ہومیو پیتھی کے بانی عظیم جرمن ڈاکٹر ہنی مین نے جب ہومیو پیتھک تھیوری پیش کی اور تجربات سے ثابت کیا کہ ایلوپیتھی جو علاج بالضد ہے اوردرحقیقت مکمل شفایابی کے لیے کافی و شافی نہیں ہے بلکہ ہومیو پیتھی یعنی علاجِ بالمثل ہی حقیقی طریقِ علاج ہے اور اس حوالے سے اصل دوا کے کم سے کم استعمال پر زور دیا ، اس کی تحقیق کے مطابق دوا کی قلیل ترین مقدار مخصوص پوٹینٹائزیشن کے بعد بالکل ایٹامک اصولوں کے تحت اپنی قوت کارکردگی میں بے پناہ اضافہ کرلیتی ہے اور ایسی دوا کی خوراکوں کو بار بار دہرانا نہیں پڑتا ، مزید یہ کہ وہ اپنا گہرا روحانی اثر تادیر قائم رکھتی ہیں اور اس طرح اس کے مضر اثرات بھی ختم ہوجاتے ہیں جبکہ ایلو پیتھک دواﺅں کی مسلسل لمبے عرصے تک بھاری خوراکوں کے استعمال سے دوا کے مضر اثرات نئے امراض کو جنم دینے لگتے ہیں۔
اٹھارھویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کی ابتدا میں ایلوپیتھک طریقہ ءعلاج اپنے عروج پر تھا اور اس وقت بھی دنیا میں ، خاص طور سے یورپ میں بزنس مین ڈرگ مافیا کی کارروائیاں عروج پر تھیں ، ہنی مین کے طریقے پر عمل پیرا ہونے کا مطلب زبردست قسم کا کاروباری نقصان تھا کیوں کہ تمام فارما سیوٹیکل کمپنیاں اپنے مال کی زیادہ سے زیادہ کھپت کے اصول پر کام کرتی ہیں جب کہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں دوا کے قلیل ترین مقدار میں استعمال کے نتیجے میں دواوں کی کھپت بہت کم ہوجاتی ہے۔نتیجے کے طور پر اس زمانے کی ڈرگ مافیا نے ایلو پیتھک ڈاکٹروں کو ہنی مین کے خلاف میدان میں اتاردیا اور ایسے حالات پیدا کردیے کہ آخر اس عظیم انسان کو اپنے وطن جرمنی سے ہجرت کرکے فرانس میں پناہ لینا پڑی ، اس کی باقی زندگی فرانس ہی میں گزری۔
ایک طویل عرصے سے یہ جنگ ایلو پیتھی اور ہومیوپیتھی کے درمیان جاری ہے ‘ اکثر ایلو پیتھک ڈاکٹر صاحبان ہومیوپیتھی کے خلاف زہر افشانی کرتے نظر آتے ہیں اور اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں حالانکہ ایسے ایلو پیتھک ڈاکٹر صاحبان کی بھی کمی نہیں جو ایلو پیتھی کو چھوڑ کر ہومیوپیتھک طریقِ علاج کی طرف آئے اور پھر ساری زندگی ہومیوپیتھک پریکٹس کی ‘ ایسے نامور ڈاکٹروں میں انگلینڈ کے ڈاکٹر برنٹ کا نام نامی سرفہرست ہے ‘ وہ بنیادی طور پر ایلو پیتھک ڈاکٹر تھے مگر ایک وبائی بیماری پھیلنے کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ ایلوپیتھک دوائیں ناکام ہو رہی ہیں تو انہوں نے تجربے کے طور پر ایک ہومیو پیتھک دوا استعمال کی اور خاطر خواہ نتیجہ دیکھ کر ہومیو پیتھی کا مطالعہ شروع کردیا اور بالآخر ایلو پیتھی کو خیر باد کہہ دیا ‘ یہ غالباً اٹھارھویں صدی کے آخر کا زمانہ تھا ‘ اس کے بعد وہ ساری زندگی ہومیو پیتھی کے محافظ بنے رہے اور ایلو پیتھک نظریے کے حامی ڈاکٹروں سے ان کے بحث و مباحثے جاری رہے جو آج بھی ریکارڈ پر ہیں اور تاریخ کا حصہ ہیں۔
نئے قوانین اور پابندیاں
گویا ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی کے درمیان یہ جنگ ابتدا ہی سے جاری ہے اور مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے‘ تازہ صورت حال یہ ہے کہ اب ورلڈ ڈرگ مافیا بہت سی ہومیو پیتھک دواﺅں کی تیاری پر پابندیاں لگا رہی ہے اور ایسے نت نئے قوانین تیار کیے جا رہے ہیں جوحقیقی ہومیو پیتھی کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہےں مثلاً ایکسپائری ڈیٹ کا ایلو پیتھک اصول ہومیوپیتھک دواﺅں پر بھی لاگو کیا جا رہا ہے حالانکہ ہومیوپیتھک دوا کبھی ایکسپائر نہیں ہوتی کیوں کہ بنیادی طور پر الکوحل میں تیار کی جاتی ہے‘50سال گزرنے کے باوجود بھی اس میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی مگر دواﺅں کی کھپت بڑھانے کے لیے اس اصول کو ہومیوپیتھی میں بھی نافذ کیا جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے ہومیوپیتھی کے کرتا دھرتا ڈاکٹر صاحبان اس پر کوئی احتجاج بھی نہیں کر رہے کیوں کہ پاکستان اور انڈیا میں یہ ڈاکٹر صاحبان بزنس ڈرگ مافیا کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہماری ذاتی ڈسپنسری میں ایسی بے شمار دوائیں موجود ہیں جنہیں تقریباً پندرہ پندرہ سال ہو چکے ہیں کیوں کہ وہ الکوحل بیس ہیں لہٰذا ان کی ایکسپائری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ بعض دوائیں انتہائی نایاب ہیں کیوں کہ ایک طویل عرصے سے بازار میں دستیاب ہی نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اب فارما سیوٹیکل کمپنیاں وہ دوائیں تیار ہی نہیں کر رہی ہیں یا پاکستانی ڈسٹی بیوٹرز ایسی دوائیں باہر سے منگوا ہی نہیں رہے اور پاکستان میں جعلی دوائیں بنانے والے افراد کی حوصلہ افزائی اور مدد کر رہے ہیں ‘ ایسی اکثر دوائیں جو انتہائی اہم اور خطرناک بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں‘ پاکستان کے بعض جعلی دوائیں بنانے والے مارکیٹ میں لا رہے ہیں اور ان پر میڈاِن جرمنی بھی لکھ رہے ہیں‘ ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔ بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے کہ پاکستان میں ہومیوپیتھک دوا سازی کا معیار کیا ہے اور اس حوالے سے ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟
پیٹنٹ کمپاونڈز
ایک اور اہم مسئلہ جسے حقیقی ہومیوپیتھی کے خلاف سازش کہا جائے ‘ پیٹنٹ ہومیوپیتھک کمپاﺅنڈز کا ہے جسے بہت تیزی سے دنیا بھر میں پھیلا یا جا رہا ہے اور اب پاکستان میں بھی اس کا زور بڑھتا جا رہا ہے اس کی وجہ سے حقیقی شفا یابی کا عمل متاثر ہو رہا ہے‘ اناڑی اور ناتجربے کار ڈاکٹروں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ صرف ہومیوپیتھک پریکٹس کا لائسنس لے کر کوئی بھی نوآموز ڈاکٹر ایسے کمپاﺅنڈز کی مدد سے باآسانی اپنا کلینک چلا سکتا ہے کیوں کہ ہر مرض کے لیے ایک مخصوص مرکب دواﺅں کا کمپاﺅنڈ اس کے کلینک میں موجود ہے اسے یہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ مریض کو جو تکلیف ہے‘ اس کی وجہ کیا ہے‘ اسباب کیا ہیں اور علاج کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ ایسے ہومیو پیتھک پریکٹیشنرز کی حیثیت ایک کمپاونڈر سے زیادہ نہیں ہے، وہ بالکل اسی طرح کسی مرض سے متعلق دوا کی شیشی اٹھا کر دے دیتا ہے جیسے ایلوپیتھی میں مختلف امراض کی پیٹنٹ دوائیں استعمال کرائی جاتی ہیں حالانکہ پیٹنٹ دواﺅں کا اصول ہومیوپیتھی کی بنیادی تھیوری کے خلاف ہے۔
ہومیوپیتھی میں کسی مرض کی کوئی دوا نہیں ہے‘ تمام دوائیں مریض کی علامات کے مطابق تجویزکی جاتی ہیں اور بعض بیماریوں میں ملتی جلتی علامات کی وجہ سے ایک سے زیادہ دوائیں زیر غور آسکتی ہیں‘ لہٰذا ہومیوپیتھک حقیقت یہ ہے کہ دوا کسی مرض کے لیے منتخب نہیں کی جاتی بلکہ مریض کے لیے منتخب کی جاتی ہے جو اپنی علامتوں سے کسی مخصوص دوا کی نشان دہی کر رہا ہوتا ہے۔
مجرمانہ فعل
ورلڈ ڈرگ مافیا کے ایجنڈے پر اپنی میڈیکل پروڈکٹ کی زیادہ سے زیادہ کھپت کا ٹارگٹ ہے جو ہر کاروباری ادارے کے لیے ضروری بھی ہے لیکن اس ٹارگٹ کی خاطر لوگوں کی جانوں سے کھیلنا اور انہیں حقیقی شفایابی کے عمل سے دور کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے،مکمل شفایابی کے عمل کو پس پشت ڈال کر فوری نوعیت کے عارضی آرام کی دواوں کا فروغ ایلوپیتھک انداز ہے اور اب دوا ساز ادارے اور سیلز ایجنٹ مارکیٹ میں اسٹیرائیڈز میڈیسن کے رجحان کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ میڈیسن پہلے نہیں تھیں ، ان کی ایجاد ایسے مریضوں کی شدید تکلیف دہ حالت کے پیش نظر کی گئی تھی جنہیں فوری آرام و سکون کی ضرورت ہوتی ہے اس حوالے سے کارٹی زون کے مرکبات آج بھی ایلو پیتھی میں استعمال ہورہے ہیں ، یہ خطرناک اسٹیرائیڈز صرف فوری اور عارضی ضرورت کے لیے استعمال ہوتا ہے ، عام طور پر اچھے اور معقول ڈاکٹر اسے زیادہ لمبے عرصے تک استعمال نہیں کراتے ، اسی طرز پر ہومیو پیتھی میں بھی مرکبات کا سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن بعد ازاں ان مرکبات کے زیادہ سے زیادہ استعمال کا عادی بنانے کا رجحان پیدا ہوا اور اس کے ذمے دار ایسے ڈاکٹر حضرات خاص طور پر ہیں جو فوری آرام اور سکون پہنچاکر اپنی پریکٹس چلاتے ہیں، مرض کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے یا ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔
گزشتہ تقریباً چالیس سال سے ایسی ادویات کا استعمال بڑھتا جارہا ہے ، نتیجے کے طور پر اکثر مریض ڈھیروں ڈھیر دوائیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور پھر ان دواوں کے سائیڈ افیکٹس کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید دواوں کا استعمال شروع ہوجاتا ہے، اس طرح یہ ایک لامتناہی سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا اور مریض کی جیب پر بھی بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے، سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ بنیادی مرض اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور آخر کار وہ اسٹیج بھی آجاتا ہے جہاں ساری دوائیں بے کار ہوجاتی ہیں اور نوبت کسی سرجیکل آپریشن تک جا پہنچتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ایلوپیتھی کی حد تک تو یہ مسائل اپنی جگہ ہیں مگر اب ہومیو پیتھی میں بھی بزنس مین مافیا زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے ایسے ہی اسٹیرائیڈز (Steroids) کی طرف متوجہ ہورہی ہے اور اس حوالے سے ہومیو پیتھی کی مختلف دواوں کا کمپاونڈ تیار کرکے مارکیٹ میں لایا جارہا ہے جو بنیادی طور پر ہومیو پیتھک تھیوری اور فلسفے کے خلاف ہے،اس کا بہت زیادہ زور پاکستان اور انڈیا میں نظر آتا ہے، آج سے تقریبا 25 سال پہلے تک ایسے کمپاونڈ اگرچہ موجود تھے مگر انہیں صرف عارضی ضروریات کے تحت ہی استعمال کرایا جاتا تھا لیکن اب اس کے برخلاف سنگل ریمیڈی طریقِ علاج کو پس پشت ڈال کر مختلف ہومیو پیتھک دواو¿ں کے کمپاو¿نڈ کو زیادہ سے زیادہ رواج دینے کی مہم پورے عروج پر نظر آتی ہے اور اس مہم میں پاکستانی ڈرگ مافیا کے سارے بزنس مین میدان عمل میں نظر آتے ہیں۔
ہومیو پیتھک مرکبات
کئی عرصہ پہلے کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ایک کانفرنس اور نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا اور سارا زور اس قسم کے ہومیوپیتھک کمپاﺅنڈز کی پبلسٹی پر تھا جن کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں‘ اس حوالے سے ملکی اور غیر ملکی کمپاﺅنڈز (مرکبات) ہزاروں کی تعداد میں مارکیٹ میں لائے جا رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے ہر کمپنی کا اپنا علیحدہ ہی فارمولا ہے اور اصول یہ مقرر کرلیا گیا ہے کہ کسی ایک مرض کی مختلف علامات سے متعلق ہومیوپیتھک دواﺅں کے مجموعے کو ایک کمپاﺅنڈز کی شکل دے دی جائے اس طرح کوئی نہ کوئی دوا تو مریض کو تھوڑا بہت فائدہ پہنچانے میں کامیاب ہوجائے گی‘گویا یہ ایلو پیتھک اسٹیرائیڈز(Steroids)کی ایک بھونڈی شکل ہے جو مریض کو کسی نہ کسی طرح عارضی آرام پہنچا سکتی ہے لیکن مرض کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتی اور اسے یقینی شفا یابی تک نہیں لے جا سکتی، خصوصاً کرانک امراض میں۔
ایسے کمپاﺅنڈز کے نمبرز مقرر کردیے جاتے ہیں اور یہ کسی دوا کے نام کے بجائے اپنے نمبرز کے حوالے سے مشہور ہوتے ہیں‘ ایسے کمبی نیشن کا طریقہ ہومیوپیتھی میں بائیو کیمک سالٹس کے کمبی نیشن عام ہونے کی وجہ سے متعارف ہوا ‘ بائیو کیمک طریقِ علاج میں اس کی گنجائش موجود ہے لیکن کلاسیکل ہومیوپیتھی ایسے کسی کمبی نیشن کی اجازت نہیں دیتی مگر اب ہومیوپیتھی میں اس کا رواج بڑھایا جا رہا ہے کیوں کہ ایسے کمپاﺅنڈز کی من مانی قیمتیں رکھ کر ان کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی ترغیب دی جا رہی ہے تاکہ متعلقہ کمپنی کی پروڈکٹس کی کھپت بڑھ جائے‘ڈاکٹروں کو معقول حد تک کمیشن دیا جارہا ہے تاکہ وہ ان مرکبات کی سیل میں اضافہ کریں، اس ضرورت کے پیشِ نظر حقیقی اور معیاری ہومیوپیتھک دواﺅں کو مارکیٹ سے غائب کیا جا رہا ہے اور یہ دوائیں یا تو دستیاب ہی نہیں ہے یا ان کی مطلوبہ پوٹنسیاں دستیاب نہیں ہیں‘ خاص طور سے معیاری غیر ملکی کمپنیوں کی دوائیں یا تو دستیاب نہیں ہیں یا پھر انہیں ”ری پیک“ کر کے ان کے معیار کو مشکوک بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں جو دوا ساز ادارے موجود ہیں ان میں صرف ایک ہی نام برسوں سے قابل بھروسا تھا”مسعود لیبارٹریز لاہور“ سو وہ بھی اب اپنا اعتبار کھوتا جا رہا ہے جس کی وجہ ہمیں نہیں معلوم ‘ ہم ذاتی طور پر اپنا احتجاج متعلقہ ادارے کے نمائندوں تک پہنچا چکے ہیں‘باقی دوا ساز اداروں کا کرداراور معیار اس قابل نہیں ہے کہ ان پر بات کی جا سکے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اب ہمارے اکثر سیلز ایجنٹ اپنی ملکی دواوں کے بجائے پڑوسی ملک بھارت سے ہومیوپیتھک دوائیں منگا رہے ہیں مگر تجربے سے معلوم ہوا کہ اکثر بھارتی دوا ساز اداروں کا بھی تقریباً وہی حال ہے جو پاکستانی دوا ساز اداروں کا ہے ان کا معیار بھی جرمنی‘ فرانس‘ سوئٹرز لینڈ‘ انگلینڈیا امریکہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
ایسا نہیں ہے کہ مغربی ممالک سے ہومیوپیتھک دوائیں امپورٹ نہیں کی جا رہیں لیکن ہمارے ڈسٹری بیوٹرز نہ صرف یہ کہ ان کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھا رہے ہیں بلکہ انہیں ”ری پیک“ کر کے ان کی کوالٹی کو بھی مشکوک کر رہے ہیں، ان کے پاس اس سوال کا کوئی معقول اور تسلی بخش جواب نہیں ہوتا کہ وہ باہر سے آنے والی سیل بند دواوں کو کھول کر ری پیک کیوں کر رہے ہیں؟اکثر کا جواب یہی ہوتا ہے کہ اس طرح دوائیں سستی ہوجاتی ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ آپ سے کون کہہ رہا ہے کہ آپ دواوں کو سستا کریں، بیمار تو ہر قیمت پر شفایابی کے لیے دوا خریدنے کو تیار ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بے شک ہومیو پیتھک دواو¿ں کی قیمت بھی بڑی ہے لیکن مریض کی ضرورت اسے ہر قیمت پر دوا خریدنے پر مجبور کرتی ہے۔
عزیزان من! کیوں کہ ہم خود ہومیوپیتھک پریکٹس کر تے ہیں اور حقیقی کلاسیکی ہومیوپیتھی پر یقین رکھتے ہیں لہٰذا یہ صورت حال ہمارے لیے شدید اذیت کا باعث ہے‘ معیاری دواﺅں کی عدم دستیابی اور کمپاﺅنڈز کی بھرمار ہومیوپیتھک طریقِ علاج کو بدنام کر کے ایلو پیتھک اسٹائل میں لانے کی جو کوشش ہو رہی ہے وہ ہماری نظر میں ہومیوپیتھی کے مستقبل کے حوالے سے خطرناک ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس کاروباری سازش کے خلاف حقیقی ہومیوپیتھی کا دم بھرنے والے ہزاروں پاکستانی ہومیوپیتھک ڈاکٹرز صاحبان بھی خاموش ہیں ‘ پاکستان ہومیوپیتھک ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کہاں ہے اور پاکستان ہومیو پیتھک کونسل کیا کر رہی ہے ، کیا ان کی خاموشی کے پس پردہ بھی کوئی خاص مصلحت یا ڈرگ مافیا سے مصالحت پوشیدہ ہے؟