حوالے سے الجھنیں اور پریشانیاں سامنے آتی ہیں اور جب یہ الجھنیں اور پریشانیاں عقل و فہم سے بالاتر ہوجائیں تو ہم اپنی کم علمی کو آسیب و سحر بھی سمجھ بیٹھتے ہیں اور نہ بھی سمجھیں تو ہمیں یہ بات سمجھانے والوں کی اس ملک میں کوئی کمی نہیں ہے۔
یہ کمی علمی بھی ہوسکتی ہے اور عقلی بھی، علمی کمی کا کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے، کوئی اہل علم درست راہ دکھا دیتا ہے لیکن بے عقلی یا حماقت کا کوئی علاج ممکن نہیں ہوتا،احمق اور بد عقل انسان کسی علمی رہنمائی سے بھی فیض نہیں پاتا، ایسے بہت سے مشاہدے ہمارے سامنے آتے رہے ہیں اور اکثر و بیشتر ہم ایسے واقعات اپنے قارئین سے شیئر بھی کرتے رہے ہیں۔
آج بھی ہمارے پیش نظر ایک ایسا خط ہے جس میں ہمارے قاری کے نہ ختم ہونے والے مسائل اور پریشانیوں کا اصل سبب کم علمی اور بد عقلی ہے۔
عین، اے، حیدرآباد سے لکھتے ہیں ”میری زندگی رکاوٹوں اور غلطیوں میں گزر رہی ہے،اصل تاریخ پیدائش میری والدہ کو یاد نہیں، بس فرضی تاریخ پیدائش سے گزارا کر رہا ہوں، ایک مزدور آدمی ہوں، مزدوری کر رہا ہوں، کئی مرتبہ اپنا کام شروع کیا مگر ہر مرتبہ نقصان بھگتنا پڑا، 2002 ءمیں آپ کا کالم پہلی مرتبہ پڑھا، پھر کافی عرصے تک آپ کا قاری رہا، اسی سال آپ نے مجھے لوح مشتری تحفتاً عنایت فرمائی جس کا میں پہلے بھی شکریہ ادا کرچکا ہوں اور آج بھی آپ کا شکر گزار ہوں، آپ نے اُسے پہننے کا طریقہ بتایا اور فرمایا کہ اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھیں لیکن 2006 ءمیں لوح مشتری مجھ سے کھوگئی تھی اور میں بہت پریشان ہوگیا تھا، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس منہ سے دوبارہ آپ سے رابطہ کروں، اپنی بے پروائی پر بہت غصہ بھی آیا، آخر پورے دس سال بعد اب یہ لوح مجھے دوبارہ میرے گھر سے ہی مل گئی ہے،آپ سے درخواست ہے کہ مجھے لوح پہننے کا طریقہ بتائیں، آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آخر میرے کاموں میں اتنی رکاوٹیں کیوں آتی ہیں؟کیا اس میں میرے نام یا فرضی تاریخ پیدائش کا کوئی اثر ہے ؟میری زندگی میں عجیب عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے میں مستقل پریشان رہتا ہوں، مثلاً اسکول والوں نے میرا نام غلط لکھ دیا تھا جس کی وجہ سے مجھے شناختی کارڈ بنوانے میں 12 سال لگے، 2000 ءمیں میری شادی ہوئی، اللہ تعالیٰ نے 2002 ءمیں اولاد نرینہ عطا فرمائی،اُس کا نام بھی آپ کے مشورے سے رکھا، اُس کا زائچہ بھی بنوایا، ایک طویل عرصہ بعد آج جب میں نے اُس زائچے کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں نے اپنے بیٹے کی تاریخ پیدائش آپ کو غلط بتائی تھی، میں حیران ہوں اپنی اس بھول پر اور آپ سے معافی بھی چاہتا ہوں، مجھ سے ایسی ہی غلطیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں، اس کی سزا مجھے یہ ملی ہے کہ میں آج تک جیسا پہلے تھا ، ویسا ہی ہوں، تنگ دستی، مفلسی، میرا روز کا رونا ہے،12 گھنٹے محنت مزدوری کرتا ہوں، 5 بچے ، مکان کرائے کا، آمدن 400 روپے روز، آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری رہنمائی فرمائیں تاکہ میں اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی سکون سے کھلاسکوں اور قرض سے بھی آزاد ہوجاو¿ں، اپنا پورا نام ، والدہ کا نام اور فرضی تاریخ پیدائش اور نکاح کی تاریخ وغیرہ اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ آپ بتاسکیں کہ کہیں ان چیزوں کا تو کوئی اثر نہیں ہے؟ آپ نے مجھے ایک اسم اعظم بھی عنایت فرمایا تھا جو نوچندے اتوار کے شروع کرنا تھا، کیا میں وہ اسم اعظم اب شروع کرسکتا ہوں؟ اور اس کا کیا طریقہ ہوگا ؟ یہ اسم اعظم آپ نے 14 سال پہلے بتایا تھا۔ میں نے اپنے بیٹے کو موٹر بائیک کے کام پر بٹھایا ہے، اس لیے کون سا اچھا وقت ہوگا، جب وہ اپنا کام شروع کرے، میرا دوسرا بیٹا جب سے پیدا ہوا ہے، آج تک بیمار ہے،تقریباً 13 سال کا ہونے والا ہے لیکن مسلسل دوائیوں پر چل رہا ہے،میرے دونوں بچوں کے شمسی اور قمری برج بھی بتائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کارخیر کا اجر عطا فرمائے اور آپ کی عمر دراز کرے“
جواب: عزیزم! آپ کا تفصیلی خط پڑھنے کے بعد آپ کی سادگی اور بھول پن کا اندازہ ہوا، آج کے جدید زمانے میں سادگی اور بھول پن کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، پرانے زمانے میں ایسے لوگ بہت پیارے لگتے تھے، آپ نے اپنے خط میں کھلے دل سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کرلیا ہے جب کہ بعض لوگ تو یہ بھی نہیں کرتے بلکہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دوسروں کے سر منڈھنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ زیادہ برا ہے،ہمارے نزدیک وہ بندہ قابل اصلاح ہے جو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس رکھتا ہے۔
خدا کے بندے ! لوح گم ہوگئی تھی تو دوبارہ رابطہ کرکے آگاہ کرنا تھا، آخر بچے کا نام نکلوانے اور اُس کا زائچہ بنوانے کے لیے بھی تو آپ نے رابطہ کیا تھا، آپ کی سب سے بڑی غلطی ہماری نظر میں یہ ہے کہ آپ نے اپنا اسم اعظم نہیں پڑھا، اگر آپ یہی ایک کام پابندی سے کرلیتے تو ہمیں یقین ہے کہ اب تک آپ کی زندگی میں کوئی مثبت انقلاب آچکا ہوتا، اب 14 سال بعد آپ پوچھ رہے ہیں کہ دوبارہ کیسے شروع کروں ؟حالاں کہ ہمارے پرانے خط کی فوٹو کاپی جو آپ نے روانہ کی ہے،اس میں اسم اعظم بھی موجود ہے اور اسے پڑھنے یا شروع کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے،یہی آپ کی بے وقوفی ہے، اسی طرح لوح مشتری اگر مل گئی ہے تو جو طریقہ اُس وقت بتایا گیا تھا، اُسی کے مطابق عمل کریں۔
آپ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ آپ کا نام یا فرضی تاریخ پیدائش کی وجہ سے آپ پر منحوس اثرات ہیں تو یہ احمقانہ سوچ ہے،نام سے ایسے اثرات نہیں ہوتے اور فرضی تاریخ پیدائش کی کوئی اہمیت نہیں ہے،البتہ شادی کی تاریخ اور نکاح کا ٹائم یقیناً نہایت منحوس تھا، چناں چہ شادی کے بعد سے آپ مسلسل گردش وقت کا شکار چلے آرہے ہیں۔
نکاح کے زائچے کے مطابق آپ کا شمسی برج عقرب اور پیدائشی برج ثور ہے جب کہ قمری برج میزان ہے،برج ثور ایک نہایت سخت اثر دینے والا برج ہے، اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس برج کے زیر اثر زندگی میں حالات کی سختی کا سامنا زیادہ ہوتا ہے، بے شک اس برج کے تحت انسان محنتی ہوتا ہے لیکن اگر دیگر خرابیاں زائچے میں موجود ہوں تو تمام زندگی مصیبتوں اور سختیوں میں گزر جاتی ہے،آپ کے نکاح کے زائچے میں کچھ ایسی ہی صورت حال موجود ہے جس کی تشریح یہاں مناسب نہیں ہے،نہ ہی عام لوگوں کی دلچسپی کی بات ہے،یہ ایک ایسی صورت حال ہے جسے تبدیل کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے ، یاد رکھیں وقت کی خرابی کا علاج صدقات اور نفلی روزوں کے ذریعے ہی ممکن ہے، اس کے علاوہ حکمت و دانش سے کام لے کر ہم زندگی کے اُس سائیکل کو تبدیل کرسکتے ہیں جو ہماری زندگی میں جاری و ساری ہے۔
لہٰذا آپ کی خاطر آج ہم اپنے سینے کا ایک خاص راز عام کر رہے ہیں جو آپ جیسے لوگوں کے لیے مخصوص ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہماری ہدایت پر پوری طرح عمل کیا جائے۔
وقت کی اہمیت اور تبدیلی
عزیزان من! وقت اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے،اس حوالے سے رب کائنات ، انبیائ، اولیائ، فلاسفہ اور تمام دنیا کے دانش ور وقت کی اہمیت اور طاقت سے ہمیں آگاہ کرتے آئے ہیں، وقت کی اچھائی اور برائی کے سب ہی قائل ہیں، وقت وہ چیز ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں ہے،ہم اپنے اچھے وقت سے لُطف اندوز ہوتے ہیں اور برے وقت میں پھنس کر واویلہ کرتے ہیں، وقت کی اہمیت کے اعتبار سے شاد عارفی مرحوم کا ایک سچا شعر یاد آگیا
وقت کیا شے ہے، پتا آپ کو چل جائے گا
ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھو گے تو جل جائے گا
قرآن کریم میں وقت کی سعادت و نحوست کے حوالے موجود ہیں، ایک قوم پر عذاب کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے اُن پر ایسے اوقات میں آندھیاں بھیجیں جو انتہائی نحوست کے تھے، وقت کی سختیوں سے انبیاءبھی محفوظ نہیں رہے،البتہ انہیں قدم قدم پر اللہ کی مدد و رہنمائی حاصل رہی اور وہ وقت کی مشکلات میں ثابت قدم رہے لیکن اگر کسی نبی کے پائے استقامت میں لغزش آئی تو نقصانات عظیم کا سامنا کرنا پڑا، ابوالبشر حضرت آدمؑ ، حضرت شیثؑ، حضرت یونسؑ اس کی مثالیں ہیں، قصہ مختصر یہ کہ اچھے وقت میں کیے گئے کام اچھے نتائج دیتے ہیں اور برے وقت میں انجام پانے والے عمل زندگی کو کسی غلط یا نہایت خراب راستے پر ڈال دیتے ہیں، اس مثالی تمہید کے بعد جو عمل ہم بتارہے ہیں ، اُسے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔